-پاکستان کا اگر سیرت النبی (ﷺ) کے تناظر میں مُطالعہ کیا جائے تو بہت سے حیرت انگیز پہلُو نکلتے ہیں جو بڑی مفید اور کار آمد راہنمائی فراہم کرتے ہیں۔۔۔
قائدِ اعظم کا نصب العین اور عہدِ نو کی ضرورت
متعلقہ لنکس
دُنیائے فلسفہ میں اسطورات کا عظیم باغی ، فلسفۂ یونان کا بانی اور افلاطون و ارسطو کا اُستاد ’’سقراط‘‘ ایک سنگ تراش کا بیٹا تھا اور پیدائشی طور پہ بے۔۔۔
کثیر الجہت و مافوق الفطرت داستانوں سے مزین تاریخِ جموں و کشمیر بہت پرانی ہے-جدید کشمیر کی تاریخ جغرافیائی، سماجی، سیاسی و مذہبی اعتبار سے 1864ء کے بد نام زمانہ۔۔۔
اکیسویں صدی جہاں سائنسی ترقی و مادی ترقی کے عروج کا مشاہدہ کر رہی ہے وہیں بدقسمتی سے اِسے اخلاقی اور روحانی زوال بھی پیش ہے-انسانی معاشرے بحیثیت مجموعی اخلاقی اقدار۔۔۔
افسوس!ہمارے ہاں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کی عظمت میں فقط ایک ہی پہلو اجاگر کیا جاتا ہے۔۔۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے خانوادۂ عالیہ میں جن نفوس قدسیہ کو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے چشمۂ فیضانِ سلطان العارفین کے جاری رہنے کی دلیل کہا جاتا ہے...
جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُوؒ نے اپنی ایک تصنیف میں فرمایا کہ: ’’یہ محبت ہی ہے جو دل کو آرام نہیں کرنے دیتی ورنہ کون ہے جو آسودگی نہیں چاہتا ‘‘-
تصوف کا اشتقاق مادہ ’’صوف‘‘سےبابِ تفعل کا مصدر ہے- اُس کے معنی ’’اون‘‘کے ہیں- لغویت کے لحاظ سے اون کا لباس عادتاً زیبِ تن کرنا ہے- لفظ صوف کی جمع ’’اصواف‘‘ ہے...
تصوف یا صوفی ازم اسلامی تہذیب و ثقافت کی اساسیات اور علومِ دینیہ کے اہم ترین موضوعات میں سے ہے جس کے مبادی، منابع اور مآخذ قرآن و سنت سے ثابت ہیں...
آج جس موضوع پہ گزارشات بیان کرنے جا رہا ہوں وہ ایک خالص علمی موضوع ہے جس کا تعلق براہ راست ہماری دینی اور ملی زندگی سے ہے- کیونکہ اس کے ساتھ ہماری روحیں جڑی ہیں؛
تحریر: صاحبزادہ سلطان احمد علی
یٰآ اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہ، لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ. (البقرہ ۸۰۲)
’’اے ایمان والو اسلام میں پوری طرح داخل ہو جائو اور شیطان کی پیروی مت کرو بیشک وہ تمہار کھلا دشمن ہے۔‘‘
اسی تجدید عہد، عزمِ عمل کے لیے ہم سب اپنے قائد و مرشدِ کریم کے روبرو اکٹھے ہیں۔ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین مسلسل یہی پیغام دے رہی ہے کہ حضور سلطان الفقر ششم، بانیٔ اصلاحی جماعت و بانیٔ عالمی تنظیم العارفین حضرت سلطان محمد اصغرعلی صاحب کے پیغام کا دائرۂ کار صرف حلقۂ مریدین، ایک طبقۂ فکر، ایک مسلک یا ایک مذہب تک محدود نہیں بلکہ اس کا دائرۂ کار اللہ ل کی پیدا کردہ ان تمام مخلوقات تک ہے کہ جو عقل و شعور رکھتی ہیں اور ان مخلوقات تک بھی ہے جو عقل و شعور نہیں رکھتیں ۔ اس لیے یقینا بلاشک و شبہ آپ جس تحریک سے وابستگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے یہاں پہ تشریف لائے ہیں ، وہ تحریک کسی تشدد اور تعصب پر یقین نہیں رکھتی بلکہ اسلام کی آفاقیت اور اسلام کی عالمگیریت کے تحت آفاقی اخُوّت اور عالمگیر امن کی داعی ہے۔
اگر صرف ایک لفظ میں اسلام کے پیغام کا جوہر بیان کیا جائے تو وہ ایک جامع (Comprehensive) لفظ ’’عالمگیر امن‘‘ ہے یعنی (Universal Peace) ۔ یہ اسلام کی تمام تعلیمات کا مآخذ، تمام مباحث کا نچوڑ اور تمام مقاصد کا لبِ لباب ہے۔ اگر آپ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے مقاصد ، اس کی غرض و غایت ، اس کے مشن اور اس کی تعلیمات کو ایک لفظ میں سننا چاہیں تو وہ لفظ یہی ’’عالمگیر امن‘‘ ہوگا۔
الحمد للہ! ہم اس تحریک سے وابستہ ہیں جو تحریک اس ’’عالمگیر امن‘‘ کا پیغام دیتی ہے جس کو قائم کرنے کے لیے اللہ ل نے ہمیں اپنی کتاب ، وحی ، الہام اور اپنے انبیائ کرام علیھم السلام کے ذریعے راستہ دکھایا جو صحیفے،کتابیں ، وحی اور الہام لیکر آئے۔ تمام انبیائ کرام علیھم السلام اپنے ذِمہ خدمات سرانجام دیتے رہے اور بالآخر نبی آخر الزماں خاتم الانبیائ محمد رسول اللہ ﷺ اس کائنات میں جلوہ فرما ہوئے ۔ جب آپ ﷺ نے اعلانِ نبوت فرمایا تو اللہ ل نے پھر اسی راستے کی طرف مسلمانوں کو گامزن ہونے اور عالمِ انسانیت کو اپنا سفر جاری رکھنے کا حکم دیا کہ یہ تمہارا راستہ ہے اس راستے پہ تم چلتے جائو ۔
میں ایک ابتدائی گزارش کردوں کہ آپ اگر اسلام کی تحریک کو دیکھیں تو ایک لاکھ چوبیس ہزار (کم وبیش) انبیائ علیھم السلام تشریف لائے اور ایک روایت کے مطابق کم از کم ستر ہزار صرف بنی اسرائیل میں تشریف لائے ، دنیا کے تمام خطوں میں ، دنیا کے مختلف ممالک میں انبیائ علیھم السلام کا ظہور ہوا اُن تمام نے دین کے ارتقائی مراحل کو طے کیا اور ہر نبی دین کے ارتقائی مرحلے (Evolution) کو طے کرتا جاتا ۔ رسول اللہ ﷺ کے اوپر دین کی تکمیل ہوئی۔ اللہ ل نے یہ خوشخبری دی:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ. (المائدۃ ۳)
’’یارسول اللہ ﷺ ! ہم نے آپ پر آج دین کو مکمل کردیا‘‘ ۔
اس ارتقائ کے بعد دین کے نفاذ کی بات شروع ہوئی۔ یوں تو دین کا نفاذ سیدنا آدم ں سے ہی شروع ہوا لیکن نفاذِ دین کی وہ تحریک اپنے پورے جذبے اور پوری روح (Spirit) کے ساتھ خطبہ حجۃ الوداع میں نظر آتی ہے جس میں حضور رسالتمآب ﷺ نے انسانیت کے امن کے لیے ایک عالمگیر منشور ارشاد فرما دیا ۔ اس کے بعد نفاذ دین کامرحلہ شروع ہوا کہ جو چیز حضورﷺ لے کر آئے ، جس کا ارتقائ کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائ علیھم السلام کرتے رہے اب دین کو نافذ کیا جائے تاکہ دنیا کو امن ، سکون اور استحکام (Stability) کی ضمانت فراہم کی جاسکے ۔ دنیا کو ایک ایسا کنبہ بنا دیا جائے اور ایسا گھر بنا دیا جائے کہ جس گھر کے اندر نوحے نہ پوٹھیں بلکہ تبسم پھوٹے، جس گھر کے اندر مرثیے نہ پڑھیں جائیں، بلکہ خوشی کے گیت گائے جائیں اور وہ گھر اللہ کی امان میں رہے، وہ گھراللہ کے تحفظ کی ضمانت میں رہے وہ اسی صورت میں ممکن تھا کہ یہ دنیا اللہ کے بنائے ہوئے ’’عالمگیر امن ‘‘کے مشن پر لبیک کہہ دے۔
جب ہم اس تحریکی نقطۂ نظر سے حضور سلطان الفقر کی اس تحریک اور کاروان کوآج حضور جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب کی قیادت میں آگے بڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اس میں دیکھنے کے لیے ہمارے پاس دو مختلف زاویہ ہائے نظر ہیں۔ میری یہ بات بالخصوص اپنے نوجوان بھائیوں اور تحریکی ساتھیوں سے ہے کہ جب ان دونوں زاویہ ہائے نظر کو ہم اپنے تحریکی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں تو وہ ایک ہی سمت (Direction) میں سفر کرتے ہیں۔
ایک ہماری تحریک کا ’’ملی عملی ‘‘ نقطہ نظر ہے۔
دوسرا ہماری تحریک کا ’’ روحانی عملی ‘‘ نقطہ نظر ہے ۔
دونوں کی قیادت جن پہ ہم یقین رکھتے ہیں کو دیکھیئے ۔ اگر آپ اپنی روحانی فکر کی طرف دیکھیئے تو وہ آپ سے کیا چاہتی ہے؟ وہ آپ سے نفاذِ دین، نفاذِ شریعت ، نفاذِ قرآن اور نفاذِ سنت چاہتی ہے۔۹مئی ۱۱۰۲ئ کو مرکزی تربیّتی نشست میں بندہ ناچیز نے تمام تحریکی ساتھیوں کے سامنے ایک سوال رکھا تھاکہ آپ اپنے سلسلے میں دیکھیئے جس میں آپ روحانی تجدیدِ عہد یعنی بیعت رکھتے ہیں کہ وہ تحریک آپ کو کس طرف راہنمائی کرتی ہے؟ وہ کس طرف آپ کو لے کر جاتی ہے؟ کیا آپ نے اپنے مرشد کریم اور اپنے قائد محترم کا کوئی ایک عمل، کوئی ایک قول، کوئی ایک فعل ایسا دیکھا ہے جو قرآن ،سنت یا شریعت سے متصادم ہے؟
میرے جن ساتھیوں اور بھائیوں نے حضور سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی سنگت اختیار کی انہوں نے آپ کا کوئی عمل، کوئی قول، کوئی فعل ایسا دیکھا جو قرآن یا سنت سے متصادم ہو؟ کوئی ایسا موقعہ یا کوئی ایسی محفل جس میں آپ نے نفاذِ دین یا نفاذِ عمل کے اوپر تلقین نہ فرمائی ہو؟ اپنی روحانی نسبت میں آپ اس سے آگے جائیں۔
میرے وہ بزرگ، میرے وہ دیرینہ ساتھی اور میرے وہ محسنین کہ جنہوں حضور شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان محمد عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کی، آپ کی صحبت اور آپ کی مجلس جنہیں نصیب رہی کیا ایک عمل بھی حضور شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان محمد عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کا ایسا دیکھا کہ جو شریعت سے متصادم ہو؟ شریعت کا ایک مستحب بھی آپ کی ظاہری حیات مبارکہ میں ترک نہیں ہوا۔ آپ اس سے آگے جائیے۔
شہبازِ عارفاں حضرت سید سلطان محمد بہادر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی کو دیکھیے، کیا وہ منبع شریعت نہیں تھے ؟ آپ کے ظاہری لباس سے، آپ کے ظاہری وجود مبارک سے، آپ کی ظاہری صورت مبارک سے لیکر آپ کے باطن کی عمیق گہرائیوں تک ایک لمحہ یا ایک مرحلہ آپ کی حیاتِ طیبہ کا ایسا نہیں کہ آپ نے شریعت کو ترک فرمایا ہو یا اس کو ترک کرنے کا کوئی راستہ بتایا ہو ۔ آپ شریعت پر سختی سے کاربند رہے۔ اپنی روحانی نسبت میں اس سے آگے آئے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ نے اتنا واضح طور پر کہا :
ہر مراتب از شریعت یافتم
پیشوائے خود شریعت ساختم
’’میں نے ہر مرتبہ شریعت سے حاصل کیا اور شریعت کو ہی اپنا پیشوا بنائے رکھا‘‘
پھر آپ اپنی اس روحانی نسبت میں آگے جائے، اپنی تحریک کی اس روحانی وابستگی میں، حضور غوث الاعظم سیّدنا شیخ سید عبدالقادر جیلانی صکو دیکھیئے ۔ آپ کو پتا ہے کہ حضور غوث پاک ص کا لقب ہے ’’محی الدین‘‘ ۔ یعنی دین کو زندہ کرنے والا کہ جب بغداد کے گلی کوچوں میں الحاد دندناتا پھرتا تھا ،کبھی کوئی فرقہ جنم لیتا ، کبھی کوئی بحث جنم لیتی ، کبھی کوئی ایشو چھڑتا، کبھی کوئی مناظرہ ہوتا اس تمام الحاد کو اگر کسی نے آکر بغداد سے مٹا دیا تو سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ص کی ذات بابرکات تھی جسے آپ ص کے عہد کے علمائ، فقہائ، محدثین، مفسرین اور صاحبانِ بصیرت نے کو محی الدین کے لقب سے یاد کیا ۔ ’’یا حضور! آپ نے دین کو زندہ کیا کہ لوگ جب یہاں پہ دین کا جنازہ نکالنا چاہتے تھے ‘‘ ۔
حضور غوث پاک ص سے آپ آگے جاتے ہیں تو خلفائے راشدین رضوان اللہ علیھم اجمعین سے ہماری روحانی نسبت بنتی ہے۔ تو خلفائے راشدین رضوان اللہ علیھم اجمعین کی پوری کی پوری تحریک بھی نفاذِ دین کی تحریک تھی ۔ حضرت عمر ص مسجدِ نبوی کے ستون سے اوٹ لگا کے، آنکھیں بند کرکے کھڑے ہیں۔ حضور ﷺ تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں عمر کیا سوچ رہے ہو۔ یا رسول اللہ ﷺ! میں سوچ رہا ہوں کہ کونسا ایسا طریقہ ہوسکتا ہے کہ میں پوری زمین پر آپ ﷺ کے دین کا نفاذ کردوں۔
اس سے بھی آگے آئیے حضور رسالت مآب ﷺ کی ذاتِ گرامی ۔ آپ ﷺ نے جس دین کی بنیاد رکھی آپ ﷺ کا مقصد اس دین کا عملی نفاذ تھا ۔ پھر قرآن حکیم کو دیکھیے ۔ قرآن حکیم نے بھی ہمیں اسی عمل کے اوپر کاربند رہنے کا حکم دیا ۔
اب آپ آئیے اپنی ملی زندگی کے حوالے سے کہ جن شخصیا ت کی عملی زندگی پر اور جن شخصیات کی فکرپر ہم اپنی ملی و بین الاقوامی سوچ کو آگے بڑھاتے ہیں ان میں ہمارے قائد محترم ، ہمارے مرشدِ کریم حضور جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی مدظلہ العالی ہیں۔ آپ کی پوری تحریک اسی بات کا مژدہ ہے اور اسی بات کا اعلان ہے کہ ’’ففرو ا الی اللہ‘‘ اور اس سے آگے بڑھیے ، حضور سلطان الفقر بانی اصلاحی جماعت و بانی عالمی تنظیم العارفین ، آپ کی پوری کی پوری تحریک نفاذِ دین کی تحریک ہے ، نفاذِ شریعت کی تحریک ہے اورجب ہم اس فکر کے لیے اس سے آگے بڑھتے ہیں۔ (میں زمانی اعتبار سے یہ شخصیا ت پیش کررہا ہوں)۔
حضرت قائدِ اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھیے ، حکیم الامت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھیے جو یہ اعلان کرتے ہیں :
دیں ہاتھ سے دیکر اگر آزاد ہو ملّت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارہ
ہندوستان میں اگر ہم دیکھیں تو اورنگ زیب عالمگیر وہ شخصیت ہے کہ جس نے احیائے دین ، تجدیدِ دین اور نفاذِ دین کے لیے ہندوستان میں اپنے مغل ایمپائر کو اسلامی خلافت میں تبدیل کردیا۔ علامہ اقبال اورنگ زیب عالمگیر کویہ خراجِ تحسین پیش کیے بغیر نہ رہ سکے کہ
درمیان کارزارِ کفر و دیں
ترکشِ مارا خدنگِ آخریں
’’کفر اور اسلام کی اس جنگ میں (بلاشبہ) اورنگ زیب عالمگیر ہماری ترکش کا آخری تیر تھا ۔ ‘‘
اختصار کرتے ہوئے عمرِ ثانی حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ ان کی پوری کی پوری تحریک اسی عملی جدو جہد اور دین کے نفاذ کے لیے تھی جب قوم کو اتنا بے حس کردیا گیا کہ قوم کے ہیروز کو بوریوں میں بند کرکے لاتوں سے مار دیا جاتا تھا اور قوم میں کوئی سوال اٹھانے والا نہیں ہوتا تھا کہ بھئی اس ہیرو کا کیا قصور تھا کیوں آپ نے اس کو پھانسی پہ چڑھا دیا ؟ کیوں آپ نے اسے سولی پہ چڑھا دیا ؟ کیوں اس کا خون کردیا گیا ؟ اس بے حس قوم کے اندر چھ ماہ کے اندر حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کیفیت نافذ کردی تھی کہ لوگ دینے کے لیے زکوۃ لیکر پھرتے تھے لینے والے کارندے کم پڑ گئے تھے۔ تاریخ نے عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کو عمر ثانی کا لقب دیا ۔
عمر بن عبد العزیز سے آگے پھر خلفائے راشدین رضوان اللہ علیھم اجمعین کا عہد آجا تا ہے۔ خلفائے راشدین کی تحریک اسی ضمن میں پہلے بیان کرچکا ہوں۔ حضورﷺ کی تحریک اسی کے اوپر اور قرآن نے واضح طور پر اس کے احکامات ہمارے اوپر جاری کیے۔ واضح طور پر قرآن حکیم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اگر تم عالمی امن چاہتے ہو ، اگر تم اپنے آپ کو اس مرکزِ امن میں رکھنا چاہتے ہو تو:
یٰآ اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً
’’ اے ایمان والواسلام میں پوری طرح داخل ہوجائو ۔‘‘
پورے اتمام اور اہتمام کے ساتھ دین میں داخل ہوجائو ۔
وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ.
’’ شیطان کی پیروی ہرگز نہ کرو‘‘ ۔ کیوں ؟
اِنَّہ، لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ.
’’بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ ‘‘
اسی طرح سورۃ آل عمران آیت ۲۳۱میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ.
’’اللہ ل اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو تاکہ تم لوگ رحم کے قابل ہوجائو اور تمہارے اوپر رحم کیا جائے ۔‘‘
رحم کے قابل کون ہوگا؟ جو اللہ ل کی اطاعت کرے گا،جو رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرے گا۔
وَمَنْ یُطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہ، فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا. ﴿احزاب ۱۷﴾
’’اور جس نے اللہ ل اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی پس تحقیق وہی شخص بہت بڑی کامیابی والا ہے ۔‘‘
اللہ ل نے سورۃ احزاب آیت ۶۳میں فرمایا:
وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہ، فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِیْنًا.
’’اور جو اللہ ل اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کرے گا بیشک وہ صریح اور کھلی گمراہی میں بہک گیا۔ ‘‘
اب بتائیے! کہ ہمارے لیے کونسا راستہ ہے جس راستے کو ہم نے اپنانا ہے اور جس پر ہم نے آگے بڑھنا ہے؟ ہم نے گمراہی کا راستہ اختیار کرنا ہے یا خدا کے دین اور مصطفی ﷺ کی شریعت کااختیار کرنا ہے۔ اللہ ل نے بڑے واضح اور صریح الفاظ میں فرمایا:
وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہ، فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِیْنًا.
سورہ المائدہ آیت ۰۵میں اللہ ل نے فرمایا :
اَفَحُکْمُ الْجَاھِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًالِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ.
’’کیا وہ جاہلیت کے فیصلے چاہتے ہیں۔ اللہ ل سے بہتر کس کا حکم ہوسکتا ہے اس قوم کے نزدیک جو اللہ ل کی ذات پہ یقین رکھتی ہے ۔‘‘
آج ہمیں جس لادینیت کی طرف ابھارا جاتا ہے ، آج ہمیں جس الحاد ، ارتداد ، کفر ، کھلی اور صریح گمراہی کی طرف یعنی جس سیکولر ازم (Secularism) کی طرف ابھارا جاتا ہے اسے اللہ ل نے کہا:
اَفَحُکْمُ الْجَاھِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ.
’’کیاوہ دَورِ جاہلیت کے فیصلے چاہتے ہیں؟‘‘
وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًا.
’’اللہ ل سے بہتر کس کا حکم ہے؟‘‘
لِقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ.
’’اس قوم کے لیے جو اللہ ل کی ذات پہ یقین رکھتی ہے ۔‘‘
اب بتائیے! کہ ہماری منزل کیا بنتی ہے ؟ ہم اپنے اوپر اس لادینیت کو نافذ کردیں ؟ اس الحاد کو نافذ کردیں ؟ اس کفر کو نافذ کردیں ؟ جو اس سیکولر یلغار کے تحت ہمارے معصوم بچوں کے ذہنوں میں ڈالا جارہا ہے ۔ ہماری بیٹیوں کے ، ہماری بہنوں کے ، ہماری مائوں کے ، ہمارے بھائیوں کے ، ہمارے بیٹوں کے، ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں میں آج ڈالا جارہا ہے۔
کیا ہمیں اللہ ل پہ یقین نہیں ہے؟ کیا ہمیں اللہ ل پہ بھروسہ نہیں ہے ؟ کیا ہم اس ل کی وحدانیت کے قائل نہیں ؟ کیا ہم اللہ ل کے آفاقی احکام کے قائل نہیں؟ اگر ہیں تو اللہ ل نے بتا دیا کہ اللہ ل سے بہتر کسی کا حکم نہیں ہوسکتا تو پھر خدا کی فرمانبرداری کرو۔ قرآن اور سنت تمہارا راستہ ہے۔ مغرب اور بھارت کے میڈیا کی صیہونی یلغار تمہارا راستہ نہیں ہے۔ خدا کادین ، خدا کا قرآن، مصطفیﷺ کی سنت تمہار اراستہ ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کی غیرت، اَسلاف کا پیغام، سلطان العارفین کا فقر اور اپنے قائد کا پیغام، اپنے مرشد کا پیغام تمہارا راستہ ہے۔ اگر یہ یلغار نہ رکے اور دین کو ، دین کے فیصلے کو، دین کی قوت کو، قرآن کی آفاقیت کو، قرآن کی ابدیت کو ، قرآن کی لافانیت کو ، قرآن کی دوامیت کو ، قرآن کی ہمیشگی کو کوئی مٹانے یا روکنے کے لیے اٹھے اگر کوئی (نعوذ باللہ) اس کا ابطال کرنے کے لیے اٹھے تو اللہ ل نے واضح حکم فرما دیا :
وَ قَاتِلُوْا ھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکَوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہُ لِلّٰہِ فَاِنِ انْتَھَوْا فَاِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ. (سورۃ انفال ۹۳)
’’اے مسلمانو! لڑتے رہو ان سے یہاں تک کہ کوئی فتنہ اور کوئی فساد باقی نہ رہ جائے اور دین پورے کا پورا اللہ ل کے لیے ہوجائے پھر اگر وہ باز آجائیں تو یقینا اللہ ل خوب دیکھ رہا ہے جو وہ کررہے ہیں ۔‘‘
دین کے نفاذ کے لیے اللہ ل نے واضح حکم فرما دیا کہ آخری حد تک جائو کیونکہ وہ آخری حد پہ جاتے ہیں تو پھر تمہیں بھی آخری حد تک جانے کی اجازت ہے اس لیے یہ جو الحادی تحریکیں اٹھ رہی ہیں اورانٹرٹینمنٹ میڈیا کے ذریعے ہمارے ذاتی خوابگاہوں میں داخل ہورہی ہیں اس میں مجھے اور آپ کو قرآن سے راہنمائی لینے کی ضرورت ہے۔قرآن کے راستے کو اپنانے کی ضرورت ہے ۔ قرآن کے پیغام پر چلنے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ تحریک ہے جو آپ کو سیدنا آدم ں سے لیکر حضرت عیسیٰ ں تک ارتقائ پذیر نظر آتی ہے اور حضور رسالتمآب ﷺ پہ آکے اس تحریک کا اِتمام ہوتا ہے ۔ پھر اس تحریک کے نفاذ کی بات چلتی ہے۔ اس کے نفاذ کے لیے اللہ نے اپنے برگزیدہ لوگوں کو ، اپنے نیک بندوں کو منتخب کیا ، علمائے ربانیین کو، صوفیائے کاملین کو اللہ ل نے دنیا کے مختلف خطوں اور مختلف کونوں میں یہ ذمہ داری دے کر بھیجا کہ جائو اور میرے دین کا نفاذ کرو ۔ انہوں نے کس راستے کو اپنایا؟ انہوں نے اسی راستے کو اپنایا جو راستہ حضور رسالت مآب ﷺ نے اپنایا، انہوں نے اسی راستہ کو اپنایا جو راستہ ہمیں قرآن نے بتایا ہے۔
یہ تو روحانی فکر کے حوالے سے بات تھی کہ ہمارے جتنے بھی روحانی سرچشمے ہیں ان تمام سرچشموں کو آپ دیکھ لیں وہ تمام کے تمام دین کی اور شریعت کی بات کرتے ہیں اور میں اکثر یہ کہتا ہوں کہ جب لوگ مجھ سے یہ پوچھتے ہیں کہ اپنے آبائ و اجداد کی کوئی کرامت بیان فرمائیے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ کے نظریۂ فقرو تصوف اور نظریہ روحانیت میں کرامت کا کوئی جاہ و منصب نہیں۔ آپ نے تعلق باللہ میں استقامت کی بات کی۔ آپ فرماتے ہیں کہ سب سے بڑی کرامت تعلق باللہ میں استقامت ہے۔ باقی تمام چیزوں کو حضرت سُلطان باھُو نے شعبدے بازی کے زمرے میں لیا اور انہیں ہیچ اور حقیر اور ناکافی ترین مقام پہ رکھا اور’’عین الفقر‘‘ میں اتنے سخت الفاظ ارشاد فرمائے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ’’ ابیاتِ باھُو‘‘ میں یہاں تک آپ نے فرمایا:
نہیں فقیری جھلیاں مارن ستے لوگ جگاون ھُو
نہیں فقیری وچ ہوا دے مصلیٰ پا ٹھہراون ھُو
نہیں فقیری واہندی ندی سکیاں پار لگاون ھُو
فقیر یا صاحبِ کرامت کون ہے؟
نام فقیر تنہاں دا باھو جہڑے دل وچ یار تکاون ھُو
لوگ اکثر یہ کہتے ہیں کہ کرامت کیا ہے؟ تو میں یہ کہتا ہوں کہ اگر آپ نے میرے جدِ امجد کی کسی کرامت کو دیکھنا ہے تو وہ کرامت ان کی اولاد ہے۔ شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی کرامت اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو فیضانِ اسم اعظم کے بعد سب سے بڑی کرامت آپ کی اولاد ہے کہ آپ کے چار شہزادے ہیں اور ان میں کسی ایک کا بتائیں کہ ان کی زندگی میں کوئی ایک فعل ایسا سرزد ہوا ہو جو متصادمِ شریعت ہو اور چاروں شہزادوں نے اپنی زندگی ترویجِ دین کے لیے ، اشاعتِ دین کے لیے عملی طور پر بسر کی اور خود اس شریعت کا عملی پیکر اور عملی نمونہ بن کر دکھایا۔ یہ تو ہمارے روحانی سرچشمے کی بات ہے اور کچھ باتیں اس ضمن میں میں پہلے عرض کرچکا ہوں۔
اب ہم اپنے اس روحانی فیضان کو ملی نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں ،حضرت علامہ اقبال کی طرف یا حضرت قائدِ اعظم کی طرف ، اورنگ زیب عالمگیر کی طرف یا عمربن عبد العزیز کی طرف یا خلفائے راشدین کی طرف تو آپ کو یہی فکر نظر آئے گی کہ ان کا راستہ کیا تھا؟ آج مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے کہ ہماری قومی قیادت بڑی دیدہ دلیری اور سینہ زوری کے ساتھ کھڑے ہوکر کہہ دیتی ہے کہ
’’ قائدِ اعظم سیکولر پاکستان چاہتے تھے اور قائدِ اعظم ایک سیکولر آدمی تھا۔ ‘‘
او خدا کے بندے! الزام لگانے سے پہلے آپ نے اس کا مطالعہ کیا ؟ آپ نے اس کی تحریروں کو دیکھا، آپ نے اس کی تقریروں کو دیکھا، آپ نے اس کی (Statements) دیکھیں جو آپ فتویٰ لگا رہے ہیں کہ وہ ایک سیکولر پاکستان چاہتے تھے۔ کس کی بات آپ کر رہے ہیں؟ آپ جس قائدِ اعظم کو سیکولر مانتے ہو وہ کوئی اور قائد ہوگا ۔ جس کا نام محمد علی جناح تھا ، جو پونجا جناح کا بیٹا تھا ، جو پاکستان کا بانی تھا اور پاکستان کا پہلا گورنر جنرل تھا، وہ قائدِ اعظم بالکل سیکولر نہیں تھا۔ مجھے یقین ہے کہ جس طرح میرے سر پہ یہ ٹوپی پڑی ہے اسی طرح اس قائدِ اعظم کے سر کے اوپر محمد الرسول اللہ ﷺ کی شفقت کا ہاتھ تھا ،ان کی شفقت کا سایہ تھا۔ آپ خود قائدِ اعظم کی اپنی فکر سے دیکھیے کہ وہ کیا کہتے ہیں ؟ اُن کا ماخذ کیا ہے ؟ اُن کے فیضان کا سرچشمہ کیا ہے؟ وہ کہاں سے (Inspiration) لیتے ہیں ؟ وہ کہاں سے فیض لیتے ہیں ؟
30اکتوبر 1947ئ کو لاہور میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا تھا:
“If we take our inspiration and guidance from the Holly Quran the final victory will be ours.”
’’اگر ہم اپنے فیضان کا سرچشمہ اور اپنی راہنمائی کا سرچشمہ قرآن کریم کو ہی بنا لیں اور اسی پر عمل پیرا ہوجائیں تو اس کائنات میں آخری فتح ہماری ہوگی۔ ‘‘
کیا یہ کسی سیکولر کے لفظ تھے ؟یہ کسی سیکولر کی (Statement) ہے؟ اورقائدِ اعظم یہیں تک نہیں ٹھہرے ، قائدِ اعظم نے قرآن پر جس بصیرت کا مظاہرہ کیا آپ اگر قائدِاعظم کے اپنے الفاظ میں دیکھیں تو حیران رہ جائیں کہ وہ شخص قرآن سے کس قدر وابستگی رکھتا تھا ۔ اس کا عملی نصب العین صرف ایک خطۂ زمین نہیں تھا۔ وہ خطۂ زمین کے اوپر اسلام کا قلعہ تھا۔ قرآن کے متعلق اگر آپ دیکھیں تو 26دسمبر 1943ئ کو آل انڈیا مسلم لیگ کے کراچی سیشن کی (Concluding Speech) کرتے ہوئے بڑے واضح طور پر پوری مسلم لیگ کو مخاطب کرکے قائدِ اعظم نے قرآن کریم کے متعلق فرمایا:
“It is Islam. It is the Great Book, Quran, that is the sheet-anchor of Muslim India. I am sure that as we go on there will be more and more of oneness, one God, one Book, one Prophet and one Nation”
’’یہ کتاب عظیم یعنی قرآن کریم مسلمانوں کا آخری سہارا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ ہم جیسے جیسے آگے بڑھتے جائیں گے ہم میں وحدت پیدا ہوتی جائے گی ۔ یعنی ایک خدا، ایک رسول، ایک کتاب ایک قبلہ اور ایک قوم۔ ‘‘
یہی فکر تھی کہ حضرت علامہ اقبال نے کہا کہ
منفعت ایک ہے اس قوم کی اور نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی ، اللہ بھی ، قرآن بھی ایک
اور کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
مسلمانوں کی اس وحدت کاقائدِاعظم کے نزدیک جو سہارا بن سکتا ہے وہ قرآن حکیم ہے اور لوگ یہ الزام لگانے سے باز نہیں آتے کہ قائدِاعظم سیکولر تھے ۔
آپ کو ایک واقعہ یاد ہوگا کہ 2001ئ میںامریکہ میں نائن الیون ہوا۔ دوجہاز آئے اور دو ٹاورز سے ٹکرائے اور وہ ٹاورز منہدم ہوگئے اور الزام ہے جس کا الزام لگانے والوں کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں نے کیا۔ ایک تو یہ نائن الیون ہے اور اتنے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ ایک نائن الیون قائدِ اعظم نے کیا تھا۔ وہ نائن الیون یہ تھا کہ 11 ستمبر 1945ئ کو ڈان (DAWN) نے جو انگریزی کا نیوز پیپر ہے جس کے بانی خود حضرت قائدِ اعظم تھے 11ستمبر 1945ئ کو اس میں قائدِ اعظم کا ایک سٹیٹمنٹ (Statement) چھپا اور سیکولر ازم کی جتنی بھی عمارتیں تھیں قائدِ اعظم نے ان سب کو نشانہ بنایا اور گرادیا۔ قائدِ اعظم کی وہ سٹیٹمنٹ سیکولر ازم کے لیے نائن الیون تھا۔ مجھے حیرت ہے کہ ہماری قومی قیادت کی نظروں سے جو انڈیا، اسرائیل یا امریکہ کو خوش کرنے کے لیے اپنی سٹیٹمنٹس دیتے ہیں ان کی نظروں سے قائدِ اعظم کی یہ سٹیٹمنٹ کیوں پوشیدہ ہوجاتی ہے، انہیں اس مردِ خود آگاہ ، اس مردِ مجاہد اور مردِ عارف کی یہ بات کیوں نظر نہیں آتی جو قائدِ اعظم کے قرآن اور اسلام کے اوپر عالمگیروژن کی عکاسی کرتی ہے جس میں قائدِ اعظم نے کہا
’’ہر مسلمان جانتا ہے کہ قرآنی احکام صرف مذہبی اور اخلاقی امور تک محدود نہیں بلکہ گبن کے بقول (یہاں قائدِ اعظم نے گبن جو ایک بہت بڑا فلاسفر تھا اس کا ایک محاورہ Quote کیا ) اٹلانٹک سے گنگا تک قرآن بنیادی ضابطے کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے نہ صرف دینیاتی اعتبار سے بلکہ سول (Civil)، فوجداری اور ایسے قوانین کے لحاظ سے جو بنی نوعِ انسان کے افعال اور املاک کے غیر مبدل قوانین کے طور پر محیط ہیں۔‘‘
یہ قرآن، اسلام اور اس کی عالمگیریت کے متعلق حضرت قائدِ اعظم کا وژن تھا۔ اتنا بڑا اظہار ہونے کے باوجود بھی اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کی تحریک کا مقصد یا قائدِ اعظم کے افکار میں کسی بھی جگہ پر سیکولر ازم یا لادینیت کے حوالے سے کوئی الہام ، کوئی التباس، کوئی کنفیوژن پائی جاتی ہے تو یہ اس کی بدنصیبی ہے اور کم عقلی ، کم ظرفی ، کم بصیرتی ہے یہاں اس کے نظریات کے سامنے گرد کی ایک دیوار اٹھی ہوئی ہے جو دیوار مغرب کے ان فرسودہ نظریا ت نے اس کی آنکھوں کے سامنے اٹھا دی ہے ورنہ پاکستان کی تحریک کا مقصد کبھی بھی سیکولرازم نہیں تھا۔ پاکستان کی تحریک کے محرکِ اعظم حضرت علامہ اقبال کو دیکھیے کہ جب ترکی میں اتا ترک لادینیت لانا چاہتا تھے، خلافت کو ختم کیا، سیکولر ازم کولائے اور ترکی رسم الخط کو ختم کرکے ٹرکش رسم الخط کو لاطینی زبان میں کردیا تو اقبال سے رہا نا گیا اقبال نے پکار کر اتاترک کو مخاطب کرکے کہا
لادینی و لاطینی کس پیچ میں الجھا تو
دارو ہے ضعیفوں کا لا غالب اِلّا ھُو
اقبال اسے مخاطب کرکے کہتے ہیںکہ تو کس لادینیت کی بات کرتا ہے کمزور اور ضعیف قوموں کا علاج لادینیت و لاطینیت میں نہیں ہے بلکہ :
دارو ہے ضعیفوں کا لا غالب الا ھُو
اللہ ل کے دین کے بغیر ، اللہ ل کی ذات سے تعلق کے بغیر ضعیف قوموں کو شفا نہیں مل سکتی، مریضوں کا علاج نہیں ہو سکتا پاکستان کا محرک اعظم یہ کہہ رہا ہے اور آپ کو پتا ہے کہ علامہ اقبال ہی وہ شخصیت تھے جو حضرت قائدِ اعظم کو واپس پاکستان لے کر آئے۔ آپ حضرت علامہ اقبال کے وہ خطوط پڑھیں جو انہوں نے قائدِ اعظم کو لکھے۔ علامہ اقبال ایک مردِ عارف، ایک مردِ کامل بارگاہِ رسالت ﷺ میں حضور ی رکھنے والے ، بارگاہ نبوت ﷺ میں صفِ نماز میں جن کا انتظار ہوتا ہے، وہ شخصیت جس کے سرپہ رسالت مآب ﷺ کی کالی کملی کا سایہ ہے وہ علامہ اقبال جب قائد اعظم کو خط لکھتے تو آخر میں لکھتے :
’’آپ کا سپاہی محمد اقبال ‘‘۔
آج یہ بھی آپ نے لوگوں کو کہتے ہوئے سنا ہوگا کہ علامہ اقبال کا تحریک پاکستا ن میں کوئی کردار نہیں تھا ۔ خطبہ الہٰ آباد کی بات کریں تو کہتے ہیں:
’’جی علامہ اقبال نے ٹائم میگزین کو خط لکھ کے اس کی تردید کی کہ میں نے اس طرح کی کوئی بات نہیں کی۔‘‘
یاد رکھیں! علامہ اقبال نے جو کچھ کہا اور جسے حذف کرنا تھا انہوں نے اپنی کتابوں سے حذف کردیا اسے متروک کردیا جو باقی ہے وہ اقبال کی فکر ہے اور اقبال نے اثبات کے ساتھ ، اپنی ثابت قدمی کے ساتھ اس فکر کا دفاع کیا۔ علامہ اقبال نے ٹائم میگزین کو جوخط لکھا تھا اگر آپ اس کا ٹیکسٹ پڑھیں تو اس ٹیکسٹ میں کسی بھی جگہ علامہ اقبال نے اپنے اس خطبے یا اس کے اندر دی گئی تقسیم کے فارمولے کی تردید نہیں کی ۔ علامہ اقبال نے صرف یہ کہا تھا کہ میں نے یہ پین اسلام ازم (Pan Islamism) کی موومنٹ (Movement) کو آگے نہیں بڑھایا میں نے حقائق کی بنیاد پہ یہ تجزیہ کیا ہے۔
جس طرح آج مسلمانوں کو القاعدہ تھریٹ دیا جاتا ہے ۔ اس دنیا میں ہم یہ سمجھتے تھے کہ شیطان سے بڑا جھوٹاکوئی نہیں لیکن میر ا خیال یہ ہے کہ مغرب شیطان سے بڑا جھوٹا ہے ۔ خمینی صاحب نے امریکہ کو ’’شیطان بزرگ‘‘ کا نام دیا کیونکہ مغربی اسقدر جھوٹ بولتے ہیں ۔ اب مسلمانوں کو القاعدہ کا (Threat) ہے ۔
جس عہد میں یہ تحریکیں چل رہی تھیں ، تحریک خلافت چلی اور جمال الدین افغانی کی تحریک چلی تحریکِ پاکستان چل رہی تھی اور ہمارے جو مفکرین تھے جیسے سرسید ، جمال الدین افغانی یا حضرت علامہ اقبال تھے یا علی برادران ۔ شام میں ، مصر میں ، پراس جورڈن میں جو تحریک چل رہی تھی ، ان تمام تحریکوں کو مغرب نے تھریٹ کرنے کے لیے پین اسلام ازم کا الزام دیا تو علامہ اقبال نے یہ کہا کہ میںنے پین اسلام ازم کی نمائندگی نہیں کی، میں نے حقائق کی بنیاد پر اس کا تجزیہ پیش کیا ہے ۔ جس طرح آج کوئی اسلامی راہنما اٹھ کر یہ کہہ دے کہ جناب میرا القاعدہ سے تعلق نہیں ہے ہاں میں نے اسلامی فکر کی بات ضرور کی ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے کہ وہ اسلام کی تردید کررہا ہے ؟ اپنے تجزیے کی تردید کررہا ہے ؟ ۔ تو یہ کنفیوژن ، ایک التباس اور ایک دھندلاہٹ ہماری آنکھوں کے سامنے لائی جارہی ہے کہ ہم دھندلا جائیں ، اپنے نصب العین سے پیچھے ہٹ جائیں، اپنی بنیادی فکر سے اور اپنی بنیادی دستور سے پیچھے ہٹ جائیں ۔ جبکہ قائدِ اعظم کی پوری کی پوری تحریک ، قائد اعظم کی اپنی تقاریر (Speeches) یہ ثابت کرتی ہیں ، قائدِ اعظم کے اپنے الفاظ یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ تحریک دستورِ اسلامی کی تشکیل کی تحریک تھی۔ کراچی بار ایسوسی ایشن کو 25 جنوری 1948ئ کو قائدِ اعظم نے جو خطاب کیا اس میں واضح طور پر وکلائ کو مخاطب کرکے کہا کہ
’’اسلام اور اس کے آئیڈیل ازم (Idealism) نے جمہوریت کی تعلیم دی ہے ۔ اسلام نے ہر ایک کو مساوات، عدل و انصاف اور مناسب رویے کا درس دیا ہے ۔‘‘
اس سے آگے قائدِ اعظم کے آگے الفاظ دیکھئے :
’’آئے ہم اِسے پاکستا ن کا آئین بنائیں گے اور دنیا کو ہم یہ کر کے دکھائیں گے ۔‘‘
یہ قائدِ اعظم کے لفظ تھے۔ قائدِ اعظم نے مزید اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا :
’’اسلام میں انسانوں کے مابین کوئی امتیاز نہیں الغرض مساوات ، حریت اور اخوت اسلام کے بنیادی اصول ہیں۔ تیرہ سو سال قبل رسول کریم ﷺ نے اسی جمہوریت کی بنیاد ڈالی تھی یعنی جو مساوات ، حریت اور اخوت کے اوپر قائم ہے ۔‘‘
صرف یہی نہیں، وکلا کے اس مجمع کے اندر دستورِ اسلامی کی تشکیل کے وکیلِ اعظم نے ان سنہری اور انمٹ حروف میں پاکستان کی آئینی پالیسی کا اعلان کیا تھا :
“Islamic principles today are as applicable to life as they were thirteen hundreds years ago.”
’’کہ اسلام کے وہ سنہری اصول آج بھی زندگی کے اوپر اسی طرح نافذ العمل ہوسکتے ہیں جس طرح وہ تیرہ سوسال قبل نافذ ہوئے تھے ۔ ‘‘
یہ وکلأ کے مجمع میں وکیلِ اعظم کی طرف سے پاکستان کی آئینی پالیسی کا اعلان تھا ۔ ہم کس منہ سے کہہ سکتے ہیں کہ قائدِ اعظم سیکولر تھے۔آپ نے کبھی کسی سیکولر کے منہ سے یہ بات نہ سنی ہوگی نہ کوئی سیکولر یہ بات مانتا ہے کہ
Islamic principles today are as applicable to life as they were thirteen hundreds years ago.
کوئی سیکولر یہ بات نہیں کرسکتا ،کوئی لادین یہ بات نہیں کرسکتا ، کوئی لادینی اس بات پر یقین نہیں رکھتا ، وہ تو اسے مانتا ہی نہیں۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ قائدِ اعظم ایک سیکولر آدمی تھے جو تیرہ سوسال قبل کے قوانین کو ، قرآن کے قوانین کو، سنت کے قوانین کواُسی طرح نافذ العمل سمجھتا ہے جس طرح وہ تیرہ سوسال قبل تھے۔ بتائیے کہ اس کی آئینی پالیسی پاکستان کے لیے کیا ہوگی؟ لا دینی یا اسلامی ۔
قائدِ اعظم نے ایک اور موقعہ پر بڑے دو ٹوک الفاظ کے اندر یہ کہا تھا کہ
“Let it be clear that Pakistan is going to be a muslim state based on Islamic Ideals. It was not going to be an ecclesiastical state.”
’’یہ بات واضح ہے کہ پاکستان ایک اسلامی مملکت بننے جارہا ہے جس کی بنیاد اسلامی آئیڈیلز ہیں ملائیت نہیں ۔ ‘‘
قائد نے واضح کیا کہ یہ ملائی نظریات سے پاک ہوگا
“It was not going to be an ecclesiastical state.”
جو یہ کہتے ہیں کہ یہاں پہ اسلامی جمہوریہ کی بات کرنے سے ملائیت کا نفاذ ہوجائے گا قائدِ اعظم نے خود اپنی زبان سے اس بات کی نفی کردی۔ انہوں نے کہا کہ ملائیت کی سخت گیری اس اسلامی ریاست کے اندر قائم نہیں ہوگی کیونکہ یہ اسلام کے غیر متعصبانہ ، پیار بھرے ، شفقت بھرے ، محبت بھرے، امن بھرے ، سکون بھرے ان بنیادی آئیڈیلز پر ہوگی جن کی بنیاد قرآن فراہم کرتا ہے اور جن کی بنیاد رسول ﷺ کی سنت فراہم کرتی ہے۔ اسی میں قائدِ اعظم نے آگے چل کر کہا کہ
“The hole world even United Nations Organization has charecteraise Pakistan as a muslim state.”
’’پوری دنیا بشمول اقوامِ متحدہ نے پاکستان کو ایک اسلامی ریاست کے طور پر تسلیم کیا ہے ‘‘ ۔
یہ قائد اعظم کے الفاظ ہیں۔ کس التباس کی گنجائش رہ گئی، کس کنفیوژن کی گنجائش رہ گئی؟ کس دھند لاہٹ کی گنجائش رہ گئی؟ کس سیکولر ازم، کس الحاد کی گنجائش رہ گئی ؟ اگر قائدِ اعظم سیکولر تھے تو اس پاکستان کو قلعۂ اسلام کیوں کہتے رہے ؟ اگر قائدِ اعظم ایک لادینی نظام چاہتے تھے تو اسلامی قلعے کی بات کیوں کی ؟ قائدِ اعظم نے واضح طور پر کہا :
“All require of you now is that every one of us to whom this message reaches must about to him self and he prepared to sacrifice his all a precursory in building up Pakistan as a “bulwark” of Islam.”
’’ تیار ہوجائو، اس میسیج کو لے کر آگے بڑھو،اگر قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں تو قربانیاں بھی دو لیکن پاکستان کو اسلام کی قلعہ بنانا ہے۔ ‘‘
قائدِ اعظم نے کیوں کہا؟ اور صرف یہی نہیں وہی عالمگیریت کا تصور جو میں نے اپنی ابتدائ میں کہا کہ قرآن کی وسعت عالمگیر ہے۔ ایک نظامِ شمسی تک ہی محدود نہیں ، تمام نظام ہائے شمسی تک اس کی وسعت ہے۔ الحمد للہ آپ جس جماعت سے وابستگی کا مظاہر کرتے ہوئے یہاں پہ تشریف فرما ہیں یہ بھی کسی ایک خاص طبقے تک محدود نہیں بلکہ اس کا پیغام عالمگیر ہے اور قائدِ اعظم نے یہی کہا:
“And as one of the greatest nations whose ideal is peace within and peace without.”
’’اور ہم پاکستان کو وہ عظیم قوم بنائیں گے جو اپنے اندر بھی امن چاہتی ہے اور اپنے باہر بھی امن چاہتی ہے ۔‘‘
اب قائدِ اعظم کی ان کھلی باتوں کے باوجود اگر کوئی پھر بھی یہ کہے کہ کوّا سفید ہے تو مجھے بتائیں میں کیا کروں ؟ میرے نوجوان ساتھیو ! آپ مت ڈریے، آپ مت گھبرائیے، آپ کو آپ کے اَسلاف نے ایک راستہ دکھایا کہ جب کوئی مشکل آن پڑے تو قرآن سے راہنمائی لو۔ قرآن کو ہاتھ میں پکڑو تمہارے ہر سوال کا جواب دے گا ۔ حقائق کی بنیاد پہ تجزیہ کریں اور قائدِ اعظم کی سٹیٹ مینٹس کو سامنے رکھیں اور ان سیکولر وں کو جاکر جواب دیں ۔ تشدد کے ذریعے نہیں ، دلیل کے ذریعے ، منطق کے ذریعے ، تحقیق کے ذریعے، مکالمہ کے ذریعے ، ڈائیلاگ کے ذریعے کہ قائدِ اعظم نے ’’پاکستان کا مطلب کیا ‘‘ کو کیا کہا؟ اور یہ نعرہ جب ہم لگاتے ہیں کہ پاکستان کا مطلب کیا ؟ ’’لا الہ الا اللہ ‘‘یہ نعرہ خود قائدِ اعظم کی اپنی فکر سے تخلیق ہوا ۔ یہ کسی جیالے نے ایسے ہی نہیں نعرہ تراش لیا تھا۔ یہ خود قائدِ اعظم کی اپنی فکر سے تخلیق ہوا کہ قائدِ اعظم نے 1945ئ کو مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن صوبہ سرحد میں کے سالانہ اجلاس میں اپنا پیغام بھیجا جو 19جون 1945ئ کے ڈان میں شائع ہوا ۔ قائدِ اعظم کے یہ لفظ تھے :
“Pakistan not only means freedom and independence but the Muslim Ideology which has to preserved.”
’’پاکستان کا مطلب صرف آزادی نہیں، پاکستان کا مطلب صرف خود مختاری نہیں بلکہ پاکستان کا مطلب اس اسلامی نظریے کو محفوظ بنانا ہے جو اس ملک کے اندر ہے ۔ ‘‘
یہ قائدِ اعظم کے الفاظ ہیں اور قائدِ اعظم کے ان الفاظ سے نعرہ تخلیق ہوا :
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
قائدِ اعظم نے 10مارچ 1941ئ کو علی گڑھ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے طلبائ کو کہا :
“Pakistan is not only a practicable goal but the only goal if you want to save the Islam from complete inhalation in this country.”
’’ پاکستان صرف ایک نصب العین ہی نہیں بلکہ پاکستان ایک قابل عمل نصب العین ہے اور ایسا قابلِ عمل نصب العین ہے اگر آپ ہندوستان کے اندر اسلام کو مکمل تباہی سے بچانا چاہتے ہیں۔‘‘
کیا کسی سیکولر کی فکر ہوسکتی ہے؟ بیشک آپ میری بات پہ یقین نہ کیجیے۔ آپ جائیے خود تحقیق کیجئے۔ آپ قائدِ اعظم کے اپنے الفاظ کو ٹٹول کر دیکھیے ، قائدِ اعظم کی اپنی زبان کو پڑھیے اور اس کے لفظوں کی تاثیر سے اپنے قلب کو منور کیجئے کہ عارفِ کامل، مردِ خود آگاہ، رسول اللہ ﷺ کے روحانی فیضان کے وارث نے پاکستان کے متعلق کیا کہا؟ اور ہم یہاں پہ ڈھنڈورا پیٹتے پھرتے ہیں کہ قائدِ اعظم نے یہ کہہ دیا ، قائدِ اعظم نے وہ کہہ دیا۔ قائدِ اعظم اپنی آئیڈیالوجی میں پختہ تھے ۔
آپ جسے سیکولر سٹیٹ بنانے کے خواہاں ہیں مجھے بتائیے کہ اتنی بڑی ہجرت سیکولر ملک کی تشکیل کے لیے ہوئی تھی؟ تاریخِ انسانی کی بڑی ہجرت ، ہندو یہاں سے ادھر گئے، مسلمان وہاں سے ادھرآئے، یہ کونسا سیکولرازم ہے؟ مجھے یہ سیکولرازم سمجھا دیجئے کہ ہندو اور مسلمان اکٹھے نہیں رہ سکتے، دو قومی نظریہ ! ۔ مجھے بتائیے کہ یہ کونسا سیکولرازم تھا؟ یہ کہاں کی لادینیت تھی کہ ہندوئوں کو یہاں سے نکال دو اور مسلمانوں کو یہاںلا کر آباد کردو؟ لاکھوں مسلمان قتل ہوگئے کیا وہ لادینیت کے لیے کٹ مرے؟ وہ لادینیت کے لیے قربان ہوگئے؟ سیکولر ازم کے لیے یہاں سے ہندو اپنی جائیدادیں چھوڑ کر وہاں گئے، وہاں پہ مسلمان اپنی جاگیریں چھوڑ کے، اپنا مال و اسباب چھوڑ کے، اپنے باپ دادا کی ہڈیاں چھوڑ کے یہاں پہ آکر آباد ہوگئے؟ کیا یہ سیکولرازم کی تشکیل کے لیے تھا؟ خدارا! اس پاکستان کو اس آگ میں مت جھونکیے، خدا کے غضب سے ڈریں۔
یاد رکھیں! میں ایک اور بات بھی آج آپ کو بتانا چاہتا ہوںاور پوری ذمہ داری کے ساتھ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کے گلی کوچوں میں آج جو آگ لگی ہے یہ صرف اور صرف سیکولر ایجینڈے ﴿Secular Agenda﴾ کی تکمیل کے لیے لگی ہے۔ افغانستان میں ایک اسلامی حکومت کا تختہ پلٹنے کے لیے سیکولر طبقوں کاکس اسٹیبلشمنٹ نے ساتھ دیا ؟ کیا وہ اسلامی فکر کے لوگ تھے؟ جو امریکہ کی وہاں پہ لگائی ہوئی آگ کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ کے پاکستان کے اندر لے آئے اور مذہبی طاقتوں کو مجرم کی حیثیت سے ایک طرف کھڑا کرکے ان کا ٹرائل شروع کیا گیا اور یہاں پہ پھر وہ یہ کہتے ہوئے برآمد ہوئے کہ سیکولرازم، سیکولرازم اور ہاتھوں میں بندوقیں اٹھائے، منہ سے آگ اگلتے ہوئے یہاں پہ سیکولرازم کا پرچار کرتے پھرتے ہیں اور پاکستان کی گلیوں میں آگ لگاتے پھرتے ہیں، قوم کو بے حیا اور ننگا کرتے پھرتے ہیں، فحاشی اور عریانی کو فروغ دیتے پھرتے ہیں ۔ یاد رکھیے! پاکستان میں لگائی گئی آگ مذہبی طاقتوں نے نہیں لگائی، نہ مذہبی حلقوں نے لگائی ہے۔ یہ سیکولر طاقتوں نے اپنی سوچی سمجھی سازش کے تحت لگائی ہے کہ پاکستان میں مذہبی حلقوں کو بدنام کرکے یہاں پہ آگ لگا دی جائے، لوگوں کو متنفر کرکے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بجائے اسے سیکولر ریپبلک آف پاکستان بنا دیا جائے اور یہاں سے دینِ مصطفی ﷺ کا، نظامِ مصطفی ﷺ کا عملی نفاذ ختم کردیا جائے ۔ یہ کس کا ایجنڈا ہے؟ افغانستان کی اسلامی حکومت کو سیکولروں نے الٹا تھا۔ کیوں یہ آگ پاکستان کے اندر پہنچی؟ اور خدا کا قہر دیکھیئے ، خدا کا غضب دیکھیئے، خدانے سورۃ اعراف آیت ۲۸۱میںواضح طور پر کہا:
(وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰاتِنَا)
’’ جو میری نشانیوں کو جھٹلاتا ہے ‘‘
(سَنَسْتَدْرِجُھُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ )
’’میں انہیں ادھر سے پکڑتا ہوں جدھر سے وہ بے خبر ہوتے ہیں۔ ‘‘
خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔ کشمیر کا زلزلہ دیکھیے ، گزشتہ برس کا سیلاب دیکھیے، اب سندھ میں تباہی دیکھیے، گلی کوچوں میں لگی آگ دیکھیے، یہ مچھر کی بیماری دیکھیے، کراچی میں ٹارگٹ کلنگ دیکھیے۔ ایک اور بات کہ کراچی میں جو طاقتیں ایک دوسرے کا خون کرتی رہیں، کیا وہ مذہبی طاقتیں تھیں ؟ وہ تینوں سیاسی جماعتیں جن کا کراچی میں مسئلہ تھا وہ تینوں سیکولر تھیں۔ اس لیے خدارا اپنی بنیادوں کو منہدم نہ کیجئے، اپنے ملک میں نفرت کی یہ آگ مت بھڑکائیے اور قائد کے نظریے سے منحرف نہ ہوں۔ آپ نے امریکہ کوخوش کرنا ہے، اسرائیل کو خوش کرنا ہے، انڈیا کو خوش کرنا ہے، مغرب کو خوش کرنا ہے، جائیے خوش کیجئے، کسی اور بات پہ خوش کیجیے میرے ملک میں آگ لگا کر انہیں خوش نہ کریں ، میرے ملک میں تباہی پھیلا کر انہیں خوش نہ کیجیے ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کرکے انہیں خوش نہ کیجیے۔ ہم نے اسلام کی خاطر یہ ملک لیا تھا۔ ہم نے یہ ملک اسلامی نظریے کی بنیاد پر لیا تھا اور دو قومی نظریہ (Two Nations Theory) کی بنیاد پر لیا تھا اور جو یہ کہتے ہیں کہ نہیں، نہیں پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر نہیں بنا۔ اگر لاجواب ہوجائیں چونکہ ان کے پاس دلیل (Logic) تو ہے نہیں، دولت ہے، دولت سے میڈیا میں وہ اپنا ٹائم خریدتے ہیں۔ مذہبی طاقتوں کو بھی یہ سہولت میسر ہے، سیکولروں کو بھی یہ سہولت میسر ہے۔ پروفیشنل میڈیا ہے جائیں اپنا ٹائم خریدیں اور وہاں پہ اپنی بات (Express) کریں۔ اربوں ڈالرز (Aid) کے نام پہ جو آتے ہیں انہیں اس پے وہ (Propagate) کرتے ہیں۔ جب لاجواب ہوجائیںکہ ٹھیک ہے کہ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پہ وجود میں آیا ہے۔ اس کا ان کے پاس کوئی جواز نہیں ہوتا ، جب منطق، تحقیق مطالعہ، مکالمہ کے ساتھ بات کی جائے تو لاجواب ہوجاتے ہیں اور یاد رکھیے اس طرح کی بحثیں کبھی بھی ڈنڈے سوٹے سے حل نہیں ہوتیں یہ علمی بحث ہے ، یہ تحقیق کی بحث ہے ۔ اس میں کسی (Violence) کی ، کسی تشدد کی کوئی ضرورت نہیں۔ وائیلنس تو جھوٹے کرتے ہیں ۔ ہم سچے ہیں، ہماری سچائی کی دلیل ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ ہے۔ جب وہ لاجواب ہوجائیں اور مان لیں کہ ٹھیک ہے کہ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آیا پھر کہتے ہیں کہ جی اب اس نظریے کی ضرورت نہیں، اب دو قومی نظریہ کارگر نہیں رہا۔
دو قومی نظریے کا مطلب کیا تھا؟ دنیا میں دو قومیں بستی ہیں ایک مسلمان اور دوسری غیر مسلم۔ یہ فرمان بھی آپ کی نظر سے گزرا ہوگاکہ
اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَّاحِدَۃٌ .
’’کفر ایک الگ ملت ہے‘‘۔
اسلام ایک الگ ملت ہے۔
اور یہ ملت اسی دو قومی نظریہ کا اثبات اور دلیل ہے۔ اگر نہیں تو آج فلسطین میں دیکھیے کیا ہورہا ہے۔ فلسطین کے مسئلہ کو حل کروانے کے لیے امریکہ کے کمزور صدر باراک حسین ابامہ نے مصر میں یونیورسٹی میںیہ سٹیٹمنٹ دیا کہ ہم فلسطین کا مسئلہ حل کروائیں گے، ہم فلسطینی عوام کی (Spirit) اور ان کے خیالات کے مطابق حل کروائیں گے۔ یہ اعلان کرکے گئے، اس اعلان پر باراک حسین اوباما کو امن کا نوبل پرائز دیا گیاجو دنیا میں امن کا سب سے بڑا ایوارڈ ہے اور آپ اگر ایک ہفتہ قبل کا واشنگٹن پوسٹ پڑھیں اس کے ایڈیٹوریل میں چھپنے والے کالم میں لکھا گیا ہے کہ سلامتی کونسل میں چھ ممالک فلسطین کے حق میں ووٹ دیں گے لیکن سلامتی کونسل میں ان کے ووٹ کو فلسطین کی مخالفت میں امریکہ ویٹو کرے گا۔ ظلم کس پہ ہوا ؟ فلسطینیوں پہ ،لٹے کون؟ فلسطینی، قتل کن کا ہوا؟ فلسطینی مسلمانوں کا،پٹا کون ؟ فلسطینی مسلمان، ملک بدر کون ہوئے ؟ فلسطینی مسلمان، زمین کن سے چھین لی گئی؟ فلسطینی مسلمانوں سے ۔ آباد کون ہوا؟یہودی ، ظالم کون تھے؟ یہودی، تباہ کاری کرنے والے کون تھے؟ یہودی، فساد پھیلانے والے کون تھے؟ یہودی ، صیہونی، اسرائیلی اور پھر امن کا نوبل انعام کس (Cause) کے اوپرملا ؟ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت کرنے میں اور وہ نوبل کا ایوارڈ لے کے اب آپ جا کے کہتے ہیں کہ جناب نہیں ہم تو اسرائیل کے ساتھ ہیں ۔ یہ دو قومی نظریہ نہیں ہے تو کیا ہے کہ ُدنیا کی تمام طاقتیں ایک طرف کھڑی ہیں اور مسلمان ایک طرف کھڑے ہیں۔ مشرقی تیمور چاہیے، ہاں جی! اسے کاٹ دو ۔ کشمیر لٹکتا ہے تو لٹکتا رہے۔سوڈان کو الگ کردیا، کیوں؟ ایک عیسائی ریاست بنانی تھی۔ آج تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں کررہے 1947ئ سے لیکرآج تک کشمیر ، جونا گڑھ یہ تمام مسائل سلامتی کونسل کے، اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے میں نہیں آتے کہ ان کو وہاں پہ ڈسکس (Discuss) کرلیا جائے۔ یہ دو قومی نظریہ نہیں تو اور کیا ہے؟ آج پوری دنیا مل کے مسلمانوںکا سماجی، معاشی، اقتصادی، معاشرتی، مذہبی، تمدنی استحصال کررہی ہے ابھی تک آپ نہیں مانتے کہ نہیں جناب یہ دو قومی نظریہ نہیں ہے۔ یہ دوقومی نظریہ نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ فر یہ دو قومی نظریہ نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ کونسی تہذیب مسلمانوں کی تہذیب کو تاراج کرنے کے لیے آگے بڑھ رہی ہے۔ کچھ چُھپا ہوا نہیں سب چَھپا ہوا ہے۔ انٹرنیٹ پر جاکر دیکھیں جو یہودیوں کی بڑی بڑی کتابیں دو تین سالوں میں پاپولر ہورہی ہیں وہ اسلام کی مکمل تباہی (Complete Inhalation) کے اوپر لکھی گئیں ۔ آپ کہتے ہیں کہ دو قومی نظریہ کا وجود ختم ہوگیا۔دوقومی نظریہ تو 1947ئ میں ادھورا تھااب آکے پورا ہوگا۔ قائدِ اعظم کا (Stand) اور استقامت اسی دوقومی نظریے پر تھی۔ قائدِ اعظم نے واضح طور پر 8جون 1941ئ کو بنگلور میں اپنے خطاب میں یہ کہاتھا:
“What ever it be Mesoor or other corner of the world there is national affinity and the national regard and affection for each other wherever a Muslim be. The children of Islam know no boundaries and limitations.”
’’کہ یہ میسور ہو یا دنیا کا کوئی خطہ ہو ، جہاںبھی مسلمان ہوں ان کا باہمی تعلق ہمیشہ ایک ملت کے طور پہ ، ایک قوم کے طور پہ ، ایک کنبہ کے طور پہ ، ایک خاندان کے طور پہ ہوتا ہے اور فرزندانِ اسلام کسی حدود و قیود کو نہیں جانتے ۔‘‘
یہی بات علامہ اقبال نے ہمیں بتائی:
تمیزِ رنگ و خوں برما حرام است
کہ ما پرودۂ یک نو بہاریم
’’ رنگ اور نسل کی تمیز ہمارے اوپر حرام ہے کہ کیونکہ ہم بطورِ ملت مصطفی کریم ﷺ کی چادر کے سائے تلے پلے ہیں ۔‘‘ اس لیے چاہے تیونس کا مسلمان ہو ، افریقہ کا مسلمان ہو ، سپین کا مسلمان ہو ، امریکہ کا مسلمان ہو، انڈیا کامسلمان ہو، افغانستان کا مسلمان ہو، کینیڈا کا مسلمان ہو، چائنہ کا مسلمان ہو، جہاں کا بھی مسلمان ہو اس کے اوپر نہ کوئی حد لگتی ہے ، نہ کوئی قید لگتی ہے۔ وہ ایک ملت ہیں ۔ ایک اور بات سنئے کہ یہی نوحہ ، یہی مرثیہ آپ کے بزرگوں نے آپ کے سامنے کیا ہوگا جو اپنا سب کچھ سرحد کے اس پار چھوڑ کے آئے تھے کہ ہم یہاں پہ کیوں آئے؟ ہم نے پاکستان کس لیے حاصل کیا؟ قائدِ اعظم کی وفات کے بعد اگر یہاں پہ وہ قانون نہ آسکا تو اس میں قائدِ اعظم کے نظریے کو کیوں جھوٹا کہا جاتا ہے۔ قرار دادِ مقاصد کس بات کی پیش رفت تھی، کس بات کا تسلسل (Continuity) تھا؟ اس حد تک قائدِ اعظم اس دو قومی نظریے پر کاربند تھے اور اس پر یقین رکھتے تھے کہ آپ نے علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیائ الدین احمد کے ظہرانے میں 8مارچ 1944ئ کو ایک سٹیٹ منٹ دی اور یقین کریں کہ دو قومی نظریے کے اوپر اس سے بڑی اور کوئی سٹیٹ منٹ ہوہی نہیں سکتی کہ جب قائدِ اعظم نے کہا:
“As soon as Hindu embraced in Islam he was outcast not only religiously but also socially, culturally and economically.”
’’کہ جب ایک ہندو اپنے مذہب کو چھوڑ کے وہ مسلمانوں کے مذہب میں آجاتا ہے، وہ اسلام کو قبول کرلیتا ہے تو وہ پرانی نسل سے نکل گیا وہ ایک نئی نسل میں آگیا صرف مذہبی طور پر ہی نہیں بلکہ معاشرتی ، سماجی ، تہذیبی اور معاشی طور پہ اس ملت سے نکل کر اسلا م کی ملت میں آگیا ۔‘‘
اس کے اوپر آپ خوبصورت مثال دیکھیے میں اکثر (Quote) کرتا ہوں کہ جب حضرت سلمان فارسی ص سے پوچھا گیا کہ اے سلمان ص ذرا اپنے آبائو اجداد کے بارے میں بتائیے، آپ کے آبائو اجداد کون ہیں؟ آپ کا شجرۂ نسب کیا ہے ؟ تو سلمان فارسی ص جلال میں آتے ہیںاور وہ عاشقِ رسول انہیں مخاطب کرکے کہتا ہے کہ میرے جتنے بھی رشتے تھے وہ سب ملت اسلامی میں داخل ہونے کے بعد قربان کردیے گئے میرا شجرہ نسب فقط اور فقط یہ ہے ’’سلمان ابن اسلام ‘‘کہ اب میں فرزندِ اسلام ہوں میرے اوپر کوئی قدغن نہیں لگ رہی۔ میرے اوپر کسی اور تمدن کا ، میرے اوپر کسی جد کا ، میرے اوپر کسی نسب کا کوئی اختیار نہیں رہا اور یہی وہ نوحہ ہے کہ جسے حضرت علامہ اقبال ہمیں اپنی تصنیف ’’جاوید نامہ‘‘ میں بتاتے ہیںجاوید نامہ وہ تصنیف ہے کہ جب علامہ اقبال مولانا رومی کے ساتھ اپنی روحانی معراج پہ گئے اور اس معراج پہ جو جو مشاہدات علامہ اقبال کو نصیب ہوئے ان مشاھدات کو حضرت علامہ نے ’’جاوید نامہ‘‘ میں رقم کیا اور ان مشاھدات میں حضرت علامہؒ ایک واقعہ بتاتے ہیں جس کا عنوان یہ ہے:
’’نوحۂ ابوجہل در حرمِ کعبہ ‘‘
ابوجہل حرمِ کعبہ میں بیٹھ کے حضور رسالتمآب امام الانبیائ محمدرسول اللہ ﷺ کے متعلق نوحہ کرتا ہے ۔ ابوجہل کہتا ہے
مذہبِ او قاطع ملک و نسب
از قریش و منکر از فضلِ عرب
’’حضور کا مذہب ملک اور نسب کا قلعہ قمع کردیتا ہے یعنی اس کو ختم کردیتا ہے ۔ حضور خود خاندانِ قریش سے تعلق رکھتے ہیں لیکن کسی عربی کی عجمی کے اوپر فضیلت کو نہیں مانتے۔‘‘
در نگاہِ او یکے بالا و پست
باغلامِ خویش بر یک خوان نشست
’’حضور کی نگاہ میں تمام چھوٹے اوربڑے برابر ہیں۔اور آپ اپنے غلام کے ساتھ ایک دستر خوان پر بیٹھ گئے۔ ‘‘
قدرِ احرارِ عرب نشناختہ
با کلفتانِ حبش در ساختہ
’’حضور نے عرب کے آزاد منش و وجیہہ الجمال لوگوں کی قدر نہیں پہچانی۔ بلکہ حبشہ کے چپٹی ناکوں والے حبشیوں کے ساتھ اپنا رشتہ اور سنگت باندھ لی۔ ‘‘
ہمیں حضرت قائدِ اعظم نے یہی پیغام دیا کہ جب کوئی بھی کسی مذہب کو چھوڑ کے اسلام میں داخل ہوتا ہے تو پھر وہ ایک مذہب، ایک ملت بن جاتا ہے۔ آپ حج میں دیکھیے کہ حج میں کیا ہوتا ہے؟ سبھی سردار، سبھی غلام، سبھی امیر، غریب، سبھی امام، سبھی مقتدی، سبھی قائد، سبھی کارکن، سبھی مزدور، سبھی سرمایہ دار، سبھی جاگیردار، سبھی کسان، ایک لباس میں، ایک آواز میں، ایک ترانہ گاتے ہوئے، ایک خدا کو یاد کرتے ہوئے وہاں پہ آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں، صرف مذہبی تفریق کو ختم نہیں کیا۔ بلکہ رسول اللہ ﷺ کے دین نے انسانیت میں موجود تمام طبقات کی نفی کردی ۔ کوئی چھوٹا نہیں، کوئی بڑا نہیں، فضیلت اس کی ہے جو اپنے تقوے میں بلند ہوگا۔ یہی پیغام ہمیں حضرت قائدِ اعظم نے دیا، یہی دو قومی نظریہ کی بنیاد ہے۔ قائدِ اعظم کو سیکولر کہنے والے، قائدِ اعظم کی اس للکار کا کیا جواب دیں گے جو قائدِ اعظم نے 22 مارچ 1939ئ کو لیجیسلیٹو اسمبلی دہلی میں خطاب کرتے ہوئے کی ۔ قائدِ اعظم نے ہندو سامراج و برطانوی سامراج دونوں کو مخاطب کرکے کہا کہ تم اگر ہماری ملت کے وجود کو یہاں مٹانا چاہتے ہو تو یاد رکھو ایسا نہیں ہوگا ۔ قائدِ اعظم کے لفظوں کو دیکھیے اور یقین کیجئے کہ آج آپ کو وہی حالت پاکستان میں نظر آتی ہے جو 1939ئ میں حضرت قائدِ اعظم کو وہاں پہ نظر آئی کہ وہ ہندوئوں کو ، برطانویوں کو لیجیسلیٹو اسمبلی میں للکارے بغیر نہ رہ سکے اور قائدِ اعظم انہیں مخاطب کرکے کہتے ہیں :
“Let me tell you and I tell both of you that you alone or this organization alone or combine will never succeed in destroying our souls.”
’’ میں تم دونوں برطانویوں اور ہندوئوں کو مخاطب کرکے کہتا ہوں کہ تم مل کر یا اکیلے اکیلے ہماری روحوں کو برباد کرنے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکو گے۔ ‘‘
“You will never be able to destroy that culture which we have inherited the Islamic Culture.”
’’تم اس کلچر کو کبھی بھی تباہ کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے جو ثقافت ہمارا اسلامی ورثہ ہے ۔ ‘‘
“That spirit will alive is going to live and has live.”
’’ ہمارے اس جذبے کو تم نہیں مار سکتے ، وہ جذبہ زندہ رہے گا ، وہ جذبہ زندہ ہے اور وہ زندہ تھا ۔ ‘‘
یہ للکار ، یہ یلغار ، یہ پکار کسی سیکولریا لادین کی نہیں ہوسکتی اور اسی لیے میں نے اپنی بات کی ابتدا ئ میں حضرت علامہ کے یہ الفاظ آپ یاد کرائے تھے :
دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو پامردیٔ مؤمن پہ بھروسا
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
یورپ کی مشینوں سے، یورپ کی توپوں سے، یورپ کی کرنسیوں سے، یورپ کے میڈیا سے، یورپ کی ثقافتی، تہذیبی، فکری یلغار سے اسلامی ثقافت کو دبایا نہیں جاسکتا، اسلامی ثقافت کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ قائدِ اعظم نے یہ 22 مارچ 1939ئ کے دن کہا تھا، ہم آج یہاں پہ قائدِ اعظم کے اس عہد سے یہ تجدید کرتے ہیں
“They will never succeed to destroy our souls.”
’’وہ ہماری روحوں کو تباہ کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔‘‘
“You will never be able to destroy that culture which we have inherited the Islamic Culture.”
اور وہ ہماری اسلامی ثقافت کو کبھی تباہ نہیں کرسکیں گے، وہ پاکستان کے مقدس نام سے کبھی بھی اسلامی جمہوریہ کا لفظ ختم نہیں کرسکیں گے۔ ہم اپنے قائد ، اپنی ملت کے پاسبان ، اپنی ملت کے نگہبان سے اس عہد ، اس وعدہ کی تجدیدکرتے ہیں اور یہ پیمان باندھتے ہیں کہ اے میرے قائد! اُس دن بھی یہ سرمایہ دار ، یہ بڑے بڑے دانشور تیری بات کو نہیں مانتے تھے، کل بھی انہوں نے تجھے جھٹلایا تھا ،آج بھی وہی سرمایہ دار ، آج بھی وہی مغربی فکر کے مقلد مفکرین ہمیں اس سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ کل بھی ہم عوام ہم مسلمان قائد کی فکر کے ساتھ کھڑے تھے، ہم آج بھی قائدِ اعظم کی اس اسلامی فکر کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم کل بھی قائد کی فکر کے دفاع کے لیے قربان ہوگئے تھے، ہمیں آج بھی قائد کے پاکستان کے دفاع کے لیے، قائد کے نظریے کے دفاع کے لیے قربان ہونا پڑا، ہم قربان ہوجائیں گے لیکن پاکستان کی اس حرمت کا دفاع کریں گے جو ہمیں ہمارے قائد نے سونپی ہے۔
ایک اور بات جومیں آپ سے ضرور کہنا چاہوں گا ، شاید کسی کو یہ غلط فہمی رہے، اگر کسی کے ذہن میں یہ ہے کہ یہاں پہ کوئی ملائی نوعیت کی شریعت نافذ کی جائے گی تو ہم اس کے کبھی بھی حامی نہیں۔ ایسی شریعت جس میں صرف ایک مکتبۂ فکر (Accommodate) ہو اور جو کسی دوسرے مکتبۂ فکر کو اکاموڈیٹ نہ کرسکے وہ کبھی اسلامی شریعت نہیں ہوگی ۔ ہم مصطفوی و مدنی شریعت کے ماننے والے ہیں جس میں عیسائی بھی انہی حقوق کے ساتھ رہتے تھے، یہودی بھی انہی حقوق کے ساتھ رہتے تھے اور ہم اس شریعت کے قائل ہیں جس کی اجتہادی روح مفقود ، جامد اور ساکن نہیں ہوتی بلکہ ہرلحظہ، ہر لمحہ متحرک رہتی ہے اور واحد یا تثنیہ نہیں جمع مکاتب فکر کو ، جمیع مکاتب فکر کو اکاموڈیٹ کرتی ہے۔ انہیں جینے کے، رہنے کے مساوی حقوق دیتی ہے۔ ریاستی قانون سب کے اوپر برابر لاگو ہوتا ہے۔ جس طرح میرے مصطفی کریم ﷺ نے کہا کہ اگر فاطمہ(رض) بنت محمد بھی چوری کرتی تو ہاتھ کاٹ دیئے جاتے ۔ سب شہریوں پہ اس کا برابر اطلاق ہوتا ہے ۔ ہم اس شریعت کو مانتے ہیں جس کے مکمل ثبوت قرآن اور سنت فراہم کرتی ہے ۔ جو یمن میں معاذبن جبل ص لے کے گئے اور جس شریعت کا مظاہرہ مدینہ میں قحط کے دوران فاروقِ اعظم ص نے کیاکہ قرآن کا فیصلہ ہے کہ چور کے ہاتھ کاٹ دو مگر جب مدینہ میں قحط پڑا ، حضرت عمر فاروق ص نے قرآن کا یہ فیصلہ، قرآن کی مقرر کی ہوئی یہ سزا معطل کردی۔ حکمران کی،مومن کی جرأت کو دیکھیے اور فرمایا کہ اس وقت یہ سزا نافذ ہوگی جب ریاست اپنے شہریوں کو مساوی طور پر غلہ تقسیم کرے گی، جب غلہ نہیں تو چوری لازمی عمل ہوگا اور سزا نہیں دی جاسکتی۔
اس اجتہادی قوت سے وہ شریعت آگے بڑھتی ہے۔ ہر مسلک کو، ہر مکتبۂ فکر کو، ہر مذہب کو اپنے اندر اکاموڈیٹ کرنے کی ، اپنے اندر اسے تحفظ فراہم کرنے کی ضمانت دیتی ہے ہم اس شریعت کی ،اس پاکستان کی بات کرتے ہیں ۔ اور اگرہمیںیہ طعنہ دیتے ہو کہ تم مذہبی پاکستان، اسلامی پاکستان سے اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتے تو پچھلے تریسٹھ چونسٹھ برسوں کا تناسب نکال لیتے ہیں کہ جسے ہیلری کلنٹن (“Great democracy of the world.”) کہتے ہوئے نہیں تھکتی، اس پاکستان میں اور انڈیامیں اقلیتوں کے قتل کا تناسب دیکھ لیجئے۔ آپ کو یاد ہوگا جب گوجرہ میں واقعہ پیش آیا تو وزیر اعظم پاکستان سمیت پاکستان کی ساری انتظامیہ اپنے اقلیتی بھائیوں اور بہنوں سے ہمدردی کرنے پہنچ گئی تھی کہ آپ ہماری طرح برابر کے شہری ہیں۔ اور (The great democracy of the world (i.e,India)) اس میں سرکار کی نگرانی میں اقلیتوں کو قتل کیا جاتا ہے ۔ مذہبی ریاست ترقی نہیں کرسکتی تو آپ کی سیکولر ریاستوں کا چہرہ بھی ننگا ہے۔کیوں بھولتے ہو اُنہیں۔
آپ کو معلوم ہے کہ اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار (Figures & Facts) کے مُطابق انڈیا کی کل آبادی 1.2بلین ( سوا ارب) سے زیادہ ہے۔ جس میں سے خطِ غربت سے نیچے کی آبادی بیالیس فیصد ہے اور انڈیا کی 650 ملین ( یعنی 65 کروڑ) آبادی ٹائلٹ جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہے ۔ ہمیں کہتے ہو کہ یہاں پہ دہشت گردی ہے، بلوچستان سلگ رہا ہے۔ پاکستان میں، بلوچستان کی علیحدگی کی تحریک ایک ناخن سے بھی چھوٹی ہے۔ لیکن انڈیا میں آٹھ بڑی بڑی تحریکیں علیحدگی کی موجود ہیں۔ پاکستان میں کسی مندر، کسی چرچ کو نہیں گرایا گیا۔ انڈیا میں گولڈن ٹیمپل مسمار کیا گیا اور بابری مسجد بھی شہید کی گئی۔ کون برے ہیں؟ سیکولر یا اسلامی۔ انڈیا میں سترہ دہشت گرد تحریکیں ہیں اور انڈیا میں سالانہ قتل کم و بیش 37000 ہے اورانڈیا میں تقریبا 15500 سالانہ ریپ ہوتا ہے ۔ انڈیا میں دورانِ زچگی سالانہ 63000 خواتین مرجاتی ہیں۔ سالانہ کم و بیش آٹھ ملین (اَسّی لاکھ) بچے غربت کے باعث تعلیم سے محروم ہوجاتے ہیں۔ یہ سیکولر چہرہ بھی دیکھ لو ۔ ہمیں کہتے ہو کہ اسلامی پاکستان کو تم کیسے چلائو گے؟ اپنا چہرہ بھی آپ کو معلوم ہے؟
آپ کے سیکولروں کا پردھان منتری اور پتا نہیں کیا کیا، بہادر امریکہ ۔
ان کی اپنی(FBI) کی کرائم بیورو کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں سالانہ 15000 قتل ہوتے ہیں ۔ FBIکی کرائم بیورو کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں کم از کم 85000 سالانہ ریپ ( زنا بالجبر) ہوتے ہیں اورامریکہ میں 21 لاکھ ساٹھ ہزار اوسطاً ڈاکے پڑتے ہیں، امریکہ صاحب بہادر جو افغانستان میں امن لا رہے ہیں ، عراق میں امن لائے ہیں ، اس سے پہلے ویت نام اور کمبوڈیا ہیروشیما اور ناگا ساکی میں امن لائے تھے ،فلسطین میں اسرائیلیوں کی مدد کررہے ہیں کہ امن قائم ہو جائے (FBI) کی رپورٹ کے مطابق اُسی ’’مقدّس ‘‘ امریکہ میں 46.2 ملین (تقریباً چار کروڑ باسٹھ لاکھ) کی آبادی خطِ غربت سے نیچے، تمام بنیادی، انسانی سہولتوں سے محروم ہیں۔ ان کی کل آبادی کا 4.5 پرسنٹ حصہ بنیادی طبی سہولیات نہ ہونے سے موت کے گھاٹ اتر جاتا ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی سیکولر طاقت کا چہرہ ہے۔
ہمیں طعنہ دیتے ہیں کہ جناب آپ کی مذہبی طاقتیں سکول اڑا دیتی ہیں ،وہ بچیوں کو پڑھنے نہیں دیتیں، مجھے بتائیے! پینسلوینیا (Pennsylvania) میں آپ کی آمش سوسائٹی (Amish Society) کیا کرتی ہے؟کیا وہاں پہ پانچویں سے آگے کسی بچے کو یا بچی کو پڑھنے کی اجازت ہے؟ میں امریکہ کی پینسلوینیا سٹیٹ کی بات کر رہا ہوں۔ آج تک وہاں کی مذہبی کمیونٹی نے بجلی نہیں لگنے دی۔ ان کا تصور یہ ہے کہ ہم حضرت عیسیٰ کے زمانے میں زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ میں کوئی غیر ذمہ دارانہ بات نہیں کررہا سارا ریکارڈ انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ پانچویں سے اوپر وہ وہاں پہ کسی کو پڑھنے نہیں دیتے۔ سکول گرا دیئے گئے، ان لوگوں نے پروٹسٹ (Protest) کیا اور ان کی یہ موومنٹ کئی عشروںپر محیط ہے۔ وہ CNN ، SKY اور ABC، FOX اور BBC کی سرخیاں کیوں نہیں بنتیں؟ بتائیے! سوات میں اڑنے والا سکول کو دنیا بھر کے چینلز اسے اٹھا رہے ہوتے ہیں کہ سوات میں سکول اڑ گیا۔ یہ پینسلوینیا میں کیا ہورہا تھا۔ سواپنے چہرے کو بھی دیکھیئے اور یہ میں نے آپ کو صرف جمہوریت کے دو ماموں کا حوالہ دیا ہے۔ اگر تفصیل میں جائیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس وقت دنیا کے ان سیکولر ممالک کی حالت کیا ہے؟ ان کا معاشرہ اجڑ چکا ۔ (Single Parent Child) جیسے کالے قوانین انہوں نے متعارف کروائے کہ ہمیں باپ کا نہیں پتا کہ باپ کون ہے ہمیں عورت سے بچہ چاہیے ۔ یہ قوانین سیکولر جمہوریہ میں بنتے رہے یا اسلامی جمہوریہ میں؟۔
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِالْحَسَنَۃِ۔ (النحل ۵۲۱)
’’جائو لوگوں کو حکمت کے ساتھ ، تدبر کے ساتھ، بصیرت کے ساتھ اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو۔ ‘‘
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ۔ (آل عمران ۴۰۱)
’’تم میں ایک ایسی جماعت ہو جو لوگوں کو خیر کی طرف بلائے اور برائی سے روکے اور اللہ ل کی معرفت کا حکم کرے ‘‘۔
انبیائ علیھم السلام نے دعوت دی۔ حضور رسالت مآب ﷺ نے لوگوں کو دعوت دی۔ آج آپ صوفیائ کی تاریخ دیکھیں انہوں نے لوگوں کو اپنے رب ل کی راہ کی طرف بلایا ۔ آج امن کی سفید دستاریں آپ کے سر پہ رکھ کے میرے قائد نے آپ کو ڈیوٹی سونپی کہ جا کر لوگوں کو اپنے رب ل کی طرف بلائو ۔ مجھ پر، آپ پر، ہر مسلمان پر یہ فرض ہے کہ آج وہ امن کی دستار اپنے سر پر سجائے اور لوگوں کو اپنے رب ل کی راہ کی طرف دعوت دے۔
آج یہ میری ذمہ داری ہے ، یہ آپ کی ذمہ داری ہے، اور یہ ہم نے اپنے مرشد سے عہد وابستہ کرنا ہے کہ واپس جائو اور جاکر اپنی گلی کوچوں میں یہ منادی کردو، دوڑو اللہ کی طرف، ’’ففروا الی اللہ‘‘ آئو اللہ کی طرف ۔ اللہ ل کی طرف بلانے کی تاثیر کی برکت دیکھیے، میں ہمیشہ یہ مثال دیتا ہوں کہ اللہ ل کی رحمت کی نشانیاں دیکھیے کہ جب حضور سلطان الفقر نے اس تحریک کا آغاز کیا تھااس وقت کیا جانثاروں کی ، مریدین کی اور تابع فرمانوں کی کوئی کمی تھی، کوئی قلت تھی؟ مگر آپ نے ایک معیار مقرر کیا اور صرف تین لوگوں سے اس جماعت کا آغاز کیا۔ کوئی وسائل نہیں تھے، کوئی سہولیات نہیں تھیں، بغیر وسائل کے، بغیر سہولیات کے اصلاحی جماعت کے وہ اولین صدور اپنے گھروں کی، اپنے جذبات کی قربانیاں دے کر نکلے، کس لیے ؟ (اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّک) عامۃ الناس کو اللہ ل کی راہ کی طرف بلانے کے لیے نکلے اور یہ وہ زمانہ تھا جب ایک نیازی ﴿مرحوم﴾ ایک صوفی ، ایک حاجی ، ایک قادری ایک ایک کرکے اس میں داخل ہوئے غالباً سنت طریقہ ہی یہی تھا۔ ہر اسلامی جماعت کی یہ سنت ہے جو رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے کہ جب سلسلہ شروع فرمایا تو ایک خدیجہ(رض) ، ایک ابوبکر(رض) ، ایک علی(رض) ، ایک زید(رض) ، ایک بلال(رض) ، ایک حمزہ(رض) ، ایک عمار(رض) ایک ایک کرکے اس میںداخل ہوئے اورپھر وہ وقت آیا کہ اللہ ل نے قرآن میں منادی کردی کہ
یدخلون فی دین اللہ افوجا۔
’’ آج لوگ دین میں جوق در جوق داخل ہو رہے ہیں‘‘۔
آج آپ دیکھیے کہ حضورﷺ کے نقشِ قدم اور حضور کی سنت پر، قرآن کے احکام پر اس جماعت کی مستحکم اور مضبوط بنیادیں کھڑی ہیں اور اس سنت کے مطابق جس سنت کو لیکر صحابہ چلے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی اس سنت کو زندہ کرتے ہوئے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے اس پیغام کا عملی پیکر بنتے ہوئے اصلاحی جماعت کے صدور دنیا کے طول و عرض میںامن کی سفید دستاریں سجائے پھیل گئے ، قربانیاں دیتے گئے، داستانیں رقم کرتے گئے، تاریخ بناتے گئے اور آگے بڑھتے رہے ایک ایک کرکے آج دنیا کا کوئی کونہ نہیں بچا، آج دنیا کا کوئی خطہ نہیں بچا کہ جس خطے میں لوگ اللہ ل کی طرف راغب نہ ہورہے ہوں، لوگ ’’ففروا الی اللہ ‘‘ کو اپنا نہ رہے ہوں، یہ کس کی برکت ہے؟ یہ قرآن کی آفاقیت کی برکت ہے۔ یہ قرآن کی ابدیت کی برکت ہے، یہ قرآن کی عالمگیریت کی برکت ہے، یہ قرآن کی دوامیت کی برکت ہے اور یہ رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل پیرا ہونے کی برکت ہے، یہ برکت ہے اس اسم ذات کی کہ جس اسمِ ذات کا پیغام اپنے سینوں میں سجائے یہ صدر کہلاتے ہیں اور دنیا میںجاکے کہتے ہیں دعوت دیتے ہیں کہ آئو میرے سلطان العارفین نے در کھول دیا ہے تم بھی صدر ہوجائو سینہ صاف کروا لو۔ آج اللہ ل کی دعوت کے لیے، سنت کی دعوت کے لیے، دین کی دعوت کے لیے، قرآن کی دعوت کے لیے اور اگر میں کوئی جامع جملہ استعمال کروں تو ’’امن کی دعوت‘‘ کے لیے آپ تھوڑے ہیں یا بہت ، ہلکے ہیں یا بھاری گھروں سے نکلیں۔ آج اپنے ملک کو دیکھیے کہ کیا آفت ٹوٹی ہے، ملت کو دیکھیے کہ کیا آفت ٹوٹی ہے ۔ جائیے لوگوں کو نویدِ صبح دیجیے ، امن کی بشارت دیجیے ، پیغام دیجیے، لوگوں کو تحفظ کا یقین دلائیے کہ دنیا میں جہاں بھی جائو گے فساد میں دھنسے رہوں گے۔’’ ففرواالی اللہ‘‘ اللہ ل کی طرف آئو کہ یہ امن کا راستہ ہے جو اس میں داخل ہوگیا وہ امن پاگیا ۔ یقین جانئیے کہ اللہ ل سے غفلت، ا للہ ل سے دوری، مغربی اور ہندو تہذیب میں رنگے جانے کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے ملک کے طول و عرض میں آگ لگی ہے۔ آگ بجھانے کے لیے پانی آتا ہے مگر آفت بن جاتا ہے سب کچھ بہا کے لے جاتا ہے۔ پانی سوکھتا ہے تو زلزلے آتے ہیں ہر چیز غرق کردیتے ہیں۔ جائیے! لوگوں کو اللہ ل کی طرف بلائیے، لوگوں کو اللہ ل کا پیغام یاد دلائیے، یہ عام سنت نہیں، یہ وہ سنت ہے جس سنت کے لیے میرے رسول ﷺ نے پتھر کھائے، یہ وہ سنت ہے جس سنت کے لیے میرے رسول کریم ﷺ کا خونِ مبارک آپ کے بدنِ مبارک سے بہا، یہ وہ سنت ہے جس سنت کے احیا کے لیے میرے رسول ﷺ کے دندان شہید ہوئے، یہ وہ سنت ہے جس سنت کے لیے میرے حضور ﷺ کے بدن پہ تیر لگے، میرے حضور ﷺ کو خراشیں آئیں، میرے حضور ﷺ کے بدن سے لہو ٹپکا، یہ وہ سنت ہے جس کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے قربانی دی، یہ وہ سنت ہے جس کے لیے بدر سجا ، جس کے لیے احد سجا ، جس کے لیے یرموک سجا ، جس کے لیے اجنادین سجا جس کے لیے قادسیہ سجا، جس کے لیے یروشلم سجا، یہ وہ سنت ہے جس سنت کے لیے کربلا سجا، جس سنت کو قائم رکھنے کے لیے آج تک مومنین، صدیقین، صالحینؒ، اولیائ کاملین، علمائے ربانیین قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں، الزام سہتے چلے آرہے ہیں، طعنے سہتے چلے آرہے ہیں لیکن وہ آگے بڑھتے جارہے ہیں اور اس وقت پوری دنیا کے دانشور یہ مانتے ہیں امریکہ کی ٹیمپل یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ ہارنگٹن واٹ (Prof David Harrington Watt) نے یہ تسلیم کیا کہ اس وقت دنیا میں اگر کوئی مذہب سب سے زیادہ بڑھ رہا ہے تو وہ اسلام ہے، اگر دنیا میں کوئی سب سے مقبول مذہب ہے تو اسلام ہے۔
تمام طعنوں کے باوجود، تمام تعصبات کے باوجود، تمام تشدد کے باوجود، اپنوں کی تمام نادانیوں اور اغیار کی تمام سازشوں کے باوجود خدا کا دین تھما نہیں۔ اللہ کے دشمن یہ تسلیم کررہے ہیں کہ یہ مذہب بڑھ رہا ہے، یہ دین پھیل رہا ہے، یہ رک نہیں رہا اسی لیے ہمارے مرشد کریم نے اس تحریک کا آغاز کرتے ہوئے آپ کو بتایا تھاکہ کوئی یہ سمجھے کہ ہمارے قدم جم جائیں گے، کوئی یہ سمجھے کہ ہمارے قدم رک جائیں گے، کوئی یہ سمجھے کہ ہمارے قدم تھم جائیں گے، نہیں نہ ہم تھمے ہیں، نہ ہم رکیں ہیں۔ ہمارے قائد نے ہمیں یہ جذبہ دیا کہ جائو دنیا میں اعلان کردو کہ مصطفی ﷺ کے غلاموں کا قافلہ نہ تھکا ہے نہ رکا ہے، نہ تھکے گا، نہ رکے گا، نہ تھک سکتا ہے ، یہ بڑھ رہا ہے، یہ بڑھتا جائے گا اور پوری دنیا کو امن کی ضمانت دے گا، پوری دنیا کو امن کا گہوارہ بنادے گا۔ آئیے! آج یہی عہد کرکے ہم نے جانا ہے:
وقتِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے
عارفوں کا یہ قافلہ رکا نہیں، تھما نہیںآج عارفوں کے سلطان سے، عارفوں کا یہ قافلہ عہد کرتا ہے کہ ہم آگے بڑھے ، ہم نے قربانیاں دیں، ہم اور بھی آگے بڑھیں گے، ہم اور بھی قربانیاں دیں گے، امن کے ساتھ، محبت کے ساتھ، دلیل کے ساتھ، تشدد کو اپنائے بغیر، تعصب کو اپنائے بغیر اس پیغام کو ہم دنیا کے کونے کونے میں لے جائیں گے، دنیا کی آخری سرحد تک لے جائیں گے اور اس امن کا نفاذ کریں گے جس امن کی دعوت ہمیں خدا کے قرآن نے دی ہے ۔
شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے