-پاکستان کا اگر سیرت النبی (ﷺ) کے تناظر میں مُطالعہ کیا جائے تو بہت سے حیرت انگیز پہلُو نکلتے ہیں جو بڑی مفید اور کار آمد راہنمائی فراہم کرتے ہیں۔۔۔
بے سود عبادت
متعلقہ لنکس
دُنیائے فلسفہ میں اسطورات کا عظیم باغی ، فلسفۂ یونان کا بانی اور افلاطون و ارسطو کا اُستاد ’’سقراط‘‘ ایک سنگ تراش کا بیٹا تھا اور پیدائشی طور پہ بے۔۔۔
کثیر الجہت و مافوق الفطرت داستانوں سے مزین تاریخِ جموں و کشمیر بہت پرانی ہے-جدید کشمیر کی تاریخ جغرافیائی، سماجی، سیاسی و مذہبی اعتبار سے 1864ء کے بد نام زمانہ۔۔۔
اکیسویں صدی جہاں سائنسی ترقی و مادی ترقی کے عروج کا مشاہدہ کر رہی ہے وہیں بدقسمتی سے اِسے اخلاقی اور روحانی زوال بھی پیش ہے-انسانی معاشرے بحیثیت مجموعی اخلاقی اقدار۔۔۔
افسوس!ہمارے ہاں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کی عظمت میں فقط ایک ہی پہلو اجاگر کیا جاتا ہے۔۔۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے خانوادۂ عالیہ میں جن نفوس قدسیہ کو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے چشمۂ فیضانِ سلطان العارفین کے جاری رہنے کی دلیل کہا جاتا ہے...
جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُوؒ نے اپنی ایک تصنیف میں فرمایا کہ: ’’یہ محبت ہی ہے جو دل کو آرام نہیں کرنے دیتی ورنہ کون ہے جو آسودگی نہیں چاہتا ‘‘-
تصوف کا اشتقاق مادہ ’’صوف‘‘سےبابِ تفعل کا مصدر ہے- اُس کے معنی ’’اون‘‘کے ہیں- لغویت کے لحاظ سے اون کا لباس عادتاً زیبِ تن کرنا ہے- لفظ صوف کی جمع ’’اصواف‘‘ ہے...
تصوف یا صوفی ازم اسلامی تہذیب و ثقافت کی اساسیات اور علومِ دینیہ کے اہم ترین موضوعات میں سے ہے جس کے مبادی، منابع اور مآخذ قرآن و سنت سے ثابت ہیں...
آج جس موضوع پہ گزارشات بیان کرنے جا رہا ہوں وہ ایک خالص علمی موضوع ہے جس کا تعلق براہ راست ہماری دینی اور ملی زندگی سے ہے- کیونکہ اس کے ساتھ ہماری روحیں جڑی ہیں؛
ہزاراں ہزار بلکہ بے حد و بے شمار حمدوسپاس واحد لاشریک ذات حق کے لئے کہ وحدانیت جس کی صفت مخصوص اور جلال و کبریائی وعظمت و برتری کا وصف خاص ہے‘ اس کے بعد درود نا محدود ہو حضرت محمدﷺ پر جو تمام انبیائ کے سردار‘ سب مومنوں کے راہنما‘ اسرار ربانی کے امین اور ذات خداوندی کے برگزیدہ ہیں اور جنہیں اللہ تعالی نے مقام بلند عطا فرمایا ہے اور آپ کے تمام صحابہ کرام (رض) اور اہل بیت(رض) پر کہ ان میں سے ہر ایک پیشوائے اُمت اور راہ شریعت کا راہنما ہے-
اما بعد ! بسا اوقات انسان بظاہر اللہ تعالی کی عبادت میں مصروف ہوتا ہے لیکن درحقیقت وہ عبادت حق کی بجائے عبادت نفس میں مبتلا ہوتا ہے کیونہ اس کا مقصود سراسر سودا بازی ہے- وہ چاہتا ہے کہ عبادت کے بدلے عذاب جہنم سے خلاصی پا کر نعمائے‘ بہشت تک رسائی حاصل کرلے‘ خلق خدا میں پارسا مشہور ہو جائے اور لوگ اُس کی پارسائی سے مرعوب ہو کر اس کے معتقد ہو جائیں اور دور دور تک اُس کی پارسائی اور خدا ترسی کی دھاک بیٹھ جائے- ایسی عبادت کہ جس کا مقصد لوگوں کو اپنا معتقد بنانا ہواُسے عبادت الہی نہیں کہا جا سکتا کہ یہ خدا کی نہیں بلہ لوگوں کی پرستش ہے-عبادت الہی میں ہوائے نفس کی تسکین اور لوگوں کی خوشنودی کو شامل کرنے کا نام ریاکاری ہے اور ریاکاری گناہ کبیرہ ہے کہ یہ شرک ہے کیونکہ اللہ تعالی کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک کرنا ہی شرک ہے‘ یہی شرک نفس پرستی ہے-
فرمان الہی ہے: افرائ یت من اتخدا الھہ ھو انہ ﴿پ۵۲ الجاثیہ۳۲﴾
ترجمہ: بھلا اُس شخص کو دیکھو کہ جس نے خواہشات نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے-
اسی شرک سے باز رکھنے کیلئے اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ:
فمن کان یرجوا لقائ ربہ فلیعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا-
ترجمہ: سو جو شخص اپنے رب سے ملنے کی آرزو رکھے اُسے چاہیے کہ وہ اعمال صالحہ اختیار کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے-
مزید فرمان الہی ہے:
فویل للمصلینO الذین ھم عن صلاتھیم ساھونO الذین ھم یرآئ ونo ﴿پ۰۳الماعون۴تا۶﴾
ترجمہ: بڑی خرابی ہے ایسے نمازیوں کے لئے جو اپنی نماز بے دھیانی سے ادا کرتے ہیں یا نماز میں ریاکاری کرتے ہیں-
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ:
1۔ قیامت کے دن ایک شخص کو اللہ تعالی کے سامنے پیش کرکے پوچھا جائے گا کہ تم نے کون سی عبادت کی ہے؟ وہ جواب دے گا کہ میں نے اپنی جان راہ حق میں قربان کردی اور میدان جنگ میں مجھے شہید کر دیاگیا- اللہ تعالی فرمائے گا کہ تو جھوٹا ہے کیونکہ تیرا جہاد اس غرض سے تھا کہ لوگ تجھے بہادری اورہمت مردانہ کا ایک نمونہ تصور کریں﴿اور لوگوں کے دلوں پر تیری دھاک بیٹھ جائے﴾ اور اسے جہنم کے سپرد کر دیا جائے گا پھر ایک اور شخص کو حضور حق میں پیش کرکے پوچھا جائے گا کہ تم نے کون سی عبادت کی ہے؟ وہ عرض کرے گا کہ الہی ! میرے پاس جو کچھ تھا وہ میں نے تیری راہ میں صدقہ کردیا اللہ تعالی فرمائے گا کہ تیرا کہنا بالکل غلط ہے کیونکہ تیرا یہ فعل اس غرض سے تھا کہ لوگ تجھے بہت بڑا سخی سمجھیں اورا سے بھی جہنم کے حوالے کردیا جائے گا- پھر ایک اور شخص کو حاضر کیا جائے گا اور اس سے بھی وہی سوال کیا جائے گا اور وہ جواب دے گا کہ میں نے علم قرآن حاصل کیا اور اس کے حصول میں بڑی تکالیف برداشت کیں- اللہ تعالی فرمائے گا کہ تو سراسر جھوٹا ہے کیونکہ علم قرآن سیکھنے سے تیرا مدعا یہ تھا کہ لوگ تیرے علم و فضل کے معتقد ہو جائیں اور کہا کریں کہ فلاں آدمی بڑا زبردست عالم ہے اور پھر اسے بھی دوزخ میں ڈال دیا جائے گا-
2۔ قیامت کے دن اللہ تعالی فرمائے گا کہ اے ریا کارو! جائو اُنہی لوگوں کے پاس چلے جائو جن کو دکھانے کی خاطر تم عبادت کیا کرتے تھے‘ اب اُنہی سے جا کر اپنا اجر طلب کرو-
3۔ ارشاد حق تعالی ہے کہ : جس شخص نے میری عبادت میں کسی دوسرے کو میرا شریک بنایا تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ میں تو شریک سے بے نیاز ہوں لہذا اس کی عبادت اُسی کو دے دوں گا جسے اُس نے میرا شریک ٹھہرایا ہوگا-
4۔ بارگاہ حق تعالی میں وہ عمل ہرگز قبول نہ ہوگا جس میں ریا کا شائبہ تک بھی موجود ہوگا-
5۔ جب الحزن سے اللہ تعالی کی پناہ مانگا کرو! لوگوں نے عرض کی:اے اللہ کے رسول ﷺ وہ کیا چیز ہے؟ فرمایا! وہ دوزخ کی ایک وادی ہے جسے خاص طور پر ریاکاروں کے لئے بنایا گیا ہے-
6۔ قیامت کے دن ریا کار آدمی کو خطاب ہوگا کہ: او ریا کارو! اونابکار! او غدار! او مکار! سن کہ تیرے اعمال ضائع کردیئے گئے اور تیرا اجر باطل ہوچکا‘ اب تو صرف اسی شخص سے اپنا اجر طلب کر کہ جس کو دکھانے کی خاطر تو سارے اعمال کیا کرتا تھا-
7۔ اللہ تعالی نے آسمان پیدا کرنے سے پہلے سات فرشتے پیدا فرمائے- پھر سات آسمان پیدا کرکے ہر ایک آسمان پر ان سات فرشتوں میں سے ایک ایک فرشتہ موکل مقرر کیا اور اس کے ذمہ متعلقہ آسمان کی دربانی کردی- جب لوگوں کے اعمال لکھنے والے فرشتے ﴿جنہیں حفظہ کہتے ہیں﴾ آدمی کے صبح سے شام تک کئے ہوئے روزانہ کے اعمال لے کر پہلے آسمان پر جاتے ہیں اور اس کی آدمی کی اطاعت گزاری کی بڑی تعریف کرتے ہیں اور واقعی اس شخص کی عبادت کچھ اس انداز کی ہوتی ہے کہ اس کا نور آفتاب کے نور سے کسی طرح کم نہیں ہوتا لیکن ناگاہ موکل فرشتے کی آواز آتی ہے کہ یہ عبادت اس عابد کے منہ پر دے مارو کہ وہ اہل غیبت ہے اور مجھے یہ حکم ہے کہ غیبت کرنے والے آدمی کے اعمال یہاں سے نہ گذرنے دوں ﴿خواہ وہ کتنے ہی اچھے کیوں نہ دکھائی دیں﴾ اس کے بعد ایک ایسے شخص کے اعمال کہ جس نے غیبت نہیں کی ہوگی ﴿آسمان اول سے تو گذر جاتے ہیں لیکن﴾ جب دوسرے آسمان پر لے جائے جاتے ہیں تو وہاں کا موکل فرشتہ کہتا ہے کہ ان اعمال کو واپس لے جائو اور اس عابد کے منہ پر دے مارو کہ جس نے یہ اعمال کئے ہیں کیونکہ اس نے یہ اعمال ﴿جو بظاہر بڑے پاکیزہ دکھائی دیتے ہیں﴾ دنیا کی خاطر کئے ہیں اور ان کی بدولت لوگوں میں فخر و مباہات کرتا رہا ہے اور مجھے یہ حکم ہے کہ اس کے اعمال آگے نہ جانے دوں- پھر تیسرے شخص کے اعمال ﴿پہلے دو آسمانوں سے گذر کر﴾ تیسرے آسمان پر لے جائے جاتے ہیں اور ان میں ﴿غیبت و دکھاوا سے پاک﴾ نماز‘ روزہ اور صدقہ شامل ہوتا ہے اور حفظہ ان پر حیرت زدہ ہوتے ہیں﴿کہ کتنے اعلی اعمال ہیں﴾ لیکن تیسرے آسمان کا موکل فرشتہ کہتا ہے کہ یہ اعمال تکبر سے آلودہ ہیں اور مجھے تکبر پر نگران مقرر کیا گیا ہے تاکہ اہل تکبر کے اعمنال یہاں سے نہ گذرنے دوں اور یہ آدمی متکبر ہے اور لوگوں کے ساتھ تکبر سے پیش آتا ہے‘ لہذا اس کے اعمال واپس لے جائو اور اس کے منہ پر دے مارو-پھر ایک اور شخص کی باری آتی ہے کہ جس کے اعمال تسبیح و نماز و حج کی بدولت ستاروں کی طرح درخشاں و تاباں ہوتے ہیں لیکن چوتھے آسمان پر پہنچتے ہی روک لئے جاتے ہیں اور موکل فرشتہ کہتا ہے کہ مجھے غرورو نخوت پر نگہبان مقرر کیا گیا ہے اور مجھے یہ حکم ہے کہ میں یہاں سے مغرور اور اہل نخوت کے اعمال کو آگے نہ جانے دوں- پس اس کے اعمال واپس لے جا کر اس کے منہ پر دے مارو کہ وہ مغرور اور نخوت پسند لوگوں میں سے ہے- پھر ایک اور شخص کے اعمال آتے ہیں اور وہ ایسے پیارے ہوتے ہیں جیسے کہ ایک حسین وجمیل دلہن کہ جسے دولہا کے حوالے کیا جا رہا ہو- جب یہ حسین و جمیل اعمال پہلے چار آسمانوں سے گذر کر پانچویں آسمان پر پہنچائے جاتے ہیں تو وہاں کا موکل فرشتہ کہتا ہے کہ یہ عمل اسی کے منہ پر دے مارو‘ اسی کی گردن پر جا دھرو کہ میں حسد پر نگہبان مقرر کیا گیا ہوں اور مجھے یہ حکم ہے کہ یہاں سے کسی حاسد کے اعمال نہ گذرنے دوں اور اس شخص کی حالت یہ ہے کہ عم وعمل میں جو شخص بھی اس کے درجہ پر پہنچتا ہے یہ اس سے حسد کرنے لگتا ہے اور اس کے خلاف زبان درازی کرنے لگتا ہے پھر ایک اور شخص کے اعمال لائے جاتے ہیں جو نماز‘ روزہ‘ حج و عمرہ سے مزین ہوتے ہیں- چھٹے آسمان پر انہیں بھی روک لیا جاتا ہے اور موکل فرشتہ کہتا ہے کہ یہ عمل اس کے منہ پر دے مارو کہ میں فرشتہ رحمت ہوں اور مجھے یہ حکم ہے کہ بے رحموں کے اعمال یہاں سے نہ گذرنے دوں اور یہ شخص اتنا بے رحم ہے کہ کسی کو رنج پہنچے تو ﴿اس پر ترس کھانے کی بجائے﴾ اس پر ہنستا ہے اور کسی پر اگر کوئی مصیبت ٹوٹ پڑے تو ﴿اس پر رحم کھا کر اس کی مدد کرنے کی بجائے﴾ اس پر بغلیں بجاتا ہے پھر ایک ایسے شخص کے اعمال ﴿چھ آسمانوں سے گذر کر﴾ ساتویں آسمان پر پہنچائے جاتے ہیں جو نماز‘ روزہ‘ نفقہ‘ جہاد اور پرہیزگاری کے نور سے یوں منور ہوتے ہیں کہ جیسے کہ آفتاب اور سارے آسمانوں میں ایک غلغلہ بلند ہو جاتا ہے اور برق سی کڑک چمک سارے ماول پر چھا جاتی ہے‘ تین ہزار فرشتے ان اعمال کے جلو میں چل رہے ہوتے ہیں اور کسی فرشتے کو روک ٹوک کی جرات نہیں ہوتی کہ ناگاہ ساتویں موکل فرشتے کی آواز آتی ہے کہ بس لے جائو ان اعمال کو اور اس شخص کے منہ پر دے مارو اس کے دل پر قفل لگا دو کہ ان تمام اعمال سے اس کا مقصود قرب حق تعالی نہ تھا بلکہ اس کا مقصد محض یہ تھا کہ اسے علمائ کے نزدیک عزت و حشمت حاصل ہو جائے اور شہر شہر میں اس کے نام کا ڈنکا بجنے لگے اور مجھے یہ حکم ہے کہ ایسے شخص کے اعمال کو آگے نہ جانے دوں اس لوے کہ ہر وہ عمل جو خاص حق تعالی کیلئے نہ ہو وہ ریا کہلاتا ہے اور ریاکار کے اعمال حق تعالی کے نزدیک قابل قبول نہیں ہوتے- اس کے بعد ایک ایسے شحص کے اعمال لائے جاتے ہیں جو ساتوں آسمانوں سے گذر کر عرش پر جا پہنچتے ہیں اور یہ اعمال سرتا سر اخلاق نیک‘ ذکر فکر اور تسبیح و عبادات پر مشتمل ہوتے ہیں اور تمام آسمانوں کے فرشتے اس کی شہادت و گواہی کے لئے حاضر ہوتے ہیں‘ یہاں تک کہ ان اعمال کو حضور حق تعالی میں پیش کر دیا جاتا ہے اور سب کے سب فرشتے بیک زبان گواہی دیتے ہیں کہ یہ اعمال پاکیزہ ہونے کے علاوہ اخلاص کی صفت سے بھی مالا مال ہیں- اس پر بارگاہ حق تعالی سے ارشاد ہوتا ہے کہ اے فرشتو! تم اس کے اعمال و افعال کے نگہبان ضرور ہو لیکن دل کی نگہبانی میں خود کرتا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ اس نے یہ اعمال میرے لئے نہیں کئے کیونکہ ان کے کرتے وقت اس کے دل میں نیت کسی اور ہی کے لئے ہوتی تھی- پس اس پر میری لعنت ہو اور اللہ تعالی کے یہ الفاظ سنتے ہی فرشتے بھی کہنے لگتے ہیں کہ الہی اس پر میری لعنت ہو اور ہماری طرف سے بھی لعنت ہو-تب ساتوں آسمانوں اور ان کے درمیان کی ہر ایک چیز سے یہی صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں کہ لعنت ہو اس ریاکار پر-
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھا کہ ایک شخص گردن جھکائے بیٹھا ہے‘ گویا یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ ’’میں بڑا پارسا ہوں‘‘ حضرت عمر(رض) نے فرمایا- اے ٹیڑھی گردن والے ! اپنی گردن کو سیدھا کر لے کہ خضوع وخشوع کا مقام دل ہے نہ کہ گردن-
حضرت ابو امامہ(رض) نے ایک شخص کو مسجد میں بحالت سجدہ روتے اور گڑگڑاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا’’ اے نیک بخت! یہ جو کچھ تو لوگوں کے سامنے مسجد میں کر رہا ہے اگر اپنے گھر میں علیحدہ ہو کر کرتا تو تیرا جواب نہ تھا-
کسی شخص نے حضرت سعیدبن مسیب (رض) سے پوچھا کہ جو شخص اللہ تعالی سے ثواب حاصل کرنے کے لئے اور لوگوں سے اپنی تعریف سننے کے لئے صدقہ و خیرات کرے‘ اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ آپ(رض) نے فرمایا کہ: اسے جو کچھ کرنا ہے صرف اللہ ہی کے لئے کرے‘ یہ اللہ اور مخلوق دونوں کی خوشنودی کو یکجا کرنا کیسا؟-
حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہ الکریم نے فرمایا کہ : ریا کار کی تین نشانیاں ہوتی ہیں:
1۔ تنہائی میں سست ہوتا ہے-
2۔ لوگوں کو دیکھ کر خواہ نخواہی مسکراتا ہے اور خوش ہوتا ہے اور اپنی تعریف سن کر زیادہ عمل کرتا ہے اور برائی سن کر کم عمل کرتا ہے-
حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ: جب کوئی آدمی ریا کرتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے کہ دیکھو! میرا بندہ کس طرح میرا مذاق اُڑا رہا ہے؟-
نعوذ باللہ منہ
ریا کاری کے کام
امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ ’’ریایہ ہے کہ خود کو لوگوں کے سامنے پارسا ظاہر کیا جائے تاکہ لوگ اُسے پارسا سمجھ کر اس کے گرویدہ ہو جائیں‘ اُسے عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھیں‘ اُس کی تعظیم و احترام کریں اور اُسے اخلاق حسنہ کا نمونہ خیال کریں- اس غرض سے وہ ایسی باتیں اختیار کرتا ہے جو بظاہر پارسائی اور دینی بزرگی کی دلیل ہوتی ہے اور انہی کی نمائش کو اپنا شعار بنالیتا ہے ان باتوں کو پانچ اقسام پر تقسیم کیا جاسکتا ہے-
1۔ پہلی قسم صورت تن سے متعلق ہے یعنی ظاہری بدن کی ہیئت و شکل سے دھوکہ دینا‘ مثلا چہرے کو کسی نہ کسی طریق سے زرد بنا لینا تاکہ لوگ سمجھیں کہ رات بھر عبادت کرتا رہا ہے اور سویا بالکل نہیں ہے یا خود کو بالکل نحیف و نزار بنا لینا تاکہ لوگ یہی خیال کریں کہ یہ ضعف نقاہت عبادت میں کثرت مجاہدہ و ریاضت کی وجہ سے ہے یا صورت کو نہایت غمگین و مغموم بنائے رکھنا تاکہ لوگ سمجھیں یہ غم دین و غم آخرت میں گھلتا جا رہا ہے یا بالوں میں کنگھی کرنا اور انہیں سنوارنا چھوڑ دے تاکہ لوگ جانیں کہ اسے تو عبادت میں اپنے تن بدن کابھی ہوش نہیں یا نہایت ہی دھیمے لب و لہجے میں گفتگو کرنا تاکہ سننے والے یہی گمان کریں کہ اس کے دل میں وقار دین کا احساس اتنا گہرا ہے کہ آواز تک دب کر رہ گئی ہے یا لبوں کو کسی نہ کسی طریقے سے اتنا خشک کر لینا کہ پپڑیاں بندھی ہوئی نظر آئیں تاکہ لوگوں کو روزہ دار دکھائی دے-
جب ان تمام باتوں کو دیکھ کر لوگ بھی وہی کچھ خیال کرنے لگتے ہیں جس کی اسے خواہش و تمنا ہوتی ہے تو اس کے نفس کو بڑی خوشی و مسرت حاصل ہوتی ہے – نفس کی ایسی خوشی کو تباہ کرنے کے لئے حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: جب کوئی آدمی روزہ رکھے تو اسے چاہیے کہ بالوں میں تیل ڈالے‘ کنگھی کرے‘ ہونٹوں کو روغن وغیرہ سے تر رکھے‘ آنکھوں میں سر مہ لگائے تاکہ کسی کو معلوم ہی نہ ہوسکے کہ وہ روزہ دار ہے-
2۔ دوسری قسم لباس سے متعلق ہے‘ مثلا ان کا کھردرا‘ سخت اور غیر ملائم لباس پہننا یا چھوٹے‘ تنگ اور پھٹے‘ پرانے کپڑے پہننا تاکہ اس پر زاہد ہونے کا گمان گذرے‘ گدڑی پہن کر مصلے لئے پھرنا تاکہ لوگ اسے صوفی و درویش سمجھیں یا دستار کے نیچے کنھدوں پر ریشمی دوشالہ ڈالے رہنا کہ لوگ اسے دانشمند تصور کریں-
3۔ تیسری چیز جس میں ریاکاری سے کام لیا جاتا ہے وہ گفتار یعنی طرز گفتگو ہے کہ ریاکارآدمی اپنے لبوں کو یوں ہلاتا رہتا ہے کہ کوئی جانے اسے ذکر الہی سے فرصت ہی نہیں‘ ہوسکتا ہے کہ وہ واقعی ذکر کرتا بھی ہو لیکن اگر لبوں کو یوں مکارانہ جنبش نہ بھی دے تو کیا دل ہی دل میں ذکر کرنا ممکن نہیں؟ ممکن ہے بلکہ دل میں ذکر کرنا ہی افضل احسن ہے لیکن پھر لوگوں کو کیسے پتہ چلے گا کہ یہ حضرت ہر وقت ذکر اللہ کرتے رہتے ہیں ورنہ خلوت و تنہائی میں ذکر اللہ کا خیال بھی اس کے دل میں نہیں گذرتا یا پھر یوں کرتا ہے کہ صوفیائ کے اقوال و روایات میں سے کچھ باتیں حفظ کر لیتا ہے اور لوگوں کے سامنے اس طرح بیان کرتا ہے کہ گویا علم تصوف پر آج کسی کو عبور حاصل ہے تو بس اسی کو ہی ہے اور ہر وقت لوگوں کے سامنے گردن نیچی کئے ہوئے چلتا ہے گویا حالت وجد میں ہو‘ کبھی آہیں بھرنے لگتا ہے اور بے حد غمگین اور اداس ہو جاتا ہے گویا غم دین سے نڈھال ہوا جا رہا ہے- کبھی کبھی چند ایک احادیث و حکایات یاد کرکے جگہ جگہ لوگوں کے سامنے یوں دہراتا ہے گویا کہ علم کا سمندر ہے اور زمانے میں اس کے علم وفضل کا جواب ہی نہیں-
4۔ چوتھی قسم کا تعلق عبادات سے ہے یعنی ریاکار اگر نماز پڑھتے وقت دور سے کسی کو آتا ہوا دیکھ لیتا ہے تو نماز بڑے اہتمام اور خشوع وخضوع سے شروع کر دیتا ہے‘ گردن آگے جھکا لیتا ہے‘ رکوع و سجود کا وقفہ طویل تر کر دیتا ہے‘ ادھر ادھر بالکل نہیں دیکھتا اور اپنے انگ انگ میں اخلاص بھر لیتا ہے یا صدقہ دینا ہو تو لوگوں کے سامنے دیتا ہے تاکہ خوب تشہیر ہو جائے- اسی طرح ہر عبادت میں ایسی نمود ونمائش کا اہتمام کرتا ہے- چلتے وقت آہستہ روی کا مظاہرہ کرتا ہے اور نگاہوں کو مودب و مہذب رکھتا ہے یہ سب کچھ صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے کرتا ہے ورنہ خلوت و تنہائی میں اول تو وہ عبادت کرتا ہی نہیں اگر کرے بھی تو عبادت کا رنگ ڈھنگ کچھ اور ہی ہوتا ہے-
-5پانچویں چیز یہ ہوتی ہے کہ لوگوں پر ظاہر کیا جاتا ہے کہ میرے مریدوں اور معتقدوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور شاگردوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں‘ ایک جہان ہے کہ مجھ سے اکتساب فیض کرتا ہے‘ بڑے بڑے ریئس اور جاگیردار میرے سلام کو حاضر ہوتے ہیں اور اسے اپنے لئے باعث خیرو برکت تصور کرتے ہیں‘ مشائخ زمانہ میرا احترام کرتے ہیں اور مجھے بہت اچھا سمجھتے ہیں- بعض اوقات مختلف قسم کی شیخیاں بگھارتا ہے اور لوگوں کو اپنی صداقت کا یقین دلانے کے لئے کافی کچھ تکالیف بھی برداشت کر لیتا ہے‘ خصوصا کھانے پینے کے سلسلے میں اس میں ریا کی بہت کچھ گنجائش آسانی سے نکل آتی ہے مثلا ایک ریاکار راہب نے اپنی غذا چنے کا صرف ایک دانہ مقرر کر رکھا تھا تاکہ لوگ واہ واہ کے ڈونگرے برسایا کریں‘ خواہ چھپ چھپ کر جھولی بھر چنے چبا جاتا ہو اور اگر بالفرض وہ واقعی ایک ہی دانا کھاتا ہو تو ایسا کرنا حرام ہے جبکہ مقصود پارسائی جتلانا ہو اور اپنی عبادات کو اس کی بھینٹ چڑھانا ہو کیونکہ پارسائی اللہ تعالی کے لئے ہوتی ہے نہ کہ لوگوں کو دکھانے کیلئے-یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جاہ و چشم کی طلب اگر ایسی چیزوں کے ذریعے کی جائے جن کا تعلق عبادات سے نہ ہو تو یہ جائز اور مباح ہے کیونکہ اگر کوئی شخص اچھے کپڑے پہن کر باہر نکلتا ہے تو یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ سنت بھی ہے کیونکہ اس آراستگی سے مقصود اظہار مروت ہوتا ہے نہ کہ پارسائی بلکہ اگر کوئی شخص علم لغت و نحوو حساب و طب وغیرہ کے بارے میں یا ایسی ہی کسی اور چیز کے بارے میں جو دین اور عبادات سے متعلق نہ ہو اپنی علمیت و فضیلت کا اظہار کرے تو یہ ریا ہوتے ہوئے بھی جائز ہے کہ ریا ہوتی ہی طلب جاہ کے لئے ہے اور طلب جاہ اگر حد سے نہ بڑھے تو مباح ہے اور اگر طلب جاہ عبادات و طاعات کے ذریعے ہو تو حرام ہے-
ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر بیٹھے ہوئے صحابہ کرام (رض) سے ملاقات کے لئے باہر تشریف لے جانے لگے تو جاتے جاتے پانی کے مٹکے میں اپنا عکس دیکھ کر دستارمبارک درست کی اور بال بھی ٹھیک کر لئے- حضرت عائشہ صدیقہ(رض) نے پوچھا کہ حضورﷺ ! آپ نے یہ کیا کیا؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ : اللہ تعالی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے بھائیوں سے ملاقات کی خاطر باہر نکلے تو ان کی خاطر ذرا تجمل و آرائش کر لیا کرے ﴿کہ یہ شائستگی گویا انہی کے احترام ومحبت میں ہوتی ہے﴾
اب صاف ظاہر ہے کہ حضورﷺ کے اس فعل کا تعلق اصل دین سے تھا کیونکہ آپ اس بات پر معمور تھے کہ لوگوں کی نظروں میں اپنا وقار پیدا کریںتاکہ لوگ نہ صرف متوجہ ہوں بلکہ آپ کی اقتدائ کریں- پس اگر کوئی اور شخص بھی اس پر عمل کرے تو یہ صرف جائز ہی نہیں بلکہ سنت ہے اور اس کے فوائد میں سے ایک فائدہ تو بالکل سامنے کی بات ہے کہ اگر کوئی شخص بوسیدہ لباس میں ملبوس ہوگا اور اس مروت کو نظر انداز کرے گا جو میل ملاقات کے وقت لباس کے سلسلے میں ضروری ہے تو لوگ غیبت کرنے لگیں گے اور ان کی اس غیبت کا باعث وہ خود اور اس کا طرزعمل ہوگا اور عبادات کے سلسلے میں جو ریا کو حرام کہا گیا ہے تو اس کے دو اسباب ہیں‘ ایک تو یہ کہ اس نے مکروفریب سے کام لیا اور لوگوں پر یہ ظاہر کیا کہ اس کی عبادت خلوص پر مبنی ہے لیکن جب اس کا دل مخلوق میں مشغول ہو تو اسے مخلص کیونکر کہا جاسکتا ہے؟ اور پھر اگر لوگوں کو پتہ چل جائے کہ یہ محض ان کے دکھانے کے لئے ہے تو وہ اسے اپنا دشمن تصور کرنے لگیں گے اور خود بھی اس کے دشمن ہو جائیں گے اور اس کی ریاکاری کو ہرگز قبول نہیں کریں گے اور دوسرے یہ کہ عبادات صرف اللہ کے لئے ہیں اور اگر اس نے عبادات کو مخلوق کی خوشنودی کی خاطر کیا تو گویا اس نے عبادات کا بلکہ خود اللہ تعالی کا مذاق اڑایا اور اللہ کے بجائے عاجز و ضعیف و حقیر و ناچیز بندوں کو اپنا مقصود عبادات ٹھہرایا حالانکہ یہ تو وہ کام ہے کہ جس میں مقصود و معبود صرف اور صرف ذات حق تعالی ہونی چاہیے-
ریاکاری کے درجے
ریاکاری کے مختلف درجے ہیں جنہیں تین اصلوں میں بیان کیا جاسکتا ہے
اصل اول یہ ہے کہ عمل ریا میں ثواب کا ارادہ ہی شامل نہ ہو مثلا روزہ رکھے یا نماز پڑھے اور مقصود صرف نمائش ہو اور اگر تنہائی میں ہو تو نہ روزہ رکھے اور نہ نماز پڑھے-یہ انتہائی شدید اور سنگین قسم کا ریا ہے اور اس کا عذاب بھی انتہائی شدید اور خوفناک ہوگا اور اگر لگے ہاتھوں ثواب کا ارادہ بھی رکھتا ہو کہ چلو نمائش بھی ہو جائے گی اور ثواب بھی لوٹ لیں گے لیکن اکیلے میں پھر بھی نہ کرے تو ریا بھی پہلی قسم کے ریا کے بہت قریب ہے اور ایسا ضعیف ارادئہ ثواب اُسے اللہ تعالی کے قہر وغضب سے ہرگز نہیں بچا سکتا لیکن اگر غلبہ قصد ثواب کا ہو یہاں تک کہ تنہائی میں بھی ایسا ہی کرے‘ تاہم کسی کے دیکھ لینے سے اس کی خوشی میں اضافہ ہو جائے اور ان فرائض کی ادائیگی اس کے لئے آسان تر ہو جائے تو ظاہر ہے کہ ریا کی آمیزش ہو ہی گئی‘ تاہم امید رکھنا چاہیے کہ اس معمولی سے ریا سے ثواب بالکل زائل نہ ہو جائے گا اور عبادات یکسر باطل قرار نہ پائیں گی البتہ جس نسبت و تناسب سے اس میں ریا شامل ہوگا اسی نسبت سے اس کا عذاب مل کر رہے گا یا اسی مقدار میں ثواب میں کمی کر دی جائے گی اور اگر دونوں چیزیں یعنی قصد ریا اور قصد ثواب بالکل برابر اور مساوی ہوں اور دونوں میں سے کوئی بھی دوسرے پر غالب نہ ہو تو یہ شرکت اور ﴿صحیح احادیث کی رو سے بالکل واضح ہے کہ﴾ ایسا ریاکار صحیح سلامت نہ بچ سکے گا بلکہ عقوبت و سزا میں مبتلا کیا جائے گا-
اصل دوم اس امر کا درجہ بدرجہ فرق و تفاوت ہے کہ جس میں ریا سے کام لیا جاسکتا ہے اور وہ عبادت ہے اور عبادت میں ریا کے تین درجے ہیں-مثلا درجہ یہ ہے کہ اصل ایمان ہی ریاکاری سے کام لے اور یہ خالص منافق کا ایمان ہے اور ایسے نام نہاد اہل ایمان کو سخت دشواری کا سامنا کرنا ہوگا کیونکہ کافر سے بھی شدید تر عذاب اس کو دیا جائے گا کیونکہ ایسے شخص کا باطن تو کافی ہی ہوتا ہے لیکن ظاہر میں ریاکاری کا مظاہرہ کرکے فریب و دغا کا ارتکاب اس پر مستزاد ہوتا ہے ایسے منافقین دائمی طور پر دوزخ میں رکھے جائیں گے- دوسرا درجہ اس ریا کا ہے جو اصل عبادت میں اختیار کیا جائے مثلا کوئی شخص وضو اور طہارت کے بغیر ہی لوگوں کے سامنے نماز ادا کرنے لگے یا یونہی روزہ رکھ لے اور تنہائی کی صورت میں اس کا تصور بھی اس کے ذہن میں نہ ہو- یہ ریا بھی بڑا شدید قسم کا ریا ہے اگرچہ اس ریاسے کمتر ہے جو اصل ایمان میں ریا کرنے والوں کا ہوتا ہے اور لوگوں کے نزدیک اپنی قدرومنزلت اگر اسے اس قدرومنزلت سے عزیز تر ہو جو بندے کی حق تعالی کے نزدیک ہونی چاہیے تو یہ اس کے انتہائی ضعف ایمان کی نشانی ہے اور اگرچہ اسے کافر نہ کہیں گے تاہم اگر وہ زندگی میں توبہ نہ کرلے تو موت کے وقت یہی خطرہ ہوگا کہ شاید وہ کافر کی حیثیت سے ہی اس دنیا سے رخصت ہو اور شاید اس کا ایمان باطل قرار پائے- تیسرا درجہ اس ریا کا ہے جو آدمی اصل ایمان اور فرائض کی ادائیگی میں تو نہیں کرتا لیکن ادائے سنت میں ضرور کرتا ہے مثلا تہجد ادا کرتا ہے‘ صدقہ دیتا ہے‘ نماز باجماعت کا خیال رکھتا ہے لیکن غلبہ قصد ثواب کی بجائے قصد ریا کا ہوتا ہے اور یہ سب کچھ محض اس لئے کرتا ہے کہ لوگ اس کی مذمت نہ کریں یعنی اگر اسے مذمت کا خوف نہ ہوتا تو ان میں سے کوئی سنت بھی ادا نہ کرتا یا پھر یہ خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اس کی تعریف کیا کریں اور ہوسکتا ہے کہ یوں کہنے لگے کہ بھئی میں نے جو کچھ کیا ہے اس کے صحیح ہونے کا تو مجھے اعتبار نہیں بلکہ یوں سمجھئے کہ میں نے کچھ کیا ہی نہیں کہ مجھ پر یہ کوئی واجب تھوڑی ہی تھا آختر سنت ہی تھا ناں! اب مجھے تو اس کے ثواب کی کوئی امید نہیں اور نہ ہی میں اس کا طالب ہوں تاہم میرا خیال ہے کہ مجھے اس کا عذاب بھی نہیں ہونا چاہیے لیکن درحقیقت ایسی کوئی صورت نہیں کیونکہ عبادت فرض ہو یا سنت جب کی جائے تو بہرحال عبادت ہے اور حق تعالی کے لئے ہے جس میں لوگوں کو شریک نہیں کیا جاسکتا نہ ہی انتخاب کا حق حاصل ہے کہ یوں کہتا پھر ے کہ ’’ثواب ملنا تو چاہیے‘‘- اس کے باوجود اگر لوگوں کے لئے کرنے لگے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایسی چیزیں کہ جن کا حق صرف اللہ تعالی کو پہنچتا ہے ان میں اس نے مخلوق کو بھی حصہ دار ٹھہرا لیا اور یہ صریحا اللہ تعالی کامذاق اڑانا ہے اور بے شک موجب عذاب بن کر رہے گا اگرچہ یہ عذاب شاید اتنا شدید اور خوفناک نہ ہو جتنا کہ فرائض میں ریاکاری کے باعث ہوتا ہے- ویسے وہ سنت جو صفات عبادات میں شامل ہو اس میں ریاکاری فرائض میں ریاکاری کے کافی قریب پہنچ جاتی ہے-
اصل سوم اس فرق کو ظاہر کرنے کے سلسلے میں ہے جو ریاکار کے مختلف مقاصد میں پایا جاتا ہے- یہ تو ظاہر ہی ہے کہ ہر ریاکاری سے ریاکار کی کوئی نہ کوئی غرض وابستہ ہوتی ہے- سو ان اغراض کے تین درجے ہیں: پہلا درجہ یہ ہے کہ اسے جاہ کی طلب ہو جس سے فائدہ اٹھا کر وہ فسق و فجور تک آسانی سے پہنچ سکے مثلا کوئی شخص خود کو بڑا ایماندار‘ امانت دار اور پرہیز گار ظاہر کرے اور مشکوک مال کے نام ہی سے بھاگے اور اس کا مقصود یہ ہو کہ لوگ اس کے بھرے میں آ کر اسے اوقاف کا نگران مقرر کردیں یا اسے قاضی کا عہدہ سونپ دیں یا اُسے وصایا پر مامور کر دیں یا اپنی امانتیں اس کے پاس جمع کرانے لگیں یا یتیموں کے اموال اس کی تحویل میں دے دیں اور اسے جی بھر کے بددیانتی سے لوٹ کھسوٹ کا موقع مل جائے اور پھر وہ خوب مزے اڑایا کرے یا پھر یہ کہ صدقہ اور زکوۃ کا مال اس غرض سے اس کے سپرد کردیا جائے کہ مستحق لوگوں میں بانٹ دے یا سفر حج پر جانے والے درویشوں میں تقسیم کردے یا صوفیائ کی خانقاہوں پر اُٹھنے والے اخراجات میں صرف کردے یا کسی مسجد یا سرائے اور کسی اور عمارت کی تعمیر پر خرچ کر ڈالے اور اس بہانے سے خود گلچھرے اڑاتا پھرے اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ایسا شخص مال کی بجائے بدکاری کی حرص رکھتا ہے اور اپنی جیب سے خرچ برداشت کرکے کوئی مجلس منعقد کرا لیتا ہے اور اپنے آپ کو متقی اور پرہیزگار ظاہر کرتا ہے تاکہ لوگ سمجھیں کہ یہ تو خالص دینی قسم کی مجلس ہے اور مقصد اس سارے ڈھونگ سے یہ ہوتا ہے کہ اس کی نظر کسی عورت پر ہوتی ہے اور تمنا یہی ہوتی ہے کسی طرح مجلس کے بہانے اس عورت کو جی بھر کر گھورنے کا موقع مل جائے‘ کیا عجب کہ وہ بھی ملتفت ہو جائے اور پھر اس کے ساتھ منہ کالا کرنے کا موقع بھی میسر آ جائے یا اور کچھ نہیں تو مجلس میں بیٹھے بیٹھے عورتوں اور لونڈوں کو تاکنے جھانکنے کی حرص ہی پوری ہوتی رہے- پس اس قسم کے ناپاک اور فاسد مقاصد کی برآری کے لئے اللہ تعالی کی عبادت کو بطور وسیلہ و بہانہ استعمال کرتا ہے اور یہی وہ مکار ریاکار ہوتے ہیں کہ اگر کبھی مال غصب کرتے ہوئے پکڑے جائیں یا کسی عورت کے ساتھ ناجائزتعلقات میں گرفتار ہو جائیں تو وہ بچ نکلنے کے لئے طرح طرح کے مزید بہانے تلاش کر لیتے ہیں مثلا اپنی دیانت داری کا سکہ جمانے کے لئے بہت سا مال صدقہ و خیرات میں خرچ کرتے ہیں تاکہ یہ تہمت ازخود مضحکہ خیز دکھائی دینے لگے اور لوگ کہیں کہ جو شخص خود اتنا سخی اور دریا دل ہے اسے دوسروں کا مال غصب کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ بلکہ وہ دوسروں کے مال کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی کیونکر حلال تصور کرسکتا ہے؟ اجی چھوڑیئے لوگ تو خواہ مخواہ شریف آدمی کو بدنام کرنے کے درپے ہوگئے ہیں-
دوسرا درجہ اس میں یہ ہے کہ اس کی غرض کسی امر مباح سے متعلق ہو مثلا کوئی شخص واعظ بن بیٹھے اور مقصد پارسائی ظاہر کرنا ہویا لوگوں سے کچھ اینٹھنا ہو یعنی لوگ وعظ سنیں اور کچھ نہ کچھ اسے دے ہی دیں یا شاید اس طرح متاثر ہو کر کوئی عورت اس کے ساتھ نکاح پہ آمادہ ہو ہی جائے جو بصورت دیگر ممکن نہ ہو تو اس قسم کا ریاکار بھی عذاب الہی سے بچ نہیں سکتا البتہ اس پر وہ سختی نہ ہوگی جو پہلے والوں پر ہو کر رہے گی تاہم عذاب اس پر ضرور ہوگا کیونکہ عبادت الہی کو متاع دنیا کے حصول کا وسیلہ تو اس نے بھی بنایا ہی ہوتا ہے جبکہ عبادت حق تعالی کا مقصد تو ضرب حق حاصل کرنا ہوتا ہے نہ کہ حصول دنیا یا پھر عبادت کا مقصد آخرت کی سعادت حاصل کرنا ہوتا ہے- تو جس شخص نے عبادت کو حصول دنیا کا وسیلہ بنایا‘ اس سے بڑا بددیانت اور کون ہے؟
تیسرا درجہ یہ ہوتا ہے کہ اسے کسی چیز کی طلب ہی نہیں ہوتی اور نہ ہی خواہش ہوتی ہے لیکن پھر بھی اجتناب کرتا ہے اور مقصود یہ ہوتا ہے کہ لوگ اسے بھی اسی احترام و عزت کی نگاہوں سے دیکھیں کہ جن سے وہ زاہدوں اور صالحین کو دیکھا کرتے ہیں- اسے ریاکار کا یہ انداز ہوتا ہے کہ چلے گا تو یوں کہ بالکل آہستہ آہستہ قدم اٹھا کر‘ گردن ڈال کر اور بالکل مشائخ کی طرح دھیمے پن سے تاکہ چال ڈھال میں وہ بھی کسی شیخ مرشد سے کم دکھائی نہ دے اور لوگ یہ نہ کہیں کہ وہ اہل غفلت میں سے ہے بلکہ یہ کہیں کہ وہ اہل معرفت میں سے ہے اور یہ تصور کریں کہ سبحان اللہ ! یہ تو راہ چلتے بھی کار دین میں مشغول رہتا ہے یا ہنسی آئے تو اُسے ضبط کر جائے تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ اسے ہزل و تمسخر پسند ہے بلکہ یہ کہے کہ لغویات و خرافات سے اسے نفرت ہے جیسے کہ بزرگان دین کو ہوا کرتی ہے- گاہے بگاہے سرد آہیں بھرنے لگتا ہے اور توبہ استغفار کرتے ہوئے یوں گویا ہوتا ہے – سبحان اللہ ! آدمی بے چارہ کس غفلت و جہالت میں گرفتار ہے‘ تمام حقیقت سامنے جلوہ گر ہے مگر غفلت کا یہ عالم ہے کہ ادھر نگاہ ہی نہیں جاتی- آہ! صد آہ ! بہرحال وہ لاکھ سوانگ رچالے لیکن اللہ تعالی سے تو اس کے دل کی کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں ہوتی اور اسے تو معلوم ہے کہ یہ سب لوگوں کو دکھلانے کی باتیں ہیں ورنہ اگر وہ اکیلا ہو تو ان میں سے کچھ بھی دیکھنے میں نہ آئے‘ نہ یہ توبہ استغفار کے نعرے بلند ہوں اور نہ افسوس سے آہیں بھری جائیں-
ان مکاروں کا ایک نرالہ انداز یہ بھی ہوتا ہے کہ مثلا ان کے سامنے کسی کی غیبت کی جائے تو کہتے ہیں ! ارے بھائی چھوڑو! اس غیبت سے بدرجہا اہم تر کام اور بھی تو ہیں‘ دوسروں کی غیبت کی بجائے اپنے ہی اعمال پر کیوں نہ غور کریں؟ اور اس سے مقصود یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ انہیں غیبت سے اس قدر نفرت اور دشمنی ہے کہ اس کا نام سننا بھی گوارا نہیں کرتے-
اسی طرح اس قسم کے ریاکار کی یہ عادت بھی ہوتی ہے کہ اگر کسی جگہ دیکھے کہ لوگ نماز تراویح پڑھ رہے ہیں یا نماز تہجد میں مشغول ہیں یا پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے ہیں اور اگر وہ ان امور پرکاربند نہ ہوگا تو لوگ اسے کاہل اور غافل تصور کریں گے تو وہ محض اس خوف سے ان کی موافقت اختیار کر لیتا ہے کہ لوگ برا نہ مانیں اور اسے برا نہ سمجھنے لگیں-کبھی یوں بھی کرتا ہے کہ عرفہ اور عاشورہ کا روزہ رکھا تو ہوتا نہیں لیکن پیاس لگی بھی ہو تو پانی نہیں پیتا تاکہ لوگ اسے روزہ دار خیال کریں یا اگر کوئی اسے روٹی کی صلح کرے تو کہتا ہے کہ معاف کرنا میں روزے سے ہوں اور اس طرح یہ ریاکار دو پلیدیوں کو اپنے حق میں اپنے ہی ہاتھوں جمع کر لیتا ہے‘ یعنی ایک تو منافقت کہ روز دار نہیں لیکن کہتا ہے کہ روزہ دار ہوں اور دوسرے یہ کہ گویا اسے جتانا تک بھی گوارا نہیں کہ وہ ایسا پارسا ہے یعنی یہ ظاہر کرنا کہ میں تو دراصل بتانا بھی نہ چاہتا تھا کہ روزے سے ہوں کیونکہ میری عادت تو پوشیدہ عبادت کرنے کی ہے‘ اسی لئے اکثر یوں کہہ دیا کرتا ہوں کہ کھانے سے معذور ہوں تاکہ برملا نہ کہنا پڑے کہ میں روزہ دار ہوں لیکن کیا کروں ا سے کہہ دینا ہی پڑااور اس تمام تقریر سے اس کا مقصد اپنے آپ کو مخلص پرہیزگارثابت کرنا ہوتا ہے حالانکہ بعض اوقات یوں بھی ہو جاتا ہے کہ پیاس برداشت نہیں ہوسکتی تو کہہ دیتا ہیکہ کل میری طبیعت سخت علیل تھی اس لئے آج بدقسمتی سے روزہ بھی نہ رکھ سکا یا یوں کہہ دے گا کہ فلاں آدمی نے آج مجھے روزہ رکھنے ہی نہ دیا‘ کبھی کہتا ہے کہ بھئی دن کو روزہ رکھنے سے رات کو نیند بہت آتی ہے اور ہمارا تو آج رات بھر عبادت کرنے کا ارادہ ہے اس لئے آج تو روزہ چھوڑ ہی دیا- غرض یہ اور اسی قسم کی دیگر شیطانی باتیں اس کی زبان پر جاری رہتی ہیں اس لئے کہ ریاکاری کی پلیدی سے اس کا باطن غلیظ ہو رہا ہوتا ہے اور اس جاہل کو یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ وہ اپنی جڑ اپنے ہی ہاتھوں اکھیڑ رہا ہے اور اپنی عبادت کا ستیاناس کر رہا ہے- اس قسم کی ریاکاری کو پہچاننا چنداں دشوار نہیں ہوتا بلکہ بہت آسان ہوتا ہے کیونکہ وہ چیونٹی کی آواز سے بھی زیادہ پوشیدہ ہوتی ہیں یعنی جس طرح چیونٹی کے پائوں کی آہٹ سنی نہیں جاسکتی حالانکہ وہ چل رہی ہوتی ہے- اسی طرح بعض ریاکاروں کا انداز ایسا پیچیدہ اور پراسرار ہوتا ہے کہ ان کا پتہ چلانا محال ہوتا ہے اور ان کا دریافت کرنا بڑے بڑے دانائووں اور عالموں کے لئے بھی مشکل ہوتا ہے تو پھر سیدھے سادے اور سادہ لوح بلکہ احمق عابدوں پر ان کی حقیقت کیسے کھل سکتی ہے-
نہایت پوشیدہ ریاکاری
اس بات کو غور سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ریا بعض صورتوں میں ظاہر سی بات ہوتی ہے یعنی دیکھنے والے آسانی سے سمجھ جاتے ہیں کہ فلاں آدمی کا یہ اقدام یا عمل ریاکاری پر مبنی ہے- مثلا کوئی شخص لوگوں کے سامنے ہو تو رات کی نماز پڑھ لے لیکن اکیلا ہو تو نہ پڑھے- اس قسم کی ریاکاری بہت جلد ظاہر ہو جاتی ہے اس سے پوشیدہ تر ریاکاری کا نمونہ وہ شخص پیش کرتا ہے جو مثلا ہر روز نماز شب ادا کرنے کا عادی ہے لیکن دوسرے اگر اسے دیکھ رہے ہوں تو اس کی خوشی معمول سے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور نماز کی ادائیگی اس کے لئے اور بھی زیادہ آسان ہو جاتی ہے- یہ ریا بھی کافی حد تک ظاہر ہوتا ہے کہ اکیلے میں خوش نہ ہونا اور لوگوں کی موجودگی میں خوش ہونا اس کی دلیل بن جاتا ہے اور اسے بھی چیونٹی کی چال سے نسبت نہیں دے سکتے کیونکہ دماغ پر ذرا سا زور دینے سے اس کا پتہ بھی چل جاتا ہے- اس سے بھی پوشیدہ ریاکار وہ ہوتا ہے کہ نہ تو خوش خوش دکھائی دیتا ہے اور نہ آسانی و سہولت ہی سے کام لیتا ہے-ہر رات نماز بھی یوں ادا کرتا ہے گویا اس کا معمول ہی یہی ہے- غرض بظاہر کوئی علامت‘ کوئی نشانی اور کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہونے دیتا لیکن اس کے باطن میں ایسے ہی رہتا ہے جس طرح کہ لوہے کے اندر آگ پوشیدہ ہوتی ہے اور اس کا اثر تب ظاہر ہوتا ہے جب اسے لوگوں کے ردعمل سے یقین ہو جاتا ہے کہ وہ اسے ان صفات کا حامل تصور کرتے ہیں‘ پھر اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں ہوتا اور وہ دل ہی دل میں پھولا نہیں سماتا اور اس کی یہ خوشی ہی اس چیز کی علامت ہوتی ہے کہ ریاکاری اس کے دل کے اندر موجود ہے جسے اس نے پوشیدہ رکھا ہوا ہے اور ظاہر نہیں ہونے دیتا اور اگر اس خوشی کا انکار و کراہت سے مقابلہ نہ کیا جائے تو خطرہ اس بات کا ہوگا کہ یہ رگ پوشیدہ کہیں از خود حرکت میں نہ آ جائے اور مخفی طور پر تقاضا کرنے لگے کہ کوئی ایسا سبب اور بہانہ ہاتھ آ جائے کہ لوگ اس سے آگاہ ہو جائیں- اس اضطراری کیفیت میں اگر صریحا نہ کہے تو اشارہ و کنایہ سے کام لیتا ہے اور یوں بھی نہ کرے تو صورت و شمائل سے ہی یہ چیز ظاہر ہونے لگتی ہے اور اپنے آپ کو کچھ اس طرح خستہ و شکستہ حال دکھاتا ہے کہ لوگ سمجھیں کہ ہو نہ ہو یہ شب بیداری کا اثر ہے اور کبھی یہ پوشیدگی اس سے بھی زیادہ گہرائی میں ہوتی ہے اور وہ یوں کہ خوشی کا اظہار اس وقت بھی نہیں ہونے دیتا جب لوگوں کو اس کے عابد و زاہد ہونے کا یقین ہو جاتا ہے اور نشاط و مسرت میں بھی کوئی اضافہ واقع نہیں ہوتا حالانکہ باطن ریا سے خالی نہیں ہوتا اور اس کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ مثلا اگر کوئی شخص اس کے پاس آئے اور سلام کرنے میں پہل نہ کرے تو وہ دل ہی دل میں متعجب ہوتا ہے کہ ہیں! یہ کیا بات ہوئی؟ مثلا کسی کو دیکھے کہ وہ اس کے حسب دلخواہ عزت و احترام نہیں کرتا یا اگر کوئی شخص خوشی خوشی اس کی خدمت نہ کرے یا خریدوفروخت میں اس کی خواہ مخواہ رعایت یا خوشامد نہ کرے یا اسے بیٹھنے کے لئے اچھی نشست پیش نہ کرے تو اسے حیرت ہوتی ہے اور اس حیرت میں ایک طرح کا رنج مضمر ہوتا ہے تب اس کی گہرائیوں میں چھپی ہوئی ریاکاری اسے ملامت کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اگر تو چھپ چھپ کر عبادت نہ کرتا تو آج اس حیرت و تعجب سے دوچار تو نہ ہوتا- گویا اس کا نفس ان پوشیدہ عبادات کو اس لئے نہیں کرتا کہ عبادت حق تعالی کے لئے ہوتی ہے بلکہ اس لئے کرتا ہے لوگ اس کا احترام کیا کریں اور اسے سر آنکھوں پر بٹھائیں حالانکہ عبادت کا حق جبھی ادا ہوتا ہے کہ اس کا ہونا نہ ہونا اس کے نزدیک برابر ہو اور اگر یہ نہ ہو تو اس کا باطن ریائے خفی سے خالی قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ وہ اگر ہزار روپیہ کسی شخص کو ایک ایسی چیز کے عوض میں پیش کرے جس کی قیمت ایک لاکھ روپیہ ہو تو یہ کون سا احسان ہے جو وہ اس شخص پر کر رہا ہے اور کیوں اس سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ اس کی ناجائز و غیر معقول پیشکش کو قبول کرلے؟ لوگوں کے نزدیک اس کا کرنا نہ کرنا برابر ہے- پس اگر عبادت سے مقصود سعادت اصلی حاصل کرنا ہے تو اس کے عوض لوگوں سے یہ توقع کیوں باندھی جائے کہ وہ اس کا غیر معمولی احترام کیا کریں؟ اور اگر یہ توقع دل میں موجود ہے تو یہی وہ ریائے خفی ہے جو چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ خفی ہے اور حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن ریاکار قاریوں سے پوچھا جائے گا کہ کیا دنیا میں لوگوں نے تمہیں سودا سلف سستے داموں نہیں دیا؟ کیا تمہارے درجات کا انہوں نے پورا پورا خیال نہیں رکھا؟ کیا وہ ہمیشہ تمہیں پہلے سلام نہ کیا کرتے تھے؟ تو اب ہم سے کیا مانگتے ہو؟ تمہارے اعمال کی جزائ یہی تھی جو تم وصول کر چکے ہو یہاں تو خالص اعمال کی قدر ہے سو تم نے اپنے اعمال کو خالص رہنے ہی کب دیا تھا-
یہی وجہ ہے کہ اہل خلوص کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ اپنی عبادت کو بھی اسی طرح پوشیدہ رکھا جائے جیسے کہ اپنے گناہوں‘ اپنی خطاہوں اور اپنی فحش حرکات کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے کیونکہ وہ اس حقیقت سے آگاہ ہوتے ہیں کہ قیامت کے دن قابل قبول عبادت صرف وہی ہوگی جو خالص ہوگی اور خلوص اور اخلاص پر مبنی ہوگی اور جو شخص آج اپنے اعمال کو خالص نہیں بناتا اسے کل قیامت کے دن خستہ و خراب ہونا پڑے گا اور جو کچھ ناخالص اعمال اس نے کئے ہوں گے وہ ضائع و رائیگاں جائیں گے-پس جب تک اس فرق کا احساس موجود ہے کہ میری عبادت کو دیکھنے والے چوپائے ہیں یا انسان ہیں اس وقت تک ریا سے چھٹکارے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ریا کاری چاہے تھوڑی سی ہو اور پوشیدہ ہی کیوں نہ ہو وہ بہرحال ریاکاری ہے اور شرک ہے اور اللہ تعالی کی عبادت میں دوسرے کو شریک کرنے کے مترادف ہے یہ اللہ تعالی کے علم پر کفایت نہ کرنے کا نتیجہ ہی تو تھا کہ علم غیر اس کی عبادت کو متاثر کرکے رہا-
یاد رہے کہ ج شخص اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ لوگ اس کے عبادت گزار ہونے سے باخبر ہیں تو اس کا دل یقینا ریا سے خالی نہیں- البتہ یہ بھی نہیں کہ آدمی کو اس کی خوشی بالکل ہونی ہی نہیں چاہیے کیونکہ ایک خوشی وہ بھی ہے جسے حق بجانب اور جائز بھی کہا جاسکتا ہے اور اس کی چار صورتیں ہوسکتی ہیں-
اول تو اس بات پر خوش ہو کہ شکر ہے میں نے تو اپنی عبادات کو پوشیدہ ہی رکھنے کا ارادہ کر رکھا تھا لیکن اللہ تعالی نے میری خواہش کے بغیر ہی اسے ظاہر کر ڈالا اور ظاہر بھی کیا تو صرف میری نیکی و عبادت کو ورنہ میرے گناہ اور خطائیں بھی تو کم نہ تھیں لیکن انہیں پوشیدہ ہی رکھا اور مجھے رسوا نہ ہونے دیا- گویا میرے حال پر خاص لطف و کرم ہے کہ میری برائیاں تو پردے میں رکھی جا رہی ہیں اور نیکیوں کو ظاہر ہونے کا موقع عطا فرمایا جا رہا ہے تو یہ خوشی کی بات تو ہے ہی لیکن یہ خوشی ہونی اس بات کی چاہیے کہ اللہ تعالی نے مجھ پر خاص فضل و کرم کیا ہے‘ نہ اس بات کی کہ لوگ میری تعریف کر رہے ہیں-چنانچہ اس ضمن میں ارشادباری تعالی بالکل واضح ہے کہ قل بفضل اللہ و برحمتہ فبذلک فلیفرحوا- ﴿پ۱۱-۸۵﴾
ترجمہ: آپ ان سے فرما دیجئے کہ پس لوگوں کو اللہ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہیے-
دوسرے اس بات پر خوش ہو کہ جس نے میرے عیبوں کی اس دنیا میں پردہ پوشی کی ہے‘ وہ آخر میںبھی میرے گناہوں پر ضرور پردہ ڈالے گا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالی کا کرم صرف اسی دنیا تک محدود نہیں کہ صرف یہاں ہی کسی کے گناہوں کی پردہ پوشی کرکے اسے رسوائی سے بچائے کہ وہ چاہے تو اسے آخرت میں بھی ذلت و خواری سے بچا سکتا ہے-
تیسرے اس بات پر خوش ہو اور اس حقیقت سے آگاہی اس کے لئے باعث مسرت ہو کہ لوگ جب اسے دیکھیں گے تو اس کی پیروی کریں گے اور ان کو بھی سعادت نصیب ہوسکے گا اور اس کا ثواب بھی نہ صرف اسی کو بلکہ دوسروں کو ملے گا حالانہ اس کا ارادہ پوشیدہ رکھنے کا تھا لیکن اللہ تعالی نے اسے ظاہر کرکے نہ صرف سراہا بلکہ دوسروں کو بھی راہ راست پر چلنا نصیب ہوا-
چوتھے اس بات پر خوش ہو کہ جو شخص اسے دیکھے گا اس کی تعریف کرے گا اور اس کا معتقد ہو جائے گا اور اس کی تعریف اور اعتقاد اسے اور بھی زیادہ اطاعت حق پر مستعد ہونے کا جذبہ مہیا کرے گا اور تعریف کرنے والا خود بھی اطاعت گزاری کی طرف راغب ہوگا-یہاں بھی خوشی اس بات کی ہونی چاہیے کہ اسے اطاعت گزاری کا موقع ملا‘ نہ اس بتا کی کہ اسے لوگوں کی نظر میں جاہ و عزت حاصل ہوئی اور اس صفت کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ اسے اگر کسی دوسرے کے عبادت گزار ہو جانے کی اطلاع ملے تو حسد سے اس کا منہ لٹک نہ جائے بلکہ دل سے خوش ہو کہ شکر ہے ایک اور بندہ خدا کو اس کی وجہ سے راہ سعادت پر گامزن ہونا نصیب ہوا-
وہ ریا کہ جس سے اعمال باطل ہو جاتے ہیں
یاد رہے کہ ریا کا خطرہ عبادت کے شروع میں ہوتا ہے یا عبادت کے دوران یا عبادت کے بعد – اگر عبادت شروع کرنے سے پہیل ہی دل میں ریا موجود ہو تو عبادت باطل ہوگی کیونکہ عبادت کی بنیادی شرط ہی یہ ہے کہ نیت میں اخلاص ہو اور جب ابتدا ہی میں ریا موجود ہو تو اخلاص کہاں باقی رہا-
اگر ریاکار وجود اصل عبادت میں نہ ہو مثلا یہ کہ نماز کے لئے اول وقت میں جلدی کرے اور سبب اس کا ریا ہو حالانکہ اگر اکیلا ہوتا تو اول وقت میں نماز ادا نہ کرتا تو اول وقت کا ثواب باطل ہو جائے گا جب کہ چاہیے تو یہ کہ اول وقت کا ثواب بھی زائل نہ ہو- اسی طرح اگر کوئی شخص کسی ایسے مکان میں نماز ادا کرتا ہے جو اس نے ناجائز طور پر اپنے قبضے میں کر رکھا ہے تو فریضہ نماز کی ادائیگی میں شک نہ ہونے کے باوجود گنہگار ٹھہرے گا اگرچہ یہ گناہ نفس نماز سے متعلق نہ سہی اور نماز بھی ریا پر مبنی نہ سہی لیکن مقام کے لحاظ تو وہ حالت گناہ میں متصور ہوگا کیونکہ اس نے کسی دوسرے شخص کے مکان کو غصب کیا ہوا ہے جو نیت کی بددیانتی کا ثبوت ہے-
اور اگر نماز اخلاص کے ساتھ ادا کر چکنے کے بعد دل میں ریا کا گزر ہو اور اس کا اظہار بھی کردے تو اداشدہ نماز باطل نہ ہوگی البتہ اس ریا کے باعث عذاب و سزا سے محفوظ نہ رہے گا- چنانچہ روایت میں آیا ہے کہ کسی شخص نے کہا کہ کل میں نے سورئہ بقر کی تلاوت کی تو اس کی یہ بات سن کر ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ بس اس شخص کا مقصود عبادت یہی کچھ تھا جو اس نے ظاہر کردیا-
ایک شخص نے حضورﷺ سے عرض کی کہ میں ہمیشہ روزے سے رہتا ہوں تو حضورﷺ نے فرمایا تجھے روزہ دار کہہ سکتے ہیں اور نہ بے روزہ-
دوران عبادت پیدا ہونے والے ریا کے سلسلے میں جاننے کی بات یہ ہے کہ اگر اصل نیت کار یا اگر عبادت پر غالب آ جائے تو نماز ازخود باطل ہو جائے گی‘ مثلا کوئی کھیل تماشا ہو رہا ہو اور کوئی شحص محو نماز ہو اور اس کا دل اسے دیکھنے کے لئے بے تاب ہو رہا ہو لیکن لوگوں کی موجودگی کا لحاظ اور شرم رکھتے ہوئے وہ ادھر نہ دیکھے اور نماز مکمل کر ہی ڈالے حالانکہ اگر اکیلا ہوتا تو نماز چھوڑ کر ہی اسے دیکھتا تو یہ نماز ادا ہونے کے باوجود باطل ہوگی-
اسی طرح اگر دوران نماز کسی گمشدہ چیز کا خیال آ جائے تو اگر وہ اکیلا ہوتا تو نماز چھوڑ کر ضرور اسے تلاش کرنے لگتا لین اب لوگوں کی شرم کے مارے مجبور ہے کہ نماز کو مکمل کر لے تو نماز کی یہ تکمیل بھی باطل ہے اور یہ نماز نماز نہیں کہلا سکتی کیونکہ اس صورت میں نماز کی نیت ہی کہاں باقی رہی؟ اور یہ کھڑے رہنا تو محض لوگوں کی خاطر ہے نہ کہ حق تعالی کی خاطر لیکن اگر نیت برقرار رہے اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ پا کر ایک راحت سی محسوس ہو لیکن نماز اچھی طرح ادا کر لے تو یہ نماز درست ہوگی اور اسے باطل نہ کہا جائے گا اگرچہ ریا کی موجودگی اسے ایک حد تک گنہگار ضرور کردے گی لیکن اگر وہ کسی کو دوران نماز اپنی طرف متوجہ پا کر اس پہ خوش ہو تو اگر وہ اس خوشی میں عمل میں زیادتی شروع کردے تو نماز باطل ہو جائے گی لیکن اگر وہ عمل میں زیادتی نہ کرے اور نیت بھی اپنی جگہ برقرار رہے اور اس کا عمل اس کی نیت کے تابع رہے تو اس کی نماز باطل نہ ہوگی-
مرض ریا سے بیمار شدہ دل کا علاج
یاد رکھئے کہ ریا بے حد خطرنا ک بیماری ہے اور اس کا علاج فرائض دین میں سے ہے اس کے لئے معمولی کوشش کارگر ثابت نہیں ہوسکتی بلکہ بڑی زبردست جدوجہد کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ایسی ظالم اور پیچیدہ بیماری ہے کہ دل کی جملہ بیماریوں میں رچی بسی رہتی ہے اور کچھ اس طرح راسخ ہوچکی ہوتی ہے کہ اس کا دفعیہ بے حد دشوار ہوتا ہے اور اس شدت و دشواری کا سبب یہ ہوتا ہے کہ آدمی بچپن ہی سے اپنے گردوپیش کے تمام لوگوں کو ایسے ہی کرتا ہوا پاتا ہے‘ ان کا ایک دوسرے سے ریاکارانہ میل جول اس کے روزانہ کے مشاہدے کی چیز ہوتی ہے وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ کس طرح سب لوگ اپنے آپ کو ایک دوسرے کے روبرو آراستہ و پیراستہ انداز میں پیش کرنے کے متمنی ہوتے ہیں اور یہ مشغلہ انہیں اتنا محبوب ہوتا ہے کہ اسے مسلسل جاری رکھے رہتے ہیں- بچہ اس عادت کو بار بار دیکھ کر خود اسی کو قبول کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ یہ چیز روز بروز اس میں زیادہ سے زیادہ سرایت کرتی جاتی ہے حتی کہ عقل کی پختگی کا زمانہ آ جاتا ہے اور وہ اپنے تجزیاتی شعور کی بنائ پر محسوس کرنے لگتا ہے کہ یہ بات سراسر زیان ہے اور اگر اس نے وجود کے اندر غلبہ پالیا تو اس سے چھٹکارہ پانا مشکل ہو جائے گا-
ریا کی بیماری سے چوکہ اب کوئی شخص بھی محفوظ نہیں ہے اس لئے ہر کسی پر فرض عین ہے کہ وہ اس سے صحت یابی کے لئے پوری پوری کوشش اور مجاہدہ کرے-
اس کے علاج کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کی طبیعت اس بات کی سنجیدگی سے طالب ہو کہ کیوں نہ ریا کے مادے کو جڑ ہی سے اکھیڑ پھینکا جائے اور یہ علم و عمل سے ہی ممکن ہے-
علمی طور پر اس کا علاج یہ ہے کہ آدمی کو یہ علم حاصل ہو کہ اس کا ہر فعل حصول لذت کی غرض سے ہوتا ہے لیکن تمنائے لذت کے باوجود جب وہ جان لے کہ اس دنیا میں تو لذت بے شک مل ہی جائے گی لیکن آخرت میں اس سے پیدا ہونے والے نقصان کی تلافی اس کی طاقت سے باہر ہوگی اور اس کا عذاب اس قدر شدید ہوگا کہ اسے برداشت کرنا بھی اس کی طاقت سے باہر ہوگا تو وہ لذت کو ترک کرنے پر آسانی سے آمادہ ہو جائے گا اور اگر تصور لذت نے اسے بالکل اپنا غلام نہ بنا لیا ہو تو وہ یہ نہیں کہے گا کہ ’’دیکھا جائے گا‘‘ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص شہد کا بے حد شوقین ہے لیکن جب اسے شہد پیش کرتے ہوئے یہ بتا دیا جائے کہ اس میں زہر قاتل بھی ملا ہوا ہے تو وہ شوق لذت کے باوجود شہد کو ترک کردے گا-
ریا کی جڑ طلب و جاہ و حشم ہے تاہم یہ جڑ تین مزید جڑوں میں تقسیم ہو جاتی ہے یعنی:
- ثنائ اور تحسین وآفرین کی محبت
- خوف مذمت اور
- خلق سے طمع
یہی وجہ تھی کہ جب ایک اعرابی نے حضورﷺ سے پوچھا کہ جہاد کون سا بہتر ہے؟ وہ کہ جو ناموس دین کی خاطر کیا جائے یا وہ کہ جس سے لوگوں کو اپنی مردانگی کا قائل کروانا مقصود ہو اور جس میں یہ خواہش کارفرما ہو کہ لوگ اس کا ذکر ایک مجاہد کے طور پر کریں؟ تو حضورﷺ نے فرمایا کہ راہ خدا میں جہاد اس کا ہے جو کلمہ توحید کی سربلندی کے لئے جہاد کرتا ہے – یہ اشارہ اسی حقیقت کی طرف تھا کہ مجاہد کو نہ تو ذاتی شہرت و نیک نامی کی طلب ہو اور نہ ہی اسے لوگوں کی مذمت کا خوف ہو- اسی طرح ایک اور مقام پر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اس مقصد کے لئے جہاد کیا کہ اسے اپنے اونٹ کے لئے زانوبند مل جائے تو اس کے لئے اس زانوبند کے علاوہ اور کوئی اجر نہیں ہے کہ جس کی اس نے نیت کی تھی- یعنی اس نے جہاد کی قیمت کا فیصلہ تو خود ہی کرلیا تھا کہ اسے زانوبند مل جائے‘ خدا تعالی پر تو اس نے فیصلہ چھوڑا ہی نہیں تھا چنانچہ جو اجر اس کا مقصود تھا وہ تو زانوبند کی صورت میں اسے مل گیا پھر اللہ سے کیا چاہتا ہے؟
سو جب یہی تین چیزیں ریاکار سبب ہیں تو انہی کا علاج لازم ٹھہرا‘ لہذا :
1. مدح و ثنائ کی آرزو اور حسرت سے یوں نجات حاصل کرے کہ اس کا خیال ہی ترک کردے یعنی یہ حقیقت اسے معلوم ہونی چاہیے کہ قیامت کے دن سب کے سامنے اعلانیہ اسے یوں مخاطب کیا جائے گا کہ ’’او ریا کار! او فاجر! او گمراہ ! تجھے شرم نہ آئی کہ تو نے لوگوں کی چکنی چپڑی باتوں کے شوق میں حق تعالی کو فروحت کردیا؟ تجھے لوگوں کے دلوں کا تو خیال تھا کہ تیرے معتقد رہیں لکن حق تعالی کی رضا جوئی کی تو نے کوئی وقعت ہی نہ جانی؟ لوگوں کا قرب حاصل کرنا تجھے بہت عزیز تھا لیکن حق تعالی سے بعد و دوری کا تجھے احساس تک نہ ہوا؟ مقبول خلق ہونا تیرے نزدیک مقبول بارگاہ الہی ہونے سے زیادہ قابل ترجیح تھا؟ لوگوں سے اپنی تعریف سننے کی حرص میں تو نے حق تعالی کی مذمت بھی قبول کرلی؟ تو یاد رکھ کہ حق تعالی کے نزدیک بھی تجھ سے بڑھ کر ذلیل اور رسوا شحص اور کوئی نہیں ہوسکتا‘ تو نے رضا چاہی بھی تو خلق کی اور اسکے قہر و غضب کا خوف نہ کیا جو سب کا خالق ہے‘ تیرا بھی اور تیرے مداحوں کا بھی-
علمی علاج کا جویا عقلمند انسان جب ان فضیحتوں اور ذلت و خواری پر غور کرتا ہے تو یہ بات فوری اس کی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ لوگوں کی چند روزہ مدح و ستائش اس ذلت و خواری کے مقابلے میں کوئی وقعت نہیں رکھتی اور یہ چیز بھی اس کے ذہن نشین ہوتی ہے کہ عبادت کرنے سے اس کا مقصد نیکیوں کے پلڑے کو بھاری کرنا ہے اور اگر ریاکاری نے اس عبادت کا ہی ستیاناس کردیا تو نیکیوں کا پلڑا کہاں بھاری رہے گا؟ اور اگر ریا سے پاک رہے گا تو انبیائ اور اولیائ کی رفاقت کا فخر حاصل ہوگا اور نہ ریاکاری تو اسے دوزخ کے فرشتوں کے ہاتھوں گرفتار کرا دے گی اور بدبختوں کا ساتھی بننا پڑے گا‘ پھر ریا کاری کس لئے؟ فقط اس لئے ناں کہ لوگوں کی رضا حاصل ہو جائے؟ لیکن لوگوں کی رضا بھی کیسے حاصل ہوسکتی ہے؟ ایک راضی تو دوسرا ناراض‘ ایک تعریف کرتا ہے تو دوسرا مذمت کرتا ہے- چلئے فرض کر لیجئے کہ سبھی لوگ راضی ہو جاتے ہیں؟ ہر کوئی تعریف کرنے لگتا ہے تو کیا ہوگا؟ نہ تو اس کی روزی ان کے ہاتھ میں ہے کہ بڑھا دیں گے‘ نہ اس کی عمر پر انہیں کوئی اختیار حاصل ہے اور نہ ہی دنیوی و اُخروی سعادتیں ان کے قبضے میں ہیں‘ تو پھر اس سے بڑی جہالت اور کیاہ وگی کہ ان وقتی و عارضی چیزوں کی خاطر دل کو انتشار و پریشانی میں مبتلا کیا جائے اور اس گھٹیا اور فانی غرض کے لئے آخرت کا عذاب مول لیا جائے- پس اس قسم کی مختلف باتوں کو دل میں تازہ رکھا جائے اور کبھی ان سے دل کو غافل نہ ہونے دیا جائے-
2. طمع و حرص کا علاج جس مرکب سے کیا جاتا ہے اس کے اجزائے ترکیبی یہ ہیں:
1. صبر کی تلخی
2. علم کی مٹھاس اور
3. عمل کی سختی-
یہ وہ مرکب ہے کہ جس سے ایک طمع ہی کیا دل کی ہر بیماری کا علاج کیا جا سکتا ہے- اس علاج میں پانچ چیزیں مدنظر رہنی چاہئیں- یہاں پہلی چیز عمل ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی اخراجات کو گھٹا کر کم سے کم حد ت لے آئے یعنی موٹے جھوٹے کپڑوں اور روکھی سوکھی روٹی پر قناعت کر لے اور سالن کبھی کبھار استعمال کرے کیونکہ اس طرح کا روٹی کپڑا لالچ اور حرص کے بغیر بھی میسر آ سکتا ہے لیکن اگر شان و تجمل میں پڑ جائے اور بے جا اخراجات سے کام لے گا تو صبر کرنا دشوار ہو جائے گا-
حضورﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ جو شخص خرچ میں اعتدال سے کام لیتا ہے‘ وہ کبھی کسی کا محتاج نہیں ہونے پاتا-
نیز آپﷺ نے فرمایا کہ آدمی کی نجات تین چیزوں میں ہے اول یہ ہے کہ ظاہر و باطن میں ہمیشہ اللہ تعالی کو یاد رکھے اور اس سے ڈرتا رہے‘ دوسرے یہ کہ فراخی ہو یا تنگی خرچ میں ہمیشہ میانہ روی اختیار کرے اور تیسرے یہ کہ خوشی ہو یا غم ہر صورت میں انصاف کو ہاتھ سے نہ چھوڑے-
حضورﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ جو شخص خرچ میں میانہ روی اختیار کرتا ہے‘ اللہ تعالی اسے دنیا سے بے نیاز رکھتا ہے اور جو شخص اندھا دھند خرچ کرتا ہے‘ وہ دوسروں کا محتاج ہو جاتا ہے اور جو کوئی خدا کو یاد کرتا ہے‘ خدا بھی اسے یاد رکھتا ہے‘ خرچ کرتے وقت تدبیر و آہستگی سے کام لیا کرو کہ یہ اقدام بجائے خود آدھی روزی کی حیثیت رکھتا ہے-
دوسری چیزیہ ہے کہ جب ایک دن ے لئے مال بقدر کفایت میسر آ جائے تو اگلے روز کے لئے تشویش میں پڑنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ شیطان ہی ہوتا ہے جو مستقبل کے لئے پریشان رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور آدمی کو مشورہ دیتا ہے کہ اگر زندگی طویل ہوئی تو پھر کیا کرو گے؟ اور کل کو کچھ نہ ملا تو کھائو گے کہاں سے؟ پس کل کے لئے آج ہی کوشش کر لو اور جو کچھ ممکن ہو حاصل کرل و اور جب تک ایسا نہ ہولے آرام سے مت بیٹھو اور جہاں سے اور جیسے بھی ملے اکٹھا کر لو-اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ شیطان تجھے کل کی مفلسی کا خوف دلا کر آج پریشانی میں مبتلا رکھنا چاہتا ہے اور جب تو اس کے بھرے میں آ جاتا ہے تو وہ دل میں ہنستا ہے کہ اس شخص کی حماقت تو دیکھو کہ پتہ نہیں اسے کل کا دن نصیب بھی ہوتا ہے کہ نہیں لیکن یہ اس کے لئے گھائل ہوا جاتا ہے اور اگر کل کا دن دیکھنا اسے نصیب بھی ہو جائے تو اس کی تکلیف سے زیادہ تو نہیں ہوسکتی تھی جس میں آج اس نے خود کو گرفتار کر رکھا ہے- اس مفت کی مصیبت سے نجات اسی صورت میں ممکن ہے کہ آدمی اس حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کر لے کہ روزی کا میسر آنا حرص و طمع پر منحصر نہیں ہے بلکہ وہ تو پہلے سے مقدر ہوچکی ہے جو لازما اسے مل کر رہے گی-
رسول اللہ ﷺ نے ابن مسعود (رض) کو مغموم و اداس پا کر فرمایا کہ دل پر اس قدر بوجھ کیوں ڈالتے ہو؟ تمہارے لئے جو کچھ مقدر ہوچکا ہے‘ وہ تمہیں بہرحال مل جائے گا اور جو روزی تمہاری تقدیر میں لکھ دی گئی ہے وہ تمہیں پہنچ کر رہے گی-
انسان کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ لوگوں کو روزی اکثر و بیشترایسی جگہ سے مل جایا کرتی ہے جس کا تصور بھی ان کے ذہن میں نہیں ہوتا- فرمان حق تعالی ہے کہ پرہیز گاروں کو روزی وہاں سے پہنچائی جاتی ہے جہاں کا انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا-
حضرت ابو سفیان(رض) کا قول ہے کہ پرہیزگاری اختیار کرو کہ آج تک کسی پرہیزگار کو بھوکا مرتے نہیں دیکھا گیا کیونکہ اللہ تعالی لوگوں کو اس کے حق میں اس قدر مشفق اور غمگسار بنا دیتا ہے کہ وہ نہ بھی مانگے تو اس کی ضرورت کا سامان اس تک پہنچا دیتے ہیں-
حضرت ابو حاذم (رح) فرماتے ہیں کہ یہاں جو کچھ ہے وہ دو طرح سے ہے‘ ایک تو یہ کہ جو میری روزی ہے وہ جلد یا بدیر مجھے اور صرف مجھے ہی ملے گی اور دوسرے یہ کہ جو روزی کسی اور کے لئے مقدر ہے‘ وہ اسی کو ملے گی اور مجھے نہیں مل سکتی خواہ تمام اہل آسمان اور تمام اہل زمین مل کر بھی اس کی کوشش کریں‘ پھر اس کے لئے بے قراریاں اور اس کی تلاش میں سرگردانی میرے کس کام آسکتی ہے؟-
3. اس بات کو جانے اور پہچانے کہ اگر طمع نہ کرے گا اور صبر کرے گا تو اسے تکلیف بے شک ہوگی لیکن ذلیل و رسوا نہ ہوگا لیکن اگر طمع کرے گا اور صبر نہ کرے گا تو رنج اٹھانے کے علاوہ ذلیل و خوار بھی ہوگا اور لوگوں کی ملامت کا نشانہ بھی بنے گا اور عذاب آخرت کا سزاوار بھی ہوگا جبکہ صبر کی بدولت ثواب و اجرکا مستحق بھی ٹھہرے گا اور لوگ بھی اسے تحسین کی نظر سے دیکھیں گے-
حضورﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ مسلمان کی شان ہی یہ یہ کہ وہ لوگوں سے بے نیاز ہو-
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ کسی شخص کے سامنے تیری محتاجی اس شخص کی غلامی قبول کرنے کے مترادف ہے اور جو شخص تیرا محتاج ہے تو اس کا حکمران ہے اور جس سے تو بے نیاز ہے اس کا تو ہم نظیر و ہم مثل ہے-
4. اس بات پر غور کرے کہ اس کی یہ حرص اور طمع آخر ہے کس لئے؟ اگر کھانے پینے کی خاطر ہے تو بیل گدھے وغیرہ اس سے کہیں زیادہ پیٹ بھر کر کھانے کے عادی ہوتے ہیں اور اگر شان و شوکت و خوش پوشی مطلوب ہے تو کتنے ہی غیرمسلم اس ضمن میں اس سے آگے نکلے ہوئے نظر آئیں گے‘ ہاں اگر طمع سے ہاتھ اٹھا لے اور تھوڑے پر صبر کرنا سیکھ لے تو اسے اپنی مثال صرف انبیائ اور اولیائ ہی میں نظر آ سکتی ہے اور ظاہر ہے کہ ان عظیم شخصیتوں کی مانند ہونے اور ان ذلیل چیزوں کے مانند ہونے میں زمین و آسمان کا فرق ہے-
5. یہ بھی سوچے کہ مال کتنی بڑی مصیبت اور کتنا بڑا جنجال ہے اور اس کی فراوانی جہاں دنیا میں تشویش و پریشانی کا موجبہوتی ہے وہاں آخرت میں بھی پیچھا نہیں چھوڑتی کیونکہ درویشوں کے پانچ سو سال بعد کہیں جنت میں قدم دھرنا نصیب ہوگا پس آدمی کو چاہیے کہ ہمیشہ اپنے سے کم تر درجے کے لوگوں کو پیش نظر رکھے تاکہ طبیعت شکر ادا کرنے کی طرف مائل رہے- امیروں کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت نہیں ورنہ اللہ تعالی نے جو کچھ آدمی کو عطا کر رکھا ہوتا ہے اس کی کوئی وقعت اور قدروقیمت اس کی نگاہوں میں باقی نہیں رہتی اور یہ ناشکری اور کفران نعمت ہے-
حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ ہمیشہ ایسے لوگوں کو دیکھا کرو جو تم سے کم تر درجے کے ہوں- کیونکہ ابلیس ہمیشہ یہ کہہ کر اکساتا رہتا ہے کہ دیکھ! فلاں فلاں لوگ تجھ سے زیادہ دولت مند ہیں‘ قناعت کے لئے صرف تو ہی رہ گیا ہے اور جب انسان پرہیزگاری کی طرف رجوع کرتا ہے تو شیطان اسے یوں بہکاتا ہے کہ ذرافلاں فلاں کو تو دیکھو‘ وہ تو پرہیز نہیں کرتے بلکہ حرام خور بھی ہیں‘ پھر تجھے پرہیز گاری کی کیا پڑی ہے؟
غرض شیطان کا تو کام ہی یہ ہے کہ دنیاوی امور میں ہمیشہ ان لوگوں کو تیرے سامنے لائے گا جو تجھ سے بلند تر درجہ کے مالک ہوتے ہیں تاکہ تو جلے اور حرص میں مبتلا ہو جائے اور دینی امور میں ان لوگوں کو نمونہ بنا کر پیش کرے گا جو تجھ سے بھی گئے گذرے ہوں گے تاکہ تو غافل سے غافل تر ہو جائے حالانکہ اصل معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے- تجھے چاہیے کہ دینی معاملات میں تو بزرگان دین پر نظر رکھے جو تجھ سے بہت بلند مرتبہ ہوتے ہیں تاکہ تجھے اپنی خامیوں اور نقائص سے آگاہی حاصل ہوتی رہی اور دنیاوی اعتبار سے فقیروں اور غریبوں کو پیش نظر رکھے تاکہ تو خود کو امیر سمجھے اور اللہ تعالی کا شکر بجا لائے-
اور یہ بات بھی اچھی طرح پلے باندھ لے کہ طمع اس کا ساتھ ہمیشہ کبھی نہ دے گی اور آخر بے وفائی کر جائے گی اور اگر وفا کرے بھی تو بڑی ذلت و رسوائی کے ساتھ کرے گی اور رضائے الہی تو یقینا اس کے حق میں فوت ہو کر رہے گی اور پھر یہ بھی سوچے کہ لوگوں کے دلوں کو مسخر کرنے والا کون ہے؟ وہ بھی تو اللہ تعالی ہی ہے جس کے ارادے کے بغیر تسخیر قلوب ممکن ہی نہیں تو پھر کیوں نہ سب کے پیچھے مارے مارے پھرنے کی بجائے صرف اسی ایک کی رضا حاصل کر لی جائے کیونکہ اللہ تعالی کی رضا حاصل ہو جائے تو وہ لوگوں کے دلوں کو بھی اس کا مسخر کردے گا لیکن اگر اسکی رضا حاصل نہ ہوئی تو اس کی فضیحت کا آشکارہ ہو جانا لازم ہے اور پھر لوگوں کے دلوں میں بھی اس کے خلاف نفرت ہی بھرے گی-
اور لوگوں کی مذمت سے خائف رہنے کا علاج یوں کرے کہ اپنے آپ سے کہے کہ اگر تو اللہ تعالی کے نزدیک لائق تعریف ہے تو دنیا کی مذمت تیرا کیا بگاڑے گی؟ اور اگر تو اللہ تعالی کے نزدیک مذموم و مردود ٹھہرا تو لوگوں کی مدح و ثنا ئ سے تجھے کیا حاصل ہوگا؟
بس اگر تو راہ اخلاص پر گامزن رہے اور خلق کے خیال سے دل کو پراگندہ نہ ہونے دے تو یقین رکھ کہ اللہ تعالی تمام لوگوں کے دل تیری دوستی سے آراستہ کردے گا اور اگر وہ نہ کرے تو کچھ عجب نہیں کہ تیری ریاکاری کے ڈھول کا پول خودہی لوگوں پر کھل جائے گا اور لوگ تیری منافقت سے واقف ہو جائیں اور جس مذمت سے تو ڈرتا تھا اسی کا سامنا ہو جائے اللہ تعالی کی رضا تو پہلے ہی کھو چکا ہے اور لوگوں کی رضا بھی تجھے حاصل نہ ہوسکے تو پھر کیوں نہ اللہ تعالی کی رضا طلب کی جائے اور اسی پر ساری ہمت مرکوز کردی جائے تاکہ اگر رضائے الہی حاصل ہو جائے تو مراعات خلق سے نجات حاصل ہو جائے اور تیرا دل انوار الہی سے معمور و منور ہو جائے اور لطف خداوندی ‘ تائید الہی اور عنایات ربانی کا تیرے دل پر ہمیشہ نزول ہوتا رہے اور اخلاص و لذت کی راہ تیرے لئے کشادہ ہو جائے-
اور عملی علاج یہ ہے کہ اپنی اطاعت و عبادت کو ویسے ہی پوشیدہ رکھے جس طرح کہ اپنے عیوب و گناہوں کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے تاکہ اس پر قانع رہنے کی عادت پڑ جائے اور اطاعت میں علم الہی پر صابر رہنے لگے- شروع میں یہ بات خاصی دشوار معلوم ہوتی ہے لیکن کوشش و ریاضت سے آسان ہو جاتی ہے کیونکہ مناجات اور اخلاص کی اپنی خاص لذت ہوتی ہے اور جب وہ لذت حاصل ہو جاتی ہے تو کسی اور لذب کی آرزو ہی نہیں رہتی اور بندہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ لوگ دیکھیں بھی تو اس کا دل ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتا-
دوسرا مقام تسکین ریا کا ہے یعنی جب ریا دل میں ظاہر ہونے لگے تو فورا اسے دور کردیا جائے کیونکہ کثرت مجاہدہ و ریاضت سے دل خواہ لوگوں کی مدح سرائی اور طمع مال سے کتنا ہی پاک کیوں نہ ہوچکا ہو اور تمام اشیائ اس کی نظروں میں بے وقعت ہی کیوں نہ ہو چکی ہوں تاہم شیطان تو برابر اپنے کام پر لگا رہتا ہے اور دوران عبادت ریا کے خیالات دل میں ڈالتا رہتا ہے- مثلا یہ خیال کہ میری عبادت کا حال اب تک لوگوں کو معلوم ہو ہی چکا ہوگا یا امید ہے کہ بہت جلد معلوم ہو جائے گا اس خیال سے دل میں یہ رغبت پیدا ہو جاتی ہے کہ لوگ اس کو قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھیں اور دل اس بات کی تحقیق کرنے لگتا ہے کہ آیا میری قدرومنزلت واقعی لوگوں کے دلوں میں گھر کر چکی ہے یا نہیں؟ لہذا کوشش یہ کرنی چاہیے کہ ایسے خیالات وک دل میں جگہ ہی نہیں دینی چاہیے اور اپنے آپ سے کہنا چا ہیے کہ جب میری عبادت و ریاضت کا حال اللہ تعالی کو معلوم ہے تو یہی میرے لئے کافی ہے‘ لوگ چاہے اس سے باخبر ہیں یا بے خبر‘ مجھے اس سے کیا؟ لوگ میری طرف رغبت کریں بھی تو کیا فائدہ؟ کہ اللہ تعالی کی ناراضگی کے مقابلے میں لوگوں کی رغبت کی وقعت ہی کیا؟
بعض اوقات ریاکاری کی خواہش کا غلبہ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ دل میں اس کے علاوہ اور کسی چیز کی گنجائش ہی نہیں رہتی اور کافی سوچ بچارکے باوجود اس پر قابو نہیں پایا جاسکتا- ایسی صورت میں بندہ شیطان کا محبوب ہوتا ہے- ایسے آدمی کی مثال اس شخص کی سی ہوتی ہے کہ جسے حلم و بردباری کی عظمت کا احساس ہو‘ اس پر قائم بھی ہو‘ غصے کی آفتوں سے بھی اچھی طرح واقف ہو لیکن جب وقت آن پڑے تو عملا غصے سے مغلوب ہو جائے اور ان سب باتوں کو فراموش کر بیٹھے-
بعض اوقات ریاکاری کا علم رکھنے کے باوجود آدمی کو اس سے کراہت نہیں ہوتی اور بعض اوقات کراہت ہوتی ہے لیکن خواہش ریا اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ کراہت اس خواہش کے نیچے دب جاتی ہے اور ریا کی طرف رجوع جوں کا توں رہتا ہے کتنے ہی لوگ ہیں کہ ریاکاری کی باتیں کرتے رہتے ہیں اور خوب جانتے ہیں کہ یہ ریاکاری باعث خسارہ و تباہی ہے لیکن باز نہیں آتے اور پھر توبہ بھی نہیں کرتے-
پس ریاکاری سے نجات پانا قوت کراہت پر منحصر ہے اور قوت کا انحصار قوت معرفت کی مقدار پر ہے اور مقدار معرفت کا انحصار قوت ایمان پر ہے اور ایمان مدد ملائکہ کا مرہون منت ہے- اس کے برعکس ریا کا انحصار خواہش دنیا کی مقدار پر ہوتا ہے اور اس کا مددگار شیطان ہوتا ہے-
اگر تونے ریاکاری کے تقاضوں کی مخالفت کی اور دل سے کراہت کا اظہار بھی کیا لیکن اس کے باوجود دل میں ریاکاری کا جذبہ باقی رہا تو تو اس کے لئے قابل مواخذہ نہیں کیونکہ یہ ایک طبعی امر ہے جو انسان کی فطرت میں شامل ہے اور تجھے طبیعت کو باطل کرنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ اس چیز کی تاکید کی گئی کہ تو اسے مغلوب و مسخر رکھے تاکہ وہ تجھے دوزخ میں نہ پہنچا دے اور جب تو اس پر قادر ہوگیا کہ طبیعت کو تیرے حکم کے سامنے سر اٹھانے کی تاب نہ رہی تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ تو اس پر غالب آ گیا اور یہی کافی ہے کیونکہ اس کے لئے تیرا یہی کفارہ کچھ کم نہیں کہ تو نے اس کی خواہشات کی مخالفت کی اور اسے سرتابی کی اجازت نہ دی اور اس کی دلیل میں یہ روایت کافی ہے کہ ایک دن صحابہ کرام(رض) نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ اے اللہ کے رسولﷺ ہمیں مختلف قسم کے وسوسے اور شبہات گھیرے رہتے ہیں‘ ان سے تو کہیں بہتر ہے کہ ہمیں آسمان کی بلندیوں سے نیچے گرا دیا جائے‘ ہمیں ان سے سخت کراہت محسوس ہوتی ہے- حضورﷺ نے پوچھا کہ کیا واقعی تمہاری یہی کیفیت ہے؟ تو صحابہ کرام(رض) نے عرض کی کہ ہاں بالکل ایسا ہی ہے تو فرمایا یہ تو صریحا ایمان کی نشانی ہے-
اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ جو شخص وسوسوں کی مخالفت پر قادر ہو جاتا ہے‘ شیطان کو اس سے حسد پیدا ہو جاتا ہے اور اس سے اور کچھ نہیں ہوتا تو ایسے شخص کے دل میں یہ خیال ڈال دیتا ہے کہ اس کی مصلحت شیطان سے جھگڑا کرتے رہنے میں ہے اور جب وہ اس خیال و وسوسہ میں مبتلاہو جاتا ہے تو لذت مناجات سے محروم ہو جاتا ہے- لہذا ضروری ہے کہ شیطان کو جھٹلا کر فورا دفع کر دیا جائے اور شغل مناجات کو جاری رکھا جائے اس سے بھی بہتر حربہ یہ ہے کہ شیطان کی تکذیب و دفعیہ کے تکلف میں نہ پڑے کہ یہ محض تضیح اوقات ہے بلکہ شیطان کی طرف دھیان ہی نہ دے اور مناجات سے شغل جاری رکھے اور اخلاص کا اور بھی زیادہ حریص ہو جائے اور ساری کوشش اسی پر مرکوز کر دے- یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ شیطان کو اس بات سے زیادہ غصہ اور کسی چیز پر نہیں آتا کہ کوئی آدمی اس کو سرے سے قابل توجہ ہی نہ سمجھے اور اس کے ہونے نہ ہونے کو برابر سمجھے- یہ گویا اس کے وجود ہی کی نفی ہوگئی جو اس کی سخت توہین ہے جو اسے غضباک ہی نہیں مایوس بھی کر دیتی ہے اور وہ دوبارہ اس کے پاس آنے سے ہچکچاتا ہے-اس ضمن میں یہ ایک کامل حربہ ہے کیونکہ شیطان کو جب اس شخص کی اس صفت کا پتہ چل گیا تو اس سے لامحالہ ناامید ہو جائے گا- اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ چار آدمی طلب علم کے لئے روانہ ہوتے ہیں اور ایک حاسد ان کا راستہ روک کر کھڑا ہو جاتا ہے- ان چاروں میں سے ایک آدمی اسے منع کرتا ہے لیکن وہ باز نہیں آتا اور منع کرنے والے سے لڑائی پر اتر آتا ہے اور یوں اپنا وقت ضائع کرنے لگتا ہے- یہی حاسد جب دوسرے شخص کے سامنے رکاوٹ بننے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اس سے الجھے بغیر محض یہ کہہ کر آگے بڑھ جاتا ہے کہ ’’دفع ہو جا‘‘ اور وہ اپنا زیادہ وقت ضائع نہیں کرتا- تیسرا اسے نہ دفع کرنے میں مشغول ہوتا ہے اور نہ اس پر توجہ ہی دیتا ہے اور اپنی راہ پر گامزن رہتا ہے تاکہ وقت بالکل ہی ضائع نہ ہو اور چوتھا شخص اس پر سر سے التفات ہی نہیں کرتا اور ناک کی سیدھ میں تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا وہاں سے گذر جاتا ہے اور اسے یہ تک معلوم کرنے کی خواہش نہیں ہوتی کہ راستہ روکے کون کھڑا ہے؟ اب ظاہر ہے کہ حاسد شیطان نے پہلے دو اشخاص سے تو ایک حد تک اپنا مطلب حاصل کر ہی لیا کہ روک نہ سکا تو وقت توضائع کردیا-تیسرے سے اسے کچھ حاصل نہ ہوا لیکن اپنا کچھ نہ بگڑا لیکن چوتھے سے تو نہ صرف یہ کہ اسے خود کچھ حاصل نہ ہوا بلکہ اس شخص کو فائدہ پہنچ گیا کہ عملا اسے شیطان کی مخالفت اور اسے ذلیل کرنے کا مزید تجربہ ہوگیا- پہلے تینوں کے بارے میں اسے پشیمان ہونے کی تو کم از کم کوئی ضرورت نہ تھی لیکن اس چوتھے کے ہاتھوں تو اسے پشیمانی لاحق ہوئی اور وہ یقینا افسوس کرے گا کہ اے کاش ! میں نے اسے روکا ہی نہ ہوتا پس احسن ترین طریق یہی ہے کہ شیطان سے جھگڑنے میں وقت ضائع نہ کیا جائے اور جلد از جلد اپنے شغل مناجات کی طرف متوجہ ہوا جائے-
مرض ریا کا کامل ترین علاج
انسان کے دل میں ریا کا مرض ہوائے نفس سے پیدا ہوتا ہے‘ اگر وجود میں نفس کی نفی ہو جائے تو انسان کا دل ہوائے نفس سے پاک ہو جاتا ہے اور ماسوی اللہ کے ہر نقش سے محفوظ ہو جاتا ہے کیونکہ شیطان نفس سے مل کر ہی تو انسان کو بہکاتا ہے نفس کی چار قسمیں ہیں:
1. نفس امارہ
2. نفس لوامہ
3. نفس ملہمہ
4. نفس مطمئنہ
ان میں سے نفس امارہ انسان کو دائرہ شریعت میں اوامرو نواہی ﴿اللہ تعالی کے احکام اور اس کی ممنوعہ باتوں﴾ کی مخالفت کرنے پر آمادہ کرتا ہے- نفس لوامہ انسانس ے بظاہر دینی موافقت اختیار کرتا ہے لیکن دینی موافقت کے پردے میں دھوکہ دے کر انسان کو اس طرح گمراہ کرتا ہے کہ انسان دین کے کام کرتے ہوئے بھی گمراہ رہتا ہے اور انجام کار نبوت و ولایت کا دعوی کر بیٹھتا ہے- نفس ملہمہ نورانیت کی بنا پر انسان کو فریب دے کر شرک خفی میں مبتلا کر دیتا ہے اور وہ ربوبیت کا دعویدار بن بیٹھتا ہے- نفس کی ان تینوں مذکورہ بالا صورتوں کا تعلق عالم خلق سے ہے اور یہ انسان کی بشریت کے مختلف مدارج ہیں اس لئے نفس ان تینوں حالتوں میں شیطان سے موافقت کرتا ہے-
نفس مطمئنہ انسان کی وہ حالت ہے جو عالم خلق سے نہیں بلکہ عالم امر سے تعلق رکھتی ہے اس لئے نفس مطمئنہ شیطان سے قطعی طور پر محفوظ رہتا ہے کیونکہ شیطان عالم امر میں داخل نہیں ہوسکت
ا. سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہوؒ فرماتے ہیں کہ جس طرح آدمی کا وجود دو قسم کا ہے یعنی وجود لطیف اور وجود کثیف‘ اسی طرح اس کا نفس بھی دو قسم کا ہے یعنی نفس لطیف اور نفس کثیف- جن لوگوں کا وجود کثیف ہے ان کا نفس بھی کثیف ہوتا ہے‘ یعنی نفس امارہ و لوامہ و ملہمہ -امارہ نام ہے راہزن شیطان کا اور اس کے تابع نفس لوامہ ہے اور نفس لوامہ کے تابع نفس ملہمہ ہے‘ ان تینوں کا ایک دوسرے سے اتفاق ہے- جن لوگوں کا وجود لطیف ہے‘ ان کا نفس مطمئنہ ہے اور مطمئنہ ظاہری و باطنی اطاعت گزار کو کہتے ہیں‘ اطاعت روح کے تابع ہے اور روح توفیق الہی کے تابع ہے اور توفیق الہی صاحب ذکر‘ فکر اشتغال‘ استغراق‘ فقر فنا فی اللہ کو کہتے ہیں- پس تمام انبیائ‘ اصفیائ‘ اولیائ‘ مومن مسلم اہل ایمان کا نفس مطمئنہ ہے اور نفس مطمئنہ اہل معرفت ہوتا ہے-﴿عین الفقر باب چہارم﴾
انسان کا نفس کثیف ﴿امارہ و لوامہ ملہمہ﴾ ظاہری عبادت وریاضت سے ہرگز کمزور وہلاک نہیں ہوتا بلکہ اس کے برعکس فربہ و توانا ہوتا ہے اور انسان ہمیشہ خسارے میں رہتا ہے چنانچہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں کہ زہدو تقوی اختیار کرنا اور ریاضت نماز و روزہ وحج و زکوۃ خلاف نفس ہے‘ کیا اس سے نفس مر جاتا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ نہیں مرتا-
ذکر‘ فکر ‘مجاہدہ‘ مشاہدہ‘ مراقبہ‘ وصال و حضور مذکور میں محو رہنا خلاف نفس ہے‘ کیا اس سے نفس مر جاتا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ نہیں مرتا-
ورد و وظائف و تسبیح و تلاوت قرآن میں محو رہنا اور مسائل فقہ بیان کرتے رہنا خلاف نفس ہے‘ کیا اس سے نفس مر جاتا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ نہیں مرتا-
بدن پر چمڑے کا لباس پہننا‘ گدڑی پہن لینا‘ مخلوق خدا سے علیحدگی اختیار کرلینا‘ زبان پر خاموشی طاری کرلینا‘ نیک وصال و خوب خصال ہو جانا خلاف نفس ہے‘ کیا اس سے نفس مر جاتا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ نہیں مرتا-
گوشہ تنہائی میں چلہ کشی کرنا‘ سرگردان رہنا اور خود کو ہرچیز سے لاتعلق کر لینا خلاف نفس ہے کیا اس سے نفس مر جاتا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ نہیں مرتا-
علم حاص کرنا‘ درس وتعلیم دینا اور خدائے تعالی کو جان لینا‘ خلاف نفس ہے‘ کیا اس سے نفس مر جاتا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ نہیں مرت
ا۔ نفس اگر بھوکا ہو تو دیوانہ کتا بن جاتا ہے اور اگر سیر شکم ہو تو گدھا بن جاتا ہے- نفس کا پیٹ بھر دو تو بے فرمان ہو جاتا ہے اور اگر نفس کو بھوکا رکھو تو چیخنے چلانے لگتا ہے- نفس جب گناہ کرنے پر تل جاتا ہے تو چاہے اسے خدا اور رسول و تمام انبیائ و اولیائ وصلحائ کے واسطے دے ڈالو‘ آیات قرآن و احادیث نبویﷺ پڑھ کر سنا ڈالو‘ موت و قبر کا خوف دلادو‘ منکر نکیر سے سوال و جواب اور معاملات اعمالنامہ یاد دلادو‘مسائل فقہ یاد دلادو‘ روز قیامت کے عالم نفسی نفسی یاد دلا دو اور چاہے پل صراط و دوزخ و بہشت و دیدارالہی یاد دلا دو‘ نفس ہرگز گناہ و نافرمانی سے نہیں ٹلتا- ﴿عین الفقر باب چہارم﴾
سو معلوم ہوا کہ یہ تمام مسائل شیطان و نفس سے ایسا محاربہ ہے جو محض تضیح اوقات ہے اور خام لوگوں کا مشغلہ ہے‘ لہذا ایسے عمل کی ضرورت ہے کہ جس سے نفس یکبارگی قتل ہو جائے اور روز روز کی لڑائی سے جان چھوٹ جائے- جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہو(رح) فرماتے ہیں کہ اے نامرد! کوشش کر کہ تو نامردوں کے زمرے سے نکل کر مردوں کے زمرے میں شامل ہو جائے- مرتبہ نامرد کیا ہے اور مرتبہ مرد کیا ہے؟ مرتبہ نامرد یہ ہے کہ اللہ کے دشمنوں نفس و شیطان سے رات دن لڑتا جھگڑتا رہے اور مرتبہ مرد غازی یہ ے کہ ایک ہی وار میں نفس کا سر کچل دے تاکہ ہر وقت کے محاربے سے جان چھوٹ جائے-﴿عین الفقر﴾
وہ عمل کہ جس سے نفس کا سر یکبارگی کچلا جا سکتا ہے‘ وہ صرف مرشد کامل کی نگرانی میں ’’تصور اسم اللہ ذات‘‘ کا عمل ہے‘ اس کے علاوہ اور کوئی ایسا عمل نہیں ہے جو نفس کی سرکوبی کے لئے کافی ہو- چنانچہ سلطان العارفین حضرت سلطان باہو(رح) فرماتے ہیں کہ:
1۔ جب اسم اللہ ذات دل میں منقش ہو جاتا ہے اور اسم اللہ ذات کی تجلی دل پرغلبہ پا کر فروزاں ہو جاتی ہے تو نفس مغلوب ہو کر مر جاتا ہے اور دل زندہ ہو جاتا ہے ایسی حالت میں عارف باللہ جب بولتا ہے تو اس کی زبان سے اسم اللہ ذات ہی نکلتا ہے‘ جب دیکھتا ہے تو جدھر بھی نظر اٹھاتا ہے اسے اسم اللہ ذات ہی دکھائی دیتا ہے جیسا کہ فرمان الہی کہ فاینما تولو فثم وجہاللہ‘‘–
’’یعنی تم جدھر بھی دیکھو گے تمہیں اللہ تعالی کے انوار نظر آئیں گے اور جب سنتا ہے تو اسم اللہ ذات کی تسبیح ہی سنتا ہے﴿عین الفقر﴾-
2۔ ہر دو جہان کی چابی اسم اللہ ذات ہے‘ زمین وآسمان کے طبقات کا بغیر ستوتوں کے استادہ ہونا محض اسم اللہ ذات کی برکت سے ہے‘ ہر پیغمبر نے درجات پیغمبری اسم اللہ ذات ہی سے پائے‘ ہر اولیائ‘ غوث و قطب‘ ولی اللہ‘ اہل اللہ کا ذکر فکر الہام مذکور غرق توحید مراقبہ و کشف کرامات اسم اللہ ذات کی برکت ہی سے ہے‘ اسم اللہ ذات سے وہ علم لدنی کھلتا ہے کہ جس کے بعد کسی اور علم کی ضرورت نہیں رہتی‘ بندے اور مولی کے درمیان جو وسیلہ ہے وہ اسم اللہ ذات ہے-﴿عین الفقر باب اول﴾
3۔ مرشد کامل مکمل وہ ہے جو اسم اللہ ذات اور اسم محمد سرور کائنات ﷺ کی راہ جانتا ہے اور طالب صادق وہ ہے جو اللہ تعالی کی ذات مقدس کی طلب کے سوا اور کوئی طلب نہیں رکھتا… سن! مرشد کامل مکمل وہ ہوتا ہے جو اسم اللہ ذات یا اسم محمد سرور کائنات ﷺ کا نقش لکھ کر طالب کے ہاتھ میں تھما کر اسی کا مشاہدہ کرادے اور جو طالب اسم اللہ ذات کے نقش کا مشاہدہ کرتا ہے بے شک وہ صراط مستقیم پا لیتا ہے- جو طالب ایسے مرشد سے روگردانی کرتا ہے بے شک وہ اسم اللہ ذات اور اسم محمد سرور کائناتﷺ سے روگردانی کرتا ہے اور کلمہ طیب بھی یہی دو اسمائ ہیں اس لئے درحقیقت وہ کلمہ طیب سے روگردان و منحرف ہوتا ہے جو شخص کلمہ طیب سے روگردانی و انحراف کرتا ہے وہ مرتد ہو جاتا ہے اور مرتد کی نماز و روزہ اور ہر قسم کی عبادت ہرگز قبول نہیں ہوتی-﴿عین الفقر باب اول﴾
فرمان سلطان باھوؒ: مرشد کامل مکمل جس طالب کے ہاتھ میں اسم اللہ ذات دیتا ہے اسے پل بھر میں توحید عین ذات میں پہنچا دیتا ہے‘ وہ اسے صفات میں ہرگز نہیں چھوڑتا ہے کیونکہ اسمائ صفات سے استدراج پیداہوتا ہے لیکن تصور اسم اللہ ذات استدراج سے قطعا پاک ہے- ﴿عین الفقر باب اول﴾
تصور اسم اللہ ذات‘ انتہائی خفیہ عمل ہے جس میں ریاکاری کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا- اس کے برعکس ذکر جہر ﴿بلند آواز کے ساتھ اللہ تعالی کے نام کا ذکر کرنا﴾ ریاکاری سے قطعا پاک نہیں ہے اور نہ ہی ذکر جہر سے نفس مرتا ہے- تصور اسم اللہ ذات اور ذکر جہر کا موازنہ کرت ہوئے سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہو(رح) فرماتے ہیں کہ اگر کسی غار میں سانپ داخل ہو جائے اور آپ غار کے منہ پر ڈنڈے مارنا شروع کردیں تو خواہ تمام عمر ڈنڈے مارتے رہیں‘ سانپ کو کچھ نقصان نہیں ہوگا اور اگر پانی یا تیل ابال کر غار کے اندر ڈالیں تو سانپ مر جائے گا یا غار سے باہر آ جائے گا اور آپ اسے آسانی سے مار سکیں گے- انسان کا جسم غار کی مثل ہے‘ نفس امارہ سانپ کی مثل ہے جو جسم کے غار میں چھپا بیٹھا ہے‘ ذکر جہر غار کے منہ پر ڈنڈے مارنے کی مثل ہے جبکہ تصور اسم اللہ ذات غار میں ابلتا ہوا تیل ڈالنے کی مثل ہے ﴿عین الفقر ﴾
سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒمزید فرماتے ہیں کہ :
اسم اللہ ذات کی شان یہ ہے کہ اگر کوئی شخص تمام عمر نماز و روزہ و حج و زکوۃ و تلاوت قرآن اورہر قسم کی ظاہری عبادات میں مشغول رہے یا اہل فضیلت عالم بن جائے لیکن اگر وہ تصور اسم اللہ ذات اور تصور اسم محدم سرورکائنات ﷺ سے بیگانہ رہا اور ان دونوں اسمائ کے مطالعہ میں مشغول نہ رہا تو اس کی عمر بھر کی عبادت و ریاضت ضائع و برباد ہو گئی اور اسے کوئی فائدہ نہ ہوا- ﴿عین الفقر باب اول﴾
2۔ تصور اسم اللہ ذات کے بغیر دل سے خطرات و وسوسہ و خناس و خر طوم دفع نہیں ہوتے خواہ عمر بھر عربی کا معلم بنا رہے اور مسائل فقہ پڑھتا رہے‘ خواہ تمام عمر ریاضت میں صرف کردے‘ خواہ کثرت ریاضت سے اس کی پیٹھ کبڑی ہو جائے اور جسم سوکھ کر کانٹا ہو جائے‘ دل اسی طرح تاریک رہتا ہے اور کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا﴿کلید التوحید کلاں﴾
3۔ تصور اسم اللہ ذات کا ذاکر نفس پر غالب اور قلندر صفت ہوتا ہے-اگر کوئی شخص چاہے کہ نفس اس کا مطیع ہو جائے‘ مچرب و مرغن کھانے کھانے اور زرین و اطلس کا لباس پہننے کے باوجود دنیا اور شیطان کے شر سے محفوظ رہے اور خناس و خرطوم‘ وسوسہ اوہام و خطرات اس کے وجود سے نیست و نابود ہو جائیں تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے دل میں تصور کے ذریعے اسم اللہ ذات نقش کرے- ﴿کلیدالتوحید کلاں﴾
4۔ تصور اسم اللہ ذات کے ذریعے طالب لاہوت میں ساکن ہو کر مشاہدہ انوار دیدار ذات کھلی آنکھوں سے کرتا ہے اور ہر دوجہان کی آرزوئوں سے بیزار ہو جاتا ہے‘ عین دیکھتا ہے ‘ عین سنتا اور عین پاتا ہے- ﴿نورالہدی کلاں﴾
وماعلیاالا البلاغ وصلی اللہ تعالی علی خیر خلقہ محمد و علی الہ واصحابہ و اہل بیتہ اجمعین
کلام اقبالؒ:
مقام بندئہ مومن کا ہے ورائے سپہر
زمین سے تا بہ ثریا تمام لات و منات
حریم ذات ہے اس کا نشیمن ابدی
نہ تیرہ خاک لحد ہے نہ جلوہ گاہ صفات
تو ظاہر و باطن کی خلافت کا سزاوار
کیا شعلہ بھی ہوتا ہے غلام خس و خاشاک
مہرومہ و انجم نہیں محکوم تیرے کیوں ؟
کیوں تیری نگاہوں سے لرزتے نہیں افلاک ؟
اب تک ہے رواں گرچہ لہو تیری رگوں میں
نے گرمی افکار نے اندیشہ بے باک
روشن تو وہ ہوتی ہے جہاں بیں نہیں ہوتی
جس آنکھ کے پردوں میں نہیں ہے نگہ پاک