-پاکستان کا اگر سیرت النبی (ﷺ) کے تناظر میں مُطالعہ کیا جائے تو بہت سے حیرت انگیز پہلُو نکلتے ہیں جو بڑی مفید اور کار آمد راہنمائی فراہم کرتے ہیں۔۔۔
صوفی کو کیسا ہونا چاہیے؟
متعلقہ لنکس
دُنیائے فلسفہ میں اسطورات کا عظیم باغی ، فلسفۂ یونان کا بانی اور افلاطون و ارسطو کا اُستاد ’’سقراط‘‘ ایک سنگ تراش کا بیٹا تھا اور پیدائشی طور پہ بے۔۔۔
کثیر الجہت و مافوق الفطرت داستانوں سے مزین تاریخِ جموں و کشمیر بہت پرانی ہے-جدید کشمیر کی تاریخ جغرافیائی، سماجی، سیاسی و مذہبی اعتبار سے 1864ء کے بد نام زمانہ۔۔۔
اکیسویں صدی جہاں سائنسی ترقی و مادی ترقی کے عروج کا مشاہدہ کر رہی ہے وہیں بدقسمتی سے اِسے اخلاقی اور روحانی زوال بھی پیش ہے-انسانی معاشرے بحیثیت مجموعی اخلاقی اقدار۔۔۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے خانوادۂ عالیہ میں جن نفوس قدسیہ کو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے چشمۂ فیضانِ سلطان العارفین کے جاری رہنے کی دلیل کہا جاتا ہے...
جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُوؒ نے اپنی ایک تصنیف میں فرمایا کہ: ’’یہ محبت ہی ہے جو دل کو آرام نہیں کرنے دیتی ورنہ کون ہے جو آسودگی نہیں چاہتا ‘‘-
تصوف کا اشتقاق مادہ ’’صوف‘‘سےبابِ تفعل کا مصدر ہے- اُس کے معنی ’’اون‘‘کے ہیں- لغویت کے لحاظ سے اون کا لباس عادتاً زیبِ تن کرنا ہے- لفظ صوف کی جمع ’’اصواف‘‘ ہے...
تصوف یا صوفی ازم اسلامی تہذیب و ثقافت کی اساسیات اور علومِ دینیہ کے اہم ترین موضوعات میں سے ہے جس کے مبادی، منابع اور مآخذ قرآن و سنت سے ثابت ہیں...
آج جس موضوع پہ گزارشات بیان کرنے جا رہا ہوں وہ ایک خالص علمی موضوع ہے جس کا تعلق براہ راست ہماری دینی اور ملی زندگی سے ہے- کیونکہ اس کے ساتھ ہماری روحیں جڑی ہیں؛
آج جس موضوع پہ چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا عوام و خواص کیلئے گو کہ وہ نیا نہیں ہے - مزید یہ کہ اس کے جس خاص پہلو کی جانب آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہوں گا وہ پہلو اہل علم کے ہاں تو اجنبی نہیں ہوگا لیکن عامۃ الناس میں بہت کم لوگ اس سے واقف ہوں گے-
دسمبر 2020
افسوس!ہمارے ہاں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کی عظمت میں فقط ایک ہی پہلو اجاگر کیا جاتا ہے اور وہ بھی صرف آپ(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کی کرامت تک آپ(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کی ذات کو محدود کیا جاتا ہے-اُس میں کوئی شک اور شُبہ نہیں ہے کہ شاہ ولی اللہ محدّثِ دہلوی سے ابنِ حجر عسقلانی تک اور اُن سے بھی قبل سینکروں اجل و معتبر آئمۂ دین نے حضور پیرانِ پیر(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کے خوارق و کرامات کو بر حق کہا ہے -اس کے علاوہ حضور غوث پاک (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کی ذاتِ اقدس کے باقی جتنے بھی پہلو ہیں ان کی جانب کبھی ہم نے غور ہی نہیں کیا-حالانکہ آپ(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کے سلسلہِ کرامت کے علاوہ بھی بے شمار اَوصاف و کمالات ہیں-
اگر آپ علمی اَوصاف کو دیکھنا چاہیں تو آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کے کمالاتِ علمی کو ہم چار حصوں میں تقسیم کر کے ایک جائزہ لے سکتے ہیں کہ آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کا کیا مقام ہے –
- آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کا فقہی مقام –
- تفسیرِ قرآن میں آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کا مقام –
- علمِ حدیث میں آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کا مقام –
- تربیتِ اَولاد کا ذوق –
یاد رہے کہ آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کا علمِ تصوّف و رُوحانیت، فقر و وِلایَت ، علم الاخلاق ، فصاحت و بلاغت ، شعر و ادب اور دیگر فنون مثلاً علم الکلام ، منطق ، فلسفہ و حِکمت اِس کے علاوہ ہیں ، اختصار کے پیشِ نظر یہاں صرف اوّل الذکر مذکورہ چار کمالات پہ جائزہ پیش کیا جائے گا –
غوثِ پاک (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کا فقہی مقام :
امام ذَہبی(رح) نے امام السمعانی (رح)کے حوالہ سے ’’سِیَر اَعلام النُبَلا‘‘ میں درج کیا ہے کہ :
’’کان عبد القادر من اہل الجیلان امام الحنابلہ و شیخھم فی عصرہ‘‘ [1]
’’ عبد القادر الجیلانی ؓ اپنے زمانہ میں فقہ حنبلی کے امام اور (سب سے بڑے) شیخ تھے ‘‘-
فقہ میں آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کے تلامذہ میں سے عظیم ترین لوگ ہو گزرے ہیں مثلاً :ابن قُدامہ المقدسی ، عبد اللہ الجبائی ، ابو الفتح بن المُنیٰ (حضور غوث پاک کے وِصال کے بعد ابو الفتح بن المُنیٰ حنابلہ کے امام بنے) –
تفسیرِ قرآن میں غوث پاک (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کا مقام :
آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کے متعلق قرآن کے تفسیری نکات پہ ایسے ایسے واقعات و تفاصیل کو بیان کیا ہے کہ آدمی کی عقل حیران و شَشْدَر رہ جاتی ہے – مثلاً ایک مرتبہ بغداد کے عظیم علماء آپ(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کے وعظ میں بیٹھے تھے،آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)نے ایک آیت مبارکہ پہ تفسیری توجیہات فرمانا شروع کیں ،گیارہ (۱۱) تاویلات تک تو علمائے بغداد واقف تھے اس کے بعد سب کے علم جواب دے گئے -آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)نے اُس آیت کریمہ کی چالیس تاویلات (بمع راویوں کے) پیش فرمائیں اور ہر تاویل پہ اہلِ مجلس پہ رقت و گریہ کی کیفیت ہو جاتی -جب آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) نے اس ایک آیت کی مکمل چالیس تاویلیں ذکر کرنے کے بعد یہ فرمایا کہ اب ہم اس آیت کے قال سے حال کی طرف آتے ہیں تو اہلِ مجلس میں ہر ایک پہ شدتِ گریہ و وجد کی وجہ سے دیوانگی کی سی کیفیات طاری ہو گئیں-
آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) نے قرآن پاک کی دو تفاسیر لکھیں ہیں-
- تفسیر مسک الختام
- تفسیر الجیلانی ( ’تفسیر الجیلانی چھ جلدوں پر مشتمل ہے-)
غوثِ پاک (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کا علمِ حدیث میں مقام:
حدیثِ پاک میں آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کا مقام کبھی بھی آپ(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کے مریدینِ ہند و پاک میں بیان نہیں کیا گیا –
امام سیوطی (رح) نے ’’طبقات الحفاظ‘‘ میں ، امام ذہبی (رح) نے ’’ تذکرۃ الحفاظ‘‘ میں اور محمد بن یحیٰ التاذفی نے ’’قلائد الجواہر‘‘ میں آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کو ’’حافظ الحدیث‘‘ لکھا ہے- عامۃ الناس کی معلومات کے لئے عرض کردوں کہ حافظ الحدیث اُسے کہتے ہیں جسے متن و اسناداور راویوں کے مکمل اَحوال، جرح و تعدیل و تاریخ کے ساتھ کم سے کم ایک لاکھ احادیث یاد ہوں – امام ذَہبی (رح) نے ’’المعین فی طبقات المحدثین‘‘ میں حضور غوث الثقلین(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کو (۱۸۲۲ نمبر پہ) ۵۵۰ھ کے مشائخ الحدیث میں شمار کیا ہے – امام ابنِ رجب حنبلی (رح) نے ’’ذیل طبقات حنابلہ‘‘ میں اور امام ذَہبی (رح) نے ’’سِیَر اَعلام النُبَلا‘‘ میں آپ(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) سے روایتِ حدیث کرنے والے شیوخ کی کثیر تعداد بیان کی ہے –
(۴) تربیتِ اولاد کا ذوق:
یہ بھی آپ(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کی شخصیت کا ایک ایسا پہلو ہے جو آپ(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) سے اپنی نسبت کو منسوب کرتے ہوئے ہمیں سوچنے پہ مجبور کر دیتا ہے کہ کیا آپ(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کی نسبت سے ہم پہ یہ فریضہ عائد نہیں ہوتا ؟ دوسری اہم بات یہ سامنے آتی ہے کہ آپ(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کے فرزندان ایسے صوفی ہیں جو براہِ راست نگاہِ غوث الاعظم(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)سے تیار ہوئے ، اُن کی زندگیوں کی ایک جھلک دیکھ کر ہمیں اندازہ ہو جائے گا کہ حضور غوثِ پاک(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کی نظر میں صحیح صوفی کون ہے ؟اور صُوفی کو کیسا ہونا چاہئے ؟
سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کے دس میں سے آٹھ (۸)شہزادگان فقیہ ، محدث ، مدرس ، مجاہد اور فقیر ہوئے – تیسرے فرزند سیدی عبد العزیز بن عبد القادر الجیلانی (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) نے صلاح الدین ایوبی کے ہمراہ فتحِ بیت المقدس کے لئے جہاد فرمایا – سیدی عبد الوہاب بن عبد القادر(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) نے اپنے والدِ گرامی کی وعظ ، فتویٰ اور تدریس کی مسند سنبھالی- سیدی شیخ عبد الرزاق (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کو بھی امام ذہبی(رح) نے ’’سِیَر اَعلام النُبَلا‘‘ میں ’’حافظ‘‘ لکھا ہے اور ’’المعین فی طبقات المحدثین‘‘ میں (۱۹۹۴ نمبرشمار پہ) ۶۲۵ھ کے مشائخ الحدیث میں شمار کیا ہے ، جبکہ آپ(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کے فرزند العماد نصر بن عبد الرزاق بن عبد القادر الجیلانی (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کو بھی( ۲۱۰۰ نمبر شمار پہ) بغداد کے عظیم مشائخ الحدیث میں شمار کیا گیا ہے – اِسی کتابِ مذکورہ میں سیدی شیخ موسیٰ بن عبد القادر(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کو( ۲۰۳۲ نمبر پہ) مشائخ الحدیث میں ذکر کیا گیا ہے – ’’اَلعِبر فی خبر مَن غَبَر‘‘ میں امام ذَہبی(رح) نے سیدی شیخ موسیٰ بن عبد القادر(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کے تلامذہ کی کثیر تعداد بیان کی ہے،حضور غوث پاک (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کے آٹھ (۸)شہزادگان نے بغداد، دمشق، مصر اور واسط وغیرہ میں تدریس فرمائی- ’’ذیل طبقاتِ حنابلہ‘‘ میں امام ابن رجب حنبلی(رح) فرماتے ہیں کہ حضور غوث پاک(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کے پوتے اور پڑپوتے العماد نصر بن عبد الرزاق(رح) اور محمد بن نصر بن عبد الرزاق(رح) بالترتیب قاضی القُضاۃ (چیف جسٹس)کے مناصب پہ فائز رہے ، محمد بن نصر بن عبد الرزاق بن عبد القادر الجیلانی(رح) نے منصبِ قضا کو بعد ازاں ترک فرمایا اور اپنے پردادا جان کی مسندِ تدریس پہ بیٹھے اور حدیث و فقہ کی تدریس فرمائی –
یہ ہے ایک معمولی سی جھلک سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کے فیضانِ علمی کی جس سے ہمیں معلوم کرنے میں شک نہیں رِہ جاتا کہ طریقِ عالیہ قادریہ کے بانی کے طرزِ عمل کے مطابق ایک صُوفی کو کیسا ہونا چاہئے – سرکس لگوانے والے ، بھنگوں کے رگڑے اور ملنگوں کے بھنگڑے ڈلوانے والے، زیارت کے بہانے مرد و زن کا اختلاط رکھنے والے ، عظیم المرتبت صوفیا ءکے عرسوں کے نام پہ ہونے والی تقریبات میں کتوں کی لڑائیاں اور اِس طرح کے دیگر ظالمانہ کھیل رچانے والے بھلا صوفی کہلانے کے کس طرح حقدار ہو سکتے ہیں ؟ اُن کا طریقِ تصوف سے کیا تعلق ہو سکتا ہے ؟ اَفسوس کی بات یہ ہے کہ آج جو روایتی صوفی،پیر ی و مرید ی کا طریق ہمارے معاشرے میں رائج ہے اُن کا دور دور تک صوفیاء کرام اور علمِ تصوّف سےتعلق نہیں ہے-کیونکہ حقیقت میں صوفی، پیر، مرشد تو وہ ہے جس کے ظاہر و باطن سے قرآن مجید اور سنّتِ رسول (ﷺ) کا عملی نفاذ ہو-
[1]( سیر اعلام النبلا)
|
’’صوفی کوکیسا ہونا چاہیے؟‘‘ (غوث الاعظم ()کی سیرت کی روشنی میں)
صاحبزادہ سلطان احمد علی |
(نوٹ: یہ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کے حالیہ ’’میلادِ مصطفٰے و حق باھُو کانفرنس‘‘ کے سلسلہ کے دوران ۱۳، جنوری بروز جمعہ جھنگ سٹی میں کئے گئے خطاب کی ڈسکرپشن کا مختصر حصہ ہے، یہ خطابِ لاجواب انشاء اللہ عزوجل جلد ہی بالتفصیل شائع ہوگا- )ادارہ)
افسوس!ہمارے ہاں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کی عظمت میں فقط ایک ہی پہلو اجاگر کیا جاتا ہے اور وہ بھی صرف آپ(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کی کرامت تک آپ(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کی ذات کو محدود کیا جاتا ہے-اُس میں کوئی شک اور شُبہ نہیں ہے کہ شاہ ولی اللہ محدّثِ دہلوی سے ابنِ حجر عسقلانی تک اور اُن سے بھی قبل سینکروں اجل و معتبر آئمۂ دین نے حضور پیرانِ پیر(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کے خوارق و کرامات کو بر حق کہا ہے -اس کے علاوہ حضور غوث پاک (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کی ذاتِ اقدس کے باقی جتنے بھی پہلو ہیں ان کی جانب کبھی ہم نے غور ہی نہیں کیا-حالانکہ آپ(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کے سلسلہِ کرامت کے علاوہ بھی بے شمار اَوصاف و کمالات ہیں-
اگر آپ علمی اَوصاف کو دیکھنا چاہیں تو آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کے کمالاتِ علمی کو ہم چار حصوں میں تقسیم کر کے ایک جائزہ لے سکتے ہیں کہ آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کا کیا مقام ہے –
v آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کا فقہی مقام –
v تفسیرِ قرآن میں آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کا مقام –
v علمِ حدیث میں آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کا مقام –
v تربیتِ اَولاد کا ذوق –
یاد رہے کہ آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کا علمِ تصوّف و رُوحانیت، فقر و وِلایَت ، علم الاخلاق ، فصاحت و بلاغت ، شعر و ادب اور دیگر فنون مثلاً علم الکلام ، منطق ، فلسفہ و حِکمت اِس کے علاوہ ہیں ، اختصار کے پیشِ نظر یہاں صرف اوّل الذکر مذکورہ چار کمالات پہ جائزہ پیش کیا جائے گا –
غوثِ پاک (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کا فقہی مقام :
امام ذَہبی ()نے امام السمعانی ()کے حوالہ سے ’’سِیَر اَعلام النُبَلا‘‘ میں درج کیا ہے کہ :
’’کان عبد القادر من اہل الجیلان امام الحنابلہ و شیخھم فی عصرہ‘‘ [1]
’’ عبد القادر الجیلانی ؓ اپنے زمانہ میں فقہ حنبلی کے امام اور (سب سے بڑے) شیخ تھے ‘‘-
فقہ میں آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کے تلامذہ میں سے عظیم ترین لوگ ہو گزرے ہیں مثلاً :ابن قُدامہ المقدسی ، عبد اللہ الجبائی ، ابو الفتح بن المُنیٰ (حضور غوث پاک کے وِصال کے بعد ابو الفتح بن المُنیٰ حنابلہ کے امام بنے) –
تفسیرِ قرآن میں غوث پاک (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کا مقام :
آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کے متعلق قرآن کے تفسیری نکات پہ ایسے ایسے واقعات و تفاصیل کو بیان کیا ہے کہ آدمی کی عقل حیران و شَشْدَر رہ جاتی ہے – مثلاً ایک مرتبہ بغداد کے عظیم علماء آپ(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کے وعظ میں بیٹھے تھے،آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)نے ایک آیت مبارکہ پہ تفسیری توجیہات فرمانا شروع کیں ،گیارہ (۱۱)تاویلات تک تو علمائے بغداد واقف تھے اس کے بعد سب کے علم جواب دے گئے -آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)نے اُس آیت کریمہ کی چالیس تاویلات (بمع راویوں کے)پیش فرمائیں اور ہر تاویل پہ اہلِ مجلس پہ رقت و گریہ کی کیفیت ہو جاتی -جب آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)نے اس ایک آیت کی مکمل چالیس تاویلیں ذکر کرنے کے بعد یہ فرمایا کہ اب ہم اس آیت کے قال سے حال کی طرف آتے ہیں تو اہلِ مجلس میں ہر ایک پہ شدتِ گریہ و وجد کی وجہ سے دیوانگی کی سی کیفیات طاری ہو گئیں-
آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) نے قرآن پاک کی دو تفاسیر لکھیں ہیں-
v تفسیر مسک الختام
v تفسیر الجیلانی
تفسیر الجیلانی چھ جلدوں پر مشتمل ہے-
غوثِ پاک (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کا علمِ حدیث میں مقام:
حدیثِ پاک میں آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کا مقام کبھی بھی آپ(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کے مریدینِ ہند و پاک میں بیان نہیں کیا گیا –
امام سیوطی ()نے ’’طبقات الحفاظ‘‘ میں ، امام ذہبی ()نے ’’ تذکرۃ الحفاظ‘‘ میں اور محمد بن یحیٰ التاذفی نے ’’قلائد الجواہر‘‘ میں آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کو ’’حافظ الحدیث‘‘ لکھا ہے – عامۃ الناس کی معلومات کے لئے عرض کردوں کہ حافظ الحدیث اُسے کہتے ہیں جسے متن و اسناداور راویوں کے مکمل اَحوال، جرح و تعدیل و تاریخ کے ساتھ کم سے کم ایک لاکھ احادیث یاد ہوں – امام ذَہبی ()نے ’’المعین فی طبقات المحدثین‘‘ میں حضور غوث الثقلین(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کو (۱۸۲۲ نمبر پہ) ۵۵۰ھ کے مشائخ الحدیث میں شمار کیا ہے – امام ابنِ رجب حنبلی ()نے ’’ذیل طبقات حنابلہ‘‘ میں اور امام ذَہبی ()نے ’’سِیَر اَعلام النُبَلا‘‘ میں آپ(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)سے روایتِ حدیث کرنے والے شیوخ کی کثیر تعداد بیان کی ہے –
(۴) تربیتِ اولاد کا ذوق:
یہ بھی آپ(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کی شخصیت کا ایک ایسا پہلو ہے جو آپ(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) سے اپنی نسبت کو منسوب کرتے ہوئے ہمیں سوچنے پہ مجبور کر دیتا ہے کہ کیا آپ(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کی نسبت سے ہم پہ یہ فریضہ عائد نہیں ہوتا ؟ دوسری اہم بات یہ سامنے آتی ہے کہ آپ(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کے فرزندان ایسے صوفی ہیں جو براہِ راست نگاہِ غوث الاعظم(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)سے تیار ہوئے ، اُن کی زندگیوں کی ایک جھلک دیکھ کر ہمیں اندازہ ہو جائے گا کہ حضور غوثِ پاک(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کی نظر میں صحیح صوفی کون ہے ؟اور صُوفی کو کیسا ہونا چاہئے ؟
سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کے دس میں سے آٹھ (۸)شہزادگان فقیہ ، محدث ، مدرس ، مجاہد اور فقیر ہوئے – تیسرے فرزند سیدی عبد العزیز بن عبد القادر الجیلانی (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)نے صلاح الدین ایوبی کے ہمراہ فتحِ بیت المقدس کے لئے جہاد فرمایا – سیدی عبد الوہاب بن عبد القادر(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)نے اپنے والدِ گرامی کی وعظ ، فتویٰ اور تدریس کی مسند سنبھالی- سیدی شیخ عبد الرزاق (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کو بھی امام ذہبی() نے ’’سِیَر اَعلام النُبَلا‘‘ میں ’’حافظ‘‘ لکھا ہے اور ’’المعین فی طبقات المحدثین‘‘ میں (۱۹۹۴ نمبرشمار پہ) ۶۲۵ھ کے مشائخ الحدیث میں شمار کیا ہے ، جبکہ آپ(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کے فرزند العماد نصر بن عبد الرزاق بن عبد القادر الجیلانی (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کو بھی( ۲۱۰۰ نمبر شمار پہ) بغداد کے عظیم مشائخ الحدیث میں شمار کیا گیا ہے – اِسی کتابِ مذکورہ میں سیدی شیخ موسیٰ بن عبد القادر(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کو( ۲۰۳۲ نمبر پہ) مشائخ الحدیث میں ذکر کیا گیا ہے – ’’اَلعِبر فی خبر مَن غَبَر‘‘ میں امام ذَہبی()نے سیدی شیخ موسیٰ بن عبد القادر(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کے تلامذہ کی کثیر تعداد بیان کی ہے،حضور غوث پاک (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کے آٹھ (۸)شہزادگان نے بغداد، دمشق، مصر اور واسط وغیرہ میں تدریس فرمائی – ’’ذیل طبقاتِ حنابلہ‘‘ میں امام ابن رجب حنبلی() فرماتے ہیں کہ حضور غوث پاک(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کے پوتے اور پڑپوتے العماد نصر بن عبد الرزاق()اور محمد بن نصر بن عبد الرزاق() بالترتیب قاضی القُضاۃ (چیف جسٹس)کے مناصب پہ فائز رہے ، محمد بن نصر بن عبد الرزاق بن عبد القادر الجیلانی () نے منصبِ قضا کو بعد ازاں ترک فرمایا اور اپنے پردادا جان کی مسندِ تدریس پہ بیٹھے اور حدیث و فقہ کی تدریس فرمائی –
یہ ہے ایک معمولی سی جھلک سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)کے فیضانِ علمی کی جس سے ہمیں معلوم کرنے میں شک نہیں رِہ جاتا کہ طریقِ عالیہ قادریہ کے بانی کے طرزِ عمل کے مطابق ایک صُوفی کو کیسا ہونا چاہئے – سرکس لگوانے والے ، بھنگوں کے رگڑے اور ملنگوں کے بھنگڑے ڈلوانے والے، زیارت کے بہانے مرد و زن کا اختلاط رکھنے والے ، عظیم المرتبت صوفیا ءکے عرسوں کے نام پہ ہونے والی تقریبات میں کتوں کی لڑائیاں اور اِس طرح کے دیگر ظالمانہ کھیل رچانے والے بھلا صوفی کہلانے کے کس طرح حقدار ہو سکتے ہیں ؟ اُن کا طریقِ تصوف سے کیا تعلق ہو سکتا ہے ؟ اَفسوس کی بات یہ ہے کہ آج جو روایتی صوفی،پیر ی و مرید ی کا طریق ہمارے معاشرے میں رائج ہے اُن کا دور دور تک صوفیاء کرام اور علمِ تصوّف سےتعلق نہیں ہے-کیونکہ حقیقت میں صوفی، پیر، مرشد تو وہ ہے جس کے ظاہر و باطن سے قرآن مجید اور سنّتِ رسول (ﷺ) کا عملی نفاذ ہو-
٭٭٭
[1]( سیر اعلام النبلا)
٭٭٭