تصوف اور حضرت سلطان باھوؒ

علمی جائزہ

متعلقہ لنکس

-پاکستان کا اگر سیرت النبی (ﷺ) کے تناظر میں مُطالعہ کیا جائے تو بہت سے حیرت انگیز پہلُو نکلتے ہیں جو بڑی مفید اور کار آمد راہنمائی فراہم کرتے ہیں۔۔۔

دُنیائے فلسفہ میں اسطورات کا عظیم باغی ، فلسفۂ یونان کا بانی اور افلاطون و ارسطو کا اُستاد ’’سقراط‘‘ ایک سنگ تراش کا بیٹا تھا اور پیدائشی طور پہ بے۔۔۔

کثیر الجہت و مافوق الفطرت داستانوں سے مزین تاریخِ جموں و کشمیر بہت پرانی ہے-جدید کشمیر کی تاریخ جغرافیائی، سماجی، سیاسی و مذہبی اعتبار سے 1864ء کے بد نام زمانہ۔۔۔

اکیسویں صدی جہاں سائنسی ترقی و مادی ترقی کے عروج کا مشاہدہ کر رہی ہے وہیں بدقسمتی سے اِسے اخلاقی اور روحانی زوال بھی پیش ہے-انسانی معاشرے بحیثیت مجموعی اخلاقی اقدار۔۔۔

افسوس!ہمارے ہاں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کی عظمت میں فقط ایک ہی پہلو اجاگر کیا جاتا ہے۔۔۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے خانوادۂ عالیہ میں جن نفوس قدسیہ کو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے چشمۂ فیضانِ سلطان العارفین کے جاری رہنے کی دلیل کہا جاتا ہے...

جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُوؒ نے اپنی ایک تصنیف میں فرمایا کہ: ’’یہ محبت ہی ہے جو دل کو آرام نہیں کرنے دیتی ورنہ کون ہے جو آسودگی نہیں چاہتا ‘‘-

تصوف یا صوفی ازم اسلامی تہذیب و ثقافت کی اساسیات اور علومِ دینیہ کے اہم ترین موضوعات میں سے ہے جس کے مبادی، منابع اور مآخذ قرآن و سنت سے ثابت ہیں...

آج جس موضوع پہ چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا عوام و خواص کیلئے گو کہ وہ نیا نہیں ہے - مزید یہ کہ اس کے جس خاص پہلو کی جانب آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہوں گا وہ پہلو اہل علم کے ہاں تو اجنبی نہیں ہوگا لیکن عامۃ الناس میں بہت کم لوگ اس سے واقف ہوں گے-

پاکستان دُنیا کی نظر میں ایک جغرافیہ ہے، ایک خطۂ زمین ہے، ایک مملکت ہے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے کے اندر یہ اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا راز ہے پاکستان کا وجود خالصتاً رُوحانی وجود ہے۔

مصنف: لئیق احمد
جون 2019

تصوف کی لغوی تعریف و اصطلاحی مفہوم:

تصوف کا اشتقاق مادہ ’’صوف‘‘سےبابِ تفعل کا مصدر ہے- اُس کے معنی ’’اون‘‘کے ہیں- لغویت کے لحاظ سے اون کا لباس عادتاً زیبِ تن کرنا ہے- لفظ صوف کی جمع ’’اصواف‘‘ ہے-
(مفردات القرآن، امام راغب اصفہانی ترجمہ مولانا محمد عبدہ، ناشر اہل حدیث اکیڈمی لاہور ص601)

 جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَمِنْ اَصْوَافِہَا وَاَوْبَارِہَا وَاَشْعَارِہَآ اَثَاثًا وَّمَتَاعًا اِلٰی حِیْنٍ‘‘ (النحل:80)

’’اور (اسی اللہ نے تمہارے لیے) بھیڑوں اور دنبوں کی اون اور اونٹوں کی پشم اور بکریوں کے بالوں سے گھریلو استعمال اور (معیشت و تجارت میں) فائدہ اٹھانے کے اسباب بنائے (جو) مقررہ مدت تک (ہیں)‘‘-

بعض کے مطابق اول صف، بعض کے مطابق اصحابِ صفہ کی نیابت ہے- تصوف کو اگر تفصیلاً بیان کریں تو بعض نے اسے صفاء سے ماخوذ کیا ہے، لغوی حکم اور ظاہری معنی کے لحاظ سے اس کی تعریف کا فرق یوں نظر آتا ہے:-

’’الصفاع ولایۃ و لھا ایۃ و روایۃ و التصوف حکایۃ للصفاء بلا شکایۃ‘‘
(کشف المحجوب، ص :53)

’’صفا ولایت کی منزل ہےاور اس کی نشانیاں ہیں اور تصوف صفا کی ایسی حکایت و تعبیر ہےجس میں شکوہ و شکایت نہ ہو‘‘-

ابتداء میں صوفی اون کا لباس پہنا کرتے تھے- اس لیے ’صوفی‘ نام منظرِ عام پر آیا اگرچہ بعد میں صوفیاء کا یہ لباس نہ رہا-اصطلاحاً تصوف کو بیان کیا جائے تو اس سے مراد ظاہر و باطن کی صفائی ہے جیسا کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کا ارشاد گرامی ہے:

’’ ذھب صفو الدنیا وبقی کدروھا‘‘ (البخاری) (کشف المحجوب، ص:49)

’’دنیا کی پاکیزگی جاتی رہی اور اس کی کدورت باقی رہ گئی‘‘-

اسی کےمتعلق حضرت مصریؒ کا فرمان ہے:

’’تصوف دل اور بھید کی صفائی اور کدورت کی مخالفت کا نام ہے‘‘-
(بزم صوفیہ ، سید صباح الدین عبدالرحمن مترجم علامہ ابو البرکات اکیڈمی لاہور 1988)

گویا اپنا تزکیہ و تصفیہ کرنا اور نفس کو کدورتوں، خواہشات اور دیگر رزائل اخلاق سے پاک و صاف کرنا اور طہارت باطن اور اخلاق کے فضائل سے مزین کرنا تصوف کی اصطلاحاً تعریفات کا نچوڑ ہیں-
(چشتی پروفیسریوسف سلیم: تاریخ تصوف لاہور، دارالکتاب طبع اول 2009، ص:115)

تصوف کی غرض و غایت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ باطنی لحاظ سے تصوف قلب کی صفائی کا نام ہے- ارشادِ ربانی ہے:

’’یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَo اِلَّا مَنْ اَتَی اﷲَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ ‘‘ (الشعراء:88-89)

’’جس دن نہ کوئی مال نفع دے گااور نہ اولاد o مگر وہی شخص (نفع مند ہوگا) جو اللہ کی بارگاہ میں سلامتی والے بے عیب دل کے ساتھ حاضر ہوا‘‘-

تصوف کے مترادف میں لفظ احسان بھی مذکور ہے- جس سے مراد دین کا باطن ہے- کتبِ احادیث میں منقول ’’حدیثِ جبریل‘‘ میں احسان کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے اور حضور نبی کریم (ﷺ) فرماتےہیں:

’’احسان یہ ہے کہ تم خدا کی عبادت ایسے کرو کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اگر یہ نہ ہو تو اتنا ضرور ہو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘- (صحیح بخاری، دارالسلام للنشر و التوزیع،طبع دوم 1999ء، ص:12، حدیث:50)

اس مرتبۂ احسان کا مظہر بننا دراصل تصوف ہی کے اعلیٰ اوصاف ہیں-

تصوف در آیاتِ قرآنی:

قران مجید فرقانِ حمید میں اللہ تعالیٰ نے جابجا نفس کے تزکیہ اورقلب کے تصفیہ کا ذکر فرمایا ہے؛ صوفیہ کے نزدیک اس سے تصوف مراد ہے- مثلاً خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا مبارکہ جو آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی- فرمایا گیا:

’’رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ‘‘ (البقرۃ:129)

’’اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول(ﷺ) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے‘‘-

مندرجہ بالا آیت میں ’’یُزَکِّیْہِمْ‘‘ کی وضاحت امام قرطبیؒ ’’تفسیرِ قرطبی‘‘ میں یوں بیان فرماتے ہیں:

’’ای یجعلھما زکیاء القلوب بالایمان‘‘

’’آپ ان کے قلوب کو ایمان کے ساتھ نہایت پاکیزہ کر دیتے ہیں‘‘- (تفسیر قرطبی)

حافظ ابنِ کثیرؒ نے تزکیہ کے مفہوم کی وضاحت کچھ اس طرح فرمائی ہے کہ:

’’رسول اکرم (ﷺ) اپنے غلاموں کی اخلاق رزیلہ اور نفوس کی گندگی اور جاہلیت کے افعال سے تطہیر فرماتے ہیں اور آپ (ﷺ) ان کو ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لے جاتے ہیں‘‘- (تفسیر ابنِ کثیر)

قرآن مجید میں جہاں باطن کی پاکیزگی پر بارہا زور دیا گیا وہیں تزکیہ کے بجائے گمراہی میں رہنا پسند کرنے والوں کےلئے وعید بھی بیان فرمائی ہے- ارشادِ ربانی ہے:

’’اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَھُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِھَآ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِھَاج فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰـکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ‘‘ (الحج:46)

’’تو کیا انہوں نے زمین میں سیر و سیاحت نہیں کی کہ (شاید ان کھنڈرات کو دیکھ کر) ان کے دل (ایسے) ہو جاتے جن سے وہ سمجھ سکتے یا کان (ایسے) ہو جاتے جن سے وہ (حق کی بات) سن سکتے، تو حقیقت یہ ہے کہ (ایسوں کی) آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں لیکن دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں‘‘-

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِصلے لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِہَاز وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَاز وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِہَاط اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّط اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَo‘‘ (الاعراف:179)

’’اور بے شک ہم نے جہنم کے لیے جنوں اور انسانوں میں سے بہت سے (افراد) کو پیدا فرمایا وہ دل (و دماغ) رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) سمجھ نہیں سکتے اور وہ آنکھیں رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) دیکھ نہیں سکتے اور وہ کان (بھی) رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) سن نہیں سکتے، وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ (ان سے بھی) زیادہ گمراہ، وہی لوگ ہی غافل ہیں‘‘-

قرآن کریم نے یہ نقطہ کھول کر بیان کیا ہے کہ ہدایت کا تعلق انسان کے قلب کے ساتھ ہے اور اگر قلب پر مہر لگا دی جائے تو ہدایت کا حصول ممکن ہی نہیں رہتا- تصفیۂ قلب کے بعد استقامت کی دعا کے حوالے سے فرمایا گیا:

’’رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃًج اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ‘‘ (آلِ عمران:8)

’’(اور عرض کرتے ہیں) اے ہمارے رب! ہمارے دلوں میں کجی پیدا نہ کر اس کے بعد کہ تو نے ہمیں ہدایت سے سرفراز فرمایا ہے اور ہمیں خاص اپنی طرف سے رحمت عطا فرما، بے شک تو ہی بہت عطا فرمانے والا ہے‘‘-

پس معلوم ہوا کہ دلوں کا ٹیڑھا پن گمراہی اور دلوں کا اپنی جگہ پر ہونا سے مراد رغبتِ بارگاہِ الٰہی ہے-

قرآن مجید نے تصوف کے علمِ مکاشفہ کو کچھ اس طرح بیان فرمایا ہے:

’’فَمَنْ یُّرِدِ اللہُ اَنْ یَّہْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ‘‘ (آلِ عمران:125)

’’پس اﷲ جس کسی کو (فضلاً) ہدایت دینے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کشادہ فرما دیتا ہے‘‘-

ایک مقام پر آقا کریم (ﷺ) کے شرح صدر کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ‘‘ ( الشرح :1)

’’کیا ہم نے آپ (ﷺ)کی خاطر آپ (ﷺ) کا سینہ (انوارِ علم و حکمت اور معرفت کیلئے)کشادہ نہیں فرما دیا‘‘-

ایک شرح صدر جو کلیم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’اشرح لی صدری حتی یسع فیہ المعارف الحقۃ‘‘ (تفسیر المظہری، ج: 4، ص: 421)

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے عرض کی کہ یا اللہ! میرا سینہ کشادہ فرمادے یہاں تک کہ اس میں عرفان اور معارف سما جائیں‘‘-

نبی اور امتی دونوں کےلئے شرح صدر کا ذکر فرمایا جارہا ہے- شرح صدر کیا ہے؟ نبی مکرم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’قال: اذا دخل النور القلب انفسح و انشرح قالو: فھل لذلک منامارۃ یعرف بھا؟ قال الاتایۃ الی دارالخلو دولتبخی عن دار الغرور و الاستعداد للموت قبل الموت‘‘ (المصنف لابن ابی شیبہ، کتاب الزھد)

’’جب دل میں نور داخل ہوتا ہے تو اس سے اس کا انشراح بھی ہوتا ہےاور وسیع بھی ہوجاتا ہے- صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ)! کیا اس کی کوئی علامت بھی ہے جس سے اس کو جانا جا سکے؟ تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا : ہمیشہ کے گھر (آخرت)کی طرف متوجہ ہونا اور دھوکے کے گھر(دنیا) سے کنارہ کشی اختیار کرنا اور موت کے آنے سے پہلے موت کی تیاری کرنا‘‘-

توجہ الی اللہ، ترک ماسوی اللہ اور موتو قبل ان تموتو صوفیائے کرام کا طریق ہےاور شرح صدر سے مراد دل میں نور کا داخل ہونا ہے-

تصوف- اسلاف کے اقوال و نظریات:

تصوف کا ماخذ دل کی پاکیزگی اور توجۂ الٰہی ہے- صوفیائے کاملین نے اپنے اپنے ادوار میں اپنے اپنے انداز میں تصوف کے اسرار و رموز کو بیان فرماکر عوام الناس کی رہنمائی فرمائی ہے- عارفِ سندھی حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ اپنی مادری زبان میں ارشاد فرماتے ہیں:

اکرپہ الف جو، ورق سوسار
اندر تون اجا، پنا هندی ترا
(شاہ جو رسالو: سریمن کلیان ص:90)

’’اے دوست! بھلے ہی ایک حرف الف ہی پڑھ لو مگر اپنے اندر کو پاک و صاف کرلو! اگر اندر کا تصفیہ و تطہیر نہیں کرتے تو زیادہ پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں‘‘-

حضرت ذوالنون مصریؒ فرماتے ہیں:

’’اَلصُّوفِی اذانطق بان نطقہ من الحقائق وان سکت نطقت عنہ الجوارح بقطع العلائق‘‘ (کشف المحجوب، ص: 53)

’’صوفی وہ ہے کہ جب بات کرے تو اس کا بیان اپنے حال کے حقائق کے اظہار میں ہو‘‘-

یعنی جب بیان کرے تو حق بیان کرے اور جب خاموش ہو تو اس کا ہر فعل فقر ہو-حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں:

’’التصوف لغت اقیم العبد فیہ قیل نعت للعبدام للحق فقال نعت الحق حقیقۃ و نعت العبد رسم‘‘ (کشف المحجوب، ص: 54)

’’تصوف ایسی خوبی ہے جس میں بندے کو قائم کیا گیا ہے- کسی نے پوچھا یہ حق کی سند ہے یا بندے کی- آپ نے فرمایا اس کی حقیقت حق کی صفت ہے اور اس کی ظاہری رسم و حالت بندے کی صفت ہے‘‘-

حضرت ابو الحسن نوریؒ کا فرمان ہے:

’’التصوف ترک کل حظ نفس‘‘ (اخلاقیات و اسلامی ص 33 صنف امتیاز علی یوسف زئی)

’’ تصوف تمام حظوظ نفسانی کے ترک کا نام ہے‘‘-

حضرت ابو عمر دمشقیؒ فرماتے ہیں:

’’التصوف رویۃ الکون بعین النقص بل غُضّ الطرف عن الکون ‘‘(کشف المحجوب، ص: 55)

’’جہان کو نقش و عیب کی آنکھ سے دیکھنے کا نہیں بلکہ دنیا سے منہ پھیر لینے کا نام تصوف ہے‘‘-

حضرت ابوبکر شبلیؒ فرماتے ہیں:

’’تسلیم تصفیۃ قلوب لعلام الغیوب ‘‘ (حلیۃ الاولیاء ج:1، ص:51)

’’علام الغیوب (اللہ پاک) کیلئے دلوں کے تزکیے کو اچھی طرح کرنا‘‘-

علامہ ابن عساکر ابو الحسن علی بن احمد الہوشخی نے فرمایا:

’’التصوف عندی فراغ القلب ‘‘ (تاریخ مدینۃ الدمشق ج:41 ، ص:215)

’’تصوف میرے نزدیک دل کا (ماسوی اللہ سے) فراغت کا نام ہے‘‘-

پیرانِ پیر شہنشاہِ بغداد الشیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی (رضی اللہ عنہ) تصوف کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:

’’ولم یسم اھل التصوف الا لتصفیہ باطنھم‘‘ (سر الاسرار فی ما حتاج الیہ الابرار)

’’صوفیاء کو ان کے باطن کی صفائی کی وجہ سے اہلِ تصوف کہا جاتا ہے‘‘-

سُلطان العارفین سلطانِ باھُو (قدس اللہ سرہٗ) اور علمِ تصوّف:

حضرت سلطان باهو (قدس اللہ سرہٗ) نے طالبانِ مولیٰ کی رہنمائی کیلئے کم و بیش 140 کتب تصنیف فرمائیں- آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی جملہ تصانیف طالبانِ مولیٰ کیلیے مرشد کا درجہ رکھتی ہیں کیونکہ آپؒ کے جملہ افکار کا سر چشمہ آیاتِ قرآنی و احادیثِ نبوی (ﷺ) ہیں- آپ کی تصانیف کا موضوع علم تصوف و عرفان الٰہی ہے-آپ صوفیہ کی اس جماعت سے تعلق رکھتے ہیں جو کسی بھی ایسے قول و فعل کے قائل نہ تھے جو شریعت مطہرہ کے خلاف هو-

1- تصوف کی تعریف:

حضرت سلطان باهو (قدس اللہ سرّہٗ) تصوف کی تعریف اپنے مخصوص انداز میں یوں فرماتے ہیں:

’’تصوف کے چار حروف ہیں ’’ت، ص، و، ف‘‘-حرف ’’ت‘‘ سے تصرف کرتا ہے اپنی جان و مال کو اللہ کی راہ میں اور اُس کا ایصالِ ثواب کرتا ہے حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کی روح مبارک کو- حرف ’’ص‘‘ سے صراطِ مستقیم پر گامزن رہتا ہے-حرف ’’و‘‘ سے وعدہ خلافی نہیں کرتا اور حرف ’’ف‘‘ سے فتح القلوب و فنائے نفس- جو آدمی اِن صفات سے متصف نہیں اُسے صاحبِ تصوف نہیں کہا جا سکتا‘‘- (محک الفقر کلاں، ص: 113)

دوسرے مقام پہ ارشاد فرماتے ہیں:

’’تصوف کے کیا معنی ہیں؟ تصوف دل کی کامل صفائی، معرفتِ الٰہی اور استغراقِ توحیدِ ربانی کا نام ہے- اہلِ تصوف عارف باللہ عالم کی زبان اللہ تعالیٰ کی تلوار ہوتی ہے‘‘-

’’علمِ تصوف کے چار طریقے ہیں، چار گواہ ہیں، چار مقام ہیں اور چار راستے ہیں- تصوف کا پہلا خاص الخاص طریق شریعت ہے، دوسرا طریقت ہے جو بال سے بھی زیادہ باریک ہے، تیسرا حقیقت ہےجس سے ذاتِ حق کے مشکل و دقیق ترین نکات کی گرہ کشائی ہوتی ہے اور چوتھا معرفت ہے جس میں معرفتِ الٰہی کا بے پایاں و عمیق دریائے توحید موجزن ہے، علمِ تصوف دراصل علمِ توحید ہے‘‘- (محک الفقر کلاں ص 83)

2- تصوف اور عمل:

حضرت سلطان باهوؒ کی تعلیمات کی رو سے علم تصوف قلب کی کامل صفائی کا نام ہے اور اس فن علم کو وہی ضبط تحریر میں لا سکتا ہے جس کا شمار خود اہل صفا میں ہوتا ہو کیونکہ آپؒ کے نزدیک تصوف علم سے زیادہ عمل سے تعلق رکھتا ہے-جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں:

’’علمِ تصوف کے مصنف کو چاہیئے کہ پہلے وہ ہر علم کو اپنے عمل اور قبضہ و تصرف میں لا کر اس کا معائنہ و تجربہ اور امتحان و آزمائش کرے تاکہ رجعت و پریشانی کا شکار نہ ہو اور اس کے بعد ضبطِ تحریر میں لا کر کتاب تصنیف کرے‘‘ (نور الھدیٰ،ص:284)

اسی طرح آپؒ ایک اور مقام پر یوں ارشاد فرماتے ہیں:

’’اور جو آدمی علم کو قلب و روح کے تصفیہ و تزکیہ کےلئے استعمال کرتا ہے وہ باعمل و ہوشیار عالم لائقِ دیدار ہے- ایسا ہی عالم باللہ، عالم فی اللہ و عالم ولی اللہ مراتبِ علم سے آگے بڑھ کر فقیر اولیائے اَللہ کا خطاب پاتا ہے اور تصورِ اسم اللہ سے غرقِ توحید ہوکر حضرت بایزیدؒ کےمرتبہ پر پہنچ جاتا ہے‘‘-

3- آپ کا منہج تصوف:

حضور سلطان العارفینؒ راہِ سلوک میں کرامت کی بھی مذمت فرماتے ہیں اور مقامت کی بھی اور طالبانِ مولیٰ کو راہِ استقامت اختیار کرنے کی تلقین فرماتے ہیں-آپ نے اپنی تصانیف میں کرامت کا جگہ جگہ رد فرمایا ہے- اس سے یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ آپ کرامت کے کسی ولی سے صدور ہونے کا انکار کرتے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپؒ کی تعلیمات کی رو سے صرف کرامت کو ولایت کا معیار قرار نہیں دیا جا سکتا -اگر صرف کرامت کو ولایت کا معیار بنایا جائے تو صحابہ کرام کی کرامات کے واقعات زیادہ نہیں ملتے لیکن ان کا مقام تمام اولیاء سے اعلیٰ اور افضل ہے (گو کہ کئی احادیثِ صحیحہ سے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی کرامات و خرقِ عادات ثابت ہیں) اور پھر دیگر مذاہب میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو ترک دنیا کرتے ہیں اور چند شعبدیں جان جاتے ہیں اس لیے صرف کرامت کو ولایت کا معیار بنانا ایمان کو خطرے میں بھی ڈال سکتا ہے اسی لئے آپ کے نزدیک طالبان مولیٰ کے قرب الٰہی سے ہمکنار ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ کرامت ہوتی ہے- جیسا کہ آپ فرماتے ہیں:

’’اسی طرح طریقت و حقیقت کے درمیان بھی کشف و کرامات کے ستر ہزار حجاباتِ اکبر ہیں، جب تک انسان کشف و کرامات سے دست بردار نہیں ہو جاتا حقیقتِ حق تک ہر گز نہیں پہنچ سکتا‘‘- (محک الفقر کلاں، ص :37)

آپؒ راہ سلوک میں مقامات کو بھی رکاوٹ بتاتے ہیں جس کی دلیل آپؒ اس طرح دیتے ہیں کہ اولیاء اللہ‎ کے قلوب پر سکون حرام ہے وہ کسی ایک مقام پر رکتے نہیں ہیں وہ فقط ذات حق کے طالب ہوتے ہیں جیسا کے آپؒ اپنے پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:

غوث قطب سب ارے اریرے عاشق جان اگیرے هو

مزید اپنی تصنیف لطیف ’’کلید التوحید‘‘ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:

’’آخر تصوفِ توحید کا علم کسے کہتے ہیں؟ تصوف دل کو صاف کرنے والی چیز کو کہتےہیں- جس شخص کا دل صاف ہوجائے وہ معرفتِ دیدار و لقائے الٰہی کے قابل ہو جاتا ہے اور منظورِ الٰہی ہو کر مجلسِ محمدی (ﷺ) میں حاضر رہتا ہے اور غوثی و قطبی کے مراتب کو چھوڑ دیتا ہے کہ اِن کا تعلق طیر سیرِ طبقات و ہوائے نفس سے ہے- اُسے صاحبِ مراتبِ ’’اِذَا تَمَّ الفَقرُ فَھُوَ اللہُ‘‘ فقیر کہتے ہیں- (کلید التوحید کلاں، ص: 167)

آپؒ نے اپنی تصانیف میں استقامت کا درس دیا ہے اور راہِ استقامت یہ ہے کہ انسان اپنی مرضی کو ترک کرکے اللہ کی رضا پر راضی ہوجائے اور شریعت محمدی (ﷺ) کی پابندی کو اپنے اوپر لازم جانے اور دین کے نفاذ کی جدو جہد کیلئے کوشاں رہے-

جیسا کہ آپؒ ارشاد فرماتے ہیں:

’’فقیرِ باھُو کہتا ہے کہ راہِ فقر میں استقامت کی ضرورت ہے نہ کہ ہوائے نفس و کرامت کی کہ اِستقامت مرتبۂ خاص ہے اور کرامت مرتبۂ حیض و نفاس ہے- سن میرے یار! طالب اللہ کا بھلا حیض و نفاس سے کیا کام؟ پہلے قلبِ سلیم حاصل کراور پھر تسلیم و رضا اختیار کر‘‘-  (عین الفقر، ص :39)

4- تصوف اور علم فقہ کا تعلق:

آپؒ نے اپنی تصانیف میں علم فقہ اور علم تصوف دونوں کے گہرے تعلق کو خوبصورت الفاظ میں بیان فرمایا ہے- آپ طالبِ مولیٰ کو بارہا یہ تلقین فرماتے ہیں کہ علم فقہ اور علم تصوف لازم و ملزوم ہیں- دونوں میں سے کسی ایک کا دامن بھی ہاتھ سے چھوٹنے نا پائے- جیسا کہ آپ ارشاد فرماتے ہیں:

’’علم تصوف دراصل علم توحید ہے جس کا تعلق علم فقہ سے ہے اور علم فقہ کا تعلق علم حیاء سے ہے- علم حیاء کا تعلق دل میں درد و داغِ محبتِ مولیٰ سے ہے‘‘- (محک الفقر، ص:83)

’’علم فقہ یا علم فقر فضل الٰہی ہے- یہ دونوں علوم راہنما ہیں جو حق کی گواہی دے کر باطل کی تکذیب کرتے ہیں‘‘- (محک الفقر، ص:465)

’’جان لے کہ مومن مسلمان فقیر درویش عارف باللہ کو چاہیے کہ وہ ہر وقت شریعت و قرآن و احادیث کو پیشِ نظر رکھے اور علماۓ علم فقہ اسے جب بھی شریعت کا حکم سنائیں اور اس کی فرمانبرداری کرے اور جس چیز سے شریعت منع کرے اس سے رُک جاۓ اور نفسانی حیلہ و حجت سے گریز کرے‘‘- (محک الفقر، ص:153)

5- علم تصوف سے کترانا:

آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے اپنی تصانیف میں اس قدر آیات کریمہ سے استدلال کیا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا قرآن سے باہر کوئی تصوّف ہے ہی نہیں اور بارہا آپ نے اس بات کے دلائل دئیے ہیں کہ علم تصوف علم توحید ہے جس کا مقصود قلب سے ہر غیر کے تصور کا خاتمہ ہے- اس کے ساتھ آپ یہ بھی بیان فرماتے ہیں کہ جو لوگ علم تصوف سے کتراتے ہیں یہ ان کے قلب کے تصفیہ نا ہونے کے سبب سے ہے- وہ لوگ جو علم تصوف پر تنقید کرتے ہیں وہ دراصل و درحقیت اپنی غفلتِ قلبی کا اعلان کرتے ہیں کیونکہ وہ خود گمراہی کا شکار ہیں جیسا کہ آپ اپنی تصانیف میں فرماتے ہیں:

’’جس طرح کافر کلمہ طیب ’’لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ‘‘ پڑھنے سے کتراتا ہے اُسی طرح مردہ دل آدمی علمِ تصوف سے کتراتا ہے کیونکہ تصوف سے نفس شرمندہ، قلب زندہ اور روح بینندہ (صاحبِ مشاہدہ) ہوتی ہے کہ علمِ تصوف بندے کو خدا کی طرف کھینچتا ہے اور لذتِ ہوائے نفس سے بیزار کرتا ہے‘‘- (محک الفقر، ص:53)

’’جس شخص کو معرفتِ حق تعالیٰ حاصل نہیں اور وہ سلک سلوک تصوف کو نہیں جانتا، اُس نے چاہے ہزاروں کتابیں کیوں نہ پڑھ رکھی ہوں وہ جاہل ہی رہتا ہے کہ اُس کی زبان زندہ مگر دل مردہ ہی رہتا ہےاور وہ محض علم کا بوجھ اٹھانے والا جانور ہی ہوتا ہے‘‘- (عین الفقر، ص :45)

حرف آخر:

حضور سلطان العارفینؒ کی تعلیمات کی رو سے علمِ تصوف قرب الٰہی کا ذریعہ ہے جس کی اصل شریعت محمدی (ﷺ) میں موجود ہے- آپؒ نے جب بھی اپنی تصانیف میں تصوف کے مسائل پر گفتگو فرمائی ہے تو اپنی دلیل قرآن و سنت کی روشنی میں پیش کی ہے-آپؒ کی تعلیمات ایک سالک حق کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے- اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہم سب کو آپؒ کی تعلیمات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین—!

٭٭٭