قائدِ اعظم کا ویژن

پاکستان اور ہم

متعلقہ لنکس

-پاکستان کا اگر سیرت النبی (ﷺ) کے تناظر میں مُطالعہ کیا جائے تو بہت سے حیرت انگیز پہلُو نکلتے ہیں جو بڑی مفید اور کار آمد راہنمائی فراہم کرتے ہیں۔۔۔

کثیر الجہت و مافوق الفطرت داستانوں سے مزین تاریخِ جموں و کشمیر بہت پرانی ہے-جدید کشمیر کی تاریخ جغرافیائی، سماجی، سیاسی و مذہبی اعتبار سے 1864ء کے بد نام زمانہ۔۔۔

اکیسویں صدی جہاں سائنسی ترقی و مادی ترقی کے عروج کا مشاہدہ کر رہی ہے وہیں بدقسمتی سے اِسے اخلاقی اور روحانی زوال بھی پیش ہے-انسانی معاشرے بحیثیت مجموعی اخلاقی اقدار۔۔۔

افسوس!ہمارے ہاں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کی عظمت میں فقط ایک ہی پہلو اجاگر کیا جاتا ہے۔۔۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے خانوادۂ عالیہ میں جن نفوس قدسیہ کو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے چشمۂ فیضانِ سلطان العارفین کے جاری رہنے کی دلیل کہا جاتا ہے...

جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُوؒ نے اپنی ایک تصنیف میں فرمایا کہ: ’’یہ محبت ہی ہے جو دل کو آرام نہیں کرنے دیتی ورنہ کون ہے جو آسودگی نہیں چاہتا ‘‘-

تصوف کا اشتقاق مادہ ’’صوف‘‘سےبابِ تفعل کا مصدر ہے- اُس کے معنی ’’اون‘‘کے ہیں- لغویت کے لحاظ سے اون کا لباس عادتاً زیبِ تن کرنا ہے- لفظ صوف کی جمع ’’اصواف‘‘ ہے...

تصوف یا صوفی ازم اسلامی تہذیب و ثقافت کی اساسیات اور علومِ دینیہ کے اہم ترین موضوعات میں سے ہے جس کے مبادی، منابع اور مآخذ قرآن و سنت سے ثابت ہیں...

آج جس موضوع پہ گزارشات بیان کرنے جا رہا ہوں وہ ایک خالص علمی موضوع ہے جس کا تعلق براہ راست ہماری دینی اور ملی زندگی سے ہے- کیونکہ اس کے ساتھ ہماری روحیں جڑی ہیں؛

آج جس موضوع پہ چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا عوام و خواص کیلئے گو کہ وہ نیا نہیں ہے - مزید یہ کہ اس کے جس خاص پہلو کی جانب آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہوں گا وہ پہلو اہل علم کے ہاں تو اجنبی نہیں ہوگا لیکن عامۃ الناس میں بہت کم لوگ اس سے واقف ہوں گے-

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی

دُنیائے فلسفہ میں اسطورات کا عظیم باغی ، فلسفۂ یونان کا بانی اور افلاطون و ارسطو کا اُستاد ’’سقراط‘‘ ایک سنگ تراش کا بیٹا تھا اور پیدائشی طور پہ بے پناہ ذہین اوراعلیٰ و فلسفیانہ دماغی صلاحیّتوں کا مالک تھا – ایک دِن اپنے باپ کے پاس بیٹھا دیکھ رہا تھا کہ وہ پتھّر کو کیسے تراش خراش کررہا ہے، تھوڑی دیر بعد جب اُس کے باپ کا کام مکمل ہوا تو اُس نے دیکھا کہ پتھر کا گھوڑا بن چکا ہے- سقراط نے بے ساختہ طور پہ اپنے باپ سے سوال کیا کہ ’’ابّا ! تمہیں کیسے معلوم تھا کہ اِس پتھر کے اندر گھوڑا چھُپا ہوا ہے ؟‘‘

ہر قوم اپنے مخصوص تاریخی ارتقائی سفر کے بعد اپنا وجود ظاہر کرتی ہے ، جو کہ صدیوں کی ثقافت اور روایات کا امین ہوتا ہے- پاکستان تو نہ جانے کب سے برِّ صغیر پاک و ہند میں موجود تھا مگر اِسے کوئی ایسا سنگ تراش نہ مِلا تھا جو برِّصغیر کے پتھر کو تراش کر اِس سے پاکستان نکال لیتا – یہ حضرت علّامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ہی تھے جنہوں نے اپریل ۱۹۳۰ء میں خطبہ الٰہ باد میں بالآخر یہ اعلان کردیا کہ میں نے اِس پتھر میں ایک صُورت چھُپی دیکھی ہے جو کہ مسلمانانِ ہند کا آزاد، الگ اور جُدا گانہ مُلک ہوگا- 

بعد ازاں جب کاریگر کی تلاش شروع ہوئی کہ کون سا ایسا ماہر سنگ تراش ہو جو اس کا چہرہ نکھارے اور تراش کر وہ صُورت سامنے لائے تو اِس ضرورت کے تحت حضرت علّامہ اقبال نے دوسرا اقدام یہ کیا کہ مسلمانانِ ہند کی عملی زندگی سے مایُوس ہو کر لندن لوٹ جانے والے اُس وکیل ’جس نے کبھی مقدمہ نہیں ہارا یعنی محمد علی جناح ‘ کو بصد اصرار و تکرار واپس بُلایا کہ آؤ! اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت تمہارے مقدر میں لکھ دی ہے تمہارا فن اور تمہاری مہارت اس قابل ہے کہ برِّصغیر کا دس ہزار سالہ تہذیبی پتھر تراش کر اس سے پاکستان کا وجود ظاہر کر سکو – تاریخ گواہ ہے کہ جب مُسلمانوں کے اُس وکیلِ اعظم نے مسلمانانِ ہند کا مُقدمہ لڑا تو دُشمن انگشت بدندان رِہ گئے کہ کیسے وہ مردِ مُجاہد کم ترین وسائل ، اپنوں کی مُخالفت اور نامساعد حالات کے باوجود اپنی مہم میں کامیاب رہا اور اللہ تعالیٰ اور اُس کے حبیبِ پاک ﷺ کی بارگاہ میں سُرخرو ہوا –

علّامہ اِقبال اور قائدِ اعظم، دونوں کی شخصیّت کے بڑے انوکھے پہلو سامنے آتے ہیں- مثلاً : علامہ اقبال کا ابتدئی زمانہ ہندوستان ہی میں گزرا لیکن انہوں نے زندگی کا سب سے بڑا جہاد مغربیّت کے خِلاف فرمایا اور تہذیبِ اِسلامی اور تہذیبِ مغربی کا فرق اپنی قوم کے سامنے واضح کیا – اِس کے بر عکس قائدِ اعظم کا ابتدائی زمانہ مغرب میں گزرا مگر اُنہوں نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا جہاد ’’گاندھیّت‘‘ اور ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے خِلاف کیا- اقبال کی ترجیحات ہمیشہ مغرب و مسلمانوں کے موازنے اور اُن کے فرق پہ رہیں جب کہ قائدِ اعظم کی ترجیحات ہندوستان میں بالا دستی کی خواہاں ہندو ذہنیّت کو زائل کرنے پہ رہیں- 

قائدِ اعظم کے بعض واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہندو مسلم اتحاد کے سفیر ہونے کے زمانے میں ہندؤں سے قربت و دوستی کی وجہ سے جس قدر گہرائی سے ہندُو ذِہنیّت کو سمجھ گئے تھے یہی چیز پاکستان کے وجود کا موجب بنی کہ قائد یہ جان گئے تھے کہ ہندو اقتدار میں آکر مسلمانوں کو کسی جانب کا نہیں چھوڑیں گے- کیونکہ گاندھی جیسے لوگ ’’دیکھن کے اُجلے عبادت کے ٹانگ چاؤ جب غور سے دیکھا غبن کے غبناؤ‘‘ ہیں- یعنی پانی کے تالاب میں مچھلی بڑی دیر بگلے کا معائنہ کرتی رہی کہ خاصا اُجلا ہے سُفید ہے، رنگت ستھری ہے، ایک ٹانگ پہ کھڑا بیچارہ عبادت میں مشغول و مصروف ہے بھلے مانس معلوم ہوتا ہے- مچھلی بیچاری اِن غلط فہمیوں میں غرق و غلطاں جب اُس کے قریب گئی تو بگلے نے جھپٹ کر نگل لی- گاندھی جی اور اُن کے حامیوں کی مثال بھی ایسی ہی تھی، اُن کی فلاسفی سُننے میں بڑی سُریلی رسیلی اور نشیلی معلوم ہوتی تھی مگر تھی وہ اُجلا بگلا جس کا ہُنر ہے مکر کرکے مچھلی ہڑپ کرنا- اِس لئے قائدِ اعظم نے کبھی اُن کا اعتبار نہ کیا اور ہمیشہ مسلمانوں کو اُن کی کالی ذہنیّت سے آگاہ کرتے رہے- ایک دفعہ گاندھی جی کسی تقریب میں موجود تھے کہ ایک سیاہ ناگ پاس سے گزر گیا مگر گاندھی جی اتفاقاً بچ گئے، اگلے دن پریس میں اس خبر کو خاصا چھاپا گیا- ایک جگہ پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں نے قائدِ اعظم سے پوچھا :

’’آپ اس پہ کیا کہیں گے کہ سیاہ ناگ نے گاندھی جی کو نہیں ڈسا ؟‘‘

قائدِ اعظم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا :

’’میں تو اِسے پیشہ ورانہ احترام ہی کہوں گا‘‘-

یہ قائدِ اعظم کی حسِّ مزاح ضرور تھی ، اُن کا طنزیّہ تبصرہ ضرور تھا مگر در حقیقت قائدِ اعظم نے بالادستی کے خواہاں ہندو طبقے کی ذِہنیّت کو بے نقاب کیا تھا کہ اِن میں اور ایک سیاہ ناگ میں کوئی خاص فرق نہیں دونوں کا کام معصوم انسانوں کو زہریلے ڈنگ سے ڈسنا ہے اِسی لئے وہ آپس میں پیشہ وارانہ احترام رکھتے ہیں- اِس سلسلے میں حضرت قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے چند خطابات کے اقتباسات قائد کی انڈرسٹینڈنگ کو مزید واضح کر دیتے ہیں:

 

  • ’’مسڑ گاندھی ہندو راج کے تحت مسلمانوں کو اپنا محکوم بنانے کی امید لگائے ہوئے ہیں- چونکہ میں نے اپنی پوری طاقت کے ساتھ ہندو راج کی مزاحمت کی ہے اس لیے مجھے بدترین مسلمان خیال کرکے میری مذمت کی جارہی ہے‘‘- (25فروری 1940ء)
  • ’’ہندوئوں کو چاہیے کہ وہ ہندو راج کا خواب دیکھنا ترک کر کے انڈیا کو ہندو علاقوں اور مسلم علاقوں میں تقسیم کر دیں‘‘- (نومبر1940ء)
  • ’’کانگرس کی ساری پالیسی یہ رہی ہے کہ برٹش راج کو ہندو راج میں تبدیل کردیا جائے — لیکن ہم ہندوئوں کی حکومت کے تحت زندگی بسر نہیں کریں گے‘‘ – (اگست 1942ء)
  • ’’میں نے اپنی ساری زندگی میں کبھی اس نظریے کو قبول نہیں کیا کہ ہمیں کسی بیرونی تسلط کے ماتحت رہنا چاہیے‘‘ (مارچ 1942ء)

قائدِ اعظم کے مُختلف مواقع پہ کہے گئے اِن چار مختصر اقتباسات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگر تحریکِ پاکستان نہ چلتی اور مشاہیرِ تحریک قوم کو بیدار نہ کرتے تو آج پاکستان میں موجود افسران متحدہ ہندوستان کے چپڑاسی ہوتے ، پروفیسر حضرات پرائمری سکولوں کے مالی ہوتے، جرنیل صوبیدار اور صنعت کار مزدور ہوتے اور آج کے پاکستان کے سیاسی لیڈر متحدہ ہندوستان کے بس اڈوں کے ہاکر ہوتے- آج بھی ہندوستان میں خالص مذہبی مُسلمانوں کیلئے ترقی کی کوئی جگہ نہیں ہے صرف اُنہی مسلمانوں کو ترقی کا حق حاصل ہے جن کی ماں ہندو ہو یا بیوی ہندو ہو یا بہو ہندو ہو یا داماد ہندو ہو- یہ بھی یاد رہے کہ وہاں کی بالادست ہندو ذِہنیّت کے تعصُّب کا یہ مُعاملہ صرف مُسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہندوستان کے پارسی ، عیسائی، بُدھسٹ سکھ اور دیگر سبھی مذاہب کے لوگ اس مُشکل سے دوچار ہیں- یہ اِحسان ہے ہمارے اوپر اللہ جل شانہٗ کا کہ اُس نے ہمیں محمد علی جناح جیسا عظیم قائد عطا کیا اور ہم بد ترین غُلامی سے بچ گئے-

 اِس میں شک نہیں آج بھی پاکستان میں غُلامی کی کئی اقسام موجود ہیں مگر یہ ایسی زنجیریں ہیں جنہیں ’اگر قوم متحد ہو جائے تو‘ نہایت پُر امن طریقے سے توڑا جا سکتا ہے- لیکن وہ زنجیریں جو قائد کے ہاتھوں اللہ نے کٹوائیں تھیں اُن کی نوعیّت مختلف ہوتی- مثلاً ناگالینڈ، نکسل باڑی اور سکھ جو کہ گاندھی جی کی بظاہر سُریلی رسیلی اور نشیلی فلاسفی کے نشے میں دھت ہوئے لیکن آج تک تحریکیں چلا رہے ہیں قربانیاں دے رہے ہیں لیکن آزادی کی روشنی اُنہیں دیکھنا نصیب نہیں ہوئی – اگر ہم بھی ۱۴/ اگست ۱۹۴۷ء کو متحدہ ہندوستان سے الگ نہ ہوتے تو آج خالصتان کے سکھوں کی طرح ذلیل و رُسوا ہوگئے ہوتے اور ہمارا پُرسانِ حال بھی کوئی نہ ہوتا – قائدِ اعظم کے خیالات کے مُطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ مُسلم انڈیا کو ہندو انڈیا سے بالکل الگ اور ترقی کرتا ہوا دیکھتے تھے اور پُر اُمّید تھے کہ (انشا اللہ) دولتِ آزادی ملنے کے بعد ہمارے سامنے بہت سے دَر وَا ہو جائیں گے ، بہت راستے کھُلیں گے اور مسلمانانِ ہند کو ترقی و استحکام حاصل کرنے کے پورے مواقع ہاتھ آئیں گے – مثلاً یکم اکتوبر ۱۹۳۹ء کا ایک سٹیٹ منٹ مُلاحظہ ہو :

 

  • ’’مسلم انڈیا بدرجہ اتم آزاد ہوکر اپنی ذہانت کے مطابق اپنے سیاسی،سماجی اور ثقافتی اداروں کو ترقی یافتہ بنانا چاہتاہے‘‘ (یکم اکتوبر  1939ء)

جب ہم مُسلم انڈیا اور ہندو انڈیا کی بات کرتے ہیں تو ہمارے سامنے اُس کے صرف سیاسی اور معاشی مسائل آتے ہیں لیکن حضرت قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں سیاست بھی تھی ، معیشت بھی تھی اور اِس کے ساتھ ساتھ وہ اِسے مذہبی اور سماجی نُقطۂ نظر سے بھی دیکھتے تھے – بطورِ مثال صرف تین اقتباسات مُلاحظہ ہوں :

 

  • ’’ہندو مذہب کی شناخت ذات پات ہے جو اس کے مذہبی اور سماجی نظاموں کی اساس ہے — اس کے برعکس دینِ اسلام انسانی مساوات کے تصوّر پر مبنی ہے‘‘ – (19جنوری 1940ء)
  • ’’ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف بہت گہرا اور نہ مٹنے والا ہے – ہم اپنے مخصوص کلچر، تہذیب، زبان وادب،آرٹ اور فنِ تعمیر کی بنا پر جداگانہ قوم ہیں ‘‘ – (جولائی1942ء)
  • ’’ہمارے ہندو دوست اسلام اور ہندو دھرم کی اصلیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں – یہ دونوں (صرف و صرف )مذہب (ہی) نہیں بلکہ حقیقت میں وہ دو مختلف اور ممیّز (یعنی ایک دوسرے سے جُدا ) سماجی نظام ہیں – یہ خیال خواب سے کم نہیں کہ مسلمان کبھی ہندوئوں کے ساتھ مشترک قومیت کے حامل ہوں گے -‘‘ (مارچ 1940ء)

آخری سٹیٹمنٹ (مارچ ۱۹۴۰ء والی ) میں قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اِس بات کا کھُل کر بیان کیا کہ ایک مخصوص طبقہ ہے جو مسلمانوں کو اپنے ساتھ ایک مشترک قوم دیکھنا اور رکھنا چاہتا ہے – آپ نے کیبنٹ مشن پلان کے اراکین کو بڑی واضح زُبان میں بتایا تھا کہ } {Unity of India was a myth کہ ہندوستان کا متحدہ ہونے کا تصور خیالی پلاؤ ہے کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ ہندوستان فطری طور پہ کبھی بھی متحدہ قُوّت نہیں رہا اِسے ہمیشہ کسی کے شمشیر زن ہاتھ نے متحد رکھّا – وہ ہاتھ گیا تو انڈیا پھر بکھر گیا – چندر گپتا موریا ہو یا اس کا پوتا اشوک ، فرغانہ کے مغُل ہوں یا ونڈزر کے فرنگی ، انڈیا ہمیشہ کسی شمشیر کی قُوّت سے ہی متحدہ رہا ہے – 

اِس لئے قائدِ اعظم کا مؤقف تھا کہ مغلوں کے بعد فرنگی یہاں کی سامراجی قُوّت تھے جنہوں نے اپنے مفاد کیلئے انڈیا کو متحد رکھّا آج جب وہ یہاں ’’قدیم الآباد‘‘ اور ’’کثیر التعداد‘‘ کے زُعم میں ایک خاص ذِہنیّت کو مُبتلا کر کے جا رہے ہیں تو کیا اب ہندوستان کی سامراجی وِحدت کو قائم رکھنے کا ذِمّہ اُن لوگوں کے پاس ہوگا جو اپنے سوا کسی بھی دوسرے مذہب خاص کر اسلام کو ’’خارجی‘‘ اور ’’دھرتی ماں پہ بوجھ‘‘ کہتے ہیں ؟ بھلا یہ بات کس طرح کسی بھی دانشمند قائد کیلئے قابلِ قبُول تھی؟ قائدِ اعظم انگریزوں اور پنڈتوں کے اندرونی اتحاد، گٹھ جوڑ اور سازشوں کو سمجھ گئے تھے اور جانتے تھے کہ یہ ہماری ثقافت کو زندہ نہیں چھوڑیں گے اِس لئے قائدِ اعظم کی سٹیٹ منٹس میں بہت مقامات پہ اسلامی ثقافت اور اِسلامی نظریّہ کو متحدہ ہندوستان میں درپیش خطرات پہ بات پائی جاتی ہے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا کہ قائدِ اعظم اور اُن کو عطا تائیدِ غیبی ہندوستان کی اِسلامی ثقافت کے دفاع کو وجُودِ پاکستان کی صُورت میں یقینی بنانا چاہتے تھے:  

 

  • ’’تم دونوں (انگریز اور ہندو) کبھی بھی ہمارے اسلامی کلچر کو برباد نہیں کرسکو گے جسے ہم نے ورثہ میں پایا ہے – اسلامی ثقافت کی روح تھی ، ہمیشہ زندہ رہی ہے اور یہ آئندہ بھی زندہ رہے گی‘‘- (22مارچ 1939ء)
  • ’’پاکستان نہ صرف ایک قابلِ عمل نصبُ العین ہے بلکہ اگر تم ہندوستان میں اسلامی نظریّہ کو مکمل طور پر نیست ونابود ہونے سے بچانے کے خواہش مند ہو تو یہی نصب العین (یعنی پاکستان) کام آئے گا ‘‘- ( 10 مارچ 1941 ء )

قائدِ اعظم دل و جان سے اِسلام کے عظیم مُجاہد اور خدمتگار تھے، اللہ تعالیٰ نے اُنہیں زندگی میں جو کچھ بھی سیکھنے کو دیا اور اُنہوں نے زندگی میں جو بھی پایا اُس کی بارگاہِ خُداوندی و بارگاہِ نبوی ﷺ میں قبولیّت کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ قائد نے اپنی ساری زندگی کی جمع پونجی اور تجربہ اِسلامیانِ ہند کی فلاح و بقا اور ان کے مُستقبل پہ صرف کردیا اور اپنی ذات یا اپنے خاندان کیلئے کچھ بھی بچا کر نہ رکھّا- اگر وہ خود غرض ہوتے اور دینِ اِسلام اور اس کے ماننے والوں کی حفاظت و محافظت اُن کا مطمعِ نظر نہ ہوتی تو آج کیا کچھ اُن کے خاندان کو حاصل نہ ہوتا؟ 

یہی فرق ہے پنڈت جواہر لال نہرو اور قائدِ اعظم کے اپنی قوم سے خلوص میں ! نہرو صاحب ہزار قابلِ احترام سہی مگر اپنے مُلک میں اِس قدر اپنا پرچار کیا اور اپنی اولاد کو دُنیا کی نام نہاد بڑی جمہوریّت کا سربراہ بنایا کہ کانگریس اُن کے خاندان کے بغیر چلنا تو کیا گھسٹنا بھی نہیں جانتی ، بھلے اُس کی سربراہی ایک غیر ہندوستانی اطالوی خاتون کے پاس ہی کیوں نہ ہو مگر وہ نہرو فیملی کا حصّہ ضرور ہونی چاہئے – 

جبکہ آج قائدِ اعظم کا خاندان کراچی میں گم نام زندگی بسر کرتا ہے ، قائد کی بیٹی سے تو اُن کا تعلُّق ایک غیر اسلامی خاندان میں شادی کے روز ہی ختم ہو گیا تھا اُس کے بعد قائد نے اپنی بیٹی کو اپنے مُلک آنے کی اجازت بھی نہ دی ، رہی بات بہن کی تو اُنہیں صرف ذاتی مُشاورت اور ذاتی خدمت پہ مامور رکھّا اور ریاستی امور میں مداخلت کی اجازت نہ دی – پنڈت جواہر لال نہرو اور قائدِ اعظم کی شخصیّت کے بہت سے پہلو ایسے ہیں جو ان کے تقابلی جائزے پہ مجبور کرتے ہیں ، تقابلی جائزہ کے بعد یہ اطمینان ہوجاتا ہے کہ ہمارے قائد کے عہد میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا –

صرف دو مثالیں :

(۱) ریلوے اسٹیشن پہ قائدِ اعظم کے ذاتی و قریبی دوست کی اہلیّہ اُتریں تو صحافیوں نے پوچھا کہ ’’جناح صاحب سے کن کن امور پہ بات ہوئی ‘‘؟ تو کہنے لگیں کہ ’’جناح بہت مغرور ہیں ، میرے میاں کے دوست ہیں مگر میرے ساتھ بات تک کرنا گوارا نہیں سمجھا ‘‘- قائدِ اعظم کے سامنے جب صحافیوں نے اُن کے مغرور ہونے کا ذکر کیا کہ خاتون اِس طرح فرما رہی تھیں تو قائد نے جواباً فرمایا : ’’جو خاتون بغیر شوہر کے سفر کر رہی ہو اُس سے کلام کرنا میرا وطیرہ نہیں ، مجھے بھلے وہ جو سمجھ لیں ‘‘ – اس کے بر عکس نہرو صاحب اور مسز ماؤنٹ بیٹن کے رنگین قصّے خود اُن کے معاصر برطانوی صحافیوں اور مصنفین نے بالتصدیق لکھے ہیں – سب سے بڑا فرق اِن دونوں میں شرافت اور شرم و حیا کا تھا – قائدِ اعظم شرافت اور شرم و حیا کے پیکر تھے –

(۲) قائدِ اعظم کے بدترین سیاسی مخالفین بھی اِس بات کا بلا جھجھک اعتراف کرتے تھے کہ قائدِ اعظم راست گو ہیں اور کسی بھی مجبوری کے تحت وعدہ خِلافی نہیں کرتے – جبکہ کشمیر کا مسئلہ نہرو صاحب خود اقوامِ متحدہ میں لیکر گئے اور وعدہ کیا کہ ’’حقِّ خود ارادیت‘‘ کے تحت ’’استصوابِ رائے‘‘ کا موقعہ کشمیریوں کو دیا جائے گا اور کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ریفرنڈم کے ذریعے کشمیری ہی کریں گے – اس کمٹمنٹ کے ڈیڑھ عشرہ بعد تک نہرو صاحب بھارت کے پردھان منتری رہے مگر کشمیریوں سے کئے گئے وعدے سے مُکر گئے ، اگر وہ واقعی قائدِ اعظم کے پائے کے لیڈر تھے تو اپنی زُبان کا ، اپنی کمٹمنٹ کا پاس کیوں نہ رکھ سکے – اگر اِس کو سیاسی چال کہہ کر دِفاع دِیا جائے تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا سیاست میں زبان نہیں ہوتی؟ گویا کمٹمنٹ سے مکر جانے جیسی غیر اَخلاقی و غیر شائستہ و غیر مہذّب روایات سے آدمی بڑا لیڈر بن جاتا ہے؟ اگر یہی ہے معیار لیڈری کا ، تو ، تُف ہے ایسی لیڈری پہ !

آمدم بر سرِ مطلب ! قائدِ اعظم کی جد و جہد اپنی ذات یا اپنے خاندان کیلئے نہ تھی بلکہ خالصتاً للہ تھی یعنی صرف رضائے الٰہی کیلئے تھی – اللہ تعالیٰ نے اُن کو اپنے دین کی خدمت کیلئے چُن لیا تھا جیسا کہ اقبال بھی فرماتے ہیں ’’چُن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم تیرا ‘‘- قائدِ اعظم کی ایک سٹیٹمنٹ بڑی دلچسپ ہے جس سے اُن کی اِسلام اور تاریخِ اِسلام پہ بڑی گہری نظر کا پتہ چلتا ہے جہاں وہ ’’اسلام‘‘ اور ’’اسلامی روح‘‘ کو دو الگ الگ تقاضوں میں بیان فرماتے ہیں – سٹیٹمنٹ کچھ یوں ہے کہ :

 

  • ’’ہر طرح کی سماجی حیاتِ نو اور آزادی کا کسی چیز پر ضرور دار و مدار ہونا چاہیے جو زندگی کے عمیق تر مفہوم کی حامل ہو – اگر آپ مجھے ایسا کہنے کی اجازت دیں تو میری نظر میں وہ چیز اسلام اور اسلامی روح ہے- ‘‘ (13نومبر 1939)

اگر اِس کو دو حصوں میں تقسیم کرکے دیکھیں تو پہلے حصہ سے قائد کا تصورِ پاکستان واضح ہوتا ہے کہ اگر ہم ایک مُلک لیتے ہیں تو اُس میں سماجی حیاتِ نو یعنی ایک نئی عمرانی زندگی کیسے شروع ہوگی ؟ اور اُس کا دار و مدار کس چیز پہ ہوگا ؟ نیز جو آزادی ہم لیں گے وہ زندگی کی گہرائیوں میں کس مفہوم کی حامل ہو گی؟ تو اِس کا جواب آپ نے دیا کہ وہ اِسلام اور رُوحِ اسلام ہیں ! جو پاکستان میں سماجی ڈھانچہ کی تنظیمِ نو کا سرچشمہ ہوگا اور وہ عمرانی مُعاہدہ جس پہ ریاست کے افراد متحد ہوں کر سماجی حیاتِ نو کا آغاز کریں گے وہ اسلام اور روحِ اسلامی ہیں – اور ہماری آزادی کا دار و مدار بھی انہی دو اجزا پہ ہوگا – اِس سے پہلے کہ میں سٹیٹمنٹ کے دوسرے حصہ پہ کچھ کہوں آزادی کے متعلق قائد کا وژن ایک مختصر اقتباس سے سمجھ لیں جو کہ ۱۹ جون ۱۹۴۵ء کو شائع ہوا تھا جس میں آپ نے فرمایا کہ :

 

  • ’’پاکستان کا مطلب صرف آزادی نہیں ، پاکستان کا مطلب صرف خود مختاری بھی نہیں بلکہ پاکستان کا مطلب اُس اِسلامی نظریّے کو محفوظ بنانا ہے جو اِس مُلک کے اندر ہے ‘‘- (19 جون 1945 )

تو آپ نے واضح فرمایا کہ ہم آزادیٔ محض یا آزادیٔ خطّۂ زمین کیلئے نہیں لڑ رہے بلکہ ہم اِسلامی نظریّہ کو محفوظ بنانے کیلئے آزادی چاہتے ہیں – ۱۳ نومبر ۱۹۳۹ء والی سٹیٹمنٹ کا دوسرا حصّہ یہ واضح کرتا ہے کہ بظاہر ایک نظر آنے والی دو چیزیں گہرائی میں دیکھیں تو مختلف ہیں (۱) اسلام اور (۲) اِسلامی رُوح – اسلام تو وہ دین ہے جس کے ہم سب پیروکار ہیں جو کہ قرآن کریم اور سُنّتِ رسول ﷺ میں بیان کردیا گیا ہے – جس کے بعض اَحکام اوامر ہیں اور بعض نواہی اور اُس کی دیگر تمام تفصیلات چاہے وہ قانونی ہوں ، معاشی ہوں ، سماجی ہوں ، سیاسی ہوں ، مذہبی ہوں ، انفرادی ہوں یا اجتماعی – اہم بات سمجھنے کی ہے کہ قائد نے ’’رُوحِ اِسلامی‘‘ کو ممیّز و ممتاز کر کے کیوں پیش کیا ؟ 

اِس لئے کہ اِسلام کو ماننے والا ہونا ایک الگ بات ہے اور رُوحِ اِسلامی سے سرشار ہونا ایک الگ بات ہے – لازمی نہیں کہ اِسلام کا ہر ماننے والا رُوحِ اسلامی یعنی اسلامی جذبہ و اسلامی عزم سے بھی سرشار ہو ، اب یہ سوال کہ روحِ اسلامی یا اسلامی جذبہ سے کیا مُراد ہے ؟ تو یہ خود آقائے دوجہاں رحمتِ دوعالَم ﷺ کے عملِ مُبارک، عملِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور طریقِ اہلبیت رضی اللہ عنھم اجمعین سے واضح ہے کہ دین کی تنفیذ و تطبیق، دین کا عملی نفاذ و اِطلاق ہر صُورت یقینی بنانا اور افرادِ مُعاشرہ کی ان خطوط پہ تربیّت کرنا کہ وہ قانونِ اِسلامی کے دل و جان سے پابند ہو جائیں اور اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے احکامات سے متصادم کسی بھی چیز کو خاطر میں نہ لائیں – 

دین کا صحیح درد رکھتے ہوں اور مُجاہدانہ زندگی گزارنے پہ یقین رکھتے ہوں چاہے وہ جہاد دین کے کسی بھی پہلو سے متعلّق ہو – اگر قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی اپنی ذات سے اس ’’اسلامی رُوح‘‘ کی مثال پیش کروں تو بات بہت طویل ہو جائے گی ، اِختصار کرتے ہوئے صرف دو مثالیں دیتا چلوں –

(۱) ہندوستان کے مُسلمانوں کا کیا جُغرافیائی و معاشی مفاد فلسطین کے ساتھ وابستہ ہے ؟ اِس کی وجہ صرف و صرف قبلۂ اوّل اور وہاں کے مسلمان ہیں ! قائدِ اعظم کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ کے زیرِ اہتمام ۲۶ اگست ۱۹۳۸ء کو پورے ہندوستان میں فلسطینی مسلمانوں کی حمایت میں ’’یومِ فلسطین‘‘ منایا گیا اور ہزاروں مجالس اور سینکڑوں عوامی مظاہرے کئے گئے – ۲۳ جنوری ۱۹۴۶ء کو قائدِ اعظم کا ایک بیان شائع ہوا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’’اِسلامی رُوح‘‘ یا اسلامی جذبہ کسے کہتے ہیں :

٭ ’’اگر برطانیہ کی جانب سے فلسطین کے متعلّق قرطاسِ ابیض (یعنی وائیٹ پیپر) میں اعلان کردہ حِکمتِ عملی سے اِنحراف ہوا تو مسلمانانِ ہند (فلسطینی مسلمانوں پہ اس مشکل وقت میں) خاموش تماشائی بنے نہیں رِہ سکتے – اِسلامیانِ ہند ہر مُمکن طریقے سے فلسطینیوں کی حمایت کریں گے ‘‘- (23 جنوری 1946)

(۲) ۱۹۴۵ء میں جبکہ پاکستان ابھی معرضِ وجود میں نہیں آیا تھا ہندوستان کے مُسلمانوں کا کیا جُغرافیائی و معاشی مفاد انڈونیشیا کے ساتھ وابستہ تھا ؟ انڈونیشیا کے مسلمان نوآبادیاتی نظام کے خلاف اور اپنی آزادی کے حق میں جب لڑ رہے تھے اور کثیر تعداد میں مسلمانوں کی شہادتوں کی خبریں ہندوستان میں آرہی تھیں تو قائدِ اعظم سے برداشت نہ ہوسکا – آپ نے انڈونیشیا کے مظلوم مسلمان بھائیوں کی عملی مدد کا اعلان کیا جس پہ برٹش انڈین آرمی سے چھ سو مسلمان سپاہیوں نے فوجی ملازمت چھوڑ کر انڈونیشیا میں مسلمان بھائیوں کی مدد پرلبیک کہا، انڈونیشیا کی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق پانچ سو سپاہی شہید ہوئے اور ایک سو سپاہی زندہ بچ گئے جن میں سے کچھ واپس ہندوستان آگئے اور کچھ وہیں انڈونیشیا ہی میں رِہ گئے – 

یاد رہے یہ اُس وقت کا واقعہ ہے جب قائدِ اعظم کسی ریاستی عُہدہ پر نہ تھے اور نہ ہی ابھی تک پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا – اِس کو کہتے ہیں ’’اِسلامی رُوح‘‘- کہ زخم انڈونیشیا کے مسلمانوں کو لگے مگر لہُو قائدِ اعظم کو اپنے جسم سے بہتا ہوا محسوس ہوا ، انڈونیشیا کے لوگوں کا درد اپنے جسم پہ محسوس ہوا اور برداشت نہ کر سکے اور اُن کی مدد کیلئے یہاں سے عملی طور پہ مجاہدین ِ اِسلام کو روانہ فرمایا – ۱۷ / اگست ۱۹۹۵ء کو جب انڈونیشیا نے آزادی کی پچاسویں سالگرہ (گولڈن جوبلی) منائی تو قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے جذبۂ اِسلامی کے تحت انڈونیشین بھائیوں کی مدد کرتے ہوئے بچ جانے والے اُن ہندوستانی مسلمان سپاہیوں (جو ۱۹۹۷ء میں زندہ تھے) کو انڈونیشیا کے سب سے بڑے فوجی اعزاز سے نوازا گیا – اِس کے ساتھ ساتھ حکومتِ انڈونیشیا کی جانب سے حضرت قائد اعظم رحمہ اللہ علیہ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے انڈونیشیا کا سب سے بڑا اعزاز“Adipura”   پیش کیا گیا –

اختتام کرنے سے قبل مختصراً یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ آج کے ہمارے معروضی حالات پہ قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ ہمیں کیا نصیحت فرماتے نظر آتے ہیں – آج پاکستان کے بڑے بڑے مسائل میں ایک سب سے بڑا مسئلہ تقسیم در تقسیم کا عمل ہے چاہے وہ فرقہ وارانہ و مسلکی ہو ، چاہے لسابی ہو ، صوبائی ہو یا علاقائیّت کی بُنیاد پہ ، اِس تقسیم نے ہمیں اندر سے بہت رنجور کر رکھّا ہے – مضبوط پاکستان کی ضمانت ہے مضبوط قومی اتحاد و یکجہتی – اگر فرقہ وارانہ ہم آہنگی ممکن نہیں رہی تو کم از کم یہ ممکن ضرور ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات کو ختم کیا جائے اور لسانی و علاقائی بُنیادوں پہ ملک میں تقسیم کی باتوں اور مطالبوں کو مسترد کیا جائے – وہ عمرانی مُعاہدہ جس پہ ۴۷ء میں ہم اکٹھے ہوئے تھے آج بھی وہی ہماری بقا کی ضمانت ہے – بزبانِ قائد :

  • ’’تمہیں اپنے جزوی مفادات اور باہمی رقابتوں کو ترک کرنا چاہیے – علاوہ ازیں تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم چھوٹی چھوٹی باتوں،معمولی جھگڑوں اور قبائلی خیالات کو چھوڑدو‘‘- (4جولائی 1943ء)
  • ’’تم گروہی مفادات، باہمی رقابتوں، قبائلی تصوّرات اور خود غرضی کی جگہ اسلام اور قوم کی محبت میں سرشار ہو جائو – ان برائیوں نے تمہیں مغلوب کرکے گذشتہ دو سوسالوں میں پست کردیا ہے – ‘‘ (24اپریل 1943ء)

 

 

٭٭٭