-پاکستان کا اگر سیرت النبی (ﷺ) کے تناظر میں مُطالعہ کیا جائے تو بہت سے حیرت انگیز پہلُو نکلتے ہیں جو بڑی مفید اور کار آمد راہنمائی فراہم کرتے ہیں۔۔۔
سُلطان الفقرکی نظریاتی میراث اور اس کے عملی تقاضے
متعلقہ لنکس
دُنیائے فلسفہ میں اسطورات کا عظیم باغی ، فلسفۂ یونان کا بانی اور افلاطون و ارسطو کا اُستاد ’’سقراط‘‘ ایک سنگ تراش کا بیٹا تھا اور پیدائشی طور پہ بے۔۔۔
کثیر الجہت و مافوق الفطرت داستانوں سے مزین تاریخِ جموں و کشمیر بہت پرانی ہے-جدید کشمیر کی تاریخ جغرافیائی، سماجی، سیاسی و مذہبی اعتبار سے 1864ء کے بد نام زمانہ۔۔۔
اکیسویں صدی جہاں سائنسی ترقی و مادی ترقی کے عروج کا مشاہدہ کر رہی ہے وہیں بدقسمتی سے اِسے اخلاقی اور روحانی زوال بھی پیش ہے-انسانی معاشرے بحیثیت مجموعی اخلاقی اقدار۔۔۔
افسوس!ہمارے ہاں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کی عظمت میں فقط ایک ہی پہلو اجاگر کیا جاتا ہے۔۔۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے خانوادۂ عالیہ میں جن نفوس قدسیہ کو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے چشمۂ فیضانِ سلطان العارفین کے جاری رہنے کی دلیل کہا جاتا ہے...
جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُوؒ نے اپنی ایک تصنیف میں فرمایا کہ: ’’یہ محبت ہی ہے جو دل کو آرام نہیں کرنے دیتی ورنہ کون ہے جو آسودگی نہیں چاہتا ‘‘-
تصوف کا اشتقاق مادہ ’’صوف‘‘سےبابِ تفعل کا مصدر ہے- اُس کے معنی ’’اون‘‘کے ہیں- لغویت کے لحاظ سے اون کا لباس عادتاً زیبِ تن کرنا ہے- لفظ صوف کی جمع ’’اصواف‘‘ ہے...
تصوف یا صوفی ازم اسلامی تہذیب و ثقافت کی اساسیات اور علومِ دینیہ کے اہم ترین موضوعات میں سے ہے جس کے مبادی، منابع اور مآخذ قرآن و سنت سے ثابت ہیں...
آج جس موضوع پہ گزارشات بیان کرنے جا رہا ہوں وہ ایک خالص علمی موضوع ہے جس کا تعلق براہ راست ہماری دینی اور ملی زندگی سے ہے- کیونکہ اس کے ساتھ ہماری روحیں جڑی ہیں؛
26 دسمبر 2003ئ کو حضور سلطان الفقر، بانیٔ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین حضر ت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ کا وصال مبارک ہوا۔ جو تقریب سلطان الفقر ششم رحمۃ اللہ علیہ کے ختمِ مبارک کے لئے منعقد ہوتی ہے اس میں، مَیں ہمیشہ عرض کرتا ہوں کہ ایسی محفل کے انعقاد سے اگر فقط مرحوم کو ثواب پہنچانا مقصود ہو تو مَیں سمجھتا ہوں کہ حضور سلطان الفقر ششم کی ذاتِ گرامی اتنی بلند ہے کہ ہمارے قلیل سے ثواب کی آپ کو ضرورت نہیں۔ ہم دعائے مغفرت کے لئے اگر اکٹھے ہوں تو وہ ہماری مغفرت کے سفارشی ہوں گے اُنہیں ہماری سفارش کی ضرورت نہیں، اس دن کے حوالے سے اگر ہم درجات کی بلندی کی دعا کے لئے اکٹھے ہوں تو سلطان الفقر سے بڑھ کر رُوحانیّت میں کون سا درجہ ہے؟ کس درجے کی بلندی کی ہم دعا کریں گے؟ اگر اس دن کے حوالے سے ہمارے اکٹھے ہونے کا مقصود آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ذاتِ گرامی کو یاد کرنا ہو اور مل بیٹھ کے آپ کا ذکر کرنا ہو تو ہمیں یہاں اکٹھے ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ ہمارے گھروں میں، ہمارے دلوں میں، ہمارے دماغوں میں ہماری یادوں میں ہر وقت آپ ہی کا ذکر ہے۔ یہ تقریب فقط اس لئے انعقاد پذیر ہوتی ہے کہ جو اجتماعی مشن، اجتماعی مقصد ، اجتماعی پیغام یا جو عالمگیر نظریہ آپ نے ہمیں عطا فرمایا ہم اُس مشن کی تکمیل، اُس نظریے کے نفاذ کا اجتماعی عہد کریں۔ اس قسم کی تقاریب جو حضور سلطان الفقر ششم کی نسبت سے منعقدہوں اس کے علاوہ اُن کا کوئی مقصد نہیں۔ اس کے ساتھ ہمیں اس بات کو مدنظر رکھنا ہے کہ حضور سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ہماری نسبت تحریکی ہے، تنظیمی ہے یا آپ کی ذات کے ساتھ جو کارکنی کا رشتہ ہے اُس رشتے کے تقدس اور احترام کو برقرار رکھنے کے لیے ہمارے اُوپر بہت زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جو اکثر اوقات ہم سرانجام دیتے ہیں اور اکثر اوقات انجام دہی میں کوتاہی ہوجاتی ہے ۔
اپنے مرشد کریم کی ذاتِ گرامی سے ہمارے تین رشتے بنتے ہیں۔ہمارا ایک رشتہ مرشد اور طالب کاہے،ہمارا ایک رشتہ آپ کی ذات گرامی کے ساتھ قائد اور کارکن کا ہے اور ایک رشتہ جس کو ہمیشہ حضور سلطان الفقررحمۃ اللہ علیہ نے ہماری ظاہری کمزوریوں اور محرومیوں کو دیکھتے ہوئے آپ نے بہت زیادہ پذیرائی عطا فرمائی وہ صرف اپنی نُطفی اولاد سے نہیں بلکہ وہ لُطفی اولاد کے ساتھ آپ کا باپ اور بیٹے کا رشتہ تھا۔ آپ میں سے جتنے بھی لوگ جنہیں سلطان الفقر کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا موقع نصیب ہوا، ملاقات کا شرف نصیب ہوا اور قدموں میں بیٹھنے کا شرف نصیب ہوا، اُن میں سے ہرایک یہ کہے گا کہ حضور مجھ سے زیادہ محبت فرماتے تھے اور جتنا قریبی رشتہ، جتنا قریبی پیار اور جتنی شفقت مجھے نصیب تھی اتنی کسی دوسرے کو نصیب ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ ہم میں سے ہر ایک کا دعویٰ ہے اور اس دعویٰ پہ ہم میں سے کوئی بھی جھوٹا نہیں۔
اللہ رے چشمِ یار کی معجز بیانیاں
ہر اِک کو ہے گماں ، کہ مخاطب ہمیں رہے
اُس نگاہِ کرم کا کمال ہی یہ تھاکہ پوری محفل بیٹھی ہے اور اُس محفل میں ہر آدمی کو گمان ہے کہ حضور میرے ساتھ مخاطب ہیں۔طالب و مرشد ، قائدو کارکن اور باپ و بیٹے کے ان تینوں رشتوں کو اگر آپ دیکھیں تو اندازہ لگائیں کہ ہمارے اوپر کتنی زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اگر آپ دُنیا داری کے نقطۂ نگاہ سے اس بات کو سمجھنے کی کوشش فرمائیں تو میرے خیال میں بڑی آسانی رہے گی وہ ایسے کہ تمام رشتے جو گِنوائے ہیں یہ بنیادی طور پر باپ اور بیٹے کے ہی رشتے ہیں۔ باپ ، باپ ہوتا ہے اور بیٹا، بیٹا ہوتا ہے۔ کارکن تنظیمی فرزند ہوتا ہے اور قائد تنظیمی باپ ہوتا ہے، طالب رُوحانی بیٹا ہوتا ہے اور مرشد رُوحانی والد ہوتا ہے تو یہ تین رشتے جو ہمارے آپ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں مجھے یہ بتائیں کہ جو آپ کے نطفی و لطفی فرزندان ہیں، جو آپ کے تحریکی بیٹے ہیں ،جو آپ کی رُوحانی اولاد ہے اُس کا آپ سے کیا مستقبل جُڑا ہے تو ہم میں ہر ایک اپنا تجزیہ کرسکتا ہے کہ ہم نے اپنی اُس میراث کا کتنا کتنا خیال اور بھَرم رکھا ہے۔ مجھے کسی کو Notify کرنے کی ضرورت نہیں، آپ کو کسی کو Notify کرنے کی ضرورت نہیں ہم میں ہر ایک یہ اپنا اپنا تجزیہ کرسکتا ہے کہ اگر ظاہری والد کی چار، پانچ یا دس دکانیں ہیں ہم اُن کو سنبھالنے میں کتنی کاوشیں کریں گے، فیکٹریز ہیں تو اُن کو سنبھالنے کی کتنی کاوشیں کریں گے اور اگر مکان ہیں تو اُن کو سنبھالنے میں کتنی کاوشیں کریں گے تو یہ چھوٹی چھوٹی حقیر چیزیں، یہ چھوٹی چھوٹی ذلیل چیزیں ان کے سنبھالنے کی ہمیں اتنی فکر ہو سکتی ہے تو اتنی عظیم وراثتیں اور اتنی عظیم میراث کو پانے کا کیا کردار ادا کیا ہے؟ اور کیا کردار ادا کرنا ہے؟ یہ ہمارے اوپر فریضہ ہے۔ ہم اگر اس فریضے کو سر انجام نہیں دیں گے تو ہم نااہل اولاد ہیں، ہم ناقص اولاد ہیں، ہم بڑے باپ کی چھوٹی اور ذلیل اولاد ہوں گے۔ اُس فقر کی وراثت کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارا رشتہ طالب اور مرشد کا اتنا مضبوط ہونا چاہیے اور بغیر کسی دلیل کے اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ اُس کے اندر کسی قسم کی دراڑ نہ آسکے۔ اُس میں Compromise کی صورت پیدا ہوہی نہیں سکتی۔ جب حضرت امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کا وقت قریب آتا ہے، وہ عالمِ دین ہیں جنہوں نے دو درجنجلدوں میں قرآن کی تفسیر لکھی، توحید باری تعالیٰ پہ 360 نہ رد ہونے والے دلائل قائم کئے جب وصال کا وقت آیا تو ابلیس اپنا کام کرنے کے لیے اُن کے پاس پہنچ گیا :
﴿لَاَ قْعُدَنَّ لَھُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ o ﴾ ﴿الاعراف:آیت۶۱﴾
کہ مَیں ضرور با ضرور تیرے بندوں کو تیری راہ سے بھٹکائوں گا۔ ابلیس اپنا عہد پورا کرنے کے لئے پہنچ گیا۔ اب عہد کی بات چلی ہے تو ایک چیز بار بار میرے ذہن میں آرہی ہے، وہ آپ کو بری بھی لگے گی اور میںضرور کہنا بھی چاہتاہوں :
جھوٹ آکھاں تے کجھ نہ بچدا ہے
سچ آکھاں تے بھانبھڑ مچدا ہے
لیکن میرے خیال میں بھانبھڑ اگر بھڑک جائے تو کوئی بات نہیں اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔ ابلیس نے عہد کیا تھا کہ
﴿لَاَ قْعُدَنَّ لَھُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ o ﴾
’’میں لوگوں کو تیرے راستے سے ہٹانے کی ضرور با ضرور کوشش کروں گا‘‘
یہ ابلیس کا عہد تھا اور دیکھ لیں ابلیس اپنا عہد نبھانے کے لئے پہنچ گیا ۔ جب ہم نے اپنے مرشد کریم کا ہاتھ تھاما تھا تو ہم نے کتنے عہد کیے تھے۔ سب سے پہلے تو وفاداری کا عہد تھا، سب سے پہلے تو میراثِ فقر کو پانے کا عہد تھا، شرک سے توبہ کی، کفر سے توبہ کی، جھوٹ سے توبہ کی، غیبت سے توبہ کی، گلہ گوئی سے توبہ کی، زنا سے توبہ کی، حرام سے توبہ کی۔ حرام میں شراب بھی آجاتی ہے اور دیگر منشیات اور صغائر و کبائر بھی آجاتے ہیں یہ تما م عہد کرکے اُس کے باوجود ہم اپنے مالک سے جب وہ عہد توڑتے ہیں تو بہتر عہد کس کا ہے جو توڑ رہا ہے یا نبھا رہا ہے۔ اب عہد کو فخرالدین رازی کے ساتھ کون نبھا رہاتھا؟ ہمیں عہد کا پاس کرنا چاہیے۔ کم از کم یہ سوچ کر کہ ہم شیطان سے تو زیادہ ذلیل نہیں ہیں۔ اگر وہ ذلیل اپنے عہد کا اتنا پکا ہوسکتا ہے تو ہم جلیل اپنے عہد کے اتنے پکے کیوں نہیں ہوسکتے۔ یہ ہمارے اوپر فرض عین ہے۔ ہم اس کو فقط رسم مت سمجھیں کہ ہم نے اپنے مرشد کریم کے ہاتھوں پر بیعت کر لی:
’’بس جناب وِک گئے جی وِک گئے‘‘
ایسے نہیں ہوگا ۔ بک جانا آپ سے کچھ تقاضا کرتا ہے، آپ سے کچھ مانگتا ہے، اس کی کچھ شرائط ہیں ۔ سب سے بڑا اور بنیادی تقاضا یہ ہے کہ جو اُن ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر جو عہد کیا تھا اُس عہد کی پاسداری کرو۔ ہم اگر اُس عہد کی پاسداری نہیں کریں گے تو وہ جو فخر الدین رازی کے پاس آیا تھا وہ کہے گا کہ کم از کم میں اپنے عہد میں تو بہتر ہوں کہ میں نے کہا تھا میں صراط مستقیم سے بھٹکائوں گا سو میں نے بھٹکایا۔ یہ کہتے تھے ہم چلیں گے پھر نہیں چلے توپھر کس کا عہد پکا ہوا؟
بہر حال فخر الدین رازی کو شیطان نے آکر بہکانا شروع کیا اور ان کے جو ۰۶۳ دلائل نظریۂ توحید کے تھے وہ ابلیس نے ردّ کر دیے۔ فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ لا جواب ہوگئے تو اس وقت ان کے مرشد حضرت نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللہ علیہ وضو فرما رہے تھے، وہاں سے سینکڑوں میل دور تھے، انہوں نے کوزے سے ہاتھ پر پانی ڈال کر اس طرح ڈال کے پھینکا اور کہا ’’رازی سنبھل جا یہ ابلیس ہے اور تیری موت پہ تجھے گمراہ کرنا چاہتا ہے دلیل پہ توحید کو مت مان اسے کہہ دے کہ میں بغیر دلیل کے اللہ کو ایک مانتا ہوں‘‘ تو فخر الدین رازی کے منہ پر پانی کے وہ چھینٹے پڑے اور ایک دم کانوں میں مرشد کی آواز گونجی تو ابلیس کو مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ جا دفعہ ہوجا کہ مَیں خدا کو بغیر دلیل کے ایک مانتا ہوں۔
اُس میراثِ فقر کا سب سے پہلا تقاضا یہ ہے کہ ہمارا اپنے خالق کے ساتھ اور اپنے خالق کے مقرر کردہ اس نمائندے کے ساتھ، جس نے ہمیں ہدایت کی، اس کے ساتھ ہماری یہ کمٹمنٹ ﴿Commitment﴾ بلا دلیل ہونی چاہیے ہم بغیر دلیل کے اس عہد سے وفا داری کریں۔ یہ اس کی پہلی شرط ہے۔ ہمیں یقین و ایمان ہو ، ایمان میں استحکام ہواور اس استحکام میں استقامت ہو۔ جب ہم دو چیزیں لے آتے ہیں استحکام اور اس استحکام کے اوپر استقامت کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں پھر اس کا کرم ہمارے شاملِ حال ہوتا ہے۔
دوسری امانت تحریک ہے، وہ میراث ہمارا نظریہ ہے اور اس نظریے کی بھی کچھ شرائط ہیں اس کو پانے کے ہمارے اوپر کچھ احکامات مقرر ہیں جن میں سب سے پہلا اور بنیادی یہ ہے کہ جو ہمارے مرشد کریم نے ذکر کا طریقہ فرمایا تھا اس ذکر کے طریقے کو ہم اپنے نظریے کی تبلیغ کا طریقہ بنالیں۔
’’ٹردے پھردے اُٹھدے بہندے ہر ویلے دل کولوں اللہ دا ذکر کراوناں ایں‘‘ ۔
’’ٹردے پھردے اُٹھدے بہندے‘‘ اس چیز کو ہم نے جاری رکھنا ہے یہی فارمولا ہم نے اٹھا کر اپنے نظریے کیساتھ لانا ہے۔ اس کی وفاداری کا پاس کرتے ہوئے کہ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے بھی۔اگرہم اپنے نظریے کا پرچار کرنے میں سستی کا مظاہرہ کرتے ہوں، اس سے غافل ہوجاتے ہوں تو ہماری اس کے ساتھ کمٹمنٹ ﴿Commitment﴾ وہ نہیں رہتی۔ آپ دیکھیں کہ جو آپ کا نظریہ ہے وہ ایک خانقاہ سے شروع ہوکر اسی خانقاہ پہ آکر ختم نہیں ہوجاتا، وہ خانقاہ سے شروع ہوتا ہے اور پوری کائنات کا احاطہ کرتاہے اور کائنات سے مراد یہ زمین نہیں ہے، کائنات سے مراد یہ سامنے نظر آنے والا آسمان نہیں، کائنات سے مرادصرف یہ نظام شمسی بھی نہیں جو ہمارے سامنے ہے وہ تمام نظام ہائے شمسی جو کائنات کے اندر موجود ہیں جس کے متعلق حضرت سلطان باھُو فرماتے ہیں:
اٹھارہ ہزار جو عالَم آہا اوہ اگے حسین(ع) دے مردے ھُو
یہ جو تمام نظام ہائے شمسی اور اٹھارہ ہزار جہان ہیں۔ آپ کا نظریہ ان اٹھارہ ہزار جہانوں کی ان تمام نظام ہائے شمسی کا احاطہ کرتا ہے۔ ہمیں اس حقیقت سے اِدراک نہیں۔ کارکن ساتھیوں سے مَیں ذرا کھل کے بات کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے مسجد میں اصلاحی جماعت کے ایک صدر کی تقریر سنی، آپ کو اس سے رغبت نصیب ہوئی، آپ چلے آئے، نظام کو دیکھا، نظریہ کو سنا اور تربیت حاصل کرلی لیکن آپ میں سے کچھ ساتھیوں نے کبھی اپنے نظریے کی عالمگیریت کا مطالعہ نہیں کیا۔ آپ میں سے کچھ میرے تحریکی ساتھی ایسے ہیں جنہوں نے آج تک حضرت سلطان باھُو کی کتب کا جو ہماری جماعت کے تحت ترجمہ کیا گیا ہے، ایک کتاب کا تین یا چار بار مطالعہ نہیں کیا؟ اُن کے پاس سوالوں کا جواب نہیں ہے۔ آپ خدا کا شکر ادا کریں کہ ہم جاہل ہوتے ہوئے بھی بڑے بڑے علمائ کو لاجواب کردیتے ہیں اور مالک ہمارا بھرم رکھتا ہے۔ آپ ساتھیوں کی گفتگو کے سامنے عالم، فلسفی، فقیہہ نہیں ٹھہر سکتے۔ اصلاحی جماعت کے مبلغ کے دلائل کے سامنے کوئی بھی نہیں ٹھہر سکتا۔ بہت سے ساتھی اَن پڑھ اور نا خواندہ ہوتے ہوئے بھی جاہل نہیں، اَن پڑھ نہیں بلکہ ایک نظریے کے امین ہیں مگر آپ کو چاہیے کہ آپ اپنے نظریے کا اِدراک حاصل کریں۔ مثلاً آپ میں سے کتنے ساتھی ہیں جو ’مرأۃ العارفین‘ کو ٹائیٹل سے لے کر بیک ٹائیٹل کے ختم ہونے تک مکمل مطالعہ کرتے ہیں ۔ آپ کو اس چیز کا اندازہ لگانا چاہیے، اس چیز کی اہمیت کا احاطہ کرنا چاہیے کتنی وسعت ہے اس کے اندر اور کون سا طبقۂ زندگی ہے جس کو آپ کا نظریہ اکاموڈیٹ ﴿Accommodate﴾ نہیں کرتا،کونسا طبقۂ فکر ہے جس کے سوالوں کے جواب آپ کے نظریے میں موجود نہیں، کونسی سوچ کونسی ترقی ایسی ہے جس کو آپ کا نظریہ سپورٹ ﴿Support﴾ نہیں کرتا، ثابت نہیں کرتایا آپ کا نظریہ اس کی رفتار کو تیز نہیں کرتا؟۔ آپ سائنس ﴿Science﴾ کو دیکھ لیں ، ٹیکنالوجی ﴿Technology﴾ کو دیکھ لیں، کمونیکیشن سسٹم ﴿Communication System﴾ کو دیکھ لیں، آپ اکانومی کی بات کرلیں۔ یہ ستارے، سیارے، یہ چھوٹی چھوٹی مشینیں اڑا کر ان کے اوپر چلتے پھرتے ہیں اور ہمیں اور ہمارے اوپر آکر اپنی بدمعاشی جھاڑتے ہیں، دانشوری جھاڑتے ہیں، ہم نے یہ پتھر دریافت کرلیا ہے،وہ پتھر دریافت کرلیا ہے۔ آپ کو پتہ ہے حجرِ اسود کہاں سے آیاہے؟ حجرِاسود اِس زمین کا پتھر نہیں بلکہ اس نظام شمسی کا پتھر نہیںہے۔ آپ ٹائم اینڈ سپیس ﴿Time and Space﴾کی تھیوری ﴿Theory﴾ کو لے لیں، آپ تمام جدید اور قدیم نظریات کو لے لیںجن کا آپ کے نظریے نے اثبات اور ابطال کیا اورآج تک اس کے اندر اتنی وسعت ہے کہ وہ آگے بڑھتا جارہا ہے ۔ آپ میں سے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے قرآن کریم کو ایک نظام ِحیات اور ایک نظام ِفکر کے طور پہ پڑھا ہے؟ ہم زیادہ سے زیادہ قرآ ن کی تلاوت ثواب کے لئے کرتے ہیں یا ہم نے اپنی تقریر کے لئے کوئی حوالہ تلاش کرنا ہے تو قرآن کو اٹھا لیں گے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
اگر تو چاہتاہے کہ تو اُس قرونِ اُولیٰ کا مسلمان بن جائے جس نے اس عرب کے ریگزاروں سے نکل کے پوری دنیا کو نئی اور روشن تہذیب عطا کر دی تھی، اگر تو اس تہذیب کا معاصر ہونا چاہتا ہے تو
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن
تجھے قرآن کے علاوہ اس چیز کو حاصل کرنے کا کوئی چارہ نہیں ہے ۔
آپ کے اِس عالمگیر نظریے، آپ کی اِس عالمگیر فکر کو جو یہ پوری دنیا کے سائنسدانوں کوچیلنج کرتی ہے کہ
﴿اَلَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا مَّا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍط فَارْجِعِ الْبَصَرَ ھَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ o ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِعاً وَّھُوَ حَسِیْرٌ ﴾o﴿الملک۳،۴﴾
یہ چیلنج یہ دعویٰ انسان کا ہو نہیں سکتا، یہ مخلوق کا دعویٰ ہو نہیں سکتا، خدا چیلنج کر رہا ہے کہ آئو میرے آسمانوں کو دیکھو:
﴿اَلَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا o﴾
میں نے سات آسمانوں کو طبق در طبق کھڑا کر دیا ہے
﴿مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ ﴾
کون ہے جو تم میں سے یہ ثابت کرسکتا ہے کہ خدا کی اس تخلیق میں کسی بھی جگہ پر فرق رہ گیا ہے، کسی جگہ پر کوتاہی رہ گئی ہے؟ تم غور سے دیکھو تمہاری نظر ناکام ہوکر واپس آجائے گی۔
﴿ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَکَرَّتَیْنِ﴾
تم ایک بار پھر غلطی نکالنے کی خاطر دیکھو گے، ایک بار پھر تمہاری نظر ذلیل و رسوا ہوکر واپس آجائے گی تمہیں خدا کی مخلوق میں سے تفاوت نظر نہیں آئے گا۔ اس دعویٰ کے اندر تیَقّن، جلالیت اور اعتماد کا اللہ تعالیٰ نے جو معیار رکھ دیا ہے آج تک کوئی بھی اس دعویٰ کو چیلنج ﴿Challenge﴾ نہیں کرسکا، نہ کوئی سائنسدان ، نہ کوئی فلسفی اور اگر کوئی چیلنج کرتا ہے تو اس کیساتھ وہی ہوا جو قرآن کی آیت کا اگلا حصہ کہتا ہے:
﴿ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِعاً وَّ ھُوَ حَسِیْرٌ o﴾
ذلیل و رسوا ہو گئی وہ آنکھیں ۔
آپ کو اندازہ ہونا چاہیئے کہ آپ کے قائد نے، آپ کی تحریک اور تنظیم کے بانی نے کتنی مستحکم بنیادوں پر آپ کو لا کر کھڑا کیا اور دُنیا کے سامنے سفید دستاریں آپ کے سر پہ رکھ کے ایک Symbol کے طور پر کھڑا کردیا کہ یہ امن کے پیکر ہیں، یہ امن کے داعی ہیں، یہ عالمگیریت کی بات کر سکتے ہیں۔ یہی وہ تحریک تھی جس کی تڑپ آپ کو سلطان العارفین کے پنجابی کلام میں نظر آئے گی کہ
چڑھ چناں تے کر رُشنائی ذکر کریندے تارے ھُو
گلیاں دے وچ پھرن نمانے لعلاندے ونجارے ھُو
یہی امتزاج آپ کو اقبال کے ہاں نظر آتا ہے، یہی امتزاج آپ کو قرونِ وسطیٰ سے آنے والے لوگوں سے نظر آتا ہے۔ وہ آتا ہوا آپ کے اوپر فِٹ ﴿Fit﴾ ہوجاتا ہے۔ آپ اس امتزاج کے مستعار بن جاتے ہیں۔ آپ کی صورت میں میرے مالک نے وہ تحریک کھڑی کردی ہے۔ اب آپ اپنے قائد کیساتھ اپنے کارکنی کے رشتے کو دیکھیں کہ آپ پہ اُس نظریے کے پرچار کے لئے، اُس نظریے کی تکمیل کے لئے اور اس نظریے کے نفاذ کے لئے کیا فرائض عائد ہوتے ہیں؟ یہ آوازیں بلند ہونی چاہیئں اور الحمد للہ یہ آوازیں بلند ہیں۔ مجھے آپ سے اس بات کا کوئی شکوہ نہیں کہ آپ کی آوازیں بلند نہیں۔ الحمد للہ !آپ کی آوازیں بلند ہیں مگر آپ کی آوازیں گونجنی چاہیئں، آپ کی آوازوں میں وہ بے باکی، وہ گھن گرج اور رعد چمک ہونی چاہیئے کہ کسی بھی جگہ پہ اِس میں شک و شُبہ نہیں ہونا چاہیے کہ یہ قرآن کے سچے، پکے نظریے کی حامل جماعت چل رہی ہے۔ جب آپ بولیں تو لوگوں کو یہ اندازہ ہونا چاہیے کہ ہاں یہ اسی نظریے کی جماعت چل رہی ہے جنہوں نے اس پوری کائنات کا احاطہ کیا ہے۔ آج سائنس اونچائی پہ جانے کے جھوٹے دعوے کرتی ہے جنہیں خود اُن کے سائنسدان مسترد کر دیتے ہیں۔ یہ جماعت تو اس نظریے کی داعی ہے جو نظریہ چودہ سو سال قبل، یہ ستارے، سیارے کیا، ایک آسمان نہیں، دو آسمان نہیں بلکہ سات آسمانوں سے آگے، عرشِ عُلیٰ سے آگے، سدرۃُ المنتہیٰ سے آگے مقامِ ﴿قَابَ قَوْسَیْن﴾ پہ جاکے اپنے پروردگار کو سامنے دکھا دیتا ہے ۔ آپ کے اوپر اپنی اس وراثت کے حوالے سے، اپنے اس نظریے کے حوالے سے ذمہ داریاں ہیں۔ جب ہم اپنی وراثت کے نظریے کو گنواتے ہیں، اس وراثت کی پرواہ نہیں کرتے تو پھر ہمارے ساتھ وہی حشر ہوتا ہے جیسے اقبال نے کہا:
گنوادی ہم نے جو اَسلاف سے میراث پائی تھی
ثُریّا سے زمیں پہ آسماں نے ہم کو دے مارا
آئو! نکلیں اور دیکھیں ہَوا لیں ہر سمت کی اور ہر طرف کو دیکھیں، ہر سمت کے موسم کو دیکھیں اور ان کے تغیر و تبدل کا جائزہ لیں پھر آپ دُنیا کے تمام علوم پر نظر دوڑائیں کوئی چیز آپ کو گمراہ نہیں کرسکتی، کوئی چیز آپ کو بہکا نہیں سکتی، کوئی علم آپ کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا، کوئی علم آپ کے پائے ثبات میں لغزش نہیں لاسکتا کیونکہ ہمارا یہ ایمان اور عقیدہ ہے کہ ہمارے رسول اور نبی نے، ہمارے ہادی نے ہمیں جو نظریہ عطا کیا جس کی ابتدا ’’ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ ہے اور انتہا ’’ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ ہے اس نظریے پر ہم اگر پوری استقامت کیساتھ اور اپنے قلبی مشاہدے کیساتھ کھڑے ہیں تو کوئی بھی علم آپ کو گمراہ نہیں کرسکتا لیکن ہمیں اپنے کھڑے ہونے کی استقامت پر کوئی شک ہے تو ہمیں یقینا اس سے محتاط رہنا چاہیے۔ یہی وہ نظریہ ہے جو کائنات کے ہر نظریہ کا ابطال کرتا ہے، یہی وہ نظریہ ہے جو کائنات کے ہر نظریہ کو ہیچ کردیتا ہے پھر یہ اپنی برتری اس صورت میں ظاہر کرتا ہے کہ اس سے ایک نئی تہذیب پھوٹی، ایک نئی کائنات پھوٹی اس سے ایک نئی روشنی کی نئی کرن ہی نہیں پھوٹی بلکہ اس سے کئی سورج طلوع ہوئے جو آج بھی آسمانِ علم کے اوپر، آسمانِ ولایت کے اوپر آسمانِ فقر کے اوپر، اور آسمانِ اِرتقائے علومِ مادی و روحانی کے اوپر چمک رہے ہیں۔ وہ کیسے کیسے سورج تھے۔ مَیں ہمیشہ یہ کہتا رہتا ہوں کہ ہمیں اس بات کا اندازہ لگانا چاہیے کہ آخر وہ کونسا نظریہ ہے اور آخر وہ کونسی تحریک ہے جو عرب کے بدوئوں، گڈریوں، ریوڑ چرانے والوں، ظالموں اور جاہلوں کو زمانے کا امام بنادیتی ہے اور کیسی تسکین اُن کے اندر پیدا کر دیتی ہے کہ کل تک وہ بدو تھے، کل تک وہ ریوڑیے تھے، کل تک وہ بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے لیکن آج جب کہ وہ اپنے اندر اس جرأت کو لے کر چلتے ہیں اور میدانِ عمل میں آتے ہیں اور سفارت کرتے ہیں تو ان جیسا کوئی سفیر نہیں ملتا، اَمارت کرتے ہیں تو ان جیسا کوئی امیر نہیں ملتا، ا گر تعمیر کرتے ہیں تو ان جیسا کوئی معمار نہیں ملتا، وہ سیاست کرتے ہیں تو ان جیسا کوئی با اُصول نہیں ملتا، وہ نظامِ عدل قائم کرتے ہیں تو ان جیسی کوئی عدالت قائم نہیں کرسکتا، وہ نظامِ مالیات کو ترتیب دیتے ہیں، لوگ زکوٰۃ دینے کے لئے پھرتے ہیں زکوٰۃ لینے والا کوئی نہیں ملتا۔ جب وہ میدان جنگ میں جاتے ہیں تو ان جیسا کوئی سالار نہیں ملتا، ان جیسا حکمت عملی مرتب کرنے والا نہیں ملتا۔ یہ کس چیز کا کمال ہے، یہ کونسی ایسی کیفیت ہے جو ایک دو لمحوں کے اندر ظلمت سے نکال کر نور میں لا دیتی ہے اور وہ نور پھوٹتا ہے تو عرب کے ریگزاروں سے یورپ تک چلا جاتا ہے، افریقہ تک چلا جاتا ہے، وہ ایران کو تسخیر کرتا ہے، وہ سنٹرل ایشیائ کے اندر چلا جاتا ہے، وہ ایشیائے کوچک تک چلا جاتا ہے وہ روئے زمین پر ایک نئی تہذیب، ایک نئی زندگی کو لے کر چلتا ہے، وہ زندگی جس کو اقبال نے دو حرفوں کے اندر بیان کردیا ہے کہ
منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں اور دوسری جگہ پہ کہا:
حافظِ ناموسِ زن ، مرد آزما مرد آفریں
یہ وہ تہذیب تھی جس نے اُمرأ اور سرداروں کو غریبوں کے سرمایہ کا نگہبان بنا دیا، ان کے استحصال کو ختم کردیا، ان کی سامراجیت کو ختم کردیا۔ یہی وہ نظریہ ہے کہ ’’حافظ ناموس زن مردآزما مرد آفریں ‘‘ جو اس کائنات کے متنازع سیاسی مسائل تھے جو آج بھی متنازع سیاسی مسائل ہیں ان کو یہ پورا تحفظ فراہم کرتا ہے کہ ’’حافظ ناموس زن مردآزما مرد آفریں ‘‘ اسی نظریے کی کوکھ سے کئی مردانگیاں نکلتی ہیں۔ وہ مردانگی صرف شہوت کے جذبے یا پہلوانی و پنجہ آزمائی سے عبارت نہیں ہے بلکہ اس سے وہ مردانگی پھوٹتی ہے جو کسی عورت کے اندر بھی ہوسکتی ہے، کسی ہیجڑے کے اندر بھی ہوسکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ جس کو آپ ﴿ Male﴾ کہتے ہیں اس کے اندر مردانگی کا ﴿Flow﴾ ہو، صرف اس کے اندر مردانگی پروان چڑھے بلکہ وہ مردانگی حقیقی طور پر آپ کے باطن کی اس جرأت کا نام ہے، آپ کے اندر کی اس حمیت کا نام ہے، آپ کے ضمیر کی اس غیرت کانام ہے کہ جو اپنے اور خالق کے درمیان کسی پردے کو برداشت نہیں کرتی، کسی حجاب کو برداشت نہیں کرتی اور بلا حجاب اپنے مالک کا مشاہدہ اپنے قلب کی نگاہ سے کرتی ہے یہ مردانگی اس مشاہدہ کا نام ہے۔ جیسا کہ غوث الاعظم پیرانِ پیر سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہُ اپنے فارسی کلام میں فرماتے ہیں :
شکر للہ نہ مُردیم و رسیدیم بہ دوست
آفریں باد بریں ہمَّتِ مردانۂ ما
طَالِبُ الدُّنْیَا مُخَنَّثٌ دنیا کا طالب ہیجڑہ ہے، طَالِبُ الْعُقْبٰی مُؤَنَّثٌ آخرت کا طالب عورت ہے، طَالِبُ الْمَوْلٰی مُذَکَّرٌ جو مولیٰ کا طالب ہے وہ مرد ہے۔
یہ ہماری میراث ہے جوہمارے ہاتھ میں ہے، جو ہمارے قلب میں ہے توہم نہ ذلیل ہیں نہ رسوا بلکہ اس کائنات کے امیر ہیں، اس کائنات کے حاکم ہیں کیونکہ ہمیں اپنے اوپر کسی کی حاکمیت قبول نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے کیونکہ حاکم اعلیٰ خدا کی ذات ہے اور انسان اس کا نائب بن کر، اس کا خلیفہ بن کر اس کی نیابت کا سہرا اپنے ماتھے پر باندھ کر اس کی خلافت کا تاج اپنے سر پہ سجا کے جب زمین پر چلتا ہے تو پھر وہ مال و دولت کا امین بھی ہوتا ہے، حافظِ ناموسِ زن بھی ہوتا ہے اور مرد آفرین بھی ہوتا ہے۔
یہ وہ بنیادی اور ابتدائی باتیں ہیں جو میرے حضور مرشد کریم ، قائد محترم میرے والد گرامی سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ کے اس عالمگیر نظریے اور اس عالمگیر سوچ سے ہمیں نظر آتی ہے جس کی عکاسی کی ہمیں پوری تصویر ملتی ہے ۔ مَیں آپ تمام بھائیوں اور بزرگوں سے گزارش کرو ں گا کہ یہی ہماری میراث ِ اصلی ہے جو آج بھی ہماری ناموس اور شوکت و ثروت کی نگہبان ہوسکتی ہے اور قبر میں بھی ہمیں تاریکی سے بچا سکتی ہے اور حشر کے دن بھی ہمیں رسول اللہ کی بارگاہ میں شرمندہ نہیں ہونے دے گی۔
میرے تحریکی ساتھیو ! بالخصوص ایک چیز اپنے ذہن میں بٹھا لیں کہ آپ کے پاؤں میں کسی مسلک کی، کسی فرقے کی زنجیر نہیں، آپ کے افکار اور آپ کے خیالات جو قرونِ وسطیٰ میں اٹکے ہوئے ہیں اُنہیں قرونِ وسطیٰ سے اُٹھائیں اور اکیسویں صدی کے اندر لا کر ﴿Practice﴾ کریں ۔ تاریخ کا ایک دورانیہ ہے کائنات چلتی رہی ،علوم کا ارتقأ ہوتارہا بالآخر چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی آ پہنچی جس میں ایک تازہ اور خوشگوار نظریہ وجود میں آیا اور توہّماتی و غیر دوامی نظریات کا ابطال کرتا گیااور جو نظریہ بھی چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی کے عرب نظریات کے ساتھ آکے ٹکرایا وہ ایک ﴿Myth﴾ کی طرح ٹوٹتا گیا۔ایک ایک کرکے سب نظریے ٹوٹتے گئے چاہے یونانی نظریہ تھا ،چاہے رومی نظریہ تھا ، چاہے افریقی نظریہ تھا ،چاہے وہ عجمی نظریات تھے ان تمام نظریات کو ﴿لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ﴾ کی تلوار کاٹتی گئی اور وہ دور ہوتا گیا۔ جب مغرب کے بڑے بڑے بلند پایہ فلسفی جنہیں آج مغر ب صرف اس لئے پیش نہیں کرتا کہ ان کے افکار سے، ان کے علمی پسِ منظر سے اسلام کی علمی شان و شوکت کی تصویر لگی ہے۔ ابن مامُون جیسے ان کے بڑے بڑے سکالر جو یہودی تھا اور قرطبہ کی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھا، مغرب کی پوری سوچ اُس کے گرد گھوم گئی ۔ ہماری وہاں تک ایک شان و شوکت رہتی ہے۔ اس درمیان ہم نے بہت سارے عروج و زوال دیکھے لیکن جب علم کا ارتقأ ہم سے چھِن گیا، وہ مشرق سے ختم ہوکر مغرب میں گیا تو مغرب کو برتری حاصل ہوگئی اسی لئے تو اقبال نے ہمیں کہا تھا کہ
یہ نقطہ سرگزشتِ ملّتِ بیضا سے ہے پیدا
کہ اقوامِ زمین ایشیائ کا پاسبان تُو ہے
ایشیائ کے اندر جو وقار رہا، جو علمی جاہ و ثروت رہی وہ ملّتِ بیضا کی بدولت رہی ۔ اے مرد ِ مسلمان! تو ملّتِ ایشیائ کا پاسبان اور نگہبان ہے۔ وہ تما م چیزیں مغرب میں منتقل ہوتی ہیں اور جب اُنیسیویں صدی کا سورج طلوع ہوتے ہی وہ انقلاب دہرا دیا جاتا ہے جو انقلاب چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی میں تھا اور جو نظریہ اس عرب جدّت پسندی سے آکر ٹکرایا وہ متھ بنتا گیا۔ آج وہی کیفیت ہے۔ ہمارے علمائ مشائخ اور مشرق کے زیادہ تر اہلِ علم اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آج جو بھی نظریہ قرونِ وسطیٰ سے اٹھے گا وہ آکر اکیسویں صدی سے ٹکرائے گا اور پاش پاش ہوجائے گا۔ وہ نظریہ ﴿Survive﴾ نہیں کرسکتا کیونکہ اب سائنس کا ارتقأ، فلسفے کا ارتقائ، علوم کا ارتقا ٔایک نئی سمت کو جارہا ہے اور آپ کو پورے نظام فکر کے اندر رہتے ہوئے اپنے نظام کے دفاع کی خاطر اور اپنے نظام کے بقا کی خاطر، کہ آپ کا نظام فکر ہے تو آپ ہیں، وہ نظام فکر آپ سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ اُس کے پائوں مت باندھیں، اُس کو بیڑیاں مت ڈالیں، اُس کو محدود مت کریں وہ تو عالمگیر ہے اس کو عالمگیر رہنے دیں، وہ عالمگیریت میں ہی رہ سکتا ہے، وہ آپ کے سنی، شیعہ، وہابی، معتزلہ،فلاں، فلاں، فلاں کے نظریات میں آکے جب وہ جکڑا جاتا ہے تو اُس کا دم گھٹتا ہے، اُس کا ارتقا ختم ہوجاتا ہے، اُس کی روح نکل جاتی ہے۔
مَیں آپ سے گزارش کروں گا کہ ان تمام تفریقوں سے بالا تر ہو کر قرآن کا مطالعہ کریں ، قرآن کاکوئی شیعہ ترجمہ نہیں چلے گا، قرآن کاکوئی سنی ترجمہ نہیں چلے گا۔ قرآن کا کوئی وہابی ترجمہ نہیں چلے گا۔ اکیسویں صدی تقاضا کرتی ہے کہ اپنی اس میراث کو مت گنوائو۔ قرآن کو کسی اور نظام فکر کی تناظر میں سمجھنے کی بجائے خود قرآن کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرو۔ میرے بھائیو، میرے تحریکی ساتھیو! یہ بلند پایہ اور وسیع و عریض نظریات جو پوری اس ﴿Universe﴾ کا احاطہ کرتے ہیںان کے اوپر آپ کے نظریے کی اُٹھان ہے، ان کے اوپر اصلاحی جماعت اور تنظیم العارفین کی بنیادیں قائم ہیں اس لئے دنیا کی رفتارکے ساتھ ہمیں چلنا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کے قدم رکے نہیں، آپ کے قدم تھمے نہیں۔ میرا آپ سے مدعا یہ ہے کہ اپنے قدموں کو تیز کریں اپنی رفتار کو تیز کریں۔اَللّٰہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہوگا۔u