-پاکستان کا اگر سیرت النبی (ﷺ) کے تناظر میں مُطالعہ کیا جائے تو بہت سے حیرت انگیز پہلُو نکلتے ہیں جو بڑی مفید اور کار آمد راہنمائی فراہم کرتے ہیں۔۔۔
اِصلاحی جماعت کی ضرورت کیوں؟
متعلقہ لنکس
دُنیائے فلسفہ میں اسطورات کا عظیم باغی ، فلسفۂ یونان کا بانی اور افلاطون و ارسطو کا اُستاد ’’سقراط‘‘ ایک سنگ تراش کا بیٹا تھا اور پیدائشی طور پہ بے۔۔۔
کثیر الجہت و مافوق الفطرت داستانوں سے مزین تاریخِ جموں و کشمیر بہت پرانی ہے-جدید کشمیر کی تاریخ جغرافیائی، سماجی، سیاسی و مذہبی اعتبار سے 1864ء کے بد نام زمانہ۔۔۔
اکیسویں صدی جہاں سائنسی ترقی و مادی ترقی کے عروج کا مشاہدہ کر رہی ہے وہیں بدقسمتی سے اِسے اخلاقی اور روحانی زوال بھی پیش ہے-انسانی معاشرے بحیثیت مجموعی اخلاقی اقدار۔۔۔
افسوس!ہمارے ہاں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کی عظمت میں فقط ایک ہی پہلو اجاگر کیا جاتا ہے۔۔۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے خانوادۂ عالیہ میں جن نفوس قدسیہ کو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے چشمۂ فیضانِ سلطان العارفین کے جاری رہنے کی دلیل کہا جاتا ہے...
جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُوؒ نے اپنی ایک تصنیف میں فرمایا کہ: ’’یہ محبت ہی ہے جو دل کو آرام نہیں کرنے دیتی ورنہ کون ہے جو آسودگی نہیں چاہتا ‘‘-
تصوف کا اشتقاق مادہ ’’صوف‘‘سےبابِ تفعل کا مصدر ہے- اُس کے معنی ’’اون‘‘کے ہیں- لغویت کے لحاظ سے اون کا لباس عادتاً زیبِ تن کرنا ہے- لفظ صوف کی جمع ’’اصواف‘‘ ہے...
تصوف یا صوفی ازم اسلامی تہذیب و ثقافت کی اساسیات اور علومِ دینیہ کے اہم ترین موضوعات میں سے ہے جس کے مبادی، منابع اور مآخذ قرآن و سنت سے ثابت ہیں...
آج جس موضوع پہ گزارشات بیان کرنے جا رہا ہوں وہ ایک خالص علمی موضوع ہے جس کا تعلق براہ راست ہماری دینی اور ملی زندگی سے ہے- کیونکہ اس کے ساتھ ہماری روحیں جڑی ہیں؛
تحریر: سید امیر خان نیازی سروری قادری
اَلْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعٰلَمَےْنََ وَا لْعَا قِبَۃُ لِلْمُتَّقِےْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْکَرِےْمِ وَعَلٰی آلِہٰ وَاَصْحَابِہٰ اَجْمَعِےْنَo
ا مَّا بعد !اسلام کا بنیادی اور انتہائی مقصد بنی نوعِ انسان کوامن وسلامتی اور عدل و احسان سے مشرف کرکے قربِ الٰہی سے سرفراز کرنا ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کوپیدا ہی اپنے قرب و وصال کی خاطرکیا ہے جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے-: ’’وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِ نْسَ اِلاَّلِےَعْبُدُ وْنَ ج ‘‘ ﴿پارہ ۷۲ ، ا لذّٰ ریات ۶۵﴾ –
ترجمہ-:’’ اور مَیں نے نہیں پیداکیا جن اور انسان کومگر اپنی عبادت کے لئے‘‘- صوفیا ٔ مفسّرین کے نزدیک عبادت کے معنی اﷲ تعالیٰ کا قرب وو صال اورعشقِ الٰہی کی یافت ہے جس کا حصول اﷲ تعالیٰ کی معرفت اور پہچان کے بغیر ممکن نہیں ہے چنانچہ سےّد نا حضرت غوث الا عظم محی الدین شاہ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے-:’’ مَنْ لَّمْ ےَعْرِفُہ، کَےْفَ ےَعْبُدُ ہ،‘‘-
ترجمہ-:’’ جوشخص اﷲ تعالیٰ کو پہچانتا ہی نہیں وہ اُس کی عبادت کر کیسے سکتا ہے؟ ‘‘-یعنی عبادتِ کامل کے لئے اﷲ تعالیٰ کی معرفت وپہچان حاصل کرنا فرضِ اوّلین ہے -چنانچہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے -: ’’ وَلْتَکُنْ مِّنْ کُمْ اُمۃُ، یَّدْ عُوْنَ اِلٰی الْخَےْرِ وَ ےَاْ مُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَےَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَ اُوْلٰٓۓِک ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘ ﴿پارہ ۴ ،آل عمران ۴۰۱﴾ –
ترجمہ-:’’ اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جولوگوں کوقربِ الٰہی کی طرف بلائے ،معرفت ِحق تعالیٰ کی تلقین کرے اور برائی سے روکے، یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘-یہاں صوفیا ٔ کے نزدیک’’ خیر‘‘سے مراد اﷲ تعالیٰ کا قرب ووصال ہے جس کے لئے اﷲ تعالیٰ کی پہچان ومعرفت بنیادی ضرورت ہے -جب بندے کو اﷲ تعالیٰ کی معرفت اور پہچان حاصل ہوجاتی ہے تواُس کے اندرقرب ِ الٰہی کی طلب خود بخود پیدا ہوجاتی ہے جس سے برائی کا سدِباب ہوجاتاہے- اللہ تعالیٰ کی معرفت و پہچان کے تین درجے ہیں ،
﴿۱﴾ علم الیقین :یعنی عقلی وعلمی استدلال کے ذریعے اﷲ تعالیٰ کو پہچاننا – اِس درجے کی معرفت کادارومدار علمِ قیل وقال پر ہے جس کی تحقیق تخمین وظن یعنی علمی و عقلی اندازے سے ہوتی ہے اور تخمین وظن سے بدگمانی اور تنقید جنم لیتی ہے جس کا نتیجہ فساد وگروہ بندی کی صورت میں سامنے آتاہے اس لئے محض قیل وقال کے علم پرانحصار کرلینا ناکافی ہے کیونکہ قیل وقال محض ابتدا ہے یہ انتہا نہیں ہے- علم الیقین کے مرتبے پر اﷲ تعالیٰ کی معرفت نہایت ہی کمزور درجے کی ہوتی ہے اِس لئے انسان نفس و شیطان کے بہکاوے میں آکر ہر وقت گمراہی کے خطرے کی زد میں رہتا ہے-
﴿۲﴾ عین الیقین: چشمِ بصیرت یعنی دل کی آنکھ سے اﷲ تعالیٰ کے انوارِ جمال کامشاہدہ کرکے اﷲ تعالیٰ کوپہچاننا-اﷲ تعالیٰ کی معرفت وپہچان کا یہ مرتبہ بھی درمیانہ ہے کیونکہ اِس کا انحصار سنی سنائی باتوں کی بجائے مشاہدہ پر تو ہوتاہے لیکن اِس میں شیطانی استدارج کے دھوکے واقع ہوسکتے ہیں اور انسان ناقص راہنمائی و ناقص و خام مرشد کی تربیت کے باعث گمراہی کا شکار ہوسکتاہے-
﴿۳﴾ حق الیقین : چشمِ بصیرت سے انوارِ الٰہی کے مشاہدہ کے بعد تحقیق سے حقیقت ِحق تک پہنچنا- معرفت حق تعالیٰ کا یہ کامل ومکمل درجہ ہے- اِس میںگمراہی و کج فہمی کا خطرہ قطعاً نہیں ہے کیونکہ یہ مرتبہ قربِ الٰہی کامرتبہ ہے- قرآن مجید میں قربِ حق تعالیٰ کے طالب کی تربیت کے لئے کئی واقعات بیان فرمائے گئے ہیںجنھیں اگر سطحی طور پرپڑھا اور سمجھا جائے توانسان مضحکہ خیز نظریات وحالات کا شکار ہوجاتا ہے اور اگر اُنھیں انسان کی باطنی تربیت کی تعلیم کے طور پر پڑھا اور سمجھاجائے تو اِنسان غیر ضروری الجھنوں اور کج فہمیوں سے بچا رہتاہے- قرب ِالٰہی کے طالب کا ایماندار ہونا لازمی ہے اِس لئے ایمان کی کیفیت کاجاننا ازبس ضروری ہے – ایمان دل کی تصدیق و گواہی کانام ہے لیکن دل کی فطرت ہے کہ وہ دیکھے بغیر کسی بات کو تسلیم نہیںکرتا اور ہر بات میں مشاہدہ طلب کرتا ہے اور اُس کے لئے بے قرار رہتاہے – تکمیل ِایمان کے لئے مشاہدے کی اہمیت واضح کرنے کے لئے ایک واقعہ یوں بیان فرمایاگیاہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بارگاہِ رب العزت میں یوں التجاکی-:
’’ وَاِذْ قَالَ اِبْرَاھِےْمُ رَبِّ اَرِنِیْ کَےْفَ تُحْیِ الْمَوْتیٰ ط قَالَ اَوَلَمْ تُوْمِنْ ط قَالَ بَلیٰ وَلٰکِنْ لِّےَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ‘‘ ﴿پارہ ۳،ا لبقرہ ۰۶۲﴾-
ترجمہ -:’’اور جب ابراہیم علیہ السلام نے التجا کی کہ اے میرے پروردگار ! مجھے مشاہدہ کرادے کہ تُو مُردوں کوکس طرح زندہ کرے گا؟فرمایا!کیا تُواِس پرا یمان نہیں رکھتا؟ عرض کی ! کیوں نہیں لیکن مَیں اپنے دل کومطمئن کرنا چاہتاہوں ﴿کہ دل دیکھے بغیر مطمئن نہیں ہوتا﴾ ‘‘-اِس واقعہ میں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کامل ایمان کے لئے محض سنی سنائی اور قیاسی باتیںکافی نہیں ہیں بلکہ ایمان کی بنیاد مشاہدہ کے نتائج پرمنحصرہے اور مشاہدے کے بغیر دل تصدیق نہیں کرتا بلکہ اعتراض اور نکتہ چینی کرتا ہے-اِسی طرح کی ایک آیت ِمبارکہ یوں بھی وارد ہے -: ’’ وَکَذٰ لِکَ نُرِیْ ٓ اِبْرَاھِےْمَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰ تِ وَالْاَ رْضِ وَلِےَکُوْنَ مِنَ الْمُوْ قِنِےْنَ ‘‘ ﴿پارہ ۷ الانعام ۶۷﴾-
ترجمہ-:’’ اور اِسی طرح ہم نے ابراہیم ﴿علیہ السلام﴾کوزمین وآسمان کے ملکوت دکھلائے تاکہ وہ کامل یقین والوں میںسے ہوجائیں‘‘-اس آیت میں بھی ایمان کے لئے مشاہدے کی اہمیت اُجاگر کی گئی ہے ورنہ نبی ہمیشہ حق الیقین کے مرتبے پر فائز ہوتا ہے – چونکہ مشاہدے میں بھی کج فہمی کے خطرات پائے جاتے ہیں اِس لئے طالبانِ حق تعالیٰ کوتحقیق کی طرف راغب کرنے کے لئے ایک واقعہ یوں بیان فرمایا گیاہے-:’’ فَلَمَّا جَنَّ عَلَےْہِ الَّےْلُ رَاٰکَوْکَباً ج قَالَ ھَذَ ا رَبِّی ج فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَآ اُحِبُّ الْاٰ فِلِیْنَo فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَبَازِغًا قَالَ ھٰذَ ا رَبِّیْ ج فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَّمْ یَھْدِ نِیْ رَبِّیْ لَاَ کُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآ لِّیْنَo فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِ غَۃً قَالَ ھٰذَ ا رَبِّیْ ھٰذَ ا اَکْبَرُ ج فَلَمَّآ اَ فَلَتْ قَالَ یٰقَوْمِ اِ نِّیْ بَرِیْ ٓ ئٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَo اِ نِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِ یْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَ رْضَ حَنِیْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِےْن‘‘﴿پ۷ الانعام ۷۷تا۰۸﴾
ترجمہ -:’’ پھر جب اُن پر رات چھاگئی تو﴿ ابراہیم علیہ السلام نے ﴾ایک تارا دیکھا تو بولے یہ میرا ربّ ہے ، پھر جب وہ ڈوب گیا تو بولے ڈوبنے والے مجھے پسند نہیں ہیں،پھر جب چاند چمکتا دیکھا توبولے یہ میرا ربّ ہے پھر جب وہ بھی ڈوب گیا توبولے اگر میراربّ مجھے ہدایت نہ کرتا تو مَیں بھی گمراہوںمیں ہوتا ،پھر جب سورج کو جگمگاتے دیکھا تو بولے یہ میراربّ ہے، یہ تواُن سے بھی بڑا ہے- پھر جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہا کہ اے میری قوم ! مَیںبیزار ہوں اُن چیزوں سے جنھیں تم شریک ٹھہراتے ہو، مَیں نے اپنا منہ اُس کی طرف کیا جس نے زمین وآسمان بنائے ،اُسی ایک کاہو کراور مَیں مشرکوں میں سے نہیں ہوں‘‘- یہ آیات بھی دراصل باطنی مشاہدے کی روئیداد ہے کیونکہ قربِ الٰہی کاطالب جب باطن میں منازلِ سلوک طے کرتاہے تو وہ مختلف باطنی مقامات ومنازل و حالات سے گزرتا ہے اور وہ مختلف تجلیات کودیکھتاہے- مقامِ ناسوت میں جب سالک پر تجلی ٔ نفس نمودار ہوتی ہے تو اعمالِ صالحہ کے انوار اُسے ستارے کی مانند نظر آتے ہیں اور وہ اُنھیں غلط فہمی سے اﷲ تعالیٰ کے ذاتی انوار کی تجلی سمجھ کرپکار اُٹھتا ہے کہ مَیں نے اپنے ربّ کو پالیا ہے لیکن کچھ عرصہ بعد جب وہ اِس مقام سے ترقی کرکے آگے بڑھتا ہے توانوارِ افعال کی تجلی معدوم ہوجاتی ہے اور وہ جان لیتاہے کہ یہ تجلی اﷲ تعالیٰ کے ذاتی انوار کی نہ تھی – اِس کے بعد جب وہ مقامِ ملکوت میں پہنچ کرتجلی ٔقلب کوپاتا ہے تو اُسے اسمائے باری تعالیٰ کے انوار چاند کی صورت میں نظر آتے ہیں اور پھر وہ پکار اُٹھتاہے کہ مَیں نے ذاتِ الٰہی کے انوار کوپالیا ہے اور جب وہ مزید ترقی کرتا ہے تو یہ تجلی بھی معدوم ہوجاتی ہے اور وہ جان لیتا ہے کہ یہ انوار ِ ذات کی تجلی نہیں تھی اور جب وہ مزید ترقی کرکے عالمِ جبروت میں پہنچتا ہے تواس پر تجلی ٔروح وارِد ہوتی ہے اور اُسے صفاتِ الٰہی کے انوار سورج کی طرح روشن نظر آتے ہیں تو وہ اُنھیں انوارِ ذات سمجھ کرپکاراُٹھتا ہے کہ اب مَیں نے ذاتِ الٰہی کے انوار کوپالیا ہے اور جب سالک مزید آگے بڑھ جاتا ہے تو سمجھ جاتا ہے کہ یہ انوار بھی ذاتِ الٰہی کے نہ تھے اور کہہ دیتا ہے کہ مَیں اِن ڈوبنے والوں کوپسند نہیںکرتا ،اِس کے بعد جب وہ مقامِ لاہوت میں پہنچتا ہے تو اُسے اﷲ تعالیٰ کے ذاتی انوارکی بے کیف وبے جہت اور بے چون وبے چگون تجلی نظر آتی ہے جو کسی صورت میں زائل اور معدوم نہیں ہوتی اور وہ تحقیق کرلیتاہے کہ یہ تجلی اﷲ تعالیٰ کے ذاتی انوار کی ہے -اِس سارے واقعہ کی غرض وغایت یہ ہے کہ قربِ حق تعالیٰ کے طالب کوراہِ معرفت میں پیش آنے والے خطرات سے باخبر کردیا جائے تاکہ وہ راستے کی کسی منزل پرمطمئن ہوکر ساکن نہ ہوجائے کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کاارشاد مبارک ہے -: ’’ اَلسَّکُوْنُ حَرَامُ، عَلٰی قُلُوْبُ الْاَوْلِےَآئِ‘‘-
ترجمہ:-’’ کسی ایک مقام پرساکن ہو کررہ جانا اولیا ٔ اللہ کے دلوں پرحرام ہے‘‘-چونکہ ایمان کی تکمیل مشاہدے کی محتاج ہے اِس لئے اﷲ تعالیٰ نے طالب ِحق تعالیٰ کومشاہدے کی طرف راغب کرنے کے لئے مزید فرمایا ہے-:’’ سَنُرِےْھِمْ اٰےٰتِنَا فِی الْاٰ فَاقِ وَفِیْ اَنْفُسِھِمْ حَتّٰی ےَتَبَےَّنَ لَھُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ‘‘-﴿پارہ ۵۲ حٰم ٓ السجدہ ۳۵﴾- ترجمہ-:’’ابھی ہم اُنھیں دکھائیں گے اپنی نشانیاں آفاق میں بھی اور اُن کے انفس میں بھی، یہاں تک کہ اُن پر کھل جائے کہ بیشک وہی حق ہے‘‘-
اِس آیت ِمبارکہ میں اﷲ تعالیٰ نے آفاق اور انفس کے دوجہانوں کا ذکر فرمایا ہے ، آفاق اِس ظاہری جہان کو کہا جاتاہے جس میں ہم اور آپ رہتے ہیں اور اِس کا مشاہدہ ظاہری حواسِ خمسہ سے کیا جاتاہے لیکن انفس اُس غیبی جہان کوکہاجاتا ہے جس کوصرف باطنی حواس سے دیکھا بھالا جاسکتا ہے ،ظاہری حواس عالمِ انفس کومحسوس نہیںکرسکتے ، انفس کو عالمِ غیب بھی کہا جاتاہے اور عالمِ باطن بھی- عالمِ انفس اصل ہے اور عالمِ آفاق اُس کی نقل ہے یہی وجہ ہے کہ روح کا اصل معاملہ عالمِ انفس یعنی عالمِ غیب سے ہے اور اِسی لئے ہی اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میری معرفت اور پہچان کا ذریعہ وہ نشانیاں ہیں جو عالمِ آفاق اور عالمِ انفس میں چھپی ہوئی ہیں -مزید فرمایا-: ’’ ا لٓمٓ ج ذٰ لِکَ الْکِتٰبُ لَارَےْبَ فِےْہِ ج ھُدًی لِّلْمُتَّقِےْنَo لا الَّذِ ےْنَ ےُؤْمِنُوْنَ بِالْغَےْبِ ‘‘﴿پارہ ۱ ، البقرہ ۱ تا ۳﴾
ترجمہ-:’’ الٓمٓ یہ وہ کتاب ہے جس کے حق ہونے میںکوئی شک نہیں ہے، یہ ہدایت بخش ہے اُن متقی لوگوں کے لئے جوعالمِ غیب پرایمان رکھتے ہیں‘‘-یعنی جوعالمِ غیب کامشاہدہ کرتے ہیںکیونکہ ایمان کادارومدار باطنی مشاہدے پر ہے اور باطنی مشاہدے ہی سے ایمان مضبوط، کامل اور درست ہوتاہے-ذاتِ الٰہی سے لے کر کائنات کے سب سے نچلے درجے تک تین طبقاتِ مخلوق ہیں اور تین طبقاتِ انوارِ ذاتِ حق سبحانہ، و تعالیٰ ہیں -مخلوق کے تین طبقات یہ ہیں :
﴿۱﴾ سب سے نچلا طبقہ جس میںہم اِس وقت موجود ہیں ناسوت کہلاتا ہے-
﴿۲﴾ ناسوت سے اوپر ملکوت ہے-
﴿۳﴾ ملکوت سے اوپر جبروت ہے-
اِن سے اوپرتین طبقات انوارِ ذاتِ حق سبحانہ، و تعالیٰ کے ہیں –
﴿۱﴾جبروت سے آگے لاھُوت ہے ،یہ انسان کااصلی گھر ہے اور اِسے حقیقت ِانسانیہ بھی کہاجاتاہے –
﴿۲﴾لاھُوت سے آگے یاھُوت ہے ، اِسے نورِمحمدی صلی اﷲ علیہ وآلہٰ وسلم یاحقیقت ِمحمدیہ صلی اﷲ علیہ وآلہٰ وسلم کہتے ہیں-
﴿۳﴾یاھُوت سے آگے ھاھویت ہے،یہاں خالص توحید ِذاتِ حق تعالیٰ ہے-
ناسوت میں انسان کی کامیابی وسعادت کاذریعہ علمِ شریعت اور اعمالِ شریعت ہیں اور اِس کا صلہ جنت الماویٰ ہے جو قربِ الٰہی سے بہت دُور ہے اِس لئے انسان کواِس پر اکتفا کرکے نہیں رہ جانا چاہیے کہ یہ قربِ الٰہی سے روک رکھنے والا پھندہ ہے۔ناسوت سے نکلنے کا ذریعہ علمِ طریقت اور اعمالِ طریقت ہیں جن کے ذریعے انسان ناسوت سے نکل کرملکوت میں داخل ہوتاہے جہاں اُس کاٹھکانہ جنت ِنعیم ہے لیکن جنت ِنعیم کارزق بھی قربِ الٰہی سے دُور رکھنے کاایک پھندہ ہے- انسان کواِس سے بھی آگے بڑھنا چاہیے- ملکوت سے نکلنے کا ذریعہ علمِ معرفت اور اعمالِ معرفت ہیں جن کی مدد سے طالب ِحق ملکوت سے نکل کرجبروت میں داخل ہوتا ہے جہاں اُس کا ٹھکانہ جنت الفردوس ہے لیکن یہ مقام بھی قربِ الٰہی سے دُور طالب ِحق کے لئے ایک خوش نما پھندہ ہے- جنت الفردوس کے رزق پربھی مطمئن ہوکر نہیں بیٹھ رہنا چاہیے- جبروت سے نکل کراپنے اصلی وطن عالمِ لاھُوت میں پہنچنے کا ذریعہ علمِ حقیقت اور اعمالِ حقیقت ہیںجن کا صلہ لاھُوت میں جنت ِ قرب ہے جس میں حورو قصور اور رزق کی نعمتیں نہیںہیں بلکہ وہاں صرف اﷲ تعالیٰ کے ذاتی انوار کی تجلیات ہیں جہاں انسان مطمئن و بے غم ہوجاتا ہے کیونکہ وہ عالمِ خلق سے آگے نکل کر روحِ قدسی کی حالت میں قربِ الٰہی میں قرار پکڑتا ہے – انسان کی اِسی حالت کواﷲ تعالیٰ نے اپنی روح قرار دے کرفرمایا ہے -: ’’ وَنَفَخْتُ فِےْہِ مِنْ رُّوْحِیْ‘‘
﴿پارہ ۴۱،ا لحجر ۹۲﴾
ترجمہ-’’ اور مَیںنے پھونکی اِس ﴿انسان کے وجود﴾میں اپنی روح ‘‘- اور انسان کی یہ روح عالمِ خلق سے نہیں بلکہ عالمِ امر سے ہے جوعالمِ غیب سے متعلق ہے ، انسان جب تک عالمِ خلق کے طبقات ناسوت ،ملکوت اور جبروت میں رہتا ہے توخطرات میں گھرا رہتاہے اور نفس وشیطان اُسے کسی بھی وقت زِ ک پہنچا سکتے ہیں اِس لئے عارفوں نے طالبانِ حق تعالیٰ کوبار بار اِس سے متنبّہ کیا ہے چنانچہ علامہ اقبال رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:
اے طاہرِ لاھُوتی اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اُس میں ہیں آفاق
یہ کافری تو نہیں کافری سے کم بھی نہیں
کہ مردِ حق ہو گرفتارِ حاضر و موجود
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ ناسوت سے جبروت تک جملہ مقامات کے متعلق فرماتے ہیں-:’’قرب ِالٰہی اور بندے کے درمیان تہتّر کروڑ تراسی لاکھ اور اکتیس ﴿۱۳۰۰۰۳۸۳۷﴾ مراتب ہیںجن میں سب سے بالائی مقام’’ سِرّالا می‘‘ ہے، اُس سے آگے لامکان ہے لیکن فقیر کی نظر میں یہ سب مقامات مچھر کے پَرجتنی وقعت بھی نہیں رکھتے کہ اُن میںرجوعات ِخلق پائی جاتی ہیں‘‘- ﴿عین الفقر﴾
اے درویش اگر تُوہوا میں اُڑتاہے توتُو مکھی ہے ﴿کہ مکھی تجھ سے بہتر انداز میں اُڑ سکتی ہے ﴾-اے درویش اگر تُوپانی پرچلتا ہے توتُو تنکا ہے ﴿کیونکہ تنکا پانی پر تجھ سے بہتر تیرسکتاہے ﴾- اے درویش اگر تُو لوحِ محفوظ کامطالعہ کرے لوگوں کواُن کی تقدیروں کے احوال بتا تاہے تو تُو نجومی ہے ﴿کیونکہ نجومی تجھ سے بہتر پیشین گوئیاں کرسکتاہے﴾-یہ فقیری ودرویشی نہیںہے- فقیری ودرویشی یہ ہے کہ تُو توحید ِباری تعالیٰ میںاِس طرح غرق ہو جائے کہ تجھے ہرچیز میں اﷲ تعالیٰ کے انوارِ توحید نظر آئیں اور تُو باطنی طورپر ہروقت حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی مجلس میں حاضر رہے- ﴿عین الفقر﴾
انسان جب ناسوت میں اعمالِ شریعت سے ابتدا کرکے باطن میں اعمالِ طریقت ومعرفت وحقیقت کے ذریعے مجلس ِمحمدی صلی اﷲ علیہ وآلہٰ وسلم میں پہنچ کرتوحید ِ باری تعالیٰ میں پہنچتاہے تو اُس کا ایمان کامل ہوجاتا ہے اور وہ کلمہ شہادت ادا کرتے ہوئے اعلان کرتاہے -: ’’ اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً عَبْدُہ، وَرَسُوْلُہ،‘‘-
ترجمہ-:’’ مَیںگواہی دیتاہوں کہ اﷲ کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں اور مَیں یہ بھی گواہی دیتاہوں کہ محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٰ وسلم اللہ تعالیٰ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں‘‘-کلمہ شہادت عام کلمہ نہیںہے بلکہ یہ شہادت و گواہی ہے اور گواہی دیکھے بغیر جھوٹی قرار پاتی ہے- یہ کامل مومنین کاکلمہ ہے جو مرنے سے پہلے مرکر ﴿بشریت کے تینوں طبقات ِناسوت ،ملکوت اور جبروت سے نکل کر﴾قرب ِخداوندی میںپہنچ کرحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کرکے پڑھتے ہیں -عارفوں کی نگاہ میں زبانی کلمہ پڑھنے والامسلمان توہے لیکن مومن نہیں ہے چنانچہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
خرد نے کہہ بھی دیا لَآ اِلٰہَ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
نگاہِ شوق میسّر نہیں اگر تجھ کو
تیرا وجود ہے قلب و نظر کی رسوائی
عالم ہے فقط مومنِ جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہے
جولوگ صرف شریعت کے ظاہری اعمال کوہی کامل ایمان اور کامل اسلام سمجھتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں اور ظاہری اعمالِ صالحہ اداکرنے کے باوجود وہ تہی دست رہ کرقربِ الٰہی سے دُور رہتے ہیں حالانکہ انسان کی پیدائش کااصلی مقصد قربِ الٰہی کا حصول ہے- شیخ الا کبر محی الدین ابن ِعربی (رح) اپنی تفسیر ابن ِعربی میں’’ غَےْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَےْھِمْ وَلَاالضَّآلِےْن‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں -: ’’ یہاں مَغْضُوْبسے مراد یہود ہیں اور ضَالِےْنسے مراد نصاریٰ ہیںاور اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہود نے باطن کوچھوڑ دیا اور صرف ظاہری اعمالِ شریعت نماز،روزہ،حج ،زکوٰۃ اور جنت دوزخ کی دعوت دیتے رہے اور محض بدنی اعمال کی قید میں مقےّد ہوکررہ گئے -اﷲ تعالیٰ نے اُنھیں باطن سے رو گردانی کے جرم میں مغضوب قرار دے دیا ،اِس کے برعکس نصاریٰ اعمالِ شریعت کوچھوڑ کرصرف باطن کی تکمیل کی طرف متوجہ ہوئے اور راہب بن کررہ گئے اورشریعت سے رو گردانی کی بدولت گمراہی کے گڑھے میں جا گرے‘‘-
قانونِ الٰہی اب بھی وہ ہے کہ جوشخص ظاہر یاباطن میں سے اگر کسی ایک کو چھوڑتا ہے توگمراہی اُس کاانجام ہے اور وہ قربِ الٰہی توبڑی دُور کی بات ہے دُنیا میں بھی رسوا و ذلیل ہوگا- مسلمانوں نے جب سے باطن کی تکمیل سے روگردانی اختیار کی وہ دُنیا میں یہود ونصاریٰ سے بھی ذلیل ورُسوا تر ہوکررہ گئے -مومن کے لئے ظاہر و باطن دونوں میں کمال حاصل کرنا ضروری ہے- اِس سے بھی بڑھ کر ایک خرابی یہ ہے کہ اعمالِ صالحہ محض جہنم کے خوف یا جنت کے حصول کی خاطر کئے جانے لگے ہیں- یہ درست ہے کہ اعمالِ صالحہ کا اجر ضرور ہے اور قرآن و حدیث میں اِس کا تذکرہ بھی باربار آتاہے مگر یہ صرف انسان کوپاکیزگی کی طرف راغب کرنے کا بہانہ وذریعہ ہے کیونکہ محض لالچ وطمع کی خاطر اگر عبادت کی جائے توہوسکتا ہے کہ جنت الماویٰ تک رسائی حاصل ہوجائے مگر قربِ الٰہی سے محرومی تویقینی امر ہے اور اگر جہنم کے خوف سے عبادت کی جائے توہوسکتا ہے کہ جہنم سے توخلاصی ہوجائے لیکن قربِ الٰہی ہرگز میسّر نہ آئے گا –
زبور شریف میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے -: ’’اُ س شخص سے بڑھ کرظالم اور کون ہے جو میری طاعت جہنم یا جنت کی خاطر کرتاہے ؟ اگر مَیں جہنم یا جنت کوپیدا نہ کرتا تو کیامیری شان اِس لائق نہیںتھی کہ میری طاعت کی جائے‘‘- علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
واعظ کمالِ ترک سے ملتی ہے یاں مراد
دُنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے
سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر جزا کی تمناّ بھی چھوڑ دے
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ایک مرتبہ عابدوں کی ایک جماعت کودیکھا جو زہد و عبادت میں لاغر ہورہے تھے ،آپ نے اُن سے پوچھا کہ تمہاری یہ حالت کس وجہ سے ہو رہی ہے ؟ اُنھوں نے جواب دیا کہ ہم دوزخ کے خوف اور جنت کی طمع میں مبتلا ہیں-آپ نے فرمایا کہ تم تو مخلوق سے ڈرتے ہواور مخلوق کی طمع رکھتے ہو-اِس کے بعد ایک اور جماعت کو دیکھا جو زہد و عبادت میں لاغر ودُبلے ہورہے تھے،آپ نے اُن سے پوچھا کہ تم اِس حالت کو کیونکر پہنچے ہو؟ اُنھوں نے جواب دیا کہ ہم اﷲ تعالیٰ کی محبت اور تعظیم میں ایسے ہو رہے ہیں-عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم واقعی اﷲ کے دوست ہو مجھے تمہارے ہی ساتھ رہنے کاحکم ہُواہے-
سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں -:’’ دنیا مقامِ ہوا ہے اور عقبیٰ مقامِ ہوس ہے، بارگاہِ حق تعالیٰ کا مقرب اِن دونوں سے تعلق نہیں رکھتا-اﷲ بس ماسویٰ اﷲ ہوس‘‘ – ﴿کلیدالتوحید خورد ﴾
حضرت ابو حاذم (رح) فرماتے ہیں -: ’’مجھے شرم آتی ہے کہ خدا کی عبادت ثواب یاعذاب کی وجہ سے کروں اور اُس بدذات غلام کے موافق بنوں کہ جسے اگر ڈر نہ ہو تو کام نہ کرے ‘‘-
حضور علیہ الصلوٰۃکافرمان ہے -:’’ تم میں سے کوئی ایسا نہ ہوجائے کہ جیسے ایک بُرا مزدور کہ اگر مزدوری نہ پائے توکام نہ کرے اور ایسا نہ ہوجائے کہ جیسے ایک براغلام کہ جسے اگر خوف نہ ہوتو کام نہ کرے‘‘-
ﷲ تعالیٰ کاقرب اور اُ س کی معرفت تما م اشیا سے لذیذ تر ہے کوئی لذّت بھی اِس سے بڑھ کرنہیں ہے اِس لئے حضرت ابو سلیمان دارانی (رح) فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہیں کہ اُن کوخدا تعالیٰ سے نہ تو خوفِ جہنم روکے اور نہ توقعِ جنت- ایسے لوگوں کو دنیا کس طرح روک سکتی ہے ؟حضرت معروف کرخی (رح)سے بعض مریدوں نے پوچھا کہ کس چیز نے آپ کوعبادت کی طرف راغب کرکے مخلوق سے علیحدگی پر مجبورکیا ہے ؟ کیا موت کی یاد نے؟ فرمایا! نہیں- کہا کیا قبر میں برزخ کی یاد نے ؟ فرمایا! نہیں- کہا کیا خوفِ دوزخ اور اُمید ِبہشت نے ؟ فرمایا!نہیں،یہ سب چیزیں توایک بادشاہ کے قبضے میں ہیں اگر تم اُس بادشاہ کوچاہنے لگو تواِن سب کوبھول جائو گے،اگرتمہیں اُس کی معرفت حاصل ہوجائے تو تم اِن سب سے بچ جائو گے کہ معرفتِ الٰہی کی لذت تمہیں یہ سب چیزیں بھلاد ے گی-
مندرجہ بالا حقائق کومدِّ نظر رکھ کر اگر غور سے دیکھا جائے توتمام عالمِ اسلام میں جتنی جماعتیں تبلیغِ دین کافریضہ سرانجام دے رہی ہیںاُن کے تمام مشاغل عالمِ خلق کے مسائل تک محدود ہیں اور اُن کی دعوت کا محور اجر وثواب یاخوفِ دوزخ ہے – اعمالِ شریعت کی طرف محض اس لئے رجوع ہورہا ہے کہ ُان کی بدولت جہنم سے خلاصی اور جنت کاحصول ممکن ہوسکے- اُن میں سے کوئی ایک جماعت بھی ایسی نہیں ہے جو قربِ الٰہی کی طرف کوشاں ہو- چند ایک جماعتیں باطنی اعمال کی مدعی ہیں لیکن عملی طور پر اصلی راہ ِسلوک سے کوسوں دُور ہیں-اصلی راہ تووہ ہے کہ جس کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا ہے -: ’’ شریعت ایک درخت ہے ،طریقت اُس کی ٹہنیاں ہیں ،معرفت اُس کے پتے ہیں اور حقیقت اُس کاپھل ہے اور قرآن اِن سب کا جامع ہے‘‘-لیکن اکثر نے شریعت کودین کے ضروری اعمال نماز ، روزہ ، حج،زکوٰۃ اور جہاد کی ظاہری صورت تک محدود کرلیا ہے اور اِسی میں خود کو گم کردیا ہے اور طریقت معرفت اور حقیقت کو غیر ضروری قرار دے دیاہے اور جنھوں نے اہل ِطریقت ہونے کادعویٰ کیاہے توقریب جاکر پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ طریقت کی ابجد سے بھی واقف نہیںہیں-چونکہ باطن کے مشاہدے کی چابی شریعت کی پیروی کرتے ہوئے مرشد کامل کی زیر نگرانی ’’ ذکر اﷲ‘‘ ہے اِس لئے بعض نام نہاد ذاکر ین حبس ِدم کرکے سینے کے اندر رکھے ہوئے گوشت کے لوتھڑے دل کی دھڑکن تیز کرلیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ قلب زندہ ہوگیا ہے اور اِسی میں مگن ہوکر لوگوں کو دعوت دیتے پھر رہے ہیں اور کئی حضرات ذکر ِجہر کے ذریعے مستی ٔ حال کو باطنی تکمیل کانام دیتے ہیں- صوفیا کے نزدیک یہ سب محض جہالت ہے اور طالبانِ حق تعالیٰ کی راہزنی ہے- سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:
﴿۱﴾’’ مَیں حیران ہوتاہوں اُن احمق اور سنگ دل لوگوں پر جو رات دن بلند آواز سے ’’ اَللّٰہ ھُوْ، اَللّٰہ ھُوْ ‘‘کرتے رہتے ہیں مگر اسم اﷲ ذات کی کنہ کو نہیں جانتے اور رجعت کھا کر پریشان حال اہل ِبدعت ہو جاتے ہیں اور اُن کے سر میں خواہشاتِ نفسانی سمائی رہتی ہیں -﴿کلید التوحید خورد صفحہ۳۳﴾
﴿۲﴾اسم اﷲ ذات کی شان یہ ہے کہ اگر کوئی شخص تما م عمر نماز ،روزہ ، حج ، زکوٰۃ ، تلاوتِ قرآن مجید اور ہرقسم کی ظاہری عبادات میں مشغول رہے یا عالمِ دین بن کراہل ِ فضلیت بن جائے لیکن اگر تصورِ اسم اﷲ ذات اور تصورِ اسمِ محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٰ وسلم سے بیگانہ رہاتو اُس کی ساری عمر کی ریاضت وعبادت برباد وضائع ہوگئی- ﴿عین الفقر صفحہ ۹۴﴾
﴿۳﴾تصورِ اسم اﷲ ذات کے بغیر دل سے خطرات خناس اور شیطان دفع نہیں ہوتے خواہ ساری عمر ہی عربی کامعلم بنا رہے اور فقہ کے مسائل پڑھتا رہے خواہ ساری عمر عبادت و ریاضت میںصرف کردے، خواہ کثرتِ ریاضت سے اُس کی پیٹھ کبڑی ہوجائے اور جسم سوکھ کر کانٹا ہو جائے لیکن دل اُسی طرح تاریک رہتاہے ،کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا خواہ اپنا سر ریاضت کے پتھر سے ٹکراتا رہے-﴿کلیدالتوحید کلاں صفحہ ۹۰۱﴾
﴿۴﴾دل یہ نہیں ہے جس کی جنبش تجھے شکم کے بائیں طرف معلوم ہوتی ہے ، بدن میں یہ حیوانی دل توکفار ،منافق ومسلم سب کے پاس موجود ہے -﴿عین الفقر صفحہ ۹۹۳﴾
﴿۵﴾وہ لوگ کتنے احمق ہیں جو دل،نفس اور روح کے باطن کا علم نہیں رکھتے اور گوشت کے ایک لوتھڑے کودل کے مقام سے ہلاکے تفکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ذکر ِ قلبی ہے اور گوشت کے اِس لوتھڑے کی دھڑکن کودم کے ساتھ ملا کرسینے میں لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ذکر ِقربانی ہے اور گوشت کے اِس لوتھڑے کوآنکھ کے سامنے رکھ کرکہتے ہیں کہ یہ ذکر ِنور حضور ہے اور اِسی گوشت کے لوتھڑے کو تفکر سے مغز ِ سر میں لے جاتے ہیں اور اِس کانام ذکر ِسلطانی روحانی رکھتے ہیں ، یہ تمام لوگ غلطی پر ہیں ، یہ تمام وساوس اور خطراتِ شیطانی ہیں – ﴿کلیدالتوحید کلاں صفحہ ۷۱۱﴾
﴿۶﴾ ذاکر ِمخفی کی نشانی یہ ہے کہ وہ خلوتِ دل میں حق الیقین کا مشاہدہ کرتا ہے-﴿کلید التوحید کلاں صفحہ ۸۱۱﴾
﴿۷﴾ ذاکر ہمیشہ نفس پر غالب اور قلندر صفت ہوتاہے اگر کوئی شخص چاہے کہ نفس اُس کا تابع و مطیع ہوجائے، مچر ب اور مرغن غذا کھانے اور زرّ ین و اطلس کا لباس پہننے کے باوجود دنیاو شیطان سے محفوظ رہے اور خناس خرطوم ، وساوس ،اوہام اور خطرات اس کے وجود سے نیست ونابود ہوجائیں تواُسے چاہیے کہ وہ اپنے دل میں تصور سے اسم اﷲ ذات نقش کرے- ﴿کلیدالتوحید کلاں صفحہ ۱۲۱﴾
﴿۸﴾ کسی دینی یادنیوی کام کے لئے چالیس دن کے لگا تار چلے سے گھڑی بھر کا تصورِ اسم اﷲ ذات بہتر ہے کیونکہ اِس سے انسان دم بھر میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی مجلس میں پہنچ سکتاہے ،ایسے شخص کونماز ِ استخارہ کی کیاحاجت ہے؟ کیونکہ وہ دونوں عالم کا نظارہ اپنے ناخن کی پشت پر کرتا ہے لیکن یہ بھی فقر کا ابتدائی درجہ ہے – ﴿کلیدالتوحید کلاں صفحہ ۸۹﴾
﴿۹﴾ اسم اﷲ ذات کا تصور جس شخص پر اثر کرتاہے اُسے ظاہری و باطنی علوم کاعالم فاضل بنا دیتاہے – تصورِ اسم اﷲ ذات ہی حضوریٔ حق تعالیٰ ہے ،تصورِ اسم اﷲ ذات ہی اِلاَّ اللّٰہُ کی معرفت عطا کرکے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں پہنچاتاہے اور تصورِ اسم اﷲ ذات ہی سے تما م خطرات و توہمات کی پلیدی دُور ہوتی ہے- تصورِ اسم اﷲ ذات ہی کے ذریعے دل کی تختی پر سے معرفت ِالٰہی کے اوراق کامطالعہ کیاجاتاہے- ﴿کلیدالتوحیدکلاں صفحہ ۱۰۱﴾
﴿۰۱﴾ اہل ِتقلید کاذکر لا حاصل مشقت ہے ، ایسے ذکر پر لاحول پڑھنا چاہیے کیونکہ ذکراﷲ میں حال کی مستی خام خیالی ہے ،گرمی سردی مخنث نامر د کی نشانی ہے، راگ سن کر رونا اور کانپنا مرتبۂ شیطانی ہے ،دیوانگی اور لاشعوریت جنونیت کی نشانی ہے، ایسے لوگ معرفت ِ خداوندی سے خالی ہوتے ہیں- ﴿کلیدالتوحیدکلاں صفحہ ۲۰۱﴾
﴿۱۱﴾ اے طالب ِمولیٰ تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ معرفت ِتوحید ،تجرید تفرید،مجاہدہ ومشاہدہ ذکر وفکر اور مکاشفہ کااصلی مقصد دل کو زندہ کرناہے- دلوں کاکشف تواحمق ودیوانے مجذوب کامرتبہ ہے، نفس کا محاسبہ اور قبروں کے کشف کا مراقبہ خام آدمیوں کامرتبہ ہے ، قبض ،بسط ،الہام اوروہم وخیال ہجر وفراق کا مرتبہ ہیں اور طبقات ِخلق کی طیر سیر حرص وہوا کی علامت ہے – ﴿کلیدالتوحید کلاں صفحہ ۲۰۱﴾
﴿۲۱﴾تصورِ اسم اﷲ ذات کے ذریعے طالب اﷲ لاھُوت میں ساکن ہوکر مشاہد ۂ انوارِ دیدارِ ذات کھلی آنکھوں سے کرتا ہے اور ہر دوجہاں کی آرزوئوں سے بیزار ہو جاتا ہے، عین دیکھتاہے، عین سنتا ہے اور عین پاتاہے-﴿نورالہدیٰ کلاں صفحہ ۷۱۱﴾
﴿۳۱﴾ معرفت ووصال کا یہ انتہائی مرتبہ ہے کہ جس وقت بھی طالب اللہ چاہے دیدارِ الٰہی سے مشرف ہوجائے اور جب بھی ارادہ کرے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں شرفِ باریابی حاصل کرے ، یہ مراتب تب حاصل ہوتے ہیں جب مرشد ِکامل طالب اﷲ کوپہلے ہی روز تصورِ اسم اﷲ ذات کی حاضرات کاوہ انتہائی راستہ دکھا دے جس میں تمام علوم خود بخود آجاتے ہیں، جس سے حکمت کے تمام خزانے کھل جاتے ہیں -یہ علمِ کل مرشد کے ذریعے صرف طالبانِ صادق کواِس طرح بے واسطہ حاصل ہوتاہے جس طرح کہ ایک چراغ سے دوسراچراغ روشن ہوتاہے -یہ علم کسبی طور پر رسم رسوم سے ہر گز حاصل نہیںہوتا بلکہ یہ خاص اﷲ حیُّ قیوم کاعلم لدنی عارفوں میںسینہ بسینہ ، توجہ بتوجہ ،تصور بتصور ،تفکر بتفکر اور تصرف بتصرف منتقل ہوتارہتا ہے- ﴿نور الہدیٰ کلاں صفحہ ۲۵﴾
﴿۴۱﴾انسان کے وجودمیں اﷲ تعالیٰ اِس طرح پوشیدہ ہے جس طرح پستہ کے اند ر مغزچھپا ہواہے- مرشد ِکامل ایک ہی دم میں طالب اﷲ کو حضور ِحق تعالیٰ میںپہنچا کر مشرفِ دیدار کردیتاہے ، کیا عالمِ حیات اور کیا عالمِ ممات کسی بھی وقت اﷲ تعالیٰ سے جدا نہیں ہوتا-﴿نورالہدیٰ صفحہ ۸۲﴾
﴿۵۱﴾ مرشد ِکامل مکمل طالب اللہ کو تعلیم و توجہ اور تلقین کے ذریعے عین العیان مرتبے پر پہنچا دیتا ہے ،یہاں تک کہ اُسے ذکر فکر وِرد وظائف اور الہام وغیرہ کی بھی حاجت نہیں رہتی-﴿توفیق الہدایت صفحہ ۷۸﴾
﴿۶۱﴾ مرشد ہونا بہت بھاری اور اہم کام ہے، جب تک کسی فقیر کوباطن میں حضرت محمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی بارگاہ سے طالبوں اور مریدوں کوتعلیم وتلقین کا حکم و اجازت نہ ملے وہ احمق ہے کہ خود بغیر حکم واجازت کے تلقین وارشاد کرتا ہے اور آخر کار شرمندہ وخوار ہوتاہے-نگاہِ مرشد سراسر توفیقِ حق تعالیٰ ہے جو طالب اﷲ کے وجود سے نفسانی و شیطانی حجابات اور ظلمت دور کردیتی ہے-﴿نورالہدیٰ صفحہ ۵۲۱﴾
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ مرشد ِکامل مکمل طالب اﷲ کو اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم میں شریعت کاپابند کرکے تصورِ اسم اﷲ ذات میں محو کرتاہے کیونکہ تصورِاسم اﷲ ذات ہی وہ کیمیا ہے جس سے انسان کے باطن کی تکمیل ہوتی ہے اور جب باطن بیدار نہ ہو تو ظاہری طور پر چاہے جتنی بھی عبادت و ریاضت کرلی جائے انسان اﷲ تعالیٰ کے قرب سے محروم رہتاہے- معرفت ِحق تعالیٰ سے محرومی کی بدولت انسان تو کل سے خالی رہتا ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ رزق کا پہنچانا اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری ہے اور اُس کی بارگاہ سے مقرر شد ہ رزق موت کی طرح تلاش کرتا ہوا اُس کے پاس پہنچتا ہے انسان حریص بن کرروزی کے پیچھے بھاگ کر دیوانہ ہورہا ہے حالا نکہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے-:’’ وَکَاَ ےِّنْ مِّنْ دَآبَّۃٍ لاَّ تَحْمِلُ رِزْقَھَا ق ز اَللّٰہُ ےَرْزُقُھَا وَ اِےَّاکُمْ‘‘-﴿پارہ۱۲ العنکبوت ۰۶﴾
ترجمہ-:’’ اور غور کرو کہ جانور اپنی روزی اپنے ساتھ ساتھ اُٹھائے نہیں پھرتے، اُنھیں اﷲ روزی دیتاہے او ر تمہیں بھی روزی دینے والا اﷲ ہے‘‘-﴿تم اﷲ پر بھروسہ کیوں نہیں کرتے؟﴾اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک نہ ایک دن موت ضرور آنی ہے انسان موت کے خوف سے کفر کی راہوں پر بھاگتا پھر رہا ہے،یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے؟مسلمان دیندار ہوتے ہوئے بھی مضطرب و ناشاد اورابترو پریشان حال ہے، محض اِس لئے کہ یہود ونصاریٰ کی طرح مسلمانوںکے ایک گروہ نے دین کے ظاہر کواپنا لیا ہے اور باطن کوچھوڑ دیا ہے اور دوسرے گروہ نے ظاہر چھوڑ کرباطن آباد کرنے کی کوشش کی ہے مگر وہ نہ ظاہر کا رہا نہ باطن کا ، تبلیغی مشن والے تمام گروہ اور جماعتیں دین کی اصل سے بے خبری کے باعث نفس کشی کی بجائے نفس پرستی میںمبتلا ہیں- اُن کا مقصد صرف اتنا ہے کہ بدنی و جسمانی اور زبانی اعمال کے ذریعے نفس کوآسائشیں مہیا ہوجائیں ،اِس دنیا میں بھی خوشحال رہیں اور آخرت میں بھی خوشحال رہیں،یہاں بھی اچھا کھائیں ،اچھا پئیں ،اچھا پہنیں ، دکھ سے محفوظ رہیں اور سکھ کے جھولے میں جھولتے رہیں اور آخرت میں بھی نفس کے لئے یہی آسائشیں جنت کی نعمتوں کی صورت میں مےّسر آجائیں-گویا یہ لوگ یہاں بھی مخلوق میں مشغول ہیں اور آخرت میں بھی مخلوق کے ساتھ مشغول رہنا چاہتے ہیں کیونکہ جنت کی نعمتیں بھی تو مخلوق ہیں -قربِ الٰہی کی طرف کوئی ایک جماعت بھی رواں دواں نہیں ہے حالا نکہ سےّد نا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں -:’’جس دل میں دنیا کی محبت ہے وہ محجوب ہے آخرت سے اورجس دل میں آخرت کی محبت ہے وہ محجوب ہے اﷲ تعالیٰ کے قرب سے- جس قدر تیرے دل میں دنیا کی محبت بڑھتی جائے گی اُسی قدر تیرے دل میں آخرت کی محبت گھٹتی چلی جائے گی اور جس قدر تیرے دل میں آخرت کی محبت بڑھتی جائے گی اُسی قدر تیرے دل سے اﷲ تعالیٰ کے قرب کی محبت گھٹتی چلی جائے گی – ﴿الفتح الربانی مجلس نمبر ۰۱﴾
مندرجہ بالا حقائق کومدِّنظر رکھتے ہوئے ایک صاحب ِنظر عارف باﷲ مردِ حق سلطان الفقرششم حضرت سخی سلطان محمداصغر علی صاحب قدس سرہ العزیز جو سلطان العارفین حضرت سلطان باھُورحمتہ اﷲ علیہ کی اولاد میں سے ہیںنے دین ِحق کی تبلیغ کے لئے طالبانِ حق تعالیٰ کی ایک جماعت’’ اصلاحی جماعت‘‘ کے نام سے تشکیل دی ہے جس کی دعوت ہے ’’ فَفِرُّ وْآ اِلَی اللّٰہِ‘‘ اور مقصود ہے ’’ اللہ بس ماسوی اﷲ ہوس‘‘- اِس وقت اصلاحی جماعت کی سر پرستی آپ کے صاحبزادے جانشین ِسلطان الفقر ، حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلہ ، الاقدس فرمارہے ہیں اور آپ کے دونوں بھائی صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب مرکزی سیکر یٹری جنرل اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین اور صاحبزادہ سلطان محمد بہادر عزیز صاحب دامت برکاتہم العالیہ بھی مشن ِسلطان الفقر کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے آپ کے شانہ بشانہ مصروفِ عمل ہیں- اِس جماعت کا صدر دفتر آستانۂ عالیہ حضرت سلطان محمد عبدالعزیز رحمتہ اﷲ علیہ دربارِ عالیہ حضرت سلطان باھُو رحمتہ اﷲعلیہ پر ہے- اس وقت دنیا بھر کے تما م ممالک میں اصلاحی جماعت تبلیغِ دین کا اہم فریضہ سرانجام دے رہی ہے-اِس جماعت کی مسلسل تبلیغ سے بتوفیق الٰہی لاکھوں کی تعداد میں لوگ طلبِ مولیٰ کی راہ پرگامزن ہو چکے ہیں- ہر سال 12-13اپریل کو اصلاحی جما عت کا سالانہ اجتماع بسلسلۂ میلاد ِمصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم دربارِ عالیہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمتہ اﷲ علیہ پر ہوتا ہے – ملک بھر سے طالبانِ حق تعالیٰ اِس اجتماع میں جوش وخرو ش سے تشریف لاتے ہیں-یہ مختصر ساتعارفی پمفلٹ قارئین ِکرام کے لئے اصلاحی جماعت میں شمولیت کے لئے دعوت نامۂ عام ہے-اصلاحی جماعت کسی پیرکی پیر ی چمکانے کا آلہ نہیں ہے بلکہ یہ جماعت اُن مجاہدین کا قافلہ ہے جو راہِ حق میں ثابت قدمی سے رواں دواں ہے-اپنے بچے جو کم از کم پرائمری پاس ہوں یا اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان جو ابھی بے روز گار اور فار غ ہوںتھوڑے تھوڑے دنوں کے لئے تربیت کی خاطر اصلاحی جماعت کودے دیں تاکہ مختصر ترین وقت میں اُن کے ظاہر وباطن میں پاکیزگی کا نور اُجاگر ہوجائے اور وہ معاشرے کو پاکیزہ بنانے کاعمل جاری رکھ سکیں ، آپ پراُن کی تربیت کے لئے کسی قسم کا مالی بوجھ ہرگز نہیں ہوگا-
آج کے اس پُر فتن دور میں اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کی یہ دعوتِ عام ہے کہ آئیں اور اصلاحی جماعت کی تربیت حاصل کرکے اپنے ظاہرو باطن کو پاک کریں اور اپنی زندگی کے اصل مقصد یعنی معرفت ِحق تعالیٰ کو حاصل کریں –
دُعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہم سب کے ظاہر وباطن کو کامل فرماکر اپنے حبیب ِپاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میںدائمی حضوری وقرب عطا فرمائے- ﴿آمین﴾
وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی حَبِیْبِہٰ مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِہٰ وَاَصْحَابِہٰ اَجْمَعِیْن-