-پاکستان کا اگر سیرت النبی (ﷺ) کے تناظر میں مُطالعہ کیا جائے تو بہت سے حیرت انگیز پہلُو نکلتے ہیں جو بڑی مفید اور کار آمد راہنمائی فراہم کرتے ہیں۔۔۔
قلب و نظر کا اِنقلاب
متعلقہ لنکس
دُنیائے فلسفہ میں اسطورات کا عظیم باغی ، فلسفۂ یونان کا بانی اور افلاطون و ارسطو کا اُستاد ’’سقراط‘‘ ایک سنگ تراش کا بیٹا تھا اور پیدائشی طور پہ بے۔۔۔
کثیر الجہت و مافوق الفطرت داستانوں سے مزین تاریخِ جموں و کشمیر بہت پرانی ہے-جدید کشمیر کی تاریخ جغرافیائی، سماجی، سیاسی و مذہبی اعتبار سے 1864ء کے بد نام زمانہ۔۔۔
اکیسویں صدی جہاں سائنسی ترقی و مادی ترقی کے عروج کا مشاہدہ کر رہی ہے وہیں بدقسمتی سے اِسے اخلاقی اور روحانی زوال بھی پیش ہے-انسانی معاشرے بحیثیت مجموعی اخلاقی اقدار۔۔۔
افسوس!ہمارے ہاں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کی عظمت میں فقط ایک ہی پہلو اجاگر کیا جاتا ہے۔۔۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے خانوادۂ عالیہ میں جن نفوس قدسیہ کو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے چشمۂ فیضانِ سلطان العارفین کے جاری رہنے کی دلیل کہا جاتا ہے...
جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُوؒ نے اپنی ایک تصنیف میں فرمایا کہ: ’’یہ محبت ہی ہے جو دل کو آرام نہیں کرنے دیتی ورنہ کون ہے جو آسودگی نہیں چاہتا ‘‘-
تصوف کا اشتقاق مادہ ’’صوف‘‘سےبابِ تفعل کا مصدر ہے- اُس کے معنی ’’اون‘‘کے ہیں- لغویت کے لحاظ سے اون کا لباس عادتاً زیبِ تن کرنا ہے- لفظ صوف کی جمع ’’اصواف‘‘ ہے...
تصوف یا صوفی ازم اسلامی تہذیب و ثقافت کی اساسیات اور علومِ دینیہ کے اہم ترین موضوعات میں سے ہے جس کے مبادی، منابع اور مآخذ قرآن و سنت سے ثابت ہیں...
آج جس موضوع پہ گزارشات بیان کرنے جا رہا ہوں وہ ایک خالص علمی موضوع ہے جس کا تعلق براہ راست ہماری دینی اور ملی زندگی سے ہے- کیونکہ اس کے ساتھ ہماری روحیں جڑی ہیں؛
تحریر: صاحبزادہ سلطان احمد علی
پاکستان دُنیا کی نظر میں ایک جغرافیہ ہے، ایک خطۂ زمین ہے، ایک مملکت ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے کے اندر یہ اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا راز ہے پاکستان کا وجود خالصتاً رُوحانی وجود ہے ۔ پاکستان کا خواب کسی سیاستدان نے نہیں دیکھا، پاکستان کا تصور کسی سیاسی کارکن کا دیا ہوا نہیںبلکہ یہ ایک قلندر اور درویش کا دیا ہوا ہے۔ اس کی فائل کے متعلق بے شمار گواہیاں جن کی سند بہت سی کتب میں بہت سی معتبر شخصیّات کی زبانی موجود ہے کہ رسول اللہﷺ نے رُوحانی طور پہ کئی لوگوں کو بشارتیں دیں کہ پاکستان کی فائل مجلس نبویﷺ سے قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو عطا کی گئی ہے جس فائل کا مقدمہ لڑ کر قائد اعظمؒ نے اس ملک کو حاصل کیا۔تو ایک یہ اس کا رُوحانی وجود ہے۔اور اسی دن ۔۔۔ ایسے واقعات وقوع پذیر ہوئے جن واقعات میں سے ایک واقعہ سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحبؒ کی ولادت ہے۔ یہ اس بات کی دلیل اور منہ بولتا ثبوت ہے کہ پاکستان اس دن تخلیق ہوا جس دن فقر کے سلطانِ ششّم نے کائنات کے اندر جلوہ گر ہوناتھا۔
اگر ہم یہ سمجھیں کہ یہ دونوں واقعات باہم دِگر مماثل نہیں تو یہ غلط ہوگا کیونکہ یہ ہم اس وقت سمجھتے کہ اگر پاکستان کے بنیادی نظریات اور سلطان الفقر ششمؒ کے افکار میں کہیں ذرا برابر تصادم ہوتا تو ہم یہ سمجھتے کہ شاید انکی آپس میں کوئی مماثلت نہیں مگر پاکستان اپنے وجود کے بنیادی نظریات کے اعتبار سے اور سلطان الفقر ششمؒ کے افکار عالیہ جن کا ہم نے مشاھدہ کیااور آج تک کر رہے ہیںان میں کہیں ذرا برابر تصادم نہیں ہے ۔ تو اسی لیے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ایک ہی فیضان کی تمام کڑیاں ہیں جو بتدریج آگے چل رہی ہیں۔ مَیں تھوڑی سی وضاحت یہ کرنا چاہوں گا کہ پاکستان کے بنیادی نظریات کو اگر آپ دیکھیں تو وہ ایک درویش اور عارف کے نظریات تھے، وہ ایک قلندر کے نظریات تھے جن میں واضح طور پہ یہ بات موجود تھی کہ پاکستان کے اندر ملائیت کا نفاذ نہیں ہوگااورملائیت کی دو قسمیں ہیں ایک مذہبی ملائیت ہے اور دوسری سیکولر ملائیت۔ نظریاتِ پاکستان نے اور افکارِ سلطان الفقر نے ان دونوں ملائیتوں کی نفی کی ہے۔ پاکستان خالصتاً عشق اور فقر کی بنیادوں پر قائم ہے اور سلطان الفقر کا پیغام بھی عشق اور فقر ہے۔ اسی طرح پاکستان نفی کرتا ہے ان تمام نظاموں کی جو اللہ اور دِین کی راہ میں رکاوٹ ہیںاور اثبات کرتا ہے خدا کی توحید کا کہ توحید وہ مقام ہے جہاں انسانیت کو ایک نکتہ پہ متحد کیا جا سکتا ہے۔ سلطان الفقرؒ کا پیغام بھی ہم یہی دیکھتے ہیں کہ نفی ہے تمام بتوں کی وہ بت ہم نے اپنی مادی کائنات کے اندر پال رکھے ہوںیا وہ بت ہم نے فرقوںکی اور طبقات کی صورت میں پال رکھے ہوں، سلطان الفقر کا پیغام ان تمام بتوں کی نفی ہے اور اثبات ہے فقط اور فقط توحید کا۔ جو جملہ حضرت سلطان باھوؒ نے بار بار اپنی کتب میں لکھا وہ سلطان الفقر کے پیغام کا مغز ہے کہ ’’اللہ بس ماسوی اللہ ہوس‘‘ یہ مماثلت جب ہم پاکستان او ر سلطان الفقر کے درمیان دیکھتے ہیں تو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ اسی دن آپ کا جلوہ گرہونااور پاکستان کا بھی اسی دن معرض وجود میں آنایہ دو مختلف نہیں بلکہ ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اگر ہم سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علیؒ کے بچپن کا جائزہ لیں تو وہ خالصتاً فقر کے ماحول میں تھا۔ وہ فقر جس میں بے نیازی بھی تھی ، جس میں خودداری بھی تھی، جس میں خودی بھی تھی اور جس میں جنیدی بھی تھی اور اُردشیری بھی تھی۔ آپ کی زندگی کے دو واقعات میں سامنے رکھوں گا ایک کا تعلق جنیدی سے ہے اور دوسرے کا تعلق اُردشیری سے ہے۔ آپ ایک واقعہ اکثر فرماتے تھے ﴿راقم نے سلطان الفقرؒ کی زبانِ اقدس سے بارہا مرتبہ یہ واقعہ سنا ﴾ کہ آپؒ جب بچپن میں تھے تو آپ کے دادا حضور اور میرے پردادا حضرت سلطان فتح محمدؒ جو کہ شہبازعارفاں حضرت سلطان محمدعبدالعزیزؒ کے والدِ گرامی تھے۔ آپ کے ساتھ ایک فقیر رہے جن کا نام بابا احمد تھا۔ بابا احمد جب بالکل قریب المرگ تھے تو چارپائی پر بیٹھے تھے توآپؒ قریب سے گزرے تو بابا احمد نے آواز دے کر بلایاکہ ’’اَصغر چن میری بات سنیں‘‘۔ آپؒ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں گیا اور قریب چارپائی پہ بیٹھ گیا تو مجھے بابا احمد نے کہا کہ’’ چن! ساری زندگی ہتھ پیر چماونے ہن یا کجھ کھٹنا ہے؟‘‘ ﴿تمام عمر ہاتھ پاؤں ہی چموانے ہیں یا کچھ حاصل بھی کرنا ہے﴾ تو آپؒ فرماتے تھے کہ مَیں نے بابا احمد کو بڑی حیرت سے دیکھا اور کہا کہ ’’مَیں کَھٹنا ہے‘‘ ﴿میں نے حاصل کرنا ہے ﴾۔ تو بابا احمد نے جس طرف حضرت سلطان محمد عبدالعزیزؒ تشریف فرما تھے اس کمرے کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ’’ اگر کھٹنا ای تے اُس جوان دا پترنہ بنیں اوہدی غلامی کریں ‘‘ ۔ ﴿اگر حاصل کرنا ہے تو اُس سے تعلُّق باپ بیٹے والا نہ رکھنا بلکہ طالبِ مولا بن کر رہنا﴾ تو آپ فرماتے ہیں کہ پہلے بھی میرے ذہن میں اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں تھا مگر بابا احمد نے جب یہ کہا تو اس دن سے میں نے یہ قسم کھا لی کہ مجھے ایک وفادار ساتھی نے ایک باوفا مشورہ دیا ہے اور میں انشائ اللہ اس عہد کے ساتھ وفاکروں گا۔ تو پھر آپ فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی بھی حضرت سلطان عبدالعزیزؒ سے باپ بیٹے والا رشتہ نہیں رکھا کہ جس میں فقط وہ ایک روایتی مسند نشینی اور جانشینی آگے چلتی رہے۔ کیونکہ آپ حضرت سلطان باھوؒ کی اولاد تھے اگر آپ کچھ حاصل نہ بھی کرتے تو پھر بھی لوگوں نے ہاتھ تو چومنے تھے، لوگوں نے پائوں بھی چومنے تھے، لوگوں نے نظر نیاز اور نذرانے بھی حضرت سلطان باھوؒ کی نسبت سے دینے تھے۔ مگر آپ نے اس پہ اکتفائ نہیں کیا اور یہ ہمارا یقین ہے کہ سلطان الفقرؒ بطنِ مادر اور آغوشِ مادر میں بھی سلطان الفقرؒ ہوتا ہے۔ مگر ایک عملی جستجو سنتِ نبویﷺ سے عبارت ہے جیسا کہ رسولِ پاک ﷺ بطنِ مادر میں بھی نبی تھے، آپ آغوشِ مادر میں بھی نبی تھے، آپﷺ دائی حلیمہ کی آغوش میں بھی نبی تھے، آپﷺ کی تمام زندگی مبارک نبوت سے خالی نہیں ہے مگر رسولِ پاک ﷺ نے نبوت کی تکمیل کی خاطر عملی جستجو کی اور آپ نے عملی طور پہ اس چیزکو آگے بڑھایا۔ یہ واقعہ تو تھا جو جنیدی کے حوالے سے آپ نے فقرِ محمدی ﷺ کو اپنی ایک میراث گردانتے ہوئے طالبِ مولیٰ کی حیثیّت سے عملی جدوجہد کی اور اس چیز کو پایا ۔ اُردشیری کے حوالے سے حضور سلطان الفقرؒ کے بچپن کا واقعہ آپ اکثر فرماتے تھے کہ مَیں نے اپنی زندگی کے تجربات میں اورزندگی کے بڑے حصے میں دین ہی سیکھا ہے مگر ہمیں اس کے ساتھ دنیا داری کے تقاضے بھی سکھائے گئے۔ دُنیا داری کے تقاضوں کے اندرہمارے خاندان کی جو ایک روایت آرہی تھی گھڑسواری کی۔ مَیں نے خود گھڑسواری کی ہے اوراُن آداب کے ساتھ کی جو صدیوں سے ہمارے خاندان میں مقرر ہیں۔ آپؒ اکثر یہ فرماتے تھے کہ جس شخص نے دنیا داری کے گر سیکھنے ہیں وہ حضرت سلطان باھُوؒ کے خاندان کی تازی داری کو سیکھے اسے پتہ چل جائے گا کہ دُنیا داروں کے ساتھ معاملہ کیسے کیا جاتاہے۔ مَیں یقین سے کہتا ہوں کہ جس نے اُن آداب اور ایٹی کیٹس کے مطابق شہہ سواری سیکھی ہے اُس سے بہتر زمانہ شناس کوئی نہیں ہو سکتا۔ شہ سواری میں آپ نے مکمل طور پہ گھوڑے پہ غالب رہنا ہے اور گھوڑے کے ساتھ ظلم بھی نہیں کرنا، زیادتی بھی نہیں کرنی، مارنا بھی نہیں، اس کو گالی بھی نہیں دینی اور اس کو اپنے تابع بھی رکھنا ہے اور تھان پہ گھوڑے کی خوراک میں کمی بھی نہیں آنے دینی اور طاقتور سے طاقتور گھوڑا رکھنا ہے، گھوڑی کی سواری کرنی، کمزور گھوڑے کی سواری نہیں کرنی، منہ زور گھوڑے پر بیٹھنا ہے اسے مارنا بھی نہیں اور اسے قابو بھی رکھنا ہے۔ تومَیں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ زندگی کے وہ مراحل ہیں جس کو ایک عام انسان یہ سمجھتا ہے کہ یہ کیا کہ آپ باگیں پکڑکے کہتے ہیں اتنا بڑا کوئی گُر ہم نے سیکھ لیا ہے۔ مگر ایک چیز ہمیں ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جو فن آپ کی اُنگلیوں سے آگے چلتا ہے آپ سمجھ لیں کہ اُس فن کاآپ اگر سمندر کے ساتھ بھی موازنہ کرتے ہیںتو آپ اُس فن کی تحقیر کر رہے ہیں۔ گوکہ بہت کم ایسے فنون ہیں جو انگلیوں سے نکلتے ہیں اُن میں ایک راگ ہے اور دوسرا باگ۔یہ دونوں چیزیں انگلیوں سے نکلتی ںہیں۔ جو ان دو سے معاملہ کر لیتا ہے انہیں استاد کہتے ہیں، آپ انہیں بڑے لوگ کہتے ہیں۔ گو کہ شریعتِ اسلامی کے مطابق سلسلہ عالیہ قادریہ کے طریقِ کار کے مطابق راگ ہمارے خاندان اور سلسلے میں نہیں ہے مگر جو باگ ہے یہ وہ فن ہے کہ جو آپ کو کاروبارِ زمانہ اور دنیا کے گھوڑے پر طاقتور بناتا ہے ، آپ کو بھاری کردیتا ہے۔ اسی دنیا داری کا وہ اثر تھاکہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ جب 1987ئ میں مرشد کریمؒ نے جماعت کا سلسلہ شروع کیا تو آپ نے کوئی بلند و بانگ دعوے نہیں کیے، کوئی بڑے بڑے لارے نہیں لگائے، انتہائی Low Profile طریقے سے جماعت کا کام ہوا، کسی کے ساتھ ہماری دُشمنی نہیں ہے، اِن 23 برسوں میں جماعت یا اِس کے Serving ساتھیوں پہ کوئی مقدمہ یا پرچہ نہیں جماعت نے اگر تنقید کی بھی ہے تو اِن الفاظ کے اندر کی ہے کہ آدمی نے اس کو اپنی اصلاح محسوس کیا ہے اس کو اپنے اوپر تنقید محسوس نہیں کیا ۔اسی طرح یہ جو فرقہ واریت ہے، اور تقسیم در تقسیم کا عمل، طبقاتی تفریق ، اس سے نجات بھی ملی اور لوگوں کو محسوس بھی نہیں ہوا کہ یہ اتنی سخت باتیں ہورہی ہیں اور ان کو اتنی آسانی کے ساتھ اتنے آرام کے ساتھ آپ نے پیش کیا۔ پھر خانقاہی لوگوں کا ایک مزاج ہوتا ہے جو خانقاہی لوگ ہیں ان کو اگر آپ ایک تحریک کی شکل میں لانا چاہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ بالکل ایسے ہے جیسے آپ ایک انہونی کررہے ہیں ،آپ فطرت کے خلاف کر رہے ہیں۔ پچھلی چار صدیوں میں خانقاہی لوگوں نے جمود اور تعطل کاجو مزاج اپنا رکھا ہے اس میں خانقاہ سے کسی تحریک کا شروع ہوجانایقینا کسی ایسے ہی شخص کا کمال ہو سکتا ہے کہ جس کے ہاتھوں کے اندر وہ باگ ہو اور اس باگ کے اوپر اس کی گرفت بڑی مضبوط ہو۔ آپ نے دُنیاوی مشاغل میں زمین داری اور ٹھیکیداری بھی کی ۔ آپ کی دینی زندگی تو تھی ہی قرآن و سُنّت کی عملی تفسیر! آفرین تو آپ کے فرمائے ہوئے دُنیاوی فیصلوں پہ بھی ہے کہ جِن میں کوئی ایک بھی قرآن کریم اور سُنّتِ رسولﷺ سے باہر نہیں ہے مجھے بچپن سے ہی اچھی طرح سے یاد ہے کہ حضور سلطان الفقرؒ اپنے تمام جماعتی اور نجی فیصلوں پہ جیّد و معتبر علمائے کرام سے مشاورت کے بعد ہی حتمی فیصلہ فرماتے جن میں شیخ القرآن مولانا منظور احمد صاحب ، مفتی اشفاق احمد صاحب اور مفتی صالح محمد صاحب کا ذکر خاص طور میں یہاں کرنا چاہوں گا ایک بہت ہی مشہور شعر ہے کہجن کی ہر ہر ادا سُنّتِ مصطفیﷺ ایسے پیرِِ طریقت پہ لاکھوں سلام
آپؒ نے رسولِ کریم ﷺ کی سنت اور قرآن کے احکام 1947ئ سے اپنے مرشد اور اپنے والد کی بارگاہ سے سننا شروع کیے اور آپ کی تمام زندگی قرآن اورسنت کو ایک راہنمائ اصول بنا کے گزری ہے اور رسولِ پاکﷺ نے جس طرح چالیس سال کی عمر میں اعلانِ نبوت فرمایا تھامیرے مرشد ِ کریم نے اس سنت کو زندہ کیااور یہ انٹینشنلی نہیں تھا کہ یہ بات ریکارڈ پہ آئے گی کہ ہم نے چالیس سال کی عمرمیں یہ کیا بلکہ یہ قرآن و سنّت کی عملی تفسیر ہونے کا ثبوت ہے کہ قدرت نے یہ اتفاق بنایا کہ1981ئ میں حضرت سلطان محمدعبدالعزیزؒ کا انتقال ہوتا ہے تو 1986ئ تک حضرت سلطان محمد صفدرعلیؒ مسندِ ارشاد پہ جلوہ فرما ہوتے ہیں تو اس کے بعدسلطان محمد صفدرعلی صاحبؒ کے انتقال کے بعد 1986ئ کے آخر میں آپؒ مسند پر جلوہ فرما ہوئے۔ 1987ئ میں آکر آپؒ نے جماعت کی عملی شکل کا اعلان کیاتو اس سے ہمیں پیغام یہ ملتا ہے کہ وہ اسباب ایسے بنے اور حالات و واقعات ایسے پیدا ہوئے کہ اتفاقاً آپؒ کی عمر چالیس برس کی ہوئی آپ نے تحریک کا اعلان کیا یہ اس سنت کی ترجمانی تھی کہ جو رسولِ کریم ﷺ نے اعلانِ نبوت کی سب سے پہلی سنت آپ نے بنائی اور اپنائی تھی ۔ اس میں ایک بات کو واضح کردوں کہ ایک چیز کا رسول اللہﷺ پہ اختتام ہوا ، ایک چیز رسول اللہﷺ سے شروع ہوئی۔ اختتام ہوا نبوت کااور آغاز ہوا فقر کا اور نبوت کے دوران اعلانِ نبوت سے بھی اگر آپ دیکھیں تو رسولِ پاکﷺ تاریخ نبوت میں یقینا امام الانبیائ بھی خاتم النبیین بھی ہیں اور تاریخ میں یہ آپﷺ ہی کا نام ہے آپﷺ نے بیک وقت دو ڈیوٹیا ں سرانجام دیںاللہ تعالیٰ کی۔ ایک تو آپ نے اس نبوت کی ڈیوٹی سرانجام دی جو بطورِ نبی آپ کے ذمہ تھی دوسری آپ نے بطورِ مرشد وہ ڈیوٹی سرانجام دی جو کہ فقر کی دولت آپ سے چلی تھی یعنی رسول پاکﷺ بیک وقت مسندِ نبوت پہ بھی جلوہ فرما تھے اور مسندِ ارشاد پہ بھی جلوہ فرما تھے کیونکہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا اس لیے جو مسندِ ارشاد ہے وہ رسول اللہ کے فقر کی وراثت ہے اور اس فقر کی مسند کو جو اپناتا ہے اس کو فقیر کہتے ہیں ، اس کو صاحب ارشادکہتے ہیں، اس کو مرشد کہتے ہیں اور یہ مرشد کی سب سے بڑی نشانی ہوتی ہے کہ وہ رسولِ پاکﷺ کی سنت کو زندہ رکھتا ہے۔
ایک چیز بڑی واضح ہے کہ مروّجہ خانقاہی نظام کی مخالفت اور کھلے لفظوں میں اس کی اصلاحات کی بات ہم نے اپنے مرشدِکریم کی بارگاہ سے دیکھی بھی اور سنی بھی۔ مجھے لفظ بلفظ آپ کے وہ الفاظ یاد نہیں مگر مجھے وہ مفہوم یاد ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ جس طریقہ کار کے مطابق خانقاہی سلاسل کام کر رہے ہیں اس سے گمراہی میں اضافہ ہو رہا ہے یہ خاموشی سے بیٹھ جائیں لوگ گمراہی سے بچ جائیں گے۔ یہ جو آپ کی بصیرت، تجزیہ اور Wisdom تھا یہ ان چار سو سال کی اس خانقاہی زوال کی تاریخ کا احاطہ کرتا ہے کہ جو مسند نشینوں نے رویے اپنا رکھے ہیں۔ آپؒ اکثر یہ کہتے تھے کہ پیر ہونے کا معیار یہ نہیں کہ آپ پیر کی اولاد ہیں بلکہ پیر ہونے کا معیار اس سے بہت مختلف ہے۔ اگر پیر ہونے کا معیار یہ رکھ دیا جائے کہ میں پیر اس لیے ہوں چونکہ میرا باپ پیر تھااور وہ پیر اس لیے تھا کیونکہ اس کا باپ پیر تھا تو پھر اس کا نتیجہ گمراہی، جہالت اورغفلت کےعلاوہ کچھ نہیں نکل سکتا۔ ایک تو خانقاہی نظام کا یہ پسِ منظر تھا جس کی وجہ سے آپ نے خانقاہی نظام کی مروجہ خرافات کی تطہیر کی اور آپ نے وہ حقیقی نظام جو گنبدِ خضریٰ سے ماخذ ہے اس کی تجدید کی بات کی۔ اس کے اندر آپ نے جو عملی اقدامات فرمائے ان سے ہم یہ جائزہ لے سکتے ہیں کہ کس قدر آپ نے مروجہ خانقاہی نظام کے ابطال کے لیے اور گنبدِ خضریٰ کا نظام جو سلطنتِ مدینہ پر پریکٹس کیا گیااس نظام کے احیائ کے لیے آپ نے یہ عملی اقدامات اٹھائے مثلاً آپ ایک بات فرماتے تھے کہ جو نذر نیاز اور نذرانہ آتاہے یہ کس کی ملکیت ہے؟ کیا یہ خانقاہ کی، لنگر کی ملکیت ہے یا اس پیر یا مسند نشین کی جس کو پیش کیا جارہا ہے؟ آپؒ نے اس پر روشنی ڈالی کہ یہ جس مسند نشین کو پیش کیا جارہا ہے یہ اس کی ملکیت نہیں ہے یہ لنگر کی ملکیت ہے۔ اور دیکھیں آج جدید سسٹمز کی آپ کو جو ریفارمز نظر آتی ہیں وہ اِسی پر بُنیاد رکھتی ہیں۔ مَیں آپ کو اس کی مثال دے سکتا ہوں مثلا آپ کوئی فلاحی ادارہ چلاتے ہیں مَیں اگر اُس کو ڈونیٹ کرتا ہوں تو کیا وہ ڈونیشن آپکی ملکیت ہوگی یا اُس ادارہ کی؟ یقینا وہ ڈونیشن ادارے کی ملکیت ہے اور وہ قابلِ احتساب ہے۔ خانقاہ کو جب ہم یہ کہتے ہیںکہ یہ ایک فلاحی ادارہ تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو جو ڈونیشن دی جاتی ہے جسے ہم اصطلاح کے اندر نذر نیاز کہتے ہیں ڈونیشن بھی کہہ سکتے ہیں وہ ڈونیشن یقینا ادارے کی ملکیت ہوگی۔ پھر ایک اور چیز جو ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نے ایک انقلابی تحریک کی بنیاد رکھی اور اس انقلابی تحریک کی بنیاد رکھنے کامطلب یہ تھا کہ یہ خانقاہی لوگ جو سوئے پڑے ہیں، جو دھمالیں ڈالتے ہیں،جو بھنگ رگڑتے ہیں،گھوٹے لگا تے ہیں اور سمجھتے ہیںکہ یہ تصوف ہے ۔ آپ نے کہا کہ یہ لوگ اسی چیز کے اندر مست ہوکر پڑے ہیںان کی انرجی ضائع ہورہی ہے، انکی توانائیاں ضائع ہو رہی ہیں ضروری ہے کہ یہ جو خانقاہوں کے ساتھ ہنڈرڈز آف ملین لوگ پوری دنیا میںوابستہ ہیںاگر ان کی تربیت کر دی جائے انہیںلوگوں کو شیطانیت کے سامنے کھڑا کر دیا جائے انہیں حزب الرحمن کا نمائندہ بنادیا جائے یہ اس کائنات کی تقدیر بدل کر رکھ دیں گے ۔ نوجوان جو سیکولر ہو چکے تھے جو منشیات کی طرف مائل ہوچکے تھے جو لا دینیت کی طرف مائل ہوچکے تھے جو دین سے دور ہوچکے تھے ، جو خدا رسول سے باغی ہو چکے تھے ان نوجوانوں کے دلوں کے اندر آپ نے روح پھونکی اور وہی جوان آج ہم دیکھتے ہیںکہ جب مساجد میں جاتے ہیں، پبلک مقامات میں جاتے ہیں یہ جب بڑے بڑے سکالرز کے ساتھ جاکر بیٹھتے ہیں تو وہاں پہ ان کا ایک سحر طاری ہوتاہے۔ وہ لوگ اس ہستی کامل کی نگاہِ تربیت کے تیار کردہ ہیں۔ ان کے جذبوں کو محفوظ کیا اور ان کو ضائع ہونے سے بچا لیااور ان کو ایک تحریک کا رنگ دیا۔ آج آپ دیکھیں یہ وہی تحریک ہے جو ایک خانقاہ کے اندر رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ ان بنیادوں پہ ہے جو علامہ اقبال نے کہا تھا کہنکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
رسم شبیری ادا کرنے کے لیے آپ نے خانقا ہ سے یہ لوگ اٹھا دیے۔ میں ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں۔ کہ بے شمار خانقاہیں ہیںہر خانقاہ کے ساتھ تھوڑے یا بہت لوگ Related ہیںاور وہ قصبوں میں بھی ہیں ، وہ دیہاتوں میں بھی ہیں وہ شہروں میں بھی ہیں اور وہ ترقی پذیر ممالک میں بھی ہیں، وہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہیں، وہ چپڑاسی کے عہدوں پر بھی فائز ہیں، وہ منسٹر بھی ہیں، وہ جج بھی ہیں وہ کلرک بھی ہیں، وہ تمام معاشرے میں جگہ جگہ پہ پھیلے ہوئے ہیں۔ اب اگر خانقاہ اپنا کردار ادا کر رہی ہوتی اور خانقاہ اپنے ان عجمی خیالات کے اندر غرق نہ ہو گئی ہوتی تو آج وہ لوگ ملّت کے اِس کٹھن مرحلے میں ایک کردا رادا کر رہے ہوتے ۔ دُنیا کو درپیش چیلنجز سے نبٹ رہے ہوتے۔مگر بدقسمتی سے جب خانقاہ نے اپنے اطواراور شیوے بدل لیے، خانقاہوں سے عمل کی تبلیغ اور دعوت کی بجائے جب رہبانیت کی دعوت نکلنے لگی، اس کائنات کو مسخر کر دینے کی بجائے جب خانقاہوں سے ترک دنیا کی آوازیںنکلنے لگیں اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ پوری عالم انسانیت اندھیرے ، ظُلمت اور جہالت میں ڈوب گئی۔
یہ احیائ جو سلطان الفقر نے اصلاحی جماعت اور عالمی تنظیم العارفین کی بنیاد رکھ کے کیا یہ آپ نے ان سوئے ہوئے لوگوںکو جگایا۔ اور میں نے دیکھا ہے کہ بڑے بڑے ڈاکو ، چور اور Criminal لوگ جب ان کے کانوں میں اس جماعت کی آواز پہنچی ہے ان لوگوں نے اس پہ لبیک کہا ہے اور آج وہی لوگ ہیں جو اصلاح یافتہ ہوکر جب نکلتے ہیںتو ان کے رشتہ دار اس بات پر یقین نہیں کرتے کہ کیا یہ وہی آدمی ہے جو کل تک یہاں پہ ایک لٹیرا تھا، Criminal تھا، سب سے بڑا کرپٹ تھاآج یہ ایک مردِ مسلماں بن کے، ایک مردِمومن بن کے اپنا معاشرتی کردار ادا کررہا ہے۔ الحمد للہ دُنیا اس کی تقلید میں چلتی ہے ۔ دنیا اس کو دیکھتی ہے کہ یہ جاہل لوگ یہ ان پڑھ لوگ جنہوں نے ایک کلاس تک نہیں پڑھی ، جنہوں نے زندگی میںکبھی قرآن کوہاتھ تک نہیں لگایامگر جب وہ سپیکر پہ ، سٹیج پہ آتے ہیں اور وہاں پہ کھڑے ہوکر معرفتِ الٰہی کی اور مقصدِ حیات کی دعوت پیش کرتے ہیں تو لوگ اُنگلیاں منہ میںڈال کر دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم مانتے ہیں اس چیز کو کہ ہاں واقعی یہ علم اکتسابی نہیں بلکہ عطا ہے ۔تو یہ وہ محرکات ہیں،یہ وہ انقلابی تحریک کاایک بنیادی ڈھانچہ ہے جو آپ نے خانقاہی نعم البدل کے طور پہ پیش کیا ۔جسے ہم اصلاحی جماعت اور عالمی تنظیم العارفین کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ مَیں تحریکی حوالے سے ایک چیز عرض کروںگا کہ حضور مرشد کریم نے کبھی بھی ظہورِکرامت پہ زور نہیں دیااور اپنے طالبوں کی ظہورِ کرامت کی شعبدہ بازیوں میں تربیت نہیں کی۔آپ نے ہمیشہ جدوجہد اور جہدِ مسلسل اورمحنتِ شاقہ کو سب سے بڑی کرامت کہا ہے۔ مجھے وہ لفظ یاد آتے ہیںجب ڈاکٹر مہاتیر محمد کو ایک تقریب میں اسٹیج سیکریٹری نے مدعو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اب خطاب کیلئے آتے ہیں ’’ ایشیائی اقتصادی معجزے ‘‘ کے روحِ رواں ‘‘ ۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے اسٹیج پہ آتے ہی کہا کہ ’’ میں ایشیائی اقتصادی معجزے کا نہیں بلکہ ’’ ایشیائی اقتصادی جد ّ و جہد ‘‘ کا نمائندہ ہوں ‘‘ ۔ جب میں حضور سلطان الفقر کا پیغام اور اس کی پوری روح کو پورے خلوص کے ساتھ دیکھتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے آپ کی ان تعلیمات کو سامنے رکھ کے کہا ہے کہ معجزے سے قوموں کی تقدیریں نہیں بدلتیں، قوموں کی تقدیریں ان کی جہدِ مسلسل اور ان کی ہمت اور ان کی کوشش سے بدلتی ہیں ۔ اگر معجزوں سے تحریکیں چلتیں تو رسول اکرم ﷺ جب طائف سے نکل رہے تھے جبریل امین آکر کہتے ہیں یا رسول اللہ ﷺ آپ کہیں تو ان پہ پہاڑ الٹ دوں آپ نے فرمایا نہیں۔ اب بدر کے میدان میں رسول اللہ ﷺ ، اللہ کی بارگاہ میں یہ سوال کرتے ہیں الٰہ العالمین اگر یہ مٹھی بھر لوگ مٹ گئے تو تیرا نام لیوا کون ہوگا۔اس وقت رسول اللہ ﷺ یہ نہیں کہہ سکتے تھے اللہ کی بارگاہ میں کہ الٰہ العالمین اب یہ ہمارے بس کی بات نہیں ہے یہ ہم کوشش نہیں کرسکتے ۔ کیا کوشش کروں گا یہاں پہ لوگ شہید ہوجائیں گے اس لیے بہتر یہ ہے کہ ان کفار کے اوپر کوئی پہاڑ رکھ دے ۔ اگر رسول پاک کہتے کہ الٰہ العالمین ان پہ پہاڑ الٹ دے تو کیا خدا وند کریم محبوب ﷺ کی اس دعا اور التماس کی لاج نہ رکھتے ؟ کفار مکہ پہ اس وقت پہاڑ نہ رکھ دیا جاتا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو جنگِ بدر تھی وہ اِسلامی عسکری معجزہ نہیں تھا وہ اِسلامی عسکری کوشش تھی جہاد تھا جو کہ جُہد سے نکلا ہے ۔ نظام معجزوںسے نہیںنافذ ہوتے نظام کوشش سے نافذ ہوتے ہیں۔ حضور سلطان الفقر ششم نے جماعت کو معجزوں سے آگے نہیں بڑھایا، کرامت سے آگے نہیں بڑھایاآپ نے جماعت کو کوشش سے ،محنت سے آگے بڑھایا، دن کو سفر کیے، راتوںکو سفر کیے، بہار میں سفر کیے، خزاں میں سفر کیے،چھائوں میں سفرکیے ، دھوپ میں سفر کیے، گاڑیوں میں ، ہوائی جہاز پہ ،ریل پہ ، گھوڑوںپہ اور پیدل سفر کیے، تکالیف اٹھائیں، کانٹے لگے ، پتھروں کی نوکیں لگیں، چٹانیں چبھیں اور بہت سے لوگ آئے، بہت سے لوگ گئے ، آپ کے پائوں زخمی ہوئے، آپ کے کانٹوں سے اُلجھ کے کپڑے پھٹے اور آپ کو تکالیف ہوئیں مگر آپ نے پوری جدو جہد کی، پوری کوشش کی اور وہ تو وقت کا سلطان تھا، وہ فقر کا سلطان تھا، اُسے کیا ضرورت تھی ؟ کائنات اس کے تصرف میں تھی، اس کے غلام تھوڑے تھے غلامی کرنے والے۔ ایک جگہ پہ تشریف فرما ہوتے اور غلاموں کو وہیںسے آپ Manage فرماتے وہیں سے روانہ کرتے کہ جائو اور اس پیغام کو آگے لے چلو تو کیا غلام نہ نکلتے؟ نکلتے ! مگر مَیں یہ سمجھتا ہوںکہ ہماری نظروں میں ہمیشہ یہ پہلورہنا چاہیے کہ حضور سلطان الفقر جہاں ایک صاحبِ ارشاد مرشد تھے ، جہاںایک تنظیم اور تحریک کے قائد تھے، وہیں آپ نے تحریک کے کارکن کے فرائض بھی سرانجام دیے۔ کانفرنسز اور محافل کے بعد جب لنگر تقسیم ہوتا تھا حضور سلطان الفقر کو دیگ کے قریب بیٹھے اپنے ہاتھوں سے لنگر تقسیم کرتے ہوئے ہم نے دیکھا ہے۔ وہاں کیا کمی تھی جانثاروں کی؟ ۔ آج ہم دُنیا کے سامنے جاکر جب یہ بات کرتے ہیں تو لوگ اس بات پر یقین نہیں کرتے حضرت سلطان باھو کی وہ ہستی کروڑوں لوگ ایک اشارے پہ اپنی جان نچھاور کردیں اور ایک اتنی بین الاقوامی تنظیم کے قائد یہ مثال رقم کر رہا ہیں کہ آپ اپنے ہاتھوں سے ان لوگوں کے اندر لنگر تقسیم کر رہے ہیں ۔ یاد رکھیں جو تحریک کا قائد ہوتا ہے اس کی ذمہ داریوںکے اندریہ شامل نہیںکہ وہ جلسے میں آئے ہوئے ہر ایک آدمی سے مصافحہ کرے ۔ اس کا کام ہے کہ وہ وہا ں آئے لوگوں کے ساتھ گفتگوکرے، لوگوں کو Massage Deliver کرے اور بس! ۔ آپ نے کبھی کسی تحریک کے قائد کو نہیں دیکھا ہوگا کہ جلسے کے اختتام کے بعد وہ وہاں پہ بیٹھا رہے اور آنے والے جتنے بھی شرکائ ہیں ان سے سلام کر کے جارہے ہیں۔ یہ وہ کمال تھا آپ کے بطورِ کارکن ہونے کے اور بطورِقائد ہونے کے کہ ہر ایک کارکن کو ہر ایک نظریاتی کو آپ نے اپنی نظر سے نوزا ،اپنے کلام سے نوازا اور اپنے معانقے سے، اپنے مصافحہ سے نوازا ، مَیں سمجھتا ہوں کہ تحریک کی تاریخ کے اندر کوئی ایسی مثال نہیں ملے گی، ایسا قائد نہیں ملے گا جو قیادت حضور سلطان الفقر نے کی۔پھر لوگ یہاںپہ تحریکیں چلاتے ہیں اور دو تین چیزیںاتنی ضروری سمجھی جاتی ہیں کہ جب تک کسی قائد کے اندر وہ دو صلاحیتیں نہیں ہیںلوگ سمجھتے ہیں کہ یہ تو تحریک نہیں چلا سکتا ۔ سب سے پہلے یہ کہ قائد کی تقریر کیسی ہے یقینا یہ ایک بہت بڑی خصوصیت اور بہت بڑی کوالٹی ہے۔ قائد کی تحریر کیسی ہے کہ اُس نے دُنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ مَیں چیلنج سے کہتا ہوں کہ مجھے تاریخ ِ تحریک اور انقلاباتِ عالم کی تاریخ میں ایک قائد ایسا دکھادو جس نے اپنی تحریک میں کبھی خطاب نہیںکیا، جس نے کبھی کوئی تحریر نہیںلکھی ۔ لیکن میری تحریک کے بانی کے خطاب کے بغیر ، اس کی تحریر کے بغیر اس کے کارکن اس کے اشارے پر اپنی جانیں نچھاور کر رہے ہیں اور وہ انقلاب دُنیا کے تمام براعظموں میں پھیل چکا ہے، اس کی بنیادیں پختہ سے پختہ تر ہوتی جارہی ہیں بغیر تقریر کے بغیر تحریر کے ۔ یہ کمال ا ور مثال ہے جو میرے مرشدِ کریم نے اپنی نظر سے اور اپنی نگاہ سے ثبت کی ہے ۔ اور جو شکوہ اقبال نے کیا تھاکہکوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بدگماں حرم سے کہ امیرکارواں میں نہیں خوئے دلنوازی
اور ہم نے دیکھا ہے وہ خوئے دلنوازی والا قائد جس نے کارواں سے ٹوٹے ہوئوں کو جوڑا ہے، جس نے حرم سے بدگمانوں کا یقین مکمل اور مستحکم کیا ہے اور واپس اسی ڈگر پہ لا کر کھڑا کیا ہے جہاں ان کے سامنے توحید و رسالت کے سوا کچھ نہیں ۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ کرامت کی بات کریں کہ بانیٔ اصلاحی جماعت کی کرامت کیا ہے؟ تو اس کی کرامت یہ تھی کہ اس نے بھٹکے ہوئوںکو، بھولوںہوئوںکو اس نے وہ راہ دکھلا دی ہے کہ آج وہی لوگ جنہیںلوگ جاہل کہتے تھے جنہیں لوگ ظالم کہتے تھے، جنہیں لوگ بھٹکا ہوا بھولا ہوا کہتے تھے آج وہی لوگ اس کائنات کے سامنے مثال بن کر نکل رہے ہیں، وہ اس کائنات کے سامنے انقلابی بن کر نکل رہے ہیں، ایک زندہ اور روشن مثال بن کے نکل رہے ہیں۔ وہ مثالیں جو انشائ اللہ رہتی دنیا تک قائم رہیں گی۔ رسمِ شبیری ہمیشہ فقرائ نے ادا کی ہے اور یہ فقرائ کا ہی شیوہ ہے ۔ جب بھی دین پہ لوگوں نے سمجھا ہے کہ اب سورج غروب ہونے کی طرف جارہا ہے تو اس وقت فقرائ نکلے ہیں اور انہوں نے وہ مثال قائم کی کہ دنیا دیکھتی رہ گئی کہ ابھی یہ سورج جو مغرب میں غروب ہورہا تھا یہ اچانک مشرق سے طلوع کیسے ہورہا ہے؟ جس کی ابتدائ سیدنا امامِ عالی مقام سے ہوئی۔
سر داد نہ داد دست در دستِ یزید
ظُلم کے سامنے ڈٹ جانا رسمِ شبیری ہے ۔ دورِ حاضر میں جب ہم یہ کہتے ہیںکہ تنظیم العارفین رسمِ شبیری ادا کررہی ہے تو میں اس کی وضاحت کر دوں کہ یزید صرف وہ نہیں تھاجو امام حسین علیہ السلام کے سامنے کھڑا تھا ، یزید کسی فرد کا نام نہیں ہے، یزید کوئی شخصیت نہیں ہے بلکہ یزید ایک سوچ کا نام ہے ۔ یزیدیت ہمیںشروع دِن سے نظر آتی ہے آپ جنت میں چلیں جائیں آدم حسینیت کی نمائندگی کر رہا ہے اور ابلیس جو بہکانے والا تھا یزیدیّت کی نمائندگی کرتا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام رسمِ شبیری ادا کر رہے ہیںاور نمرودرسمِ یزیدی ادا کر رہا ہے۔ اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام رسمِ شبیری ادا کر رہے ہیں اور فرعون وہ رسمِ یزیدی ادا کر رہا ہے۔اور جب ہم مدینے میں دیکھتے ہیں تو رسول پاک ﷺ رسمِ شبیری ادا کر رہے ہیںاور ابو جہل رسمِ یزیدی ادا کر رہا ہے، ابو لہب رسمِ یزیدی اد ا کر رہا ہے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں امامِ عالی مقام سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ وہ کی رسم ، رسمِ شبیری تھی ان کے مدِّ مقابل رسمِ یزیدی تھی۔اسی طرح بعد میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جہاں بھی حق وباطل کا معرکہ ہوا جو حق پہ تھا اس نے رسمِ شبیری ادا کی ، جو باطل تھا اس نے رسمِ یزیدی ادا کی۔
آج کے دورمیں آ پ دیکھیں کہ یزیدیت کہاں پہ ہے؟ آج یزیدیت مادیت کے رُوپ میں انسانیت کو نگلنے کے لیے بے تاب ہے۔ آج یزیدیت امیریکن اسٹیبلشمنٹ ہے، آج یزیدیت اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ ہے،آج یزیدیّت انڈین اسٹیبلشمنٹ ہے ، آج یزیدیّت وہ سامراج ہے، وہ اِستحصالی قوتیں ہیں جنہوں نے یہاںپہ طبقات قائم کر دیے جو کبھی کیپٹل ازم کے نام پہ آتے ہیں، کبھی سوشل ازم کے نام پہ آتے ہیں ، کبھی کامن ازم کے نام پہ آ تے ہیں اور کبھی سیکولر ازم کے نام پہ آتے ہیںاور اس انسانیت کو خدا کے اس کنبے کو ٹکڑوں میں بانٹتے ہوئے بدمست ہاتھیوں کی طرح پائوں تلے روندتے ہوئے آگے نکل جاتے ہیںیہ سب یزیدیّت ہے اس کے سامنے حُسینیّت اور رسم شبیری ادا کی ہے تو وہ فقرأ نے ادا کی ہے اور ایک تو یہ یزیدیّت ہے دوسری یزیدیّت آپ دیکھیں کہ آج اس دُنیا کے اندر بڑھتی ہوئی مادہ پرستی ہے ، بھائی بھائی کا گلہ گھونٹ رہا ہے کس کی خاطر؟ تین مرلہ کے پلاٹ کی خاطر ،باپ بیٹوں کو قتل کر رہا ہے کس کی خاطر؟ ایک وقت کی روٹی کی خاطر۔ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو
یہ نفس کی خواہشات ، شیطانی خواہشات ، زِنا ، بدکاری ، بڑھتی ہوئی عریانی ، بڑھتی ہوئی فحاشی ، ٹوٹتا ہوا فیملی یونٹ ، ختم ہوتا ہوا خاندانی ڈھانچہ ، یہ تمام کی تمام یزیدیّت ہے اور پھر اسی طرح ہم دیکھتے ہیں ، دِین سے دُوری ، خدا کی پہچان سے دُوری ، خدا کی معرفت سے دُوری اور مصطفےٰ ﷺ کے عشق سے دُوری ، مصطفےٰ ﷺ کی محبت سے دُوری ، مصطفےٰ ﷺ کی اتباع سے دُوری ، مصطفےٰ ﷺ کی اطاعت سے دُوری اور اہلِ بیت سے دُوری ، صحابہ سے دُوری ، یہ تمام کی تمام چیزیں یزیدیّت کی علامتیں ہیں اور رُوحانیت سے دُوری ، رُوح سے غفلت ، ذکرِ الٰہی سے غفلت، یادِ الٰہی سے غفلت، توحید سے غفلت ،شرک ، کفر، انکارِ نبوت، انکارِ رسالت، توہینِ رسالت یہ تمام کی تمام چیزیں یزیدیّت کی نمائندگی کرتی ہیں اور اس کے سامنے اقبال نے کہا تھا کہ
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین وہ تحریک ہے جو یزیدیّت کے تمام بُتوں کو پاش پاش کرنے کے لیے معرضِ وجود میں آئی ہے اور یہ وہ رسمِ شبیری ہے جو اصلاحی جماعت کے کارکن سفید دستاریں اپنے سَروں پہ سجائے دُنیا کے طول و عرض میں چل رہے ہیں ، پھیل رہے ہیں ، صدا لگا رہے ہیں ، نِدا لگا رہے ہیں کہ نکلو ، حُسینیّت کو دیکھو ، یزیدیّت کو دیکھو ۔ حُسینیّت کو اپنائو اور اِن یزیدی بُتوں کو اپنے قدموں کی ٹھوکروں سے پاش پاش کرتے ہوئے آگے بڑھ جائو ۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ فقرأ کے سلاسل کے اندر ایک تعطل آگیا ، ایک جمود آگیا اور اُس تعطل اور جمود کی بُنیادی وجہ میرے حضور مرشد کریم مجھے اکثر فرماتے تھے کہ دو لوگوں سے بچ کے رہنا ایک وہ آدمی جو بے جا تنقید کرے اور ایک وہ آدمی جو بے جا تعریف کرے تو تصوف میں جو جمود آیا جب اندھی عقیدت ، اندھی تقلید اور اندھی دست بستگی شروع ہوئی اُس نے اُس تصوف کی بنیاد ڈالی جو مدنی رُوحانیت نہیں بلکہ عجمی جوگیّت اور رہبانیّت تھی جس میں ترکِ دُنیا کی تعلیم تھی ، جس میں ترکِ توکل کی تعلیم تھی ، جس میں مجوسیّت کا رنگ تھا ، جس میں پارسیت کا رنگ تھا جس میں وَیدو ںکا رنگ تھا اور آہستہ آہستہ یہ رنگ تصوف پہ چڑھتا گیا اور نتیجتاً تمام چیزیں اس کی لپیٹ میں آگئیں جس جال سے اُمت آج تک اپنے آپ کو نہیں نکال سکی اور یہ رسمِ شبیری ادا کرنی تھی تو فقرأ نے مگر جب ان کے اوپر وہ جال پڑگیا تو پھر یہ رسمِ شبیری بھی تھم گئی اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا رسول کریم ﷺ نعوذو باللہ آپ رُوحانیت سے خالی تھے ؟ کیا سیّدنا ابوبکر صدیق رُوحانیت سے خالی تھے ؟ سیدنا عمر فاروق(رض)، سیدنا عثمان (رض) ، سیدنا علی (رض) ،خالد بن ولید(رض) اور حضرت ابو عبیدہ (رض)حضرت معاذ بن جبل اور بڑے بڑے جو ہمارے اسلامی تاریخ کی نامور شخصیات گزری ہیں ، یہ تمام لوگ کیا رُوحانیت سے خالی تھے اگر رُوحانیت جمود طاری کرنے کا نام ہے ، اگر رُوحانیت تعطل کا نام ہے تو پھر وہ کون سے انقلابی تھے جو عرب کے ریگزاروں سے نکلتے ہیں اور دُنیا کے ایک بڑے کونے پر چھا جاتے ہیں اور پوری کائنات کا نقشہ بدل کر رکھ دیتے ہیں اور جہالت کو اُجالوں میں بدل دیتے ہیں اور ظلمت کو نور میں بدل دیتے ہیں ۔مٹایا قیصر و کِسریٰ کے اِستبداد کو جس نے وہ کیا تھا ؟زورِ حیدر ، فقرِ بوذر، صدقِ سلمانی
وہ اُن کے فقر کی طاقت تھی فقر سے الگ کوئی چیز نہیں تھی اور جب بھی توحید کا نفاذ ہوا وہ فقر سے الگ ہوکر نہیں ہوا ۔ ہاں یہ خانقاہی نظام کی کمزوری تھی ، یہ خانقاہی نظام کی کمزوری ہے اِسے دور کرنا ہوگا جس کے متعلق اقبال نے کہا تھا
اِسی میں حفاظت ہے انسانیت کی کہ ہوں ایک جنیدی و اُردشیری
اگر آپ جنیدی اور اُردشیری کو الگ الگ کر دیں تو اس دنیا میں سب فساد ہوگا جب تک جنید ی اور اُردشیری یکجا ہوں گے اس وقت تک اس زمین کے اوپر امن رہے گا کیونکہ وہ توحید کی حکومت ہوتی ہے وہ فقر کی حکومت ہوتی ہے ۔
سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ نے اِسی چیز کو محسوس کیا کہ اب دُنیا کٹ رہی ہے رُوحانیت سے اور ضرورت ہے کہ اُس جدّت کے ساتھ اُس پیغام کو لے کر آگے پہنچایا جائے اور آگے پھیلا یا جائے اُس کیلئے آپ نے مختلف درسگاہیں قائم کیں ، ضلع ، تحصیل اور یونٹ لیول پہ، آپ نے مختلف طریقوں سے اہتمام کیا اور نوجوانوں کو ، لوگوں کو ، بیٹیوں کو بہنوں کو دعوت دی اور لوگوں کو آپ نے تعلیمات حضرت سلطان باھو (رح)سے رُوشناس کروایا جو خالصتاً جدت کا پیغام ہے اور جن میں ایک لمحہ کیلئے جمود نہیں ایک لمحہ کیلئے بھی تعطل نہیں آپ نے پبلی کیشنز قائم کیے جس میں کتب کے تراجم ہوئے اور لوگوں تک وہ پیغام پہنچا اور آج وہی پیغام ، وہی کتابیں جو حضرت سلطان باھو (رح)کے کتب کی تراجم کی صورت میں ہوں یا وہ بُکس اصلاحی جماعت کے چلتے پھرتے کارکن ہوں ۔ آج آپ مغرب میں جائیں حضرت سلطان باھو کا نام کسی بھی جگہ پہ اجنبی نہیں کہ اِس کی بنیادی وجہ ایک حضرت سلطان باھو کا رُوحانی فیض ہے اور اس کے بعد حضرت سلطان کے آستانہ عالیہ سے چلنے والی یہ انقلابی تحریک ہے جس میں خانقاہ ، رُوحانیت ، اور فقر کی اصل حقیقت کو کھول کر رکھ دیا ہے کہ کائنات کیسے چلتی ہے ؟ کائنات کا نظام کیا ہے ؟ اور اس کے اندر جو خرابیاں اور خرافات ہیں ان کو ٹھیک کیسے کیا جا سکتا ہے ؟ یہ کنجی آپ نے اُن تعلیمات کے ساتھ کھول دی اور آج گو کہ انتہائی مختصر پیمانے کے مگر اس انقلاب کی بنیاد رکھّی جا چکی ہے کہ جب اِس تحریک کے فیض سے وابستہ بڑے بڑے سیاست دان فیصلے کرتے ہیں تو وہ ایک مرتبہ سوچتے ہیں کہ اِس کے متعلق ہم اپنے اَسلاف کی طرف دیکھیں کہ ہمارے اَسلاف نے کیا رائے قائم کی ہے تو مَیں سمجھتاہوں کہ یہ تبدیلی جو ہم دیکھ رہے ہیں گو کہ انتہائی مختصر پیمانے میں آج نظر آرہی ہے اِس میں تنقید کی گنجائش تو ہوگی لیکن آپ مستقبل میں دیکھیں گے کہ یہ پیغام جیسے جیسے بڑھے گا اُسی طرح اُن لوگوں کے اندر تبدیلیاں آئیں گی اور جب اِس پیغام سے فیض یافتہ لوگ اقتدار کے ایوانوں کے اندر جائیں گے جہاں پہ خلقِ خدا کے فیصلے ہوتے ہیں تو پھر وہ فیصلے قرآن کی روشنی میں ہوں گے ،وہ سنّت کی روشنی میں ہوں گے ، وہ فقر کی روشنی میں ہوں گے،پھر اُن کے اندر جرأت بھی ہوگی ، خود داری بھی ہوگی ، اُن کے اندر غیرت اور حمیّت بھی ہوگی اور پھر اُن کے اندر ایک انفرادیت بھی ہوگی جس سے دُنیا کے اندر سے اِستبداد کا خاتمہ ہوجائے گا اور توحید کا مکمل نفاذ ہوجائے گا اور یہ کائنات ، یہ خدا کا کُنبہ ، یہ عالمِ انسانیت یہ پھر سے اُسی روش پہ چل پڑے گا اور اس طرح معلوم ہوگا کہ شاید اِس کائنات کو تخلیق ہی آج کیا گیا ہو اِتنی پُر امن ہوگی یہ کائنات۔ اِس وقت اِنسانیت کو ، اُمت مسلمہ کو اور وطنِ عزیز اِسلامی جمہوریہ پاکستان کو جن چیلنجز کا سامنا ہے اور جو خطرات درپیش ہیں اُن میں واحد پیغام اور واحد آواز اصلاحی جماعت اور عالمی تنظیم العارفین کی ہے جو اِس کی بقا ٔکی ضامن بن سکتی ہے اور جب مَیں یہ دیکھتاہوں کہ اِنسانیت کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے ؟ انسانوں کے جسموں کی نمائش، اور So Called مہذب معاشروں میں انسانی جسموں کی لگتی ہوئی منڈیاں ، اِستحصالی اور سامراجی طاقتوں کا بڑھتا ہوا اِستحصال اور سامراجی ہتھکنڈے اور دُنیاکے اُوپر Western Stablishment کی حکمرانی کا خواب ، یہ خطرات ہیں انسانیت کیلئے اور دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں ملّتِ اسلامیہ کو تو پچھلے ڈیڑھ صدی سے ڈیڑھ کروڑ مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا اور اِس قتلِ عام کی آواز بلند کرنے والوں کو آج دہشت گرد کہا جاتا ہے آج اِن کو Fundamentalist کہا جاتاہے اور اُمت فرقوں میں تقسیم ہے ۔ مسالک کی زنجیریں ہمارے پائوں سے بندھی ہوئی گھنگھرئوں کی طرح کھنکتی ہیں اور ہمارے چہرے کو نوچ رہی ہیں ۔ وطنِ عزیز پاکستان اِس کی بقا ، اس کی سلامتی پر خطرات منڈ لا رہے ہیں ۔اِن میں ایک طاقتور اور جاندار آواز کا اٹھنا جو Low Profile طریقے سے ، کسی بھی قسم کی ریاکاری سے پاک ہوکے ، اِس پیغام کو لے کے آگے بڑھ رہی ہے اور یہ فیضان ہے اللہ کے نام کا ، اُس کی توحید کا ، گُنبدِ خضریٰ کا اور سلطان الفقر کا ،جو آج جانشین سلطان الفقرکی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے اور اِس لیے آج پوری دُنیا کو اِس پرچم کے نیچے آنے کی ضرورت ہے جہاں کوئی طبقاتی تفریق نہیں ، جہاں اِستحصال نہیں ، جہاں تقسیم نہیں ، جہاں فرقے نہیں ، جہاں لِسانی تضاد نہیں اور پوری دُنیا الخلق عیال اللہکے تحت اِس جھنڈے کے نیچے جمع ہوسکتی ہے ۔ مَیں یہ سمجھتاہوں کہ یہ وہ تحریک ہے جس کا انقلاب آنے والا مؤرخ لکھے گا اور جس کی قربانیاں جو بغیر کسی ریاکاری کے آج اِس معاشرے کے استحکام کے لیے جاری ہے یہ یقینا تاریخ کے بہت سنہری ابواب ہوں گے۔وقتِ فُرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے نُورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے