عالم برزخ میں حیاتِ انبیا ؑ کا تصور

اور مجلس مصطفےٰﷺ کا حصول

متعلقہ لنکس

-پاکستان کا اگر سیرت النبی (ﷺ) کے تناظر میں مُطالعہ کیا جائے تو بہت سے حیرت انگیز پہلُو نکلتے ہیں جو بڑی مفید اور کار آمد راہنمائی فراہم کرتے ہیں۔۔۔

دُنیائے فلسفہ میں اسطورات کا عظیم باغی ، فلسفۂ یونان کا بانی اور افلاطون و ارسطو کا اُستاد ’’سقراط‘‘ ایک سنگ تراش کا بیٹا تھا اور پیدائشی طور پہ بے۔۔۔

کثیر الجہت و مافوق الفطرت داستانوں سے مزین تاریخِ جموں و کشمیر بہت پرانی ہے-جدید کشمیر کی تاریخ جغرافیائی، سماجی، سیاسی و مذہبی اعتبار سے 1864ء کے بد نام زمانہ۔۔۔

اکیسویں صدی جہاں سائنسی ترقی و مادی ترقی کے عروج کا مشاہدہ کر رہی ہے وہیں بدقسمتی سے اِسے اخلاقی اور روحانی زوال بھی پیش ہے-انسانی معاشرے بحیثیت مجموعی اخلاقی اقدار۔۔۔

افسوس!ہمارے ہاں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کی عظمت میں فقط ایک ہی پہلو اجاگر کیا جاتا ہے۔۔۔

جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُوؒ نے اپنی ایک تصنیف میں فرمایا کہ: ’’یہ محبت ہی ہے جو دل کو آرام نہیں کرنے دیتی ورنہ کون ہے جو آسودگی نہیں چاہتا ‘‘-

تصوف کا اشتقاق مادہ ’’صوف‘‘سےبابِ تفعل کا مصدر ہے- اُس کے معنی ’’اون‘‘کے ہیں- لغویت کے لحاظ سے اون کا لباس عادتاً زیبِ تن کرنا ہے- لفظ صوف کی جمع ’’اصواف‘‘ ہے...

تصوف یا صوفی ازم اسلامی تہذیب و ثقافت کی اساسیات اور علومِ دینیہ کے اہم ترین موضوعات میں سے ہے جس کے مبادی، منابع اور مآخذ قرآن و سنت سے ثابت ہیں...

آج جس موضوع پہ چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا عوام و خواص کیلئے گو کہ وہ نیا نہیں ہے - مزید یہ کہ اس کے جس خاص پہلو کی جانب آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہوں گا وہ پہلو اہل علم کے ہاں تو اجنبی نہیں ہوگا لیکن عامۃ الناس میں بہت کم لوگ اس سے واقف ہوں گے-

پاکستان دُنیا کی نظر میں ایک جغرافیہ ہے، ایک خطۂ زمین ہے، ایک مملکت ہے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے کے اندر یہ اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا راز ہے پاکستان کا وجود خالصتاً رُوحانی وجود ہے۔

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے خانوادۂ عالیہ میں جن نفوس قدسیہ کو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے چشمۂ فیضانِ سلطان العارفین کے جاری رہنے کی دلیل کہا جاتا ہے اُن شخصیات میں سرِ فہرست شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیزؒ کا اسم مبارک ہے- جنہوں نے اپنی پوری زندگی نہ صرف خود اُن تعلیمات کا پیکرِ مثال بن کے گزاری بلکہ اپنی صحبت و خدمت میں بیٹھنے والوں کو بھی رنگِ سلطانی سے نوازا- آج آپؒ کےعرس مبارک کی بابرکت محفل کی مناسبت سے اولیائے کاملین کے ایک ایسے تصور پر کچھ کلمات بیان کرنا چاہوں گا کہ جو کہ ہم پہ مقدر کا ایسا دروازہ کھولتا ہے جس کا ایک مومن جان و دل سے متلاشی ہوتا ہے؛ وہ تصور ’’مجلسِ مصطفےٰ (ﷺ) کی حضوری‘‘ ہے- کیونکہ ایک صوفی کے درجۂ کمال کی دلیل سید الانبیاء محمد مصطفےٰ احمد مجتبیٰ (ﷺ) کی مجلسِ مبارک میں حاضری اور آپ (ﷺ)کے چہرہ انور کی زیارت سمجھا جاتا ہے-

حضور نبی کریم (ﷺ) کی ظاہری حیات مبارکہ میں جن خوش نصیبوں کو حالتِ ایمان میں آپ (ﷺ) کی حضوری اور آپ (ﷺ)کے رخِ انور کی زیارت کا شرف نصیب ہوا اُنہیں صحابی کہا گیا-

سیدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانیؓ کا فرمان مبارک ہے کہ:

’’اگر ہزاروں لاکھوں اولیاء کو جمع کر لیا جائے جو اپنے رتبے اور اپنے درجے میں کمال میں پہنچے ہوئے ہوں تب بھی وہ ایک صحابی کے قدموں کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے‘‘-

یہی وجہ ہے کہ آئمہ، فقہاء، محدثین و مفسرین کا عقیدہ ہے کہ:

’’چہرہ مصطفٰے (ﷺ) کی زیارت کرنا اعلیٰ ترین درجات میں سے ایک درجہ ہے‘‘-

میرے بھائیو! یہی وجہ ہے کہ اولیاء اللہ کے دل اس تمنا سے لبریز ہوتے ہیں کہ ہمیں ہمارے آقا کریم (ﷺ) کے روئے اقدس کی زیارت نصیب ہو جائے- حضور نبی کریم (ﷺ) کا دیدار جس عالم و کیفیت میں ہوتا ہےوہ یقیناً برحق ہے- لیکن اس کیفیت کے عالم میں کچھ تغیر آتا ہے- مثلاً جس وقت آقا کریم (ﷺ) اس زمین پر اپنی حیات ظاہری کے ساتھ جلوہ فرما تھے وہ ایک الگ کیفیت تھی اور اب آقا کریم (ﷺ) اپنی ظاہری حیات مبارکہ کے بعد اپنی قبرِ انور سے اپنے چاہنے والوں کو ان کے حصے کے مطابق زیارت عطا فرماتے ہیں، یہ ایک الگ کیفیت ہے-

قرآن مجید زندگی کے سبھی مراتب و مدارج بیان کرتا ہے- لیکن بعض لوگ کشمکش اور وسوسوں کا شکار ہوجاتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک حیات گزر جانے کے بعد، اس وجودِ مسعود سے اسی طرح فیض حاصل کیا جا سکے؟ اس کا واحد حل قرآن مجید میں غوطہ زنی ہے کہ قرآن کریم میں انسانی زندگی کے کتنے پہلوؤں کو بیان کیا گیا ہے- مثلاًایک پہلو تو یہ بیان ہوا:

’’ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّہْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا‘‘ (الدھر:1)

’’بے شک آدمی پرایک وقت وہ گزرا کہ کہیں اس کا نام بھی نہ تھا ‘‘-

اسی طرح قرآن کریم میں دوسرا پہلویہ بیان ہوا:

’’وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْۢ بَنِیْقاٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَ اَشْہَدَہُمْ عَلٰیق اَنْفُسِہِمْ ۚ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ط قَالُوْا بَلٰی ۚ شَہِدْنَا ‘‘ (الاعراف:172)

’’اور اے محبوب (ﷺ)یاد کرو جب تمہارے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی نسل نکالی اور انہیں خود ان پر گواہ کیا،کیا میں تمہارا رب نہیں، سب بولے کیوں نہیں ہم گواہ ہوئے ‘‘-

یہ کیفیت بھی ہماری ارواح کے اوپر گزری ہے- لیکن یہ کیفیت عالمِ لاہوت سے عالمِ ناسوت میں اترنے کے بعد ہمارے روحانی شعور (spiritual conscious) میں تو موجود ہے لیکن ہمارے دماغ میں تب تک نہیں آتی جب تک ہم اپنی عقل کو اپنی روح کے ساتھ ہم آہنگ (Harmonized) نہیں کر لیتے- جب عقل اور روح میں تعلق قائم ہوتا ہے تو روح کی یادداشت عقل کی یادداشت سے منکشف ہوتی ہےاور عقل روح کی یاداشت کا مشاہدہ کرتی ہے- لیکن جب تک انسان اپنی روح کو بیدار نہیں کرتا اُس وقت تک یہ اُس زندگی کے احوال کو جان نہیں سکتا- چونکہ اسے قرآن نے بیان کیا اس لئے اس کے برحق ہونے میں کوئی دورائے نہیں کہ اس وجود کے آنے سے پہلے بھی انسان کے اوپر ایک زندگی گزر چکی ہے-

قرآن مجید نے اسی طرح ایک اور مرحلہ بیان فرمایا:

’’ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ‘‘ (المومنون:12)
’’اور بے شک ہم نے آدمی کو چنی ہوئی مٹی سے بنایا‘‘-

’’وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ‘‘ (الحجر:26)
’’اور بیشک ہم نے انسان کو ایک بجتی ہوئی مٹی سے بنایا جو اصل میں ایک سیاہ بودار گارا تھی‘‘-

پھر اس کے بعد قرآن مجید نے ایک اور مرحلہ بیان فرمایا:

’’ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًاق ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَط فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ‘‘ (المومنون:14)

’’پھر ہم نے اس پانی کی بوند کو خون کی پھٹک کیا پھر خون کی پھٹک کو گوشت کی بوٹی پھر گوشت کی بوٹی کو ہڈیاں پھر ان ہڈیوں پر گوشت پہنایا پھر اسے اور صورت میں اٹھان دی؛تو بڑی برکت والا ہے اللہ سب سے بہتر بنانے والا ہے‘‘-

یہ بھی وجود کی ایک حالت ہے جو رحمِ مادر میں گزرتی ہے اور کوئی بھی ذی شعور اس حالت کا انکار نہیں کر سکتا-

انسانی زندگی کا سفر’’ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّہْرِ‘‘ سے شروع ہوتا ہے- یعنی عدم سے روح میں، روح سے آدم کی مٹی سے بنے اس وجود میں، پھر اس وجود سے ماں کے پیٹ میں گزرنے والے ارتقائی عمل میں آتا ہے- اس کے بعد اس وجود کےمزید پہلو کو بیان کرتے ہوئے قرآن بیان فرماتا ہے :

’’وَقُلْنَا اہْبِطُوْا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّج وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ‘‘ (البقرۃ:36)

’’اور ہم نے فرمایا نیچے اتروآپس میں ایک تمہارا دوسرے کا دشمن(ہوگا) اور تمہیں ایک وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور برتنا ہے‘‘-

’’قَالَ فِيْهَا تَحْيَوْنَ وَفِيْهَا تَمُوْتُوْنَ وَمِنْهَا تُخْرَجُوْنَ‘‘ (الاعراف:25)

’’اور تم اسی زمین میں زندگی گزارو گے، اسی میں مرو گے اور قیامت کے دن تمہیں یہیں سے اٹھایا جائے گا‘‘-

’’كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ ‘‘(العنکبوت:57)

’’اور پھر ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور پھر تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے‘‘-

قرآن مجید نے ’’اہْبِطُوْا‘‘سے ’’تُرْجَعُوْنَ‘‘ تک انسانی زندگی کا جو مرحلہ بیان کیا وہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کی زندگی ایک مرحلہ میں نہیں بلکہ ایک تسلسل میں ہے جو مسلسل اپنی مسافرت کے مختلف درجے طے کرتا جاتا ہے- جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:

ب: بَنھْ چَلایا طَرف زَمین دے عَرشوں فَرش ٹِکایا ھو
گھَر تھِیں مِلیا دیس نِکالا اَساں لِکھیا جھولی پایا ھو
رہ نی دُنیاں نَاں کر جھیڑا سَاڈا اگے دِل گھبرایا ھو
اَسیں پَردیسی سَاڈا وطن دوراڈھا باھوؒ دَم دَم غم سَوایا ھو

وجودِ انسان کی مسافرت کے یہ مختلف درجے ہیں جو اس کی روح کی تخلیق سے بھی پہلے اس پر بیتنا شروع ہوئے- لیکن اِس وجود کے داعیٔ اجل کو لبیک کہنے کے بعد جب اس وجود کے بت کو قبر میں دفنا دیا جاتا ہے تو از روئے قرآن قبر میں جانے کے بعد زندگی ختم نہیں ہوتی بلکہ زندگی کی ایک اور نوع انسان پر منکشف ہو جاتی ہے-بقول حکیم الامت:

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شام زندگی صبح دوام زندگی

یعنی غافل موت کو زندگی کا اختتام سمجھتے ہیں جبکہ زندگی کی یہ شام ہمیشہ رہنے والی زندگی کی صبح کا پیام دیتی ہے؛ جسے قرآن مجید ’’برزخ‘‘ کہہ کر بیان فرماتا ہے-

برزخ کیا ہے؟ برزخ سے مراد اوٹ ہے- یعنی برزخ دو کیفیتوں کے درمیان حائل ایک پردے کو کہتے ہیں-

جیسا کہ سورہ الرحمٰن میں بیان ہے:

’’مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰـنِo بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَّا یَبْغِیٰـنِo‘‘ (الرحمن : 19-20)

’’اس نے دو سمندر رواں کئے جو باہم ملے ہوئے ہیں- لیکن دونوں کے درمیان ایک آڑ ہے کہ وہ اپنی اپنی حد سے دونوں تجاوز نہیں کر سکتے ‘‘-

اسی طرح ’’سورہ المومنون‘‘ میں بیان ہے:

’’وَمِنْ وَّرَآئِہِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَo‘‘ (المومنون:100)

’’اور ان کے آگے اس دن تک ایک پردہ (حائل) ہے (جس دن) وہ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے‘‘-

امام طبریؒ ’’تفسیر طبری‘‘ میں برزخ کے متعلق مختلف اقوال نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت ضحاک فرماتے ہیں :

’’اَلْبَرْزَخُ: مَا بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ‘‘

’’دنیا اور آخرت کے درمیان ایک اور عالم ہے جسے برزخ کہتے ہیں ‘‘-

حضرت مجاہد فرماتے ہیں:

’’مَا بَيْنَ الْمَوْتِ إِلَى الْبَعْثِ‘‘

’’بَرزَخ موت اور بعث کے درمیان ایک آڑ (جہان) ہے‘‘-

یعنی قبر سےحشرتک کی زندگی کو عالم برزخ کہا جاتا ہے -امام قرطبیؒ برزخ کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’وَ الْبَرْزَخُ مَا بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ مِنْ وَقْتِ الْمَوْتِ إِلَى الْبَعْثِ، فَمَنْ مَّاتَ فَقَدْ دَخَلَ فِي الْبَرْزَخِ‘‘ (تفسیر قرطبی)

’’دنیا اور آخرت کے درمیان موت کے وقت سے لے کر دوبارہ اٹھنے تک کا وقفہ برزخ ہے- پس جو فوت ہوگیا وہ برزخ میں داخل ہوگیا‘‘-

اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادریؒ عالم برزخ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اسی لئے علماء فرماتے ہیں کہ دنیا کو برزخ سے وہی نسبت ہے جو رحمِ مادرکو دنیا سے –پھر برزخ کو آخرت سے یہی نسبت ہے جو دنیا کو برزخ سے‘‘- (فتاویٰ رضویہ، ج:9، ص:707)

اس لیے ہمیں جان لینا چاہیے کہ موت سے حشر تک جو مرحلہ ہے از روئے قرآن عالمِ برزخ کہلاتا ہے-برزخ میں بھی انسان زندگی بِیتاتا ہے لیکن اُس زندگی کی کیفیت اِس زندگی سے مختلف ہوتی ہے جو زندگی اب ہم بیِتارہے ہیں-

قرآن مجید کی رو سے برزخ میں زندگی کیسی ہوتی ہے؟

اللہ تعالیٰ ’’سورۃ التوبہ‘‘ میں ارشاد فرماتا ہے:

’’سَنُعَذِّبُهُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِیْمٍ‘‘(التوبہ:101)

’’جلد ہم انہیں دوبارہ عذاب کریں گے پھر بڑے عذاب کی طرف پھیرے جائیں گے‘‘-

حضرت قتادہ (رضی اللہ عنہ) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ’’سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :

’’عَذَابًا فِي الدُّنْيَا وَعَذَابًا فِي الْقَبْرِ‘‘ (تفسیر طبری)

’’( ایک) عذاب دنیا میں اور (دوسرا)عذاب قبر میں ‘‘-

متعدد مفسرین ومحدثین کرامؒ نے وہ روایت نقل فرمائی ہے کہ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) جمعہ کےدن خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا :

’’يَا فُلَانُ، اُخْرُجْ فَإِنَّكَ مُنَافِقٌ،يَا فُلَانُ اُخْرُجْ فَإِنَّكَ مُنَافِقٌ فَأَخْرَجَهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ فَفَضَحَهُمْ

’’اے فلاں تو نکل جا تو منافق ہے،اے فلاں تو نکل جا تو منافق ہے، آپ (ﷺ) نے منافقین کا نام لے لے کر اُن کو مسجد سے نکال دیااور اُن کو رُسوا کردیا ‘‘-

اُس دن کسی کام کی وجہ سے اُس وقت حضرت عمر فاروقؓ مسجد میں موجود نہیں تھے – جس وقت حضرت عمر فاروقؓ واپس آئے تو منافقین مسجد سے نکل رہے تھے اور وہ حضرت عمرؓسے چھپ رہے تھے،ان کا یہ گمان تھا کہ حضرت عمرؓ کوحقیقتِ واقعہ کا پتا چل گیا ہے ایک شخص نے حضرت عمرؓ سے کہا :

’’أَبْشِرْ يَا عُمَرَ، فَقَدْ فَضَحَ اللهُ الْمُنَافِقِيْنَ فَهَذَا الْعَذَابُ الأَوَّلُ حِيْنَ أَخْرَجَهُمُ النَّبِيُّ (ﷺ) مِنَ الْمَسْجِدِ، وَالْعَذَابُ الثَّانِي: عَذَابُ الْقَبْرِ‘‘ (تفسیر الکبیر/ قرطبی/ درمنثور/ ابن ابی حاتم)

’’اے عمر آپؓ کو خوش خبری ہوکہ اللہ تعالیٰ نے آج منافقین کو رسوا کردیا ہے -پس یہ اُن کیلئے پہلا عذاب تھا جب حضور نبی کریم (ﷺ)نے اُنہیں مسجد سے نکالا اور دوسرا عذاب قبر کا ہے ‘‘-

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ’’سورہ المؤمن ‘‘میں فرمایا:

’’اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُقف اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ‘‘ (المومن:46)

’’آتشِ دوزخ کے سامنے یہ لوگ صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جس دن قیامت بپا ہو گی (تو حکم ہوگا)، آلِ فرعون کو سخت ترین عذاب میں داخل کر دو‘‘-

ؒاب یہاں دو مختلف حالتیں بیان ہوئیں: پہلی کہ انہیں صبح اور شام آگ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور دوسری روزِ قیامت آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں مبتلا کیا جائے گا- امام قرطبی ’’تفسیر قرطبی‘‘ میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:

’’اِحْتَجَّ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي تَثْبِيْتِ عَذَابِ الْقَبْرِ بِقَوْلِهِ:’’النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْها غُدُوًّا وَ عَشِيًّا‘‘ مَا دَامَتِ الدُّنْيَا

’’جمہور علماء نے ’’اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَ عَشِيًّا‘‘ سے عذابِ قبر کا اثبات کیاہے جب تک دنیا قائم ہے یہ سلسلہ جاری رہے گا ‘‘-

حضرت مجاہد ، عِکرمہ ، مُقاتِل اور محمد بن کعبؓ سب نے کہا ہے کہ:

’’هَذِهِ الْآيَةُ تَدُلُّ عَلَى عَذَابِ الْقَبْرِ فِي الدُّنْيَا، أَلَا تَرَاهُ يَقُولُ عَنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ: وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ قف اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ ‘‘

’’یہ آیت مبارکہ دنیا میں عذابِ قبر پر دلالت کرتی ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ عذابِ آخرت کے بارے میں فرمایا ’’وَ يَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذابِ‘‘

یعنی یہ آیت عذابِ قبر کے اوپر دلالت کرتی ہے کہ قبر میں اُن کی گرفت ہوتی اور ان کو آگ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے-

امام فخر الدین رازیؒ ’’تفسیر کبیر‘‘ میں عذابِ قبر کے برحق ہونے میں فرماتے ہیں کہ:

’’اِحْتَجَّ أَصْحَابُنَا بِهَذِهِ الْآيَةِ عَلَى إِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ قَالُوا الْآيَةُ تَقْتَضِيْ عَرْضَ النَّارِ عَلَيْهِمْ غُدُوًّا وَ عَشِيًّا، وَلَيْسَ الْمُرَادُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِأَنَّهُ قَالَ: وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوْا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذابِ وَلَيْسَ الْمُرَادُ مِنْهُ أَيْضًا الدُّنْيَا لِأَنَّ عَرْضَ النَّارِ عَلَيْهِمْ غُدُوًّا وَعَشِيًّا مَا كَانَ حَاصِلًا فِي الدُّنْيَافَثَبَتَ أَنَّ هَذَا الْعَرْضَ إِنَّمَا حَصَلَ بَعْدَ الْمَوْتِ وَقَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَذَلِكَ يَدُلُّ عَلَى إِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ فِيْ حَقِّ هٰؤُلَاءِ ‘‘

’’ہمارے اصحاب نے اس آیت سے عذاب کے ثبوت پر استدلال کیا ہےانہوں نے کہا آیت صبح شام ان پر عذاب کے پیش کئے جانےکا تقاضا کرتی ہےاور اس سے مراد قیامت کا عذاب نہیں ہےکیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس دن قیامت قائم ہوگی اس دن آل فرعون کو سخت عذاب میں داخل کیا جائے گا اور اس سے مراد عذاب دنیا بھی نہیں ہےکیونکہ دنیا میں ان پر صبح شام عذاب کا پیش کیا جانا پایا نہیں جارہا تو ثابت ہو گیا کہ یہ عذاب کا پیش کیا جانا موت کے بعد اور قیامت سے پہلے ہے اور یہ ان لوگوں کے بارے میں عذاب قبر کے ثبوت پر دلالت کرتا ہے ‘‘-

حافظ ابن کثیرالدمشقی (المتوفى: 774ھ)اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں:

’’وَ هَذِهِ الْآيَةُ أَصْلٌ كَبِيْرٌ فِي اِسْتِدْلَالِ أَهْلِ السُّنَّةِ عَلَى عَذَابِ الْبَرْزَخِ فِي الْقُبُوْرِ‘‘

’’یہ آیت کریمہ عذاب قبر کے بارے اہل سنت کی بہت بڑی دلیل ہے‘‘-

گویا از روئے قرآن برزخ ایک عالم ہےجس میں زندگی ہے اور اُس میں عذاب بھی دیا جاتا ہے-اس لئے جہاں اللہ تعالیٰ نے برزخ میں گناہگاروں اور منافقین کے لئے عذاب تیار کر رکھا ہے وہاں مؤمنین اور اطاعت گزاروں کیلئے نوید بھی سنُا رکھی ہے –

امام ترمذیؒ ’’سنن ترمذی‘‘ میں حدیث پاک نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’إِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِّنْ رِّيَاضِ الْجَنَّةِ أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ‘‘ (سنن الترمذی، أَبْوَابُ صِفَةِ الْقِيَامَةِ)

’’بے شک قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوتی ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہوتی ہے‘‘-

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا جب میت کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی پیٹھ پھیر کر چلے جاتے ہیں:

’’حَتَّى إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ‘‘

’’حتیٰ کہ وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے ‘‘-

پھر اس کے پاس دو فرشتے آکر اس کو بٹھا دیتے ہیں پس وہ اس سے کہتے ہیں کہ:

’’مَا كُنْتَ تَقُوْلُ فِى هَذَا الرَّجُلِ مُحَمَّدٍ (ﷺ)‘‘

’’تم اس شخص محمد (ﷺ) کے متعلق کیا کہتے تھے‘‘-

پس وہ کہے گا:

’’فَيَقُولُ أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللّهِ وَرَسُولُهُ‘‘

’’میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ‘‘-

پھراُس سے کہا جائے گاکہ:

’’فَيُقَالُ اُنْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ ، أَبْدَلَكَ اللّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنَ الْجَنَّةِ ‘‘

’’دیکھو! تمہارے بیٹھنے کی جگہ دوزخ میں تھی اللہ نے اس کو تمہارے لئے جنت میں بیٹھنے کی جگہ سے تبدیل کر لیا ہے‘‘

(گویا کہ یہ پہچانِ مصطفے(ﷺ) کا صدقہ ہے اگر نہ پہچانتا تو تیرا ٹھکانا وہ یعنی دوزخ ہوتا) حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا پس وہ ان دونوں جگہوں کو دیکھے گا –

’’وَ أَمَّا الْكَافِرُ، أَوِ الْمُنَافِقُ، فَيَقُوْلُ لَا أَدْرِىْ، كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُوْلُ النَّاسُ ‘‘

’’رہا کافر یا منافق تو وہ کہے گا میں نہیں جانتا میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے ‘‘-

پس اس سے کہا جائے گا

’’فَيُقَالُ لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ ‘‘

’’تو نے عقل سے جانا نہ قرآن مجید کی تلاوت کی‘‘

ثُمَّ يُضْرَبُ بِمِطْرَقَةٍ مِّنْ حَدِيْدٍ ضَرْبَةً بَيْنَ أُذُنَيْهِ

’’پھر اس کے دونوں کانوں کے درمیان لوہے کے ہتھوڑے سے ضرب لگائی جائے گی ‘‘-

جس سے وہ چلائے گا اور اس کے چلانے کو جن و انس کے علاوہ اس کے قریب کی تمام چیزیں سنیں گی‘‘- (صحيح البخارى ،کتاب الجنائز)

اس حدیث پاک میں توجہ طلب بات یہ ہے کہ آقا کریم (ﷺ)نے میت کے شعور کے بارے میں بیان فرمایا کہ جسے میت کہہ کے قبر میں دفنا دیا جاتا ہے وہ بھی قبر میں ایک زندگی گزار رہا ہوتا ہے-جس کی وضاحت میں آقا کریم (ﷺ) نے عالم برزخ سے عالم دنیا کا ربط یوں بیان فرمایا کہ دفنانے کے بعد قبر میں موجود میت واپس لوٹتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے قدموں کی آواز کو بھی سنتی ہے-

’’سنن ترمذی‘‘ میں حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت میں ہے کہ جب منکر نکیر اِس میت سے پوچھتے ہیں:

’’ مَا كُنْتَ تَقُوْلُ فِىْ هَذَا الرَّجُلِ ‘‘

’’تو اس عظیم شخص ( نبی کریم (ﷺ)کے بارے میں کیا کہا کرتا تھا ؟

وہ کہتا ہے : هُوَ عَبْدُ اللهِ وَرَسُوْلُهُ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ.

’’وہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بیشک حضرت محمد (ﷺ) اللہ کے (خاص) بندے اور رسول ہیں‘‘-

ثُمَّ يُفْسَحُ لَهُ فِىْ قَبْرِهِ سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فِىْ سَبْعِيْنَ ثُمَّ يُنَوَّرُ لَهُ فِيْهِ ثُمَّ يُقَالُ لَهُ نَمْ. فَيَقُوْلُ: أَرْجِعُ إِلَى أَهْلِىْ فَأُخْبِرُهُمْ

’’پھر اس کی قبر کو سترستر گز طولاً عرضاً وسیع کر دیا جاتا ہے- پھر اُس کیلئے اس میں نور بھر دیا جاتا ہےپھر اس سے کہا جاتا ہے کہ(آرام سے ) سو جا پس وہ کہتا ہے میں واپس جا کر اپنے گھر والوں کو بتا آؤں‘‘-

وہ فرشتے کہتے ہیں :

’’نَمْ كَنَوْمَةِ الْعَرُوْسِ اَلَّذِىْ لَا يُوْقِظُهُ إِلَّا أَحَبُّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ‘‘

’’ سو جا، دلہن کی طرح سوجا جس کو گھر والوں میں سے محبوب ترین شخص ہی اٹھاتا ہے‘‘-

اسی حدیث مبارک سے لفظِ ’’عرس‘‘ اخذ کیا گیا ہےکہ فرشتہ قبر میں بندۂ مومن کو کہتا ہے کہ ’’نَمْ كَنَوْمَةِ الْعَرُوْسِ‘‘، ایسے سوجا جیسے نئی نویلی دلہن سوتی ہے؛ جب بندۂعارف اپنی قبر میں جاتا ہے تو وہاں وہ عذاب کا سامنا نہیں کرتا بلکہ اس کیلئے قبر کی رات شبِ عروس ہوتی ہے-یہی وجہ ہے کہ صوفیائے کرام کا ماتم نہیں کیا جاتا کیونکہ وہ تو وصالِ الٰہی میں غرق ہوجاتے ہیں- جنہیں اپنے محبوب کریم (ﷺ) کا قرب مل جائے تو اُن اہلِ وصال کا نوحہ نہیں کیا جاتا بلکہ وصل کی خوشی میں ان کا عرس منایا جاتا ہے-

آقا کریم (ﷺ) نے مزید ارشادفرمایا:

یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اُسے (قیامت کے دن) اس کی خواب گاہ سے اٹھائے گا اور اگر منافق ہو تو کہتا ہےکہ جو کچھ لوگوں سے سنتا تھا وہی کہتا تھا اور مجھے معلوم نہیں – فرشتے کہیں گے ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی بات کہےگاپھر زمین کو حکم دیا جاتا ہے کہ مِل جا (یعنی اُسے دبوچ لے)-

’’فَتَلْتَئِمُ عَلَيْهِ. فَتَخْتَلِفُ فِيْهَا أَضْلَاعُهُ فَلَا يَزَالُ فِيْهَا مُعَذَّبًا حَتَّى يَبْعَثَهُ اللهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ ‘‘ (سُنن ترمذی، ابواب الجنائز)

’’وہ اس پر اکٹھی ہو جاتی ہے(اس کو دبوچ لیتی ہے) یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں داخل ہو جاتی ہیں وہ مسلسل عذاب میں مبتلا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن اسے اس کی خواب گاہ سے اُٹھائے گا‘‘-

یعنی جو منکر نکیر کے سوالات کے جواب میں خدائے ذوالجلال کی توحید اور آقا کریم (ﷺ) کی رسالت اور ختم نبوت کا اعتراف نہ کر سکا تو اس پر زمین تنگ کر دی جائے گی جس سے وجود کی دونوں پسلیاں آپس میں مل جائیں گی جو کہ بہت ہی دردناک عذاب ہوگا اور روزِ قیامت تک جاری رہے گا-

میرے بھائیو!درج بالا گفتگو سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ برزخی زندگی کے متعلق تو وضاحت ہوگئی لیکن وہ لوگ جو جل گئے یا جنہیں درندے کھا گئے یا جو ڈوب گئے یا اِس طرح کی دوسری کسی حالت میں پائے گئے تو ان کو کیسے عذاب ہو گا کیونکہ ان کی تو قبر ہی نہیں بنی-اس صورتحال میں قبر کو جنت کا باغ یا دوزخ کا گڑھا کیسے کہیں گے؟

علامہ ابن ابی العز الحنفیؒ ’’شرح عقیدۃُ الطحاویہ‘‘ میں اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’وَاعْلَمْ اَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ ھُوَ عَذَابِ الْبَرْزخِ فَکُلٌّ مَنْ مَاتَ وَھُوَ مُسْتَحِقٌّ لِلْعَذَابِ نَالَ نَصِیْبُہٗ مِنْہُ، قُبِرَ اَوْ لَمْ یُقْبَرْ، اَکَلَتْہُ السَّبَاعُ اَوْ اُحْتُرِقَ حَتَّی صَارَ رِمَادًا وَنُسِفَ فِی الْھَوَاءِاَوْ صُلِبَ اَوْ غَرَقَ فِی الْبَحْرِ وَصَلَ اِلٰی رُوْحِہٖ وَ بَدَنِہٖ مِنَ الْعَذَابِ مَا یَصِلُ اِلَی الْمَقْبُوْرِ‘‘

’’تو جان لے کہ عذابِ قبر ہی عذابِ برزخ ہے -تو ہر آدمی جو مَرا اور وہ عذاب کا حقدار ہوا تو اُس کو اُس کے حصے کا عذاب پہنچ جائے گا-دفن کیا گیا ہو یا نہیں اس کو کوئی درندہ کھا گیا ہو یا اسے جلا دیا گیا ہو -حتی کہ وہ راکھ بن جائےاور اسے ہوا میں اڑا دیا گیا ہویا اسے سولی دی گئی ہویا وہ دریا میں غرق ہو گیا ہوتو بھی اس کی روح اور بدن کو عذاب ایسے ہی پہنچے گاجیسے مدفون کو پہنچتا ہے‘‘-

یعنی اگر کوئی مومن ہے تو اس کو انعام عطا ہوتا رہتا ہے اور اگر کوئی کافر ہے تو اس کو عذاب میں مبتلا رکھا جاتا ہے- ان تمام تشریحات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کریم (ﷺ) نے برزخی زندگی کی تائید فرمائی-

مزید روایتِ صحابہ کرامؓ سے بھی برزخی زندگی کی تصدیق ہوتی ہے-جیسا کہ امام بیہقیؒ روایت نقل کرتے ہیں کہ:

’’حضرت سلمان فارسی و عبد اللہ بن سلام ؓ ملے ایک صاحب نے دوسرے سے فرمایا اگر آپ مجھ سے پہلے انتقال کریں تو مجھے خبر دیں کہ وہاں کیا پیش آیا دوسرے صاحب نے پوچھا کیا زندے اور مردے بھی آپس میں ملتے ہیں؟ فرمایا ہاں! مسلمانوں کی روحیں تو جنت میں ہوتی ہیں اور انہیں اختیار ہوتا ہے جہاں چاہیں جائیں‘‘ (شعب الایمان)

امام احمد رضا خانؒ اسی حدیث پاک کو ’’فتاوی رضویہ‘‘ میں نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ:

’’مغیرہ بن عبد الرحمٰن کی روایت میں تصریح آئی ہے کہ یہ ارشاد فرمانے والے حضرت سلمان فارسی ؓ تھے‘‘-

’’یعنی حضرت سلمان فارسیؓ نے حضرت عبد اللہ بن سلامؓ سے فرمایا اگر تم مجھ سے پہلے مرو تو مجھے خبر دینا کہ وہاں کیا پیش آیا اور اگر مَیں تم سے پہلے مروں گا تو میں تمہیں خبر دوں گا کہ وہاں کیا پیش آیا‘‘-

گویا مؤمنین کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ اگرچہ وہ برزخ کی زندگی بیتا رہے ہوں لیکن اس دنیا میں آنے والوں سے وہ اپنا تعلق استوار فرما دیتے ہیں- اس لیے یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ برزخ میں زندگی ہے لیکن وہ بِیتائی اپنے اپنے روحانی اور ایمانی معاملات کے مطابق جاتی ہے- مثلاًبے ایمان ہے تو عذاب پاتاہے اور ایمان والا ہے تو انعام- یہی وجہ ہے کہ جب ایک مومن، دوسرے مومن کی قبر پر جاتا ہے تو وہ یہ سوچ کر جاتا ہے کہ جو مدفون ہے وہ میرے احوال سے واقف ہے- جیسا کہ علامہ شیخ ولی الدین ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ الخطیب التبریزی(متوفیٰ:7471ھ)’’مشكاة المصابيح ‘‘ میں ایک معرکۃ الآراء حدیث پاک کو دلیل کے طور پر نقل کرتے ہیں کہ:

’’اُم المومنین سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ مَیں اس گھر میں داخل ہوتی تھی جس میں رسول اللہ (ﷺ) مدفون تھے اس حال میں کہ چہرے سے اپنا کپڑا اتار کر رکھتی تھی (یعنی بغیر حجاب و نقاب کے) اور کہتی کہ سوائے میرے خاوند (رسول اللہ (ﷺ) اور والد (حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے اور کوئی نہیں ہے ‘‘-

’’فَلَمَّا دُفِنَ عُمَرُ مَعَهُمْ فَوَاللهِ مَا دَخَلْتُهٗ إِلَّا وَأَنَا مَشْدُوْدَةٌ عَلَيَّ ثِيَابِيْ، حَيَاءً مِنْ عُمَرَ‘‘ (مشكاة المصابيح ،كتاب الْجَنَائِز)

’’جب ان کے ساتھ عمرؓ دفن کئے گئے-اللہ کی قسم! میں نہیں داخل ہوتی مگر جس وقت کہ اپنے کپڑے باندھے ہوتے (یعنی مکمل پردہ کے ساتھ) حضرت عمرؓ سے حیا کرتے ہوئے‘‘-

اس روایت سے اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کااہل قبول کے متعلق عقیدہ واضح ہے-

حضرت عائشہ صدیقہؓ بھی مومنہ و صحابیہ ہیں اور سیدنا فاروق اعظمؓ بھی صحابیٔ رسول اور مومن ہیں- پس معلوم ہوا کہ جب ایک مومن یا مومنہ دوسرے مومن کی قبر پہ جاتے ہیں تو ان کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ وہ قبر سے میرے احوال کی خبر رکھتا ہے-

انبیاء کرام ؑ کی برزخی زندگی کے متعلق ’’سنن ابن ماجہ‘‘ میں سیدنا ابودرداء (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’إِنَّ اللهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ، فَنَبِيُّ اللهِ حَيٌّ يُرْزَقُ‘‘ (سنن ابن ماجه، کتاب الجنائز)

’’بیشک اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کرام ؑ کے اجسام کو مٹی پر حرام فرما دیا ہے-اللہ کے نبی زندہ رہتے ہیں انہیں رزق دیا جاتا ہے‘‘-

بنیادی اسلامی عقائد کے مطابق تمام انبیاؑ اپنی قبور مبارکہ میں زندہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک جگہ سے دوسری جگہ تشریف لے جاتے ہیں اور آتے ہیں-احادیث مبارکہ میں اس حوالے سے متعدد روایات موجود ہیں- حدیث پاک ہے:

’’حضرت ابو درداء ؑ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کردیا کہ وہ انبیاء کرام ؑ کے اجسام کو متغیر کر دے تو اللہ کے نبی زندہ ہیں اوررزق پاتے ہیں‘‘- (سنن ابن ماجہ، حدیث :1706)

یعنی انبیاء کرام ؑ کے اجسام قبر کی مٹی میں مٹی نہیں ہوتے بلکہ ان کے اجسام قبر میں سلامت رہتے ہیں- جیسا کہ ’’صحیح مسلم‘‘ میں حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

’’شبِ معراج حضرت موسیٰ (علیہ السلام)پر سرخ ٹیلے کے قریب سے میرا گزر ہوا:

’’وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّيْ فِي قَبْرِهِ ‘‘

’’حضرت موسیٰ (علیہ السلام)اپنی قبر انور میں کھڑے نماز ادا فرما رہے تھے‘‘-

اسی طرح شہداء کے متعلق ’سورہ البقرہ‘ اور ’آل عمران‘ میں دو مختلف احکام فرماکر اس بات سے آگاہ کیا گیا ہے-

1-’’وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتٌ ط بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ‘‘ (البقرۃ:154)

’’اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں ‘‘-

2- ’’وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتًا ط بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوْنَ‘‘ (آلِ عمران:169)

’’اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہرگز انہیں مردہ نہ خیال کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے ہیں‘‘-

یعنی ’سورۃ البقرہ‘‘ میں کہا گیاکہ ان کو مردہ نہ ’’کہنا ‘‘اور ’’آل عمران‘‘ میں کہا گیا کہ ان کو مردہ نہ ’’سمجھنا‘‘- بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کی بارگاہ سے رزق کو پاتے ہیں-

اللہ رب العزت نے ان شہداء کے متعلق مزید فرمایا:

’’فَرِحِیْنَ بِمَاقاٰتٰہُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ ۙ وَیَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِہِمْ مِّنْ خَلْفِہِمْ ۙ اَ لَّا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ‘‘ (آلِ عمران:170)

’’شاد ہیں اس پر جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا اور خوشیاں منارہے ہیں اپنے پچھلوں کی جو ابھی ان سے نہ ملے کہ ان پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ کچھ غم‘‘-

یعنی شہداء اپنی قبور میں اللہ تعالیٰ کے عطا کئے ہوئے انعام ’’نہ کچھ اندیشہ اور نہ غم‘‘پہ خوشیاں مناتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کبھی بھی مومنین کے اجر کو ضائع نہیں فرماتا-

امام جلال الدین سیوطی ’’الحاوی للفتاویٰ‘‘ میں اس آیت کریمہ ’’وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيْلِ اللهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُوْنَ‘‘ کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

’’وَالْأَنْبِيَاءُ أَوْلَى بِذَلِكَ، فَهُمْ أَجَلُّ وَأَعْظَمُ، وَمَا نَبِيٌّ إِلَّا وَقَدْ جَمَعَ مَعَ النُّبُوَّةِ وَصْفَ الشَّهَادَةِ، فَيَدْخُلُوْنَ فِيْ عُمُوْمِ لَفْظِ الْآيَةِ‘‘

’’اور انبیاء (علیھم السلام) اس کے ساتھ اولیٰ ہیں اور وہ اجل و اعظم ہیں اور کوئی نبی نہیں لیکن اس نے نبوت کے ساتھ وصفِ شہادت کو جمع کر لیا ہے لہٰذا وہ لفظ آیت کے عموم میں ضرور داخل ہوں گے‘‘-

یعنی جو نبی ہے وہ نبی بھی ہے اور شہید بھی-

درج ذیل وہ چند آیات مبارکہ ہیں جن میں حضور نبی کریم (ﷺ) کو شاہد اور شہید فرمایا گیا:

’’وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا‘‘ (البقرۃ:143)

’’اور یہ رسول تمہارے گواہ (اور حاضر ناضر ہیں)‘‘-

’’فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ شَهِيدًا ‘‘

’’پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے‘‘- (النساء:41)

’’يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَ مُبَشِّرًا وَ نَذِيرًا‘‘

’’اے نبِیّ (مکرّم(ﷺ)!) بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے‘‘- (الاحزاب:45)

ان آیات مبارکہ میں حضور نبی کریم (ﷺ) کو شاہد اور شہید کہا گیا ہے-

علامہ اسماعیل حقیؒ امام غزالیؒ کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ آپؒ فرماتے ہیں:

’’رسول اللہ (ﷺ) کو اختیار ہے کہ ارواحِ صحابہ کے ساتھ جہان کے جس حصے میں چاہیں تشریف لے جائیں‘‘- (روح البیان، ج:10، ص:99)

حضرت عمرو بن دینار کا ارشاد ہے کہ جب آدمی خالی گھر میں داخل ہو تو کہے :’’اسلام علی النبی(ﷺ)‘‘

ملا علی قاری اس کی شرح میں بیان کرتے ہیں :

’’اس لئے کہ آپ (ﷺ) کی روح مبارک مسلمانوں کے گھروں میں حاضر ہے‘‘- (شرح الشفاء، ج:3، ص:464)

ملا علی قاری امام الغزالی کے متعلق فرماتے ہیں-

’’امام غزالیؒ نے فرمایا کہ جب تم مسجد میں جاؤ تو حضور نبی کریم (ﷺ) کو سلام عرض کرو کیونکہ آپ (ﷺ) مسجدوں میں موجود ہیں‘‘- (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ)

سعید ابن مسیب ؓ کا واقعہ کئی محدثین نے بیان کیا ہے کہ جب واقعہ حرّہ پیش آیا یعنی جب یزید نے اہل مدینہ کا قتل عام کیا، ان پر مظالم ڈھائے، مسجد نبوی اور روضہ رسول (ﷺ) کی بدترین توہین کی اور اذان و نماز معطل کروا دی توسعید ابن مسیبؓ فرماتے ہیں کہ مَیں مسجد نبوی میں ہی منبر کے نیچے چھپ گیا:

’’لَمْ أَزَلْ أَسْمَعُ الْأَذَانَ وَالْإِقَامَةَ فِي قَبْرِ رَسُوْلِ اللهِ (ﷺ) أَيَّامَ الْحَرَّةِ حَتَّى عَادَ النَّاسُ‘‘

’’میں ایام حرہ کے درمیان مسلسل رسول اللہ (ﷺ) کی قبر انور سے اذان اور اقامت کی آواز سنتا رہا یہاں تک کہ لوگوں کے حالات اپنے معمول پر لوٹ آئے ‘‘-

امام سیوطیؒ ’’الحاوی للفتاوٰی ‘‘ میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

’’فَهَذِهِ الْأَخْبَارُ دَالَّةٌ عَلَى حَيَاةِ النَّبِيِّ (ﷺ) وَ سَائِرِ الْأَنْبِيَاءِ‘‘

’’پس یہ اخبار حیات النبی (ﷺ) اورتمام انبیاء کرام ؑ کی حیات پر دلالت ہے‘‘-

امام سیوطیؒ کے علاوہ دیگر متعدد مفسرین، فقہاء، متکلمین کی آراء سے یہ ثابت ہوتا ہےکہ انبیاء کرام ؑ نبی آخر الزمان خاتم النبیین(ﷺ)، شہداء اور مومنین اپنی قبور میں زندہ ہوتے ہیں –

خاتم النبیین، محمد مصطفےٰ، احمدِ مجتبیٰ (ﷺ) کی ذات اقدس کے متعلق ہمارا علم بہت ناقص ہے،ان کی شان و عظمت ہماری عقول سے بہت ماروا ہے- ان کی امت پہ صدیاں بیت چلیں، مثلاً صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور پھر چلتے چلتے یہ آخری زمانہ آن پہنچا ہے-اس آخری زمانہ میں تقریباً 60 برس پہلے کی بات ہے کہ شہباز عارفاں حضرت سلطان سید محمد بہادر علی شاہ صاحبؒ کے مزار مبارک کے ساتھ دوسرا مزار مبارک حضرت پیر عبد القادر شاہ صاحبؒ کا ہے اور ان دونوں مزارات کے قدمین میں گیلری کی جانب بھی ایک مزار ہے جو کہ میاں سجاولؒ نامی ایک انتہائی دلچسپ درویش کا ہے-یہاں پہلے ان کے وصال کا اور پھر ان کے وصال کے بعد کا دلچسپ واقعہ بیان کرنا چاہوں گا جسے حضور مرشد کریم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہٗ اکثر و بیشتر بیان فرماتے تھے کہ :

’’میاں سجاول، حضرت پیر عبدالقادر شاہ صاحبؒ کے فقیر تھے، ساری زندگی خدمت و قربت میں گزاری، ضعیف ہو گئے- اب وہ اپنے گھر چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے تو کسی نے آ کر حضرت پیر عبدالقادر شاہ صاحبؒ کے وصال کی خبر دی کہ ’میاں سجاول پیرٹُر گیا ای‘‘-تو وہ جیسے ہی چارپائی پہ لیٹے ہوئے تھے انہوں نے اپنی چادر کھینچی اور اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہا ’’نکل او جندڑی او یار ٹُر گئے نی تو تُوکیوں اے؟‘‘- اتنا کہنا تھا کہ ان کی روح بھی پرواز کر گئی- یہی وجہ ہے کہ ان کا مزار ان کےمرشد کریم کے قدمین میں بنا‘‘-

اسی طرح کا ایک اور دلچسپ واقعہ ہے کہ:

’’ایک مرتبہ دربار ِ شہباز عارفاں حضرت سلطان سید محمد بہادر علی شاہ صاحب کی مسجد میں شہبازِ عارفاں حضور سلطان محمد عبدا لعزیز اور سلطان الاولیاء حضرت پیر قاسم علی شاہ صاحبؒ کے خلفاء نماز تراویح ادا کر رہے تھے اور کئی خواتین باپردہ ہوکر تلاوت ِ قرآن سننے کیلیے اُس گیلری میں آ گئیں جہاں میاں سجاولؒ کا مزار تھا-جیسا کہ نمازِ تراویح کی ہر چار رکعت کے بعد تراویح کی دعا پڑھ کر باآواز بلند ’’صلوٰة بر محمد(ﷺ)‘‘ کہا جاتا ہے-اب جیسے چار رکعتیں مکمل ہوئیں تو سب لوگ ’’صلوٰة بر محمد (ﷺ)‘‘ کہتے ہوئے اٹھے تو خواتین شور بپا کئے گیلری سے باہر بھاگنے لگیں-ان سے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ جب اندر سے آواز آتی ہے ’’صلوٰة برمحمد(ﷺ)‘‘ تو یہاں گیلری میں بھی زمین سے ’’صلوٰة بر محمد (ﷺ)‘‘ کی آواز نکلتی ہے ‘‘-

میرے دوستو! سعید ابن مسیبؓ کی روایت سے جو واقعہ ٔحرّہ بیان کیا ہے وہ تو امام الانبیاء (ﷺ) کی ذات اقدس کا ہے جن کا مقام و مرتبہ اللہ رب العزت کے علاوہ کوئی جان نہیں سکتا-یہ واقعہ تو حضور نبی کریم (ﷺ) کے غلاموں کے غلاموں کی شان واضح کر رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی قبر میں زندگی عطا کی ہے-

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ نے اپنی تصنیفِ مبارکہ ’عقلِ بیدار‘ میں ’شرح حیات النبی (ﷺ)‘ پہ پورا باب قائم کیاہے جس میں آپؒ فرماتے ہیں:

’’تمام اُمت کی حیات و زندگی اور تمام محبت جو ہر ایک اُمتی کے مغز و پوست میں جاری و ساری ہے اُس کا دارو مدار حیات النبی (ﷺ) کے عقیدے پر ہے- جو کوئی حیات النبی (ﷺ) کا قائل نہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو(نعوذ باللہ) مردہ سمجھتا ہے اُس کے منہ میں مٹی، دنیا و آخرت میں اُس کا منہ کالا، وہ شفاعت ِمحمد رسول اللہ (ﷺ)سے محروم ہے، وہ منافق و کاذب ہے، وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اُمتی نہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے: ’’کاذب آدمی میرا اُمتی نہیں‘‘- وہ بد بخت علمِ تصوف و طریق ِ تصرف سے بے خبر زندیق ہے کہ انبیاء و اؤلیائے اللہ کی موت اُن کا مرتبۂ معراج اور مشاہدۂ حضوری ہے کیونکہ موت کے بعد انبیاء و اؤلیائے اللہ کو سیرِدرجات میں ترقی اور دائمی زندگی حاصل ہوتی ہے جس سے وہ ہمیشہ زندہ ہی زندہ رہتے ہیں اور بندے اور ربّ کے درمیان دونوں جانب تعلق قائم رکھتے ہیں-اِس لئے جب بھی کوئی آدمی پورے اخلاص و یقین کے ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کو یاد کرتا ہے اور یا رسول اللہ کَہ کر فریاد کرتا ہے تو بے شک آپ علیہ الصلوٰۃُ والسلام جمیع لشکر ِاصحابؓ اور امام حسن و امام حسینؓ کے ساتھ اُسی وقت تشریف لے آتے ہیں اور فریادی چشمِ بینا سے اُن کی واضح زیارت کرتا ہے، اپنا سر اُن کے قدموں پر رکھتا ہے اور اُن کے قدموں کی خاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بناتا ہے لیکن بے اخلاص و بے یقین آدمی اگر رات دن دوگانہ پڑھتا رہے تو بھی اپنی خودی کے حجاب میں گرفتار رہے گا مگر مرشد ِ کامل اپنے طالب کو باطنی توفیق کی راہ سے حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کی مجلس کی حضوری میں پہنچا دیتا ہے- اِس حقیقت کو مردہ دل احمق کیا جانے؟ خواہ وہ تمام عمر مطالعۂ علم ہی میں مشغول رہے‘‘-

سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ ’’کلید التوحید کلاں‘‘ میں ارشاد فرماتے ہیں:

’’جان لے کہ حضرت محمد رسول اﷲ (ﷺ) اپنے ہر خاص و عام اُمتی کو فیض ِ معرفت ِاِلٰہی کے خزانے بخشنے والے ہیں اور اپنے خاص لطف و کرم سے ہر دو جہان پر مہربانی فرمانے والے ہیں-اُس شفیع الامم (ﷺ) کی زیارت بہت بڑی خوش بختی اور شادمانی ٔ اِیمان ہے – یاد رکھیے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لئے پیدا فرمایا ہے، شیطانِ لعین کی کیا مجال کہ وہ خود کو ہادی کہلوائے؟ شیطان تو اِسم اﷲ ذات، اسم محمد (ﷺ)، کلمہ طیب ’’ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘، تلاوتِ قرآن، بیان ِمسائلِ فقہ، تفسیر قرآن، رحمتِ اِلٰہی کہ نگاہِ عارفان رحمت ِ اِلٰہی کی نگاہ ہوتی ہے اور ذکر ِلاحول سے اِس طرح دُور بھاگتا ہے جس طرح کہ کافر دین ِ اِسلام سے- پس معلوم ہوا کہ بے دین لعین منافق بے یقین ہوتا ہے کہ وہ حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کا نام سن کر خوش اور شادمان نہیں ہوتا اور پورے یقین کے ساتھ حیا ت النبی (ﷺ) کو نہیں مانتا-معلوم ہو۱ کہ اُس خبیث کا یقین دین ِ ابلیس پر ہے-حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا فرمان ہے: ’’مجھے اگر کوئی خوف ہے تو اپنی اُمت کے ضعف ِ ِیقین کا ہے‘‘- پس جو شخص حیات النبی (ﷺ) کا منکر ہے وہ کس طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اُمت کا مومن مسلمان ہو سکتا ہے؟وہ جو بھی ہے جھوٹا و بے دین و منافق ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کا فرمان ہے:’’جھوٹا آدمی میرا اُمتی نہیں ہے‘‘ یعنی وہ بدبخت بے یقین آدمی ابلیس لعین کے تابع ہے- حیاتُ النبی (ﷺ) کے اعتقاد کا سبق اہل ِعرب سے سیکھو کہ وہ حرمِ پاک میں روضۂ رسول (ﷺ) کے دروازہ پر آکر اِلتماس کرتے ہیں: ’’ اے سید الا برار زندہ نبی (ﷺ) بارگاہ ِ اِلٰہی سے ہمارا فلاں کام کروا دیں‘‘ اور اُن کے سوال کا جواب اُنہیں مشروحاً مل جاتا ہے اور اُن کے یقین و اعتبار کے باعث اُن کا کام بھی ہو جاتا ہے- جسے حیات النبی (ﷺ) کا اعتبا ر نہیں وہ ہر دو جہان میں ذلیل و خوار ہے- حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کو وہ شخص مردہ سمجھتا ہے جس کا دل مردہ ہو ا ور اُس کاسرمایۂ اِیمان و یقین شیطان نے لوٹ لیا ہو‘‘- (کلید التوحید کلان:شرحِ مجلسِ صحیح بذکر و تسبیح)

ایک اور مقام پہ مزید فرماتے ہیں کہ:

’’جو شخص باطن میں حیات النبی (ﷺ) و مجلس ِنبوی (ﷺ) کی حضوری اور اہل ِ ہدایت مرشد ِکامل سے دست بیعت کا منکر ہے وہ کافر ہے کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:’’اے ایمان والو ! تقویٰ اختیار کرو اور قربِ اِلٰہی کی خاطر وسیلہ تلاش کرو‘‘- (کلید التوحید کلان:شرحِ مجلسِ محمدیﷺ)

بزبانِ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلویؒ:

دشمنِ احمدؐ پہ شدت کیجئے
ملحدوں سے کیا مروت کیجئے
ذکر ان کا چھیڑئے ہر بات میں
چھیڑنا شیطان کا عادت کیجئے
غیظ سے جل جائیں بے دینوں کے دل
’’یا رسول اللہؐ‘‘ کی کثرت کیجئے

درج بالا گفتگو سے از روئے قرآن و سنت معلوم ہوا کہ:

برزخ کی ایک زندگی ہےجو مومنین پہ فضل و اکرام اور منافقین پہ گرفت وعذاب کے ساتھ بیتتی ہے-

انبیاء کرام ؑ کے اجسام خاک میں خاک نہیں ہوتے-

جو راہِ خدا میں جہاد کرتے شہید ہوجائیں اُنہیں نہ مردہ کہو اور نہ سمجھو کیونکہ وہ اپنی قبور میں زندہ ہیں، بارگاہِ الٰہی سے انہیں رزق عطا ہوتا ہے اور وہ خداوند کریم سے عطا ہونے والے فضل پہ خوشیاں مناتے ہیں-

یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرامؓ نے آقا کریم (ﷺ) کی ذاتِ گرامی کے متعلق کئی توثیقات اور مشاہدات بیان کئے ہیں کہ بعد از وصال بھی حضور نبی کریم (ﷺ) اپنی قبرِ مبارک سے اپنے امتیوں پہ فضل فرماتے ہیں-

سیدنا امام احمد کبیر رفاعیؒ جو سلسلہ رفاعیہ کے بانی تھے، دنیائے تصوف میں بہت عظیم المرتبت شخصیت سمجھی جاتی ہیں ان کے متعلق امام سیوطی، امام عبد الرؤف مناوی، شیخ شہاب الدین خفاجی اور دیگر متعدد محدثین ؓ نقل کرتے ہیں کہ:

’’امام اجل قطب اکمل حضرت سید احمد رفاعیؒ ہر سال حاجیوں کے ہاتھ آقا کریم (ﷺ) پر سلام عرض کر بھیجتے، جب خود حاضر آئے مزار اقدس کے سامنے کھڑے ہوئے اور عرض کی: مَیں جب دور تھا تو اپنی روح بھیج دیتا کہ میری طرف سے زمین کو بوسہ دے تو وہ میری نائب تھی اور اب باری بدن کی ہے کہ جسم خود حاضر ہے-دست مبارک عطا ہو کہ میرے لب اس سے بہرہ پائیں-کہا گیا کہ دست اقدس ان کے لئے ظاہر ہوا انہوں نے بوسہ دیا تو بہت بہت مبارکی ہو ان کو‘‘- (نسیم الریاض، ج:4، ص:543) (الحاوی للفتاوی، ج:2، ص: 314)

ایک روایت میں ہے کہ :

’’فخرجت الید الشریفۃ من القبر حتی قبلھا و الناس ینظرون‘‘

’’آقا کریم (ﷺ) کا ہاتھ مبارک نکلا حضرت نے چوما اور لوگوں نے دیکھا‘‘-

بعض اہل علم نے بیان کیا ہے کہ اُس وقت حرم نبوی میں 90 ہزار لوگوں کا مجمع تھا ان میں خود حضور غوث اعظمؒ بھی موجود تھے-سب لوگوں نے یہ منظر دیکھا کچھ خیال کرنے لگے کہ قیامت آگئی ہے-بعد میں حضور غوث الاعظمؒ سے بغداد میں یہ واقعہ پوچھا گیا تو آپؒ نے شہادت دی-ایک شخص نے عرض کیا حضور بندگانِ خدا کو رشک تو آیا ہوگا-آپؒ نے جواباً فرمایا آسمان پر فرشتے بھی رشک کر رہے تھےیہ بات فرماتے ہوئے حضور غوث الاعظمؒ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے-

قرآن کریم بھی آقا کریم (ﷺ) کی امت پر اس فضل و انعام کی توثیق فرماتا ہےکہ:

’’هُوَ الَّذِىْ بَعَثَ فِىْ الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَ يُزَكِّيْهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الۡحِكۡمَةَ ق ’’وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِىْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ؁ وَّ اٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْط وَ ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ؁ ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُط وَ اللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ‘‘ (الجمعہ:2-4)

’’وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجاکہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں اور انہیں پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کا علم عطا فرماتے ہیں اور بیشک وہ اس سے پہلےضرور کُھلی گمراہی میں تھے اور ان میں سے اوروں کوپاک کرتے اور علم عطا فرماتے ہیں جو ان اگلوں سے نہ ملےاور وہی عزّت و حکمت والا ہے -یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے اور اللہ بڑے فضل والا ہے ‘‘-

یعنی اللہ تعالیٰ نے آقا کریم (ﷺ) کی امت کے لوگوں جو آپ (ﷺ) کے جلوہ فرما ہونے سے پہلے گمراہی میں مبتلا تھے اور جو آپ (ﷺ) کے ظاہری حیات کے زمانہ کے بعد ہوں گے، پر اپنا فضل فرمایا کہ اپنے محبوب کریم (ﷺ) کو ان میں بھیجا تاکہ وہ ان کو اللہ تعالیٰ کی آیتیں سنا کر ان کا تزکیہ کریں اور انہیں کتاب و حکمت سے نوازیں-

امام فخرالدین رازیؒ ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے ’’تفسیر کبیر‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’وَ یُعَلِّمُھُمْ‘‘ اَیْ وَیُعَلِّمُھُمْ وَیُعَلِّمُ آخِرِیْنَ مِنْھُمْ‘‘ (تفسیرکبیر، ج: 15، ص:5)

’’ یعنی آپ (ﷺ)صحابہ کرام کو بھی تعلیم دیتے ہیں اور بعد میں آنے والوں کو بھی تعلیم فرماتے ہیں‘‘-

امام قرطبیؒ ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’وَ یُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمْ‘‘ اَیْ یُعَلِّمُھُمْ وَیُعَلِّمُ آخِرِیْنَ مِنَ الْمُؤمِنِیْنَ‘‘ (الجامع لاحکام القران، جلد:20، ص:453)

’’آپ(ﷺ) انہیں پاک بھی فرماتے ہیں اور تعلیم بھی دیتے ہیں اور بعد والے مومنین کا بھی تزکیہ اور تعلیم فرماتے ہیں‘‘-

سینکڑوں ایسے شواہد اور واقعات موجود ہیں کہ اولیاء، فقہاء، محدثین اور مفسرین کرامؒ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم علم کی کسی مشکل بات میں پھنس جاتے ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ملتا تو ہم محبوب مصطفےٰ (ﷺ) کی بارگاہ میں رجوع کرتے ہیں- بعض فرماتے ہیں کہ عالمِ خواب میں اور بعض فرماتے ہیں کہ عالمِ بیداری میں رسول اللہ (ﷺ) نے ہمیں تعلیم اور تلقین عطا فرمائی ہے-اس لئے قرآن مجید کے الفاظ مبارک ’’وَّ اٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ‘‘ حضور نبی کریم (ﷺ) کی حیاتِ مبارک، اولیاء کاملین کی مجلسِ مصطفےٰ (ﷺ)میں حضوری اور آپ (ﷺ) کی بارگاہ اقدس سے تعلیم و تلقین حاصل کرنے کی دلیل ہیں-

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ اپنے بارے فرماتے ہیں کہ:

دست بیعت کرد ما را مصطفٰےؐ
خواند است فرزند ما را مجتبیٰؐ
شد اجازت باھُو را از مصطفٰےؐ
خلق را تلقین بکن بہراز خدا

’’مجھے حضرت محمد مصطفےٰ(ﷺ) نے دست بیعت فرمایا اور اُنہوں نے مجھے اپنا (نوری حضوری) فرزند قرار دیا- مجھے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اجازت دی کہ میں خلقِ خدا کو تلقین کروں‘‘-

عامۃالناس بھی خواب کے متعلق حسنِ ظن رکھتی ہے کہ آقا کریم (ﷺ) کی زیارت خواب میں ممکن ہے- جیسا کہ ’’صحیح بخاری‘‘ کی روایت ان عاشقانِ رسول (ﷺ) کے لئے نوید ہے جو آپ (ﷺ) کے رخ زیبا کی زیارت کے خواہشمند ہیں-حضرت ابُو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’مَنْ رَاٰنِیْ فِی الْمَنَامِ فَسَیَرَانِیْ فِی الْیَقَظَۃِ‘‘ (صحیح بخاری،کتاب التعبیر)

’’جس نے مجھے خَواب میں دیکھا تووہ عنقریب مجھے بیداری میں بھی دیکھے گا‘‘-

دیوبند مکتبۂ فکر کے ایک بہت بڑے محدث اور شارح بخاری علامہ الشیخ انورشاہ کشمیری (متوفی 1352ھ) ’’فیض الباری شرح صحیح بخاری ‘‘میں لکھتے ہیں:

’’میرے نزدیک رسول اللہ(ﷺ) کا بیداری میں دیدار کرنا ہر اس شخص کے لئے ممکن ہے جس کو اللہ تعالیٰ یہ نعمت عطا فرمائے جس طرح حافظ سیوطیؒ سے منقول ہے کہ وہ زاہد اور اپنے بعض معاصرین پر کلام میں متشدد تھے اُس کیلئے یہ شان ہے کہ انہوں نے رسول (ﷺ) کی بائیس مرتبہ (صحیح پچھتر بار ہے) زیارت کی اور آپ (ﷺ)سے بعض احادیث کی صحت کے متعلق سوال کیا اور جب آپ (ﷺ)نے فرمایا کہ وہ صحیح ہیں تو حافظ سیوطی نے ان کو صحیح قرار دیا اور شاذلی نے سوال کیا کہ وہ حاکم وقت کے پاس اس کی شفاعت کریں تو حافظ سیوطی نے انکار کر دیا اور کہا اگر میں حاکم کے دربار میں گیا تو مَیں رسول اللہ (ﷺ) کی شفاعت سے محروم ہو جاؤں گا اور اس سے امت کا بہت نقصان ہوگا اور علامہ شعرانی نے بھی بیداری میں رسول اللہ(ﷺ) کی زیارت کی اور آٹھ ساتھیوں کے ساتھ آپ (ﷺ) سے ’’صحیح بخاری‘‘پڑھی ،ان آٹھ میں سے ایک حنفی تھا لہٰذا بیداری میں رسول اللہ (ﷺ) کی زیارت ثابت ہے اور اس کا انکار کرنا جہل ہے‘‘- (فیض الباری،،ج:1، ص:292)

علامہ محمد عبد الرؤف المناوی (التوفی:1031ھ) ’’فیض القدیر‘‘میں لکھتے ہیں کہ:

’’عارفین آپ (ﷺ) کو عالم بیداری میں دیکھتے ہیں یہاں تک کہ حضرت شیخ ابو العاص المرسیؒ فرماتے ہیں اگر رسول اللہ (ﷺ) ایک پل کیلئے بھی مجھ سے اوجھل ہوں تو میں اپنے آپ کو (اس وقت) فقراء میں شمار نہیں کرتا اور ایک روایت میں ہے مسلمانوں میں شمار نہیں کرتا ‘‘-

عارفین کویہ مقام کیسے عطا ہوتا ہےکہ وہ عالمِ بیداری میں آقا کریم (ﷺ) کی زیارت سے فیض یاب ہو؟ تو اس کی پہلی سیڑھی خواب میں آقا کریم (ﷺ) کی زیارت ہے-جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں کہ جس بندے کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کچہری نصیب ہوجاتی ہے فقر کے انتہائی مرتبہ کے اوپر فائز ہوجاتا ہے-کیونکہ اس سے بڑا کسی عارف فقیر کا کوئی مرتبہ نہیں کہ وہ ہر لمحہ آقا کریم (ﷺ) کی مجلسِ مبارکہ میں حاضر رہتا ہے-

آقا کریم (ﷺ) کی حضوری پانے کے کئی طریق ہیں جن میں سے ایک دل کی پاکیزگی ہے جیسا کہ بابا بلھے شاہ ؒ فرماتے ہیں کہ:

کر صاف تو ویہڑا دل دا
وت ویکھ ماہی وچ مل دا

اسی طرح جس چیز کی طلب ہوتی ہےاس کیلئے انسان بیتاب ہوتا ہے-بزبانِ سلطان العارفینؒ:

اَندر بھاہیں اَندر بالن اندر دَیوِچْ دُھواں ھو

اس لئے دل میں محبت وعشق کی تڑپ پیدا کرنی پڑتی ہے کیونکہ یہ بھی پاکیزگی کا ایک طریق ہے-

یہاں پاکیزگی کے متعلق مرشد کریم حضرت سلطان سید محمد بہادر علی شاہ صاحبؒ کاواقعہ بیان کرنا چاہوں گاکہ:

’’ایک مرتبہ انہوں نے ایک طالب پر مہربانی فرمائی بشارت دی کہ آج رات تجھے سرکار دو عالم (ﷺ) کی زیارت نصیب ہوگی -لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ کسی پاکیزہ مقام پر چلے جاؤ، جس کے اردگرد نجاست، پلیدی اور بدبو نہ ہو-اس نے اپنا کمرہ صاف کیا، درودپاک پڑھتا ہوا وہ عاشق سو گیا لیکن رات کو زیارت نصیب نہ ہوئی -صبح اپنے شیخ کامل کی بارگاہ میں آیا اورعرض کی حضور! آپ نے تو وعدہ فرمایا تھا-لیکن زیارت تو نصیب نہیں ہوئی-حضور پیر صاحبؒ نے فرمایا کہ آقا پاک (ﷺ) نے تشریف آوری کا کرم فرمایا مگر تمہارے کمرے میں تمباکو کی بد بو تھی، جس وجہ سے تمہیں شرفِ زیارت نصیب نہیں ہوا؟ – تووہ عاشق دوڑتا ہوا گھر گیا، بیوی سے معلوم کیا، بیوی نے کہا حُقہ تو اندرنہیں تھا- اس نے کہا پھر تمباکو کی بدبو کیسے تھی؟ اس نے کہا کہ جب میں حُقہ نکال رہی تھی تو تمباکو والا پانی میں نے دروازے کے سامنے گرادیا تھا‘‘-

بزبانِ شاعر:

رفتم کہ خار از پا کشم، محمل نہاں شد از نظر
یک لحظ غافل گشتم و صد سالہ راہم دور شد

’’میں نے رُک کر اپنے پاؤں سے کانٹا نکالنا چاہا اور محمل نظر سے نہاں ہو گیا، میں ایک لحظہ کیلیے غافل ہوا اور راہ سے سو سال دور ہو گیا‘‘-

اس لئے پہلی بات دل کی پاکیزگی ہے اور دوسری کثرتِ درود شریف-یعنی انتہائی مؤدب ہو کر شب و روز اپنے دل و دماغ کو آقا کریم (ﷺ) کی طرف مائل رکھنا-

اسی طرح مشائخ نے زیارتِ پاک کا ایک طریق علم بھی بیان کیا ہے-امام الآئمہ فی العقیدہ سیَّدنا امام ابو الحسن اشعریؒ اولاً بہت بڑے مُعتزلّیِ مناظر تھے-ان کا ایک دلچسپ واقعہ بیان کرنا چاہوں گا:

’’ جب بغداد میں معتزلہ کا فتنہ اپنی انتہاء کو پہنچا تو معتزلہ کی طرف سے ابوالحسن الاشعری نے مناظرہ کیا اور بڑے بڑے عالموں کو مناظرہ میں لاجواب کردیا-رات کو سوئے، خواب میں سید الانبیاء (ﷺ) کی زیارت نصیب ہوئی-آپ (ﷺ) نے فرمایا:ابو الحسن! آج میرا دین خطرے میں ہے،اٹھ اور معتزلہ کے فتنے سے میرے دین کا دفاع کر-اگلے دن جمعہ کا مجمع لگا، جامع مسجد بغداد میں ابو الحسن اشعری منبر پہ جلوہ فرما ہوئے، معتزلیوں کا جم غفیر اس سوچ میں ہے کہ ہمارا سب سے بڑا عالم آج خطاب کرےگا اور مخالفین کو پچھاڑ دے گا- منبر پہ آتے ہی ابو الحسن الاشعری کہنے لگے کل تک تو تم مجھے جانتے تھے کہ میں معتزلہ سے تھا؟سب نے کہا بالکل! کہنے لگے میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ گمراہ اور بھٹکا ہوا فرقہ ہے اور میرے پاس سب سے بڑی دلیل یہ ہےکہ مجھے خواب میں سید الانبیاء (ﷺ) نے فرمایا کہ! ابوالحسن اُٹھ میرے دین کا دفاع کر-اس لئے آج سے ابوالحسن الاشعری معتزلہ سے نجات کا اعلان کرتا ہے‘‘-

اسی طرح چشمِ دید واقعہ ہمارے استادِ گرامی شیخ القرآن مولانا منظور احمد صاحب (آف نواں جنڈانوالہ)کا ہے:

’’وہ جس مقام پہ بخاری، مسلم، ترمذی کا درس دیتے تھے- وہاں چارپائیاں لگی ہوتی تھیں اور لوگ آکر بیٹھتے تھے-ایک وقت آیا کہ آپ نے فرمایا! کہ اس جگہ پہ باوضو داخل ہو اور فقط رسول اللہ (ﷺ)کی اور علم کی بات کیا کرو-اُس جگہ کو پاکیزہ کروایا اس کی حد بندی کروائی کہ ہر آدمی یہاں پہ داخل نہ ہو- چارپائیوں کی جگہ صفیں بچھوائیں پوچھا گیا کہ اس تبدیلی کی وجہ کیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ مجھ پہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے کرم کیا ، زیارت بخشی اور فرمایا منظور احمد! جب تم بخاری اور مسلم پڑھاتے ہو ہم تمہارا درس دیکھنے کے لئے تشریف لاتے ہیں‘‘اب اُسی مقام پہ حضرت استادِ گرامی کا مزار ہے جہاں وہ آخری لمحات تک خدمتِ حدیث کرتے رہے ‘‘-

گویا ایک طریق علم بھی ہےکہ اگر بے لوث ہو کر خلوص کے ساتھ علم میں دین کی خدمت کی جائے اور سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی محبت اور آپ (ﷺ) کا ادب لوگوں کے دلوں میں پیدا کیا جائے تو بعید نہیں کہ سرکار دو عالم (ﷺ)اپنے غلاموں پر زیارت کا کرم فرمائیں-آقا کریم (ﷺ) جتنا اپنے غلاموں سے محبت فرماتے ہیں وہ لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا-اس حوالے سے ایک حدیث پاک پیش کرنا چاہوں گا:

’’حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ میری امت میں مجھ سے بہت محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد ہوں گے ان میں سے ہر ایک تمنا کرے گا کہ وہ اپنے گھر بار مال کے عوض مجھے دیکھ لیتا‘‘- (مشكاة المصابيح ، بَابُ ثَوَاب هَذِهِ الْأُمة)

اسی طرح ایک طریق سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ نے یوں بھی بیان فرمایا:

ناں رَبّ عرش مُعلّٰی اُتے ناں رَبّ خانے کعبے ھو
نہ رَبّ عِلم کتابیں لبھّا نہ رَبّ وِچ محرابے ھو
گنگا تیرتھیں مُول نہ مِلیا مارے پَینڈے بے حسابے ھو
جَد دا مُرشد پھَڑیا باھوؒ چھُٹے سَب عذابے ھو

یعنی ایک طریق مرشد کامل کی توجہ ہے-چونکہ مرشد کامل کی نگاہ نورِ مصطفےٰ (ﷺ) سے روشن ہوتی ہے اور اُس کا سینہ، سینۂ مصطفےٰ (ﷺ) کی برکت سے کشادہ ہوتا ہے-اس لئے جب مرشد کامل اپنی توجہ کی نگاہ کرے تو طالب صادق کو بھی دیدارِ مصطفےٰ (ﷺ) نصیب ہو جاتا ہے-

ایران میں شیخ روض بھان بقلی شیرازیؒ ایک بزرگ صاحب حال ہوئے ہیں جنہوں نے ’’عرائس البیان‘‘ کے نام سے ایک تفسیر بھی لکھی ہے-یہ علم حدیث میں اتنا بلند پایہ رکھتے تھے کہ بڑے بڑے علماء ومحدثین ان کی خدمت میں حاضر ہوکر حدیث کا درس لیتے تھے ان کا معمول یہ تھا کہ گردن جھکائے ہوئے خاموشی سے حدیث سنتے رہتے ان کی خاموشی اس بات کی دلیل ہوتی کہ حدیث صحیح ہے اور اس طرح محدثین اس حدیث کی تصدیق کر لیتے اور اگر کہیں وہ چونک پڑتے تو یہ اس بات کی علامت ہوتی کہ حدیث مذکورہ مرفوع نہیں ہے-ایک موقع ایسا بھی آیا کہ کسی محدث نے ایک حدیث پڑھی جس کا مرفوع ہونا کتابوں میں درج تھا انہوں نے چونک کر کہا کہ یہ حدیث حضور نبی کریم(ﷺ) سے ثابت نہیں محدث نے چند کتابوں کا حوالہ دیا اور کہاکہ فلاں فلاں ناقدینِ فن نے اس حدیث کی تصدیق کی ہے یہ سن کر حضرت شیخ بقلی فرمانے لگے کہ میں تیری کتابوں کو دیکھوں یا صاحب بیان کو دیکھوں ؟وہ دیکھو سامنے حضور (ﷺ) کھڑے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ روض ! یہ حدیث میری نہیں ہے بلکہ میری طرف غلط منسوب کی گئی ہے-حضرت روض بھان بقلی کی یہ کرامت شیراز میں آپ کے مزار کی لوح پر کندہ ہے اور اہل شیراز میں نسلاً بعد نسل بتواتر منقول ومشہور ہے-

فقیر کی دلیل بعض دفعہ کتابیں بھی بن جاتی ہیں لیکن فقیر کی دلیل ہمیشہ کتاب نہیں ہوتی بلکہ اس کی توجہ کی ایک نگاہ سب سے بڑی دلیل بن جاتی ہے –

تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب طالب اپنے صدق میں مکمل ہوجاتا ہےتو مرشد پہ فرض ہوجاتا ہے کہ اُس کو سرکارِ دوعالم (ﷺ)کی حضوری میں پیش کیا جائے-

میرے بھائیو! درج بالا گفتگو زیارت و حضوریٔ رسول (ﷺ) کا شوق اپنے دل میں پیدا کرنے کا بنیادی مقدمہ ہے-گو کہ اہلِ عقیدت و اہلِ نسبت میں پختہ ایمان کے باعث بات کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن اس بات کو بطوردلیل ذہن نشین رکھنا ضروری ہوتا ہے کہ ہم جس عقیدہ یاطریقِ تربیت کو اختیار کرتے ہیں یہ کسی کا گھڑا ہوا نہیں ہے-بلکہ اس کی تاریخ و تصدیق قرآن کریم، سنتِ رسول (ﷺ)، طریقِ ابنیاء ؑ ، صحابہ و اہل بیت اطہارؓ اور سلف صالحین اولیاء کاملینؒ سے ثابت ہوتی ہے-

اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی معرفت، محبوب کریم (ﷺ) کی حضوری اور سلف صالحین کی تعلیمات پہ عمل پیرا ہونے کی توفیق نصیب فرمائے!آمین

٭٭٭