-پاکستان کا اگر سیرت النبی (ﷺ) کے تناظر میں مُطالعہ کیا جائے تو بہت سے حیرت انگیز پہلُو نکلتے ہیں جو بڑی مفید اور کار آمد راہنمائی فراہم کرتے ہیں۔۔۔
خانقاہی نظام
متعلقہ لنکس
دُنیائے فلسفہ میں اسطورات کا عظیم باغی ، فلسفۂ یونان کا بانی اور افلاطون و ارسطو کا اُستاد ’’سقراط‘‘ ایک سنگ تراش کا بیٹا تھا اور پیدائشی طور پہ بے۔۔۔
کثیر الجہت و مافوق الفطرت داستانوں سے مزین تاریخِ جموں و کشمیر بہت پرانی ہے-جدید کشمیر کی تاریخ جغرافیائی، سماجی، سیاسی و مذہبی اعتبار سے 1864ء کے بد نام زمانہ۔۔۔
اکیسویں صدی جہاں سائنسی ترقی و مادی ترقی کے عروج کا مشاہدہ کر رہی ہے وہیں بدقسمتی سے اِسے اخلاقی اور روحانی زوال بھی پیش ہے-انسانی معاشرے بحیثیت مجموعی اخلاقی اقدار۔۔۔
افسوس!ہمارے ہاں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کی عظمت میں فقط ایک ہی پہلو اجاگر کیا جاتا ہے۔۔۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے خانوادۂ عالیہ میں جن نفوس قدسیہ کو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے چشمۂ فیضانِ سلطان العارفین کے جاری رہنے کی دلیل کہا جاتا ہے...
جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُوؒ نے اپنی ایک تصنیف میں فرمایا کہ: ’’یہ محبت ہی ہے جو دل کو آرام نہیں کرنے دیتی ورنہ کون ہے جو آسودگی نہیں چاہتا ‘‘-
تصوف کا اشتقاق مادہ ’’صوف‘‘سےبابِ تفعل کا مصدر ہے- اُس کے معنی ’’اون‘‘کے ہیں- لغویت کے لحاظ سے اون کا لباس عادتاً زیبِ تن کرنا ہے- لفظ صوف کی جمع ’’اصواف‘‘ ہے...
تصوف یا صوفی ازم اسلامی تہذیب و ثقافت کی اساسیات اور علومِ دینیہ کے اہم ترین موضوعات میں سے ہے جس کے مبادی، منابع اور مآخذ قرآن و سنت سے ثابت ہیں...
آج جس موضوع پہ گزارشات بیان کرنے جا رہا ہوں وہ ایک خالص علمی موضوع ہے جس کا تعلق براہ راست ہماری دینی اور ملی زندگی سے ہے- کیونکہ اس کے ساتھ ہماری روحیں جڑی ہیں؛
آج جس موضوع پہ چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا عوام و خواص کیلئے گو کہ وہ نیا نہیں ہے - مزید یہ کہ اس کے جس خاص پہلو کی جانب آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہوں گا وہ پہلو اہل علم کے ہاں تو اجنبی نہیں ہوگا لیکن عامۃ الناس میں بہت کم لوگ اس سے واقف ہوں گے-
پاکستان دُنیا کی نظر میں ایک جغرافیہ ہے، ایک خطۂ زمین ہے، ایک مملکت ہے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے کے اندر یہ اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا راز ہے پاکستان کا وجود خالصتاً رُوحانی وجود ہے۔
اُس نگاہِ کرم کا کمال ہی یہ تھاکہ پوری محفل بیٹھی ہے اور اُس محفل میں ہر آدمی کو گمان ہے کہ حضور میرے ساتھ مخاطب ہیں۔طالب و مرشد ، قائدو کارکن اور باپ و بیٹے کے ان تینوں رشتوں کو اگر آپ دیکھیں تو اندازہ لگائیں کہ ہمارے اوپر کتنی زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
ا مَّا بعد !اسلام کا بنیادی اور انتہائی مقصد بنی نوعِ انسان کوامن وسلامتی اور عدل و احسان سے مشرف کرکے قربِ الٰہی سے سرفراز کرنا ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کوپیدا ہی اپنے قرب و وصال کی خاطرکیا ہے جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے-: ’’وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِ نْسَ اِلاَّلِےَعْبُدُ وْنَ ج ‘‘
اسی تجدید عہد، عزمِ عمل کے لیے ہم سب اپنے قائد و مرشدِ کریم کے روبرو اکٹھے ہیں۔ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین مسلسل یہی پیغام دے رہی ہے کہ حضور سلطان الفقر ششم، بانیٔ اصلاحی جماعت و بانیٔ عالمی تنظیم العارفین حضرت سلطان محمد اصغرعلی صاحب کے پیغام کا دائرۂ کار
تصوف کو اصطلاحِ قرآنی میں’’تصدیق بالقلب‘‘ کہا جاتا ہے ۔اس کا بنیادی مقصد معاشرے کے اندر روحانی آسودگی کی فراہمی، عوام خواص کیلئے اطمینانِ قلب ،ظاہری وباطنی گناہوں سے محفوظ رہنے کے لئے ﴿تاکہ متوازی وصحیح اسلامی معاشرے کا قیام ممکن ہوسکے﴾ تزکیۂ نفس، تصفیۂ قلب اور تجلیۂ روح کا حصول ممکن ہوسکے، اور ہم جو اقرار کرتے ہیں اس اقرار کی تصدیق نصیب ہوسکے واضح رہے کہ اقرار کا تعلق ظاہر سے ہے یعنی زبان سے ہے اور تصدیق کا تعلق باطن سے ہے یعنی قلب سے ہے ایک اصطلاح میں تصدیقِ قلب کو ’’حق الیقین‘‘ بھی کہتے ہیں۔ جوکہ ایقان کا کامل ترین مرتبہ ہے ﴿علم الیقین کا تعلق جاننے سے ہے اور عین الیقین کا تعلق ماننے سے ہے جبکہ حق الیقین کا تعلق پہچاننے سے ہے یعنی اس کا اول وآخر مشاہد ہ ہی ہے﴾ کلمۂ توحید قائم صرف پڑھنے پڑھانے سے نہیں ہوتا بلکہ مومن کو اس کا نفاذ اپنے دل پر کرنا پڑتاہے۔جس طرح حضرت سلطان باہورحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں۔
زبانی کلمہ ہرکوئی پڑھدا دل دا پڑھدا کوئی ہو
جتھے کلمہ دل دا پڑھیوے جبھے نہ ملے ڈوئی ہو
علامہ اقبالؒ یوں فرماتے ہیں۔
رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا
اتر گیا جو تیرے دل میں لا شریک لہ،
قلب کی تعلیمات اور اعمال کو روحانیت یاتصوف کہاجاتا ہے اسے رسولِ کریمﷺ نے اپنی زبانِ گوہر فشاں سے ’’فقر‘‘ بھی فرمایاہے ﴿فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے﴾ شرحِ فقر کرتے ہوئے اقبالؒ اسے حقیقتِ دین قرار دیتے ہیں۔
لفظ اسلام سے یورپ کو اگر کِد ہے تو خیر
دوسرا نام اسی دین کا ہے فقرِ غیور
گویا جو شخص اپنی محنت وکرمِ خداوندی سے وہ نورِ فقر یا فقرِ محمدیﷺ حاصل کرلیتا ہے اسے فقیر کہتے ہیں۔ فقیر جب فقرپہ کامل ہوجاتا ہے تو اس کا دل زندہ ہوجاتاہے اور انوارِ الٰہیہ کامرکز بن جاتا ہے اور جہاں انوارِ ذات کا بسیرا ہو وہاں بقائ ہی بقائ ہوتی ہے جسم پر تو موت لاحق ہوجاتی ہے مگران کے دل زندہ رہتے ہیں اور انہوں نے زندگی کے چند ایام میں جو کچھ کمایا ہوتاہے اس کا فیض حاصل کرنے والوں لئے قیامت تک جاری رہتا ہے ان کی مرقد کو اصطلاحاً خانقا ہ کہتے ہیں خانقاہ اس دنیا میں بسنے والوں کیلئے ایک دعوتِ عمل ہے ،پیغام ِ کردار ہے اگر خانقاہی نظام کے باطنی پہلو دیکھے جائیں تو شاید صرف اسی لفظِ باطن پہ ہی صوفیائے کرام نے ہزار ہا دفتر رقم فرمادیے اگر خانقاہی نظام کا معاشرتی تجزیہ کیا جائے تو خلافتِ راشدہ کے بعدجب نا عاقبت اندیشوں نے اسلام کو فرقہ بندی کا شکار کیا تو صرف ایک ادارہ ﴿Institution﴾ بچ گیا جو اس فرقہ بندی کی شدت کا شکار نہ ہوا یا اسی کی زد میں نہ آیا وہ ادراہ خانقاہ تھی چونکہ صاحبانِ خانقاہ کے سینے فقرِ محمدیﷺ سے روشن تھے اور خود رسولِ کریمﷺ کی حیاتِ طیبہ سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے اس مرضِ لادوا ﴿فرقہ واریت﴾ کو سختی سے ناپسند فرمایا اور جن کے سینے آقا کریمﷺ کے سینے کے نور سے منور تھے ظاہر ہے انہوں نے بھی اس سے اجتناب کیا اور شرک ورسومات ِ شرک کو سختی سے رد کیا مستیٔ احوال اور مستیٔ گفتار دونوں کو الگ الگ حیثیت میں ضعیف قرار دیا بلکہ دونوں کو یکجا کرکے اس کے امتزاج کو حقیقی کردار کے طور پر سراہا کچھ عرصہ تک تو خانقاہ اپنی اصلی صورت پر برقرار رہی مگر بعد میں اس عظیم الشان ادارہ کے اندر بھی خرابی شروع ہوگئی وہ خرابی پیداکرنے والے کوئی اغیار نہیں تھے بلکہ انہی بزرگان کی اولادیں تھیں جنہوں نے اس نظام کابیڑہ غرق کردیا۔ہم ایک تجزیہ کے مطابق ان اسلاف کی اولادوں کو تین معیاروں میں تقسیم کرتے ہیں ایک تو وہ تھے جنہوں نے اپنے آبائ کے مشن کو صحیح طورپر سمجھا اور اسے وراثت کی بجائے امانتِ الٰہیہ تصور کیا اور اس کے حصول کیلئے پیکرِ کردار بنے اور اسلاف کے نقشِ قدم پہ چلتے ہوئے حقیقتِ دین کو اپنایا اور ظاہر وباطن کے امتزاج سے سنتِ محمدیہﷺ کے عین مطابق اسی معاشرے میں اپنا کردار ادا کیا ۔ان میں دوسراطبقہ وہ تھا جو بیچارہ اپنے آپ کو کرمِ شہزادگی لگا بیٹھا اور پیر کی اولاد ہونے کی وجہ سے خود بھی پیر بن بیٹھا خوشامدی اور مفاد پرست خلفائ کی دست بستگی و رندہی عقیدت نے انہیں غرور وتکبر میں مبتلاکردیا جس طرح حضرت سلطان باہوؒ فرماتے ہیں۔
پڑھ پڑھ علم مشائخ سداون کرن عبادت دوہری ہو
اندروں جھگی پیئی لٹیوے تن من خبر نہ موری ہو
ایک اور مقام پر آپؒ فرماتے ہیں۔
آپ نہ طالب ہن کہیں دے لوکاں نوں طالب کردے ہو
چاون کھیپاں کردے سیپاں ،اﷲ دے قہر تو ں ناہیں ڈردے ہو
عشق مجازی تلکن بازی پَیر اولّے دھردے ہو
اوہ شرمندے ہوسن باہو اندر روز حشر دے ہو
انہی شرمندگانِ حشر نے شرع و طریقت کو الگ کردکھایا ظاہر کے کردار کو چھوڑ دیا اور صرف اپنے اندر میں مگن رہنے لگے گویا انہوں نے قدیم ہندو جوگیوں اور سادھوئوں کا راستہ اختیار کیا شریعتِ محمدیﷺ کو چھوڑ کر رہبانیت کو فوقیت دی علامہ اقبالؒ شرحِ طریقت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
پس طریقت چیست اے والا صفات
شرع را دیدن بہ اعماق حیات
’’پس اے موصوف شریعت کو زندگی کی گہرائیوں سے دیکھنے کانام طریقت ہے‘‘ اسی طرح حضرت سلطان باہوؒ فرماتے ہیں۔
علم باطن ہوہم چوں مسکہ علمِ ظاہر ہم چوں شِیر
کے بودبے شِیر مسکہ کے بودبے پیر پیر
’’علم باطن مکھن کی مثل ہے اور علم ظاہر دودھ کی مثل ،پس بغیر دودھ کے مکھن کیسے آسکتا ہے اور بغیر پیر کے پیر کیسے بنا جاسکتا ہے‘‘
علموں باہجھوں فقر کماوے کافر مرے دیوانہ ہو
سلطان الفقر﴿ششم﴾ حضرت سلطان محمد اصغرعلی صاحبؒ ﴿بانی ٔ اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین﴾ فرماتے تھے کہ عبادت کیلئے وضوضروری ہے یعنی ایک شخص اگر وضو نہیں کرتااور نماز پڑھ لیتا ہے تو اس کی نماز نہیں ہوتی اور جو ہمارے اعمال ظاہر ہیں یہ ہمارے باطن کا وضو ہیںجب تک ہم یہ وضو نہیں کرتے اس وقت تک ہم باطنی عبادت کے اہل نہیں ہوتے جب ان اسلاف کی اولاد کا یہ دوسرا طبقہ اعمالِ صالح سے ہٹا اور رہبانیت اختیار کی تو ان کی دیکھا دیکھی کئی بے عمل اٹھ کھڑے ہوئے اور پیری کو کاروبار بنا لیا تو اس پر کوئی کاپی رائٹس تو تھے نہیں کہ انہیں اسی دنیا میں حساب چکانا پڑتا ہو گلی محلے میں جعلی پیر ی کے اڈے بنتے گئے اور لوگ اس حقیقت سے محروم ہوتے چلے گئے پھر اس حقیقت کی جگہ فرسودہ وضعیف روایات نے لے لی ،فرسودہ روایات اور مادی مفادات نے اسے صرف الف لیلوی داستان بنا دیا وہ آستانے اور وہ خانقاہیں جو کبھی تبلیغِ اسلام کا مرکز اور تعلیماتِ نص وحدیث کی وارثِ حقیقی ہواکرتی تھیں ان ڈبے ،جعلی اور دونمبر پیروں نے اسے صرف تجارت مدفن تک محدود کردیا وہ فقرائ کرام جو حامل وکامل فقرِ محمدیﷺ تھے جنہوں نے اپنے کردار و عمل سے اور اپنی نگاہِ کیمیا ئ گر ونگاہ بہ مثلِ سنگِ پارس سے مخلوق خدا کو اﷲ کی وحدانیت کا پیغام دیا ہم نشینیٔ مقصودِ حیات کو بھی بے حجابی سے مشروط کیا حقیر سی جوئے آب کو اپنی صحبت کی تاثیر سے دریائے تندو تیز بناکر ساحل نشینی سے کنارہ کش بنا کر نورِ وحدانیت کے بحرِ بے کنار کی عمیق گہرائیوں کا غواص باکمال بنا دیا۔
گرمیٔ مستیٔ کردار سے طالبانِ مولیٰ کو محفل گداز بنایا۔ صبحِ ازل کی مشاورتِ جبریل کے مطابق ان کاملین نے مخلوق کے سینوں میں دھڑکنے والے دلوں کو غلامیٔ عقل سے نجات عطا فرما کر ان کے صدور کو قلب سیلم کی وسعتوں سے مالا مال کیا شراکتِ میانۂ حق وباطل سے باز رکھ کر مشاہداتِ انوارِ معرفت میں مستغرق کیا اور عالمِ انس کو پختگی ٔ کردار کا درس دیا مگر افسوس صد افسوس کہ ان جلیل القدر ہستیوں کی آنے والی پشتوں نے مقصد اسلاف کو بھلاکر مرقدِ اسلاف کی بری طرح توہین کی اس کے استحقاق کو مجروح کیا اور اسے اپنی وراثت سمجھ کر ذریعۂ معاش بنا بیٹھے تبھی تو روحِ اقبال بلبلا اٹھی۔
بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ہو
ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کرکے
کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے
ایسے ہی مقاصد سوز ناقصین کے بارے حضرت سلطان باہوؒ فرماتے ہیں۔
مرشد کامل بود صاحبِ قلب
مرشدِ ناقص بود ہم چوں کلب
’’مرشد کامل صاحبِ قلب ہوتاہے اور مرشد ناقص کتے کی مثل ہوتا ہے‘‘۔
کیا قیامت ہے کہ شعلے تشنۂ آب نظر آتے ہیں اور حرارت متلاشیٔ خُنک! شاید اسلاف کی اسی بھولی بھٹکی اولاد کے کالے کرتوتوں سے دلبرداشتہ ہوکر اس طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرتِ اقبالؒ فرماتے ہیں۔
بوئے گل لے گئی بیرونِ چمن راز چمن
کیا قیامت ہے کہ خود پھولوں میں غماز چمن
عہدِ گل ختم ہوا ٹوٹ گیا سازِ چمن
اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پروازِ چمن
یہی تو وہ مرضِ کہن ہے جو اب مرضِ لا دوا بنتا جارہا ہے جس کے تریاق کی ملّت بیضا کو آج سخت ضرورت ہے فریب خوردہ شیر اب بھیڑوں کے ریوڑ میں چر رہا ہے اب جنگل کی بادشاہی کون کرے گا۔
وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے راہ و رسمِ شاہباز ی
شاید یہی وقت ہے کہ وارثانِ خانقاہ مروجہ وفرسودہ خیالات و روایات کو ترک کریں اور نمودِنوری کی تحریک اپنے پہلؤ چپ سے شروع کریں اور ’’اسباق کردار ‘‘کی ورق گردانی کریں ورنہ موجودہ و مروجہ نظام تو چیلنج ہوچکا ہے۔
ممکن نہیں تخلیقِ خودی خانقہوں سے
اس شعلۂ نم خوردہ سے ٹوٹے گا شرر کیا
ناپاک ظروف میں اب بھنگ رگڑنے کا دور گزر چکا ہے معاشرہ کافی حد تک بیدارہے اگریہ شب خوابی ،آرام پرستی اور کاروبارِ مزار بند نہ ہوا تو شاید تاریخ انہیںکبھی معاف نہیں کرے گی اگریہ تحریک زبوں حالی کاشکار نہ ہوتی اور اپنے اصل مقاصد پہ قائم رہتی توشاید آج دنیا کو دوقومی نظریہ کی ضرورت ہی نہ پڑتی کیونکہ پوری دنیاحلقہ بگوشِ اسلام ہوچکی ہوتی تبھی توا بلیس اپنی مجلسِ شوریٰ کو یہ حکمِ خاص جاری کرتا ہے کہ
مست رکھو ذکر و فکر صبح وگاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے
اگریہ اسی پر اکتفا کیے رکھے گا تو شاید ابلیسی نظام کانظم ونسق برقرار رہے گا اگریہ خانقاہی مزاج سے نکل کر خانقاہی معراج کی طرف پیش قدمی کر گیا تو شاید یہ لشکر معرکۂ روح وبدن کا حل نکال لے اور تہذیبی درندوں کو زندہ درنار کردے۔ کیوںکہ اس لشکر کی طاقت کا اندازہ مشیرانِ ا بلیس یعنی اہلِ مغرب کو نہ ہوگا جس طرح حضرت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں۔
آہ یورپ زیں مقام آگاہ نیست
چشمِ او نے نظر بنور اﷲ نیست
’’آہ ! یورپ اس مقام سے آگاہ نہیں ہے کیوں کہ اس کی آنکھ ’’
مومن اﷲ کے نور سے دیکھتا ہے‘‘ کی مصداق نہیں ہے‘‘۔بے عمل بے کردار ڈبے پیروں نے جگہ جگہ روحانی دوکانیں کھول لی ہیں۔ تشہیر کرامات ،من گھڑت خوابوں او رشیطانی کشوف نے انہیں مکافات عمل سے بے خبر کردیا ہے ۔
از مکافاتِ عمل غافل مشو
کاش اس نظام کے ذمہ داران کرامت کی بجائے استقامت ﴿جو حقیقتِ دین ہے﴾ کا درس دیں تو وہ وحدہ لاشریک گواہ ہے کہ مسلمانانِ عالم کی عظمتِ رفتہ کی بحالی اتناہی سفررہ جاتی ہے جتناکہ ’’شعیب میسر آنے کے بعد شبانی سے کلیمی‘‘۔
خانقاہی نظام کاجتنا رگڑہ اسلاف کی اولاد کے دوسرے طبقہ نے نکالا ہے اس سے کہیں زیادہ تیسرے طبقہ نے نکلا ہے یہ وہ طبقہ ہے جو اسلاف کی میراث ﴿یعنی فقرِ محمدیﷺ ﴾کو حاصل نہ کرسکا مگر انہوں نے سوچا کہ اگرہم اس منزل ومقام تک نہیں پہنچ سکے تو کم از کم روزی معاش کا کوئی مثبت ومؤثر ذریعہ تو بنا لیںانہوں نے علم کی راہ نکالی اور حصولِ علم کے لیے چل نکلے ﴿ایک بات کی وضاحت یہا ں ضروری ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے مگروہ علم جس کی بنیاد محبت پہ ہو ایثار پہ ہو نہ کہ نفرت و فساد پہ ﴾ ۔ جب وہ علم حاصل کرنے نکلے تو حادثہ یہ ہوا کہ ایک طرف تووہ اسلاف سے بھاگ کر جارہے تھے کہ ان سے بہتر علم لیںگے مگر جب آگے پہنچے تو دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں کی درسگاہ نہیں تھی کوئی درسگاہ سنیوں کی تھی کوئی شیعہ کی تھی کوئی دیوبندکی تھی او رکوئی اہلِ حدیث کی ،سب مسالک اور فرقوں کی درس گاہیں تھیں خالصتاً اسلام کی بنیاد پہ ﴿فرقوں سے ماوریٰ ﴾ کوئی درسگاہ بھی نہیں تھی ظاہر ہے انہوں نے جس مسلک کی درسگاہ میں قدم رکھنا تھا اس مسلک کی چھاپ ان پہ لگ جاتی تھی اور یہی ہوا اب عالم ہونے کے ساتھ ساتھ وہ حضرت پیر بھی تھے چونکہ پیر کی اولاد تھے۔
میراث میں ملی ہے انہیں مسندِ ارشاد
اب ستم یہ ہوا کہ جب وہ علمائ ﴿فرزندانِ مشائخ﴾ نے خود کو اولادِ پیرہونے کی وجہ سے پیراکہلواناشروع کیا تو ان کے ہم جماعت دیگر علمائ نے دیکھاکہ ’’پیری کرنی تو اتنی آسان ہے مریدین کو صرف وعظ نصیحت ہی کرنا ہے تووہ تو ہم بھی کرسکتے ہیں ،تعویذ اور دم رکھنا ہے تو وہ تو ہم بھی کرسکتے ہیں۔ اگر ہمارا وہ ہم جماعت کر سکتا ہے تو ہم کیوںنہیں کرسکتے ‘‘ اب اس پیر کے ہم جماعتوں نے سوچا کہ ’’علم ہمارے پاس اس سے زیادہ وہ تو پھر بھی کبھی دوچار صیغے بھول جاتا تھا یا صرف و نحو کی ترکیب غلط کربیٹھتا تھا ہم نے توکبھی غلطی نہ کی تھی ‘‘ اس لئے ان کی دیکھا دیکھی علمائ بھی پیر بن بیٹھے شاید کچھ قارئین کو یہ بات ناگوار گزرے کہ اکثر دربار اوردرگاہیںایسی قائم ہو چکی ہیں جنکی بنیاد فقر و معرفت نہیں بلکہ صرف اورصرف علم وحکمت ہے جبکہ جہاں صرف علم ہو وہاں درسگاہ تو بن سکتی ہے خانقاہ نہیں بن سکتی کیوں کہ خانقاہ تو ہے ہی وہ جس کے پائوں کسی مسلک کی زنجیر سے جکڑے ہوئے نہ ہوں جس کے دامن پہ کسی فرقہ کے شب خون کے داغ نہ ہوں جس کے گلے میں مسلمانوں میں تقسیم او رپھوٹ ڈالنے کا طوق نہ ہو جس کے ہاتھوں میں مسلمانوں میں تفریق ڈال کر ہانکنے اور اپنا مفاد نکالنے کی چھڑی نہ ہو۔کیوںکہ اگر خانقاہ کا بنیادی ڈھانچہ دیکھیں جس طرح اس کی تشکیل ہوئی اس میں نہ کوئی تقسیم ہے اور نہ کوئی تفریق ،قدیم خانقاہ کو اگر دیکھیں تو وہ تین حصوں پر مشتمل ہوتی تھی۔
1۔طعام گاہ
2۔قیام گاہ
3۔کلام گاہ
1۔طعام گاہ:
ہر خانقاہ پہ عوام خواص کیلئے لنگر کا اہتمام کیاجاتاتھا جہاں سے لوگ بلا تفریق کھانا پینا مفت حاصل کرتے تھے اس پہ کوئی قید نہیں ہوتی تھی کہ وہ کس مذہب یاکس مسلک سے تعلق رکھتا ہے سب ہی ایک صف میں بیٹھ کر لنگر حاصل کرتے اس کا زندہ مشاہد ہ آج بھی ہر خانقاہ پہ دیکھنے کو ملتا ہے بالخصوص انڈیا کے اندر جہاں مخلوط معاشرہ ہے حضرت نظام الدین اولیأؒ ،حضرت عبدالرحمان دہلویؒ، حضرت معین الدین اجمیریؒ یا کسی بھی صوفی وعارف کی خانقاہ پہ عموماً عرس کی تقریبات میں خصوصاً جتنا ہجوم مسلمانوں کاہوتا ہے اس سے بڑھ کر ہجوم غیر مسلموں کاہوتاہے اب تو دنیانے بڑی ترقی کرلی ہے جگہ جگہ ہوٹل اور ریستورانت بن گئے ہیں ورنہ پہلے قافلے جب چلتے تھے تو وہ اپنا راستہ اس طرح معین کرتے تھے کہ ہمارا اتنے دن کا سفر ہے اور راستے میں ہمیں فلاں فلاں جگہ پہ خانقاہ پڑتی ہے اس لیے اتنے اوقات کے طعام کا بندوبست ہمارا ان خانقاہوں سے ہوجائے گا۔
2۔قیام گاہ:
لنگر خانہ کی طرح ہر خانقاہ پہ مسافرخانے تعمیر کیے جاتے تاکہ زائرین ومسافر ین کے قیام ورہائش کا انتظام ہو وہ بھی بالکل لنگر کی طرح اپنے پرائے کی تفریق کے بغیر عوام خواص کے لئے بالکل مفت تھا۔اس کے لئے بھی کہیں بھی جانے والے قافلے خانقاہوں کی پناہ ڈھونڈ تے تھے کہ مفت اور مناسب قیام مل جائے گا بنیادی طور پہ اگر دیکھا جائے تو درج بالا ہر دو انتظام اس وقت کی ایک منظم تنظیم کے مترادف تھے کہ جو تنظیم اپنی خوبیوں کی بنائ پر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی تھی ۔
3کلام گاہ:
لوگ ان کے حسن کردار، حسنِ اخلاق اور حسنِ انتظام سے متاثر ہوکر کھنچے چلے آتے تھے جب لوگ وہاں پہ آتے تو پھر تیسراحصہ جسے کلام گاہ کہا گیا ہے وہ اپنا تحرک دکھا تااور غیر مسلموں کو بصیرت کلام سے مسلمان، مسلمانوں کو مومن ،مومنوں کو عارف اور عارفوں کو معارف بناتا خانقاہی نظام کی سب سے بڑی مثال اگر لی جائے تو وہ رسولِ اکرمﷺ کامکی دورِ مبارک ہے کہ آپ نے بلا امتیاز غلام و سردار ہرکسی کو اپنی نظر عنایت سے نوازا اگر اس وقت ایک معیار رکھ دیا جاتا کہ نہیں صرف مسلمان ہی بارگاہ مصطفےٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حضوری سے فیض یا ب ہوسکتا ہے تو پھر کتنے لوگ ہوتے جو جانثار انِ نبیﷺ بنتے اس لیے صاحبانِ خانقاہ سے یہ گزارش ہے کہ اپنی بنیاد فرقوں کی تاویلات سے اخذ کیے گئے علم پہ نہ رکھیں بلکہ اس کی بنیاد اس فقرِ محمدیﷺ پہ رکھیں جو تمام فرقوں اور تفریقوں سے منع کرتا ہے خدا کی مخلوق کو خداکا کنبہ قرار دیتا ہے اور عوام کو بھی بیداری کے ناخن لینے چاہئیں کہ خانقاہ ہے کیا؟ اس کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ اور بنیادی نظام یا انتظام کیا ہے؟