-پاکستان کا اگر سیرت النبی (ﷺ) کے تناظر میں مُطالعہ کیا جائے تو بہت سے حیرت انگیز پہلُو نکلتے ہیں جو بڑی مفید اور کار آمد راہنمائی فراہم کرتے ہیں۔۔۔
غیب پہ اطلاع
متعلقہ لنکس
دُنیائے فلسفہ میں اسطورات کا عظیم باغی ، فلسفۂ یونان کا بانی اور افلاطون و ارسطو کا اُستاد ’’سقراط‘‘ ایک سنگ تراش کا بیٹا تھا اور پیدائشی طور پہ بے۔۔۔
کثیر الجہت و مافوق الفطرت داستانوں سے مزین تاریخِ جموں و کشمیر بہت پرانی ہے-جدید کشمیر کی تاریخ جغرافیائی، سماجی، سیاسی و مذہبی اعتبار سے 1864ء کے بد نام زمانہ۔۔۔
اکیسویں صدی جہاں سائنسی ترقی و مادی ترقی کے عروج کا مشاہدہ کر رہی ہے وہیں بدقسمتی سے اِسے اخلاقی اور روحانی زوال بھی پیش ہے-انسانی معاشرے بحیثیت مجموعی اخلاقی اقدار۔۔۔
افسوس!ہمارے ہاں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کی عظمت میں فقط ایک ہی پہلو اجاگر کیا جاتا ہے۔۔۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے خانوادۂ عالیہ میں جن نفوس قدسیہ کو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے چشمۂ فیضانِ سلطان العارفین کے جاری رہنے کی دلیل کہا جاتا ہے...
تصوف کا اشتقاق مادہ ’’صوف‘‘سےبابِ تفعل کا مصدر ہے- اُس کے معنی ’’اون‘‘کے ہیں- لغویت کے لحاظ سے اون کا لباس عادتاً زیبِ تن کرنا ہے- لفظ صوف کی جمع ’’اصواف‘‘ ہے...
تصوف یا صوفی ازم اسلامی تہذیب و ثقافت کی اساسیات اور علومِ دینیہ کے اہم ترین موضوعات میں سے ہے جس کے مبادی، منابع اور مآخذ قرآن و سنت سے ثابت ہیں...
آج جس موضوع پہ چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا عوام و خواص کیلئے گو کہ وہ نیا نہیں ہے - مزید یہ کہ اس کے جس خاص پہلو کی جانب آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہوں گا وہ پہلو اہل علم کے ہاں تو اجنبی نہیں ہوگا لیکن عامۃ الناس میں بہت کم لوگ اس سے واقف ہوں گے-
پاکستان دُنیا کی نظر میں ایک جغرافیہ ہے، ایک خطۂ زمین ہے، ایک مملکت ہے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے کے اندر یہ اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا راز ہے پاکستان کا وجود خالصتاً رُوحانی وجود ہے۔
مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی
مئی 2020
میرے بھائیو اور بزرگو! یہ ایک سعادت کی علامت ہوتی ہے کہ جب بندہ آرام کو چھوڑ کر اللہ کے لیے نکلتا ہے-جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُوؒ نے اپنی ایک تصنیف میں فرمایا کہ:
محبت است کہ یکدم نمی دِھَد آرام
وگرنہ کیست کہ آسُودگی نمی خواھَد (عین الفقر)
’’یہ محبت ہی ہے جو دل کو آرام نہیں کرنے دیتی ورنہ کون ہے جو آسودگی نہیں چاہتا ‘‘-
کیونکہ محبت کے بغیر معرکے سر نہیں ہوتے، یہ معرکے محبت سے سر ہوتے ہیں، یہ تلخیاں محبت سے سہی جاتی ہیں، یہ شدتِ محبت ہی ہےجو توفیق دیتی ہے کہ بندہ اسے برداشت کر لے-بقول علامہ اقبالؒ:
تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو
عشق خود اک سیل ہے، سیل کو لیتا ہے تھام
’’تند‘‘ سے مراد یہ ہے کہ کوئی چیز بہت جوش سے کسی چیز سے ٹکرائے تو اگلی چیز کو توڑ دے، ’’سبک‘‘جس کی رقتار کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا، ’’سَیل‘‘ طوفان کو کہتے ہیں-یعنی جو زمانے کی روش ہے وہ سامنے آنے والی چیز کو پاش پاش کرکے بڑی زور آوری سے گزرتا ہوا طوفان ہے لیکن اگر زمانے کی روش کا مقابلہ عشق سے آجائے تو عشق خود ایک طوفان ہے وہ کئی طوفانوں کو اپنے زورِ بازو سے روک لیتا ہے-
میرے دوستو! آج سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو اور دیگر صوفیاء کرامؒ کے علم بارے میں کچھ گفتگو کرنا چاہوں گا کہ بزرگانِ دین جسے وہ علمِ لدنی یا علمِ باطن کہتے ہیں، اس علم کی کیفیت کیا ہوتی ہے اور وہ علم انہیں کیسے نصیب ہوتا ہے- اگر کوئی یہ کہے کہ وہ اس علم کو کسی خبر غیب پہ بندے کو مطلع کرتے ہیں یا آنے والے وقت کی پیشن گوئی کرتے ہیں؛ جیسے آج کل آپ قربِ قیامت کے باب میں، امت مسلمہ کے احوال میں، جگہ جگہ شوشل میڈیا اور دیگر دانش وروں سے بھی مثلاً شاہ نعمت اللہ ولی کی پیشین گوئیاں سنتے ہیں یا اس طرح کے دیگر بزرگوں کی مختلف معاملات میں پیشین گوئیاں ہیں جیسےپاکستان کے بننے پہ بشارات تھیں، ابھی دنیا عرب کے متعلق بہت سی چیزیں سامنے آتی ہیں اور لوگوں کے اپنے انفرادی تجربات ایسے ہوتے ہیں تو اس علم کو از روئے کتاب وسنت اس کو کیا سند حاصل ہے کہ اگر کوئی ایسی چیز وقوع پذیر ہو تو اس کو ماننا بندے پہ کس حد تک بہتر ہے اور کس حد تک بہتر نہیں ہے-
مثلاً ان کے علم کی ایسی کیفیات ہوتی ہیں جن کے بارے میں اگر آپ ایسے لوگوں سے پوچھیں جن کی صوفیاء، بزرگانِ دین، اہل اللہ، علم ولایت یا علم تصوف یا علم روحانیت، فقر اور فقیری علم سے آشنائی نہیں ہے تو لوگ عام طور پر کہتے ہیں کہ یہ چیزیں آپ نے اپنی طرف سے تراش رکھی ہیں-
سیدنا محی الدین پیر ما شیخ ما غوث الاعظم دستگیر عبد القادر الجیلانی(رضی اللہ عنہ) کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک دن آپ منبر پہ خطبہ دے رہے تھے، آپ کے خلیفۂ خاص اور اپنے عہد کے بہت ہی عظیم محدث شیخ علی الحیتی (رضی اللہ عنہ) خطبے میں آپؒ کے سامنے بیٹھے تھے- سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی (رضی اللہ عنہ) خطبہ دیتے دیتے خاموش ہو گئے، خاموش ہو کر منبر سے نیچے اُترے اور جہاں آپؒ کے وہ مرید خاص بیٹھے تھے ان کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوگئے- عام طورپہ آدابِ صوفیاء یا آدابِ شیخ میں ہاتھ باندھنا ایک تعظیم کی علامت ہے-کیونکہ یہ معاشرت، آداب اور اخلاق کا حصہ ہے کہ والد اور استاد کے سامنے کھڑے ہوں توسر، نگاہیں اور ہاتھ جھکا کرکھتے ہیں- حالانکہ شیخ کے سامنے مرید کھڑا ہوتا ہے لیکن حضرت غوث پاکؒ منبر سے نیچے آئے اور اپنے مرید کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوگئے؛ تو لوگ متعجب ہو کر دیکھنے لگے کہ یہ کیا واقعہ ہے- جب کچھ دیر گزری تو لوگوں نے پوچھا یا شیخ اس میں کیا حکمت ہے کہ آپ سوئے ہوئے شخص کے سامنے کھڑے ہو گئے ؟آپؒ نے فرمایا اس کی حکمت مجھ سے مت پوچھو بلکہ علی الحیتیؒ سے پوچھو کہ اس کو خواب میں کس کی زیارت نصیب ہوئی ہے؟ لوگوں نے علی الحیتی سے پوچھا کہ اے شیخ! آپ نے خواب میں کس کو دیکھا؟ تو انہوں نے فرمایا مجھے خواب میں واعظِ غوث الاعظمؒ کے درمیان سید الاانبیاء محمد مصطفےٰ (ﷺ) کی زیارت نصیب ہوئی ہے-
یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ یہ تو خواب کا عالم ہے اور خواب مرید کو آرہا ہے، جبکہ شیخ منبر پہ کھڑا ہے، اس کی آنکھیں بھی کھلی ہوئی ہیں لیکن جو مرید سویا ہوا ہے اس کے خواب کے بارے میں یہ علم رکھتا ہے کہ اس کو خواب میں کس کی زیارت نصیب ہو رہی ہے- اس لئے علم صوفیاء میں کہتے ہیں کہ اگر شَیخ، شَیخ کامل ہے، منازل اور مدارج السلوک کا ماہر ہے تو شیخ مرید کی حالت پہ مطلع ہوتا ہے یعنی شیخ مرید کی حالت سے باخبر ہوتا ہے-
پھر اسی طرح صوفیاء کرام کے کئی ایسے اسرار ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کے ان کو بعض چیزوں میں وقت سے پہلے اطلاع ہوجاتی ہےجس کی وہ پیشین گوئی کر دیتے ہیں-مثلاً سیدنا محی الدین شیخ الاکبر شیخ ابن العربی(رضی اللہ عنہ) کے والد گرامی حضور غوث الاعظم (رضی اللہ عنہ) کے پاس اندلس (Spain) سے چل کر بغداد میں آئے اورعرض کی یا شیخ بیٹا نہیں ہے، بیٹے کی طلب رکھتا ہوں- حضرت غوث الاعظم (رضی اللہ عنہ) نے کچھ دیر توقف کیا اور فرمایا تم نے اتنا سفر تو کیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہارے مقدر میں بیٹا نہیں لکھا- انہوں نے عرض کی اگر بیٹانہیں لکھا تو میں آپؒ سے یہ خبر لینے نہیں آیا کہ اللہ نے میرے مقدر میں لکھا ہےیا نہیں؛ بلکہ مَیں آپؒ سے یہ دعا کروانے آیا ہوں کیونکہ اللہ نے آپؒ کو درجۂ محبوبیت عطا فرمایا ہے؛ اگر آپؒ میرے حق میں اللہ کے حضور ہاتھ بلند فرما دیں تو مجھے یقین ہے کہ اللہ آپ کی دعا کو رد نہیں فرمائے گا کیونکہ اللہ نے آپ کو مستجیب الدعوات بنایا ہے – پھر آپ نے ذکر میں اپنی عمر مبارک بتائی اور اتنا ذکر کیا کہ ذکر کا نور آپ کی پیشانی اور آپ کے چہرے سے عیاں ہے- جن کے چہرے اور پیشانی پہ اللہ کا ذکر عیاں ہو جائے ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں تو آپ دعا کریں اللہ مجھے بیٹا عطا کرے گا- آپ نے پھر توقف کیا اور فرمایا کہ اللہ نے تمہارے مقدر میں بیٹا نہیں لکھا-انہوں نے پھر عرض کی یا شیخ میں خبر لینے نہیں آیا کہ بیٹا ہے یا نہیں، بلکہ میں تو آپ کے دست مبارک اور زبان مبارک سے اللہ کے دربار میں دعا کیلئے حاضر ہوا ہوں کہ میرے لیے بیٹے کی دعا کریں- جب تیسری مرتبہ انہوں نے استفسار کیا تو حضرت غوث اعظم(رضی اللہ عنہ) نے فرمایا سنو! اللہ نے تمہارے مقدر میں تو بیٹا نہیں لکھا البتہ میرے مقدر میں گیارہ بیٹے لکھے تھے تو میں ایک بیٹا اللہ کے دربار سے تمہیں منتقل کر دیتا ہوں- حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے دس بیٹے ہیں اور وہ ایک بیٹا جو منتقل ہوا وہ اندلس میں شیخ محی الدین ابن العربی پیدا ہوئے- یعنی صوفیاء کو علمِ کشف اور اللہ کی عطا سے اس علم کی خبر ہوتی ہے جسے عرفِ عام میں کہا جاتا ہے کہ دیوار کے اس پار یا پشت کے پیچھے جس سے عام لوگ نہیں دیکھ سکتے، اللہ جسے آنکھیں دے وہ ہی دیکھ سکتا ہے-
اسی طرح مقامِ موت کا علم کسی کو معلوم نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کس کی موت کہاں لکھی ہے- میرے مرشد کریم کے مرشد گرامی شہباز عرفاں سلطان اولیاء حضرت سلطان عبد العزیزؒشدید علالت میں میو ہسپتال لاہور میں داخل تھے- جمادی الثانی میں سلطان العارفین سلطان باھُوؒ کا عرس مبارک تھا، ڈاکٹروں کی تجویز تھی کہ آپ لاہور ہی میں رہیں لیکن آپؒ نے فرمایا کہ میں نے زندگی میں کبھی عرس مبارک قضاء نہیں کیا، اس لئے میں نے عرس پہ جانا ہی جانا ہے- خلفاء، شہزادوں اور میرے والد گرامی میرے مرشد کریم سلطان العارفین سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد اصغر(رضی اللہ عنہ) ساتھ تھے تو سب نے اسرار کیا کہ حضور ڈاکٹروں کی تجویز ہے کہ آپ یہیں قیام فرمائیں آپ کی طبیعت سفر کی اجازت نہیں دیتی- آپؒ نے فرمایا کہ یاد رکھو! میری موت لاہور میں لکھ دی گئی ہے لیکن میں عرس مبارک قضاء نہیں کرسکتا- آپؒ نے سفر فرمایا دربار عالیہ میں جمعرات اور جمعہ کے عرس مبارک میں شرکت کی، ہفتہ کے دن لاہور واپس پہنچےاور سوموار کے دن آپؒ کا میو ہسپتال میں انتقال ہوا-جوبھی لوگ آپ کے وقت وصال کے قریب تھے وہ اس واقعہ سے بخوبی آگاہ ہیں-
اکثر ’’سورۃ لقمان:34‘‘ کو بنیاد بنا کر کئی لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں پانچ چیزیں ایسی بیان فرمائی ہیں جن کا علم اللہ کے پاس ہے اور آپ کہتے ہیں کہ صوفیاء کرام بھی بعض دفعہ ان چیزوں کے بارے میں اطلاع دیتے ہیں جو سامنے نظر نہیں آ رہی ہوتیں- چونکہ صوفیاء کا نظریہ قرآن کریم سے ٹکراتا ہے لہذا ہم اسے رد کرتے ہیں -یہاں اسی آیت مبارک کوپیش کر کے قرآن ہی سے اس کی وضاحت بیان کرنا چاہوں گا کہ قرآن کریم اپنے اس فرمان کی کیا وضاحت عطا فرماتا ہےاور کس طریق سے ہماری عقدہ کشائی کرتا ہے-جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ اللہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِج
بے شک اﷲ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے،
وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَج
اور وہی بارش اتارتا ہے،
وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِط
اور جو کچھ (عورتوں کے)رحموں میں ہے وہ جانتا ہے
وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَکْسِبُ غَدًاط
اور کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ وہ کل کیا (عمل) کمائے گا
وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌم بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُط
’’اور نہ کوئی شخص یہ جانتا ہے کہ وہ کِس سرزمین پر مرے گا ‘‘-
’’اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌo‘‘ (لقمان:34)
’’بے شک اﷲ خوب جاننے والا ہے، خبر رکھنے والا ہے‘‘-
اسے پہلے کہ میں اس آیت مبارکہ کی تفسیر قرآن مجید سے پیش کرو جو کہ ہمارے اسلاف اور اکابر نے اپنی مختلف کتب میں فرمائی ہیں- ایک اصول یاد رکھ لیں کہ قرآن مجید کا جب بھی مطالعہ کریں اور خاص طور پہ جب قرآن کریم کے ان مسائل میں غور فکر کریں تو یہ یاد رکھیں کہ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے اور اللہ کے کلام میں ٹکراؤ یا تضاد نہیں ہوتا جس کو قرآن مجید خود ارشاد فرماتا ہے کہ:
’’وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًاo‘‘ (النساء:82)
’’اور اگر یہ (قرآن) غیرِ خدا کی طرف سے (آیا) ہوتا تو یہ لوگ اس میں بہت سا اختلاف پاتے‘‘-
اس لیے یہ اللہ کاکلام ہے لہذا قرآن میں کوئی اختلاف نہیں ہے، ایک آیت دوسری آیت سے ٹکراتی نہیں ہے- اب میں بطور نمونہ چند چیزیں بیان کرنا چاہوں گا-
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللہُط وَمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَo‘‘ (النمل:65)
فرما دیجیے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں (از خود) غیب کا علم نہیں رکھتے سوائے اللہ کے (وہ عَالِم بالذّات ہے) اور نہ ہی وہ یہ خبر رکھتے ہیں کہ وہ (دوبارہ زندہ کر کے) کب اٹھائے جائیں گے‘‘-
مزید فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’اِنِّیْٓ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِلا وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَo ‘‘ ( البقرة :33)
’’میں آسمانوں اور زمین کی (سب) مخفی حقیقتوں کو جانتا ہوں اور وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو‘‘-
سیدنا عیسیٰ(علیہ السلام) کے متعلق قرآن فرماتا ہے:
’’وَ اُنَبِّئُکُمْ بِمَا تَاْکُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَ فِیْ بُیُوْتِکُمْ‘‘ (آل عمران:49)
’’اور جو کچھ تم کھا کر آئے ہو اور جو کچھ تم اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو میں تمہیں (وہ سب کچھ) بتا دیتا ہوں‘‘-
اگر پہلی آیت کا یہی مراد لیا جائے کہ علم غیب فقط اور فقط اللہ کے پاس ہےاور اللہ اپنے علمِ غیب سے کسی کو مطلع نہیں کرتا تو پھر یہ جو حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) فرما رہے ہیں کہ جو تم کھا کے آئے ہو یا گھروں میں جمع کر کے آئے ہو میں ان سب کی خبر تمہیں دیتا ہوں- اب حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) نے کسی کو کھاتے، گھروں میں مال جمع کرتے تو نہیں دیکھا مگر وہ کہتے ہیں میں تمہیں اس کی خبر دے دیتا ہوں-
اس لئے اس سےمرادیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ علمِ غیب کا مالک ہے اور وہ ہی علم غیب جانتا ہے کسی کی احتیاج کے بغیر وہ از خود اپنے علم کے اوپر قادر ہے لیکن جو اس کے انبیاء، اولیاء یا ملائکہ غیب کے اوپر جو خبر رکھتے ہیں وہ اللہ کے علم کی عطاکی وجہ سے رکھتے ہیں- لہٰذا جب کوئی کسی خبر کی اطلاع کرتا ہےجس کا تعلق عالمِ غیب سے ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے اللہ نے اس بندے کو غیب کی خبر کا علم عطا فرمایا ہے-
پانچ چیزیں جو اس آیت میں بیان ہوئیں یعنی (1) قیامت کا علم (2)بارش کا علم، (3) شکم مادر میں کیاہے، (4)آنے والا کل کا علم کہ کون کل کیاکمائے گااور(5) کس نے کہاں مرنا ہے ، کے متعلق قرآن مجید نے غیر اللہ سے خبروں کو بیان فرمایا کہ جو ان خبروں سے واقف ہیں- لیکن اللہ کی ذات کے علاوہ جن کو اللہ نے یہ علم عطا فرمایا:
1 – ’’عِلْمُ السَّاعَةِ‘‘، قیامت کا علم کہ کب آئے گی؟ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآئَ اللہُ ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ اُخْرٰی فَاِذَا ہُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَo‘‘ ( الزمر:68)
’’اور صُور پھونکا جائے گا تو سب لوگ جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں بے ہوش ہو جائیں گے سوائے اُس کے جِسے اللہ چاہے گا،پھر اس میں دوسرا صُور پھونکا جائے گا، سو وہ سب اچانک دیکھتے ہوئے کھڑے ہو جائیں گے‘‘-
یعنی قیامت کے قائم ہونے کیلئے صور پھونکا جائے گا اور صور کا پھونکا جانا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک قیامِ قیامت(وقوعِ قیامت) کا علم نہ ہو؛ تو اِس سے صاف ظاہر ہے کہ قیامت کے قائم ہونے کا علم حضرت اسرافیل (علیہ السلام)کو عطا کیا گیا ہے-
2-’’وَ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ‘‘،بارش کا علم اللہ کے پاس ہے-لیکن ’’سورہ یوسف‘‘ میں حضرت یوسف (علیہ السلام)تعبیر بیان کرتےہوئے فرماتے ہیں:
’’ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْم بَعْدِ ذٰلِکَ عَامٌ فِیْہِ یُغَاثُ النَّاسُ وَفِیْہِ یَعْصِرُوْنَ‘‘ (یوسف:49)
’’پھر اس کے بعد ایک سال ایسا آئے گا جس میں لوگوں کو (خوب) بارش دی جائے گی اور (اس سال اس قدر پھل ہوں گے کہ) لوگ اس میں (پھلوں کا) رس نچوڑیں گے‘‘-
یعنی قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ بارش عطا کرتا ہے لیکن حضرت یوسف(علیہ السلام) کے بارے میں قرآن بیان فرمایا رہا ہے کہ یوسف(علیہ السلام)نے خبر دی کہ بارش کب آئے گی اور یہ بھی خبر دی کہ کتنی بارش ہو گی- یعنی اتنی بارش ہوگی کہ لوگوں کے باغات اور درخت پھلوں اور میووں سےبھر جائیں گے اور اتنا پھل ہوگا کہ لوگ اس کا رس نچوڑے گے-یعنی وقت بھی بتایا کہ اتنے عرصے بعد آئے گی اور مقدارِ غیر متعین بھی بتائی کہ اتنی کثرت سے بارش ہوگی-
3-’’مَّا ذَا تَکْسِبُ غَدًا‘‘،آنے والے کل میں کوئی کیا کرے گا-اسی ’’سورۃ یوسف‘‘ ہی میں قرآن مجید حضرت یوسف(علیہ السلام)کے متعلق بیان کرتا ہے کہ:
’’ قَالَ تَزْرَعُوْنَ سَبْعَ سِنِیْنَ دَاَبًاج فَمَا حَصَدْتُّمْ فَذَرُوْہُ فِیْ سُنْبُلِہٖٓ اِلَّا قَلِیْـلًا مِّمَّا تَاْکُلُوْنَo (یوسف:47)
یوسف (علیہ السلام) نے کہا: تم لوگ دائمی عادت کے مطابق مسلسل سات برس تک کاشت کرو گے سو جو کھیتی تم کاٹا کرو گے اُسے اُس کے خوشوں (ہی) میں (ذخیرہ کے طور پر) رکھتے رہنا مگر تھوڑا سا (نکال لینا) جسے تم (ہر سال) کھالو‘‘-
’’ ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْم بَعْدِ ذٰلِکَ سَبْعٌ شِدَادٌ یَّاْکُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَہُنَّ اِلَّا قَلِیْـلًا مِّمَّا تُحْصِنُوْنَo‘‘ (یوسف:48)
’’پھر اس کے بعد سات (سال) بہت سخت (خشک سالی کے) آئیں گے وہ اس (ذخیرہ) کو کھا جائیں گے جو تم ان کے لیے پہلے جمع کرتے رہے تھے مگر تھوڑا سا (بچ جائے گا) جو تم محفوظ کر لوگے‘‘-
یعنی قرآن آنے والے کل کے بارے میں بیان کر رہا ہے جو ابھی تک آیا ہی نہیں؛اور یہاں ایک دن یا دو دن کی پیشن گوئی نہیں ہے، یا آج کل لیڈر شپ اور مینجمنٹ کی زبان میں کسی نے اپنا پولیٹکل، اکنامکل اور ٹیکنالوجکل جائزہ (analysis) نہیں دیا کہ آپ یہ تجزیہ اخذ کر کے دو چار سال یا دو چار دن کے لئے کوئی پروڈیکٹ تیار کرسکتے ہیں-بلکہ یہ موسم کے اس تبدل و تغیر کا علم ہے جس کے بارے نہ کوئی تجزیہ و قیافہ کام کرتا ہے-لیکن اللہ نے جسے علم غیب کی خبر دے دی وہی یہ صلاحیت رکھتا تھا کہ اللہ کے بندوں میں اس خبر کو عام فرما دے-اس لئے یہ وضاحت قرآن سے ہی بیان کی جارہی ہے نہ کہ باہر سے-
4- ’’ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ‘‘کس کو کہاں موت آئے گی-اس کے بارے میں بھی ’’سورۃ یوسف‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:
’’یٰـصَاحِبَیِ السِّجْنِ اَمَّآ اَحَدُکُمَا فَیَسْقِیْ رَبَّہٗ خَمْرًاج وَاَمَّا الْاٰخَرُ فَیُصْلَبُ فَتَاْکُلُ الطَّیْرُ مِنْ رَّاْسِہٖط قُضِیَ الْاَمْرُ الَّذِیْ فِیْہِ تَسْتَفْتِیٰنِo‘‘ (یوسف:41)
’’اے میرے قید خانہ کے دونوں ساتھیو! تم میں سے ایک (کے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ وہ) اپنے مربی (یعنی بادشاہ) کو شراب پلایا کرے گا اور رہا دوسرا (جس نے سرپر روٹیاں دیکھی ہیں) تو وہ پھانسی دیا جائے گا پھر پرندے اس کے سر سے (گوشت نوچ کر) کھائیں گے، (قطعی) فیصلہ کر دیا گیا جس کے بارے میں تم دریافت کرتے ہو‘‘-
یعنی پہلے ساتھی کو اس کی ذمہ داری بتائی کہ فلاں مقام پہ تم متعین ہو گے یعنی تم اپنے مربی کے ساقی ہوگے اس کے شراب پلانے والے ہوگے-اسی طرح دوسرے ساتھی کے مقام ِ موت کا بھی بتایا کہ اسےتختۂ دار پہ لٹکا کر پھانسی دی جائے گی-گویایہ درست ہے کہ علم غیب کسی کی احتیاج کے بغیر اللہ جانتا ہے کہ کس کو کہاں موت آنی ہے لیکن اگر اللہ اپنے پیغمبر کو یہ اطلاع کر دے کہ کس کی موت کہاں آئے گی تو پیغمبر اللہ کی عطاسے اس کو بیان کر سکتا ہے-
یہی بات ملک الموت کے بارے میں بھی سمجھی جا سکتی ہےکہ جس طریق سے بشر مخلوق ہے مَلک بھی مخلوق ہے جس کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ :
’’قُلْ یَتَوَفّٰکُمْ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُکِّلَ بِکُمْ ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ تُرْجَعُوْنَo‘‘ (السجدة:11)
’’آپ (ﷺ)فرمادیں کہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روح قبض کرتا ہے پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے‘‘ –
یعنی ملک الموت بھی یہ جانتا ہے کہ کس کو موت کہاں آنی ہے تو جس کی موت جہاں لکھی ہے ملک الموت وہاں جاکر اس کی روح قبض کرلیتا ہے- پس اللہ چاہے تو بشر کو علم عطاکر دے، اللہ چاہے تو ملک کو علم عطا کردے کیونکہ علم کا مالک اللہ ہے-
5-’’وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ‘‘رحم مادرمیں کیا ہے بیٹا ہے یا بیٹی- قرآن مجید میں سیدنا ابراہیم(علیہ السلام) کو بیٹے کی بشارت عطا کی جا رہی ہے:
’’قَالُوْا لَا تَخَفْط وَبَشَّرُوْہُ بِغُـلٰمٍ عَلِیْمٍo‘‘
’’وہ (فرشتے) کہنے لگے: آپ گھبرائیے نہیں اور اُن کو علم و دانش والے بیٹے (سیدنا اسحاق (علیہ السلام) کی خوش خبری سنا دی‘‘-
اسی طرح حضرت زکریا (علیہ السلام) کو بیٹے کی بشارت عطا فرمائی:
’’فَنَادَتْہُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَھُوَ قَـآئِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِ لا اَنَّ اللہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیٰی ‘‘ (آل عمران:39)
’’ابھی وہ حجرے میں کھڑے نماز ہی پڑھ رہے تھے (یا دعا ہی کر رہے تھے) کہ انہیں فرشتوں نے آواز دی: بے شک اﷲ آپ کو (فرزند) یحییٰ (علیہ السلام) کی بشارت دیتا ہے‘‘-
اسی طرح سیدنا مریم (علیھا السلام) کو بیٹے کی بشارت عطا فرمائی:
’’قَالَ اِنَّمَآ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِاَھَبَ لَکِ غُلٰمًا زَکِیًّاo‘‘ (مريم:19)
’’(جبرائیل علیہ السلام نے) کہا: میں تو فقط تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں، (اس لیے آیا ہوں) کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں ‘‘-
یعنی یہ نفوس قدسیہ حضرت اسحاق،حضرت یحٰی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام)ابھی شکمِ مادر میں تشریف ہی نہیں لائے جبکہ فرشتہ اللہ کے عطا کیے ہوئے علم سے جاکر ان کی والدہ اور والدکو ان کی آمد کی خبر دیتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ بیٹا ہو گا یا بیٹی-
یہاں برکت کیلئے ایک حدیث پاک بیان کرنا چاہوں گا کہ امیر المومنین سیدنا ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کا وقت وصال آیا آپؓ نے اُم لمومنین سیدہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا)کو طلب کیا اور فرمایا کہ عائشہ! میرے بعد میرا مال کتاب کے اوپر اپنے دونوں بھائیوں اور اپنی دونوں بہنوں میں تقسیم کر دینا- حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) چونک گئیں؛ انہوں کہا! ابا جان یہ کیا بھائی تو میرےدو ہیں؛ وہ تو میں جانتی ہوں عبدالرحمن بن ابی بکر اور محمد بن ابی بکر، بہن تو میری ایک ہے اسماءبنت ابی بکر جو زبیر ابن العوام کی زوجہ ہیں، میری دوسری بہن کہاں ہیں- سیدنا ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ وہ میری بیوی کے بطن میں ہے میں اسے بیٹی دیکھتا ہوں وہ تمہاری بہن ہوگی-
یعنی ابھی وہ پیدا نہیں ہوئی لیکن سیدنا ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کوخبر دی کہ تمہاری دو بہنیں ہیں ایک اسماء بنت ابی بکر اور دوسری تمہاری والدہ کے بطن سے پیدا ہو گی-گویا یہ علم صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کو بھی رسول اللہ (ﷺ) کی صحبت اور تربیت سے حاصل تھا- اگر حضور (ﷺ) کی امت کے اولیاء کو حاصل ہے تو یاد رکھیں! میرے پیر و مرشد پیراں دے پیر دستگیر غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی(رضی اللہ عنہ) کا قول مبارک ہےکہ میرے درجے کے ایک لاکھ غوث بھی جمع کر لو وہ ایک صحابی کے پاءِ اقدس کو بھی نہیں پہنچ سکتے-
وہ علم جو حضور نبی کریم (ﷺ)کی امت کے اولیا ء کو حاصل ہے وہ علم آپ (ﷺ) کے صحابہ کو بطریق اولیٰ حاصل ہے-اکثر لوگ کم علمی اور کم فہمی کی وجہ سے بات کر دیتے ہیں کہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی کرامتیں نہیں ہیں-اب آنکھوں پہ پردہ ہو تو کچھ نظر نہیں آسکتا- صحیح بخاری و صحیح مسلم بھری پڑی ہیں کراماتِ صحابہ سے، کوئی کتاب حدیث اٹھائیں تو معلوم ہو کہ کوئی ایسا علم نہیں جس کے دروازے حضور نبی کریم (ﷺ)نے اپنے صحابہ پہ نہ کھولے ہوں- خاص طور پہ علم باطن اور علم روحانیہ تو ان کی معراج تھی- امیر المومنین فاروق اعظم حضرت عمر ابن خطاب(رضی اللہ عنہ) کے بارمے میں آقا کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ ہر اُمت میں کوئی نہ کوئی محدث ہوتا ہے اور میری امت کا محدث عمر ہے-عرض کی گئی یا رسول اللہ(ﷺ)کہ محدث کیا ہوتا ہے؟ آقا پاک (ﷺ) نے فرمایا جس کی زبان پہ فرشتے کلام کریں ا سے محدث کہتے ہیں-
امیر المونین سیدنا عثمان ذوالنورین (رضی اللہ عنہ)تشریف فرما ہیں تو ان سے ملنے ایک آدمی آیا، تو جیسے راستے میں چلتے ہوئے آدمی کی نظر اِدھر اُدھر پڑتی ہے، زندگی کی دوڑ نظر آتی ہے جس میں سبزہ بھی ہوتا ہے، دروازے بھی ہوتے ہیں، دیواریں بھی ہوتی ہیں، مرد، بچے، خواتین بھی ہوتی ہیں-کیونکہ انسان کی آنکھ کا لینز اللہ تعالیٰ نے بہت وسیع بنایا ہے تو جب آپ چل رہے ہوتے ہیں اس میں ہر چیز نظر آتی ہے- وہ آدمی جب گزر رہے تھے تو آتےآتے ان کی نگاہ ایک عورت پر پڑی، جب نگاہ عورت پر پڑی تو اس کا حسن و جمال دیکھ کر چند لمحوں کے لیے اس پہ نگاہ ٹھہر گئی- لیکن فورًا انہوں نے اپنے خیال کو جھٹکا اور وہاں سے حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کی طرف چل دیا-جب وہ شخص آپ (رضی اللہ عنہ) کی بارگاہ میں پہنچا تو آپؓ نے اسے دیکھتے ہی فرمایا کہ اے شخص! میں تیرے وجود میں زنا کے آثار کو پاتا ہوں- ا سے تو معلوم تھا کہ میں راستے میں آرہا تھا تو کچھ دیر کیلیے میری نظر ایک خاتون پہ ٹھہری تھی، لیکن میں نے وہ خیال جھٹک دیا تھا جس کا راستے میں آتے ہوئے نہ میرے رفیق راہ کوپتا چلا،نہ اس خاتون کو پتا چلا، نہ کسی بچےاور بوڑھے کو پتا چلا اور نہ مجھ سے پہلے میرا کوئی رفیق حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ)کے پاس پہنچا جس نے جا کرخبر دی ہو کیونکہ اس کیفیت کا کسی کو معلوم ہی نہیں تھا- وہ آدمی حضرت عثمان کے سوال پہ حیران رہ گیا کہ اے شخص مَیں تیرے وجود میں زنا کے آثار دیکھتا ہوں؛ تو وہ شخص عرض گزار ہوا کہ یا امیر المومنین کیا رسول اللہ (ﷺ)کے بعد وحی ہونے لگ گئی ہے یا آقا کریم (ﷺ)کے بعد پھر جبرائیل آ گئے ہیں جنہوں نے یہ خبر دی کہ میرے دل میں کیا بیتا ہے-
اسی طرح اگر سلطان الولایت اسد اللہ غالب سیدنا علی ابن طالب (رضی اللہ عنہ) کے متعلق بات کروں تو ابواب کے ابواب کھل جائیں اور بیان ختم ہونے میں نہ آئے- جس وقت سیدنا علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ)بطور امیر المومنین کے کربلا سے گزرے تو آپؓ نے نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ یہاں میری آل کے خیمے لگیں گے، یہاں اونٹنیاں بیٹھیں گی، یہاں گھوڑے ہوں گے، یہاں میرے بیٹے ہوں گے، یہاں باطل کے لشکر کھڑے ہوں گے، یہاں حسینؓ شہید ہوگا، یہاں خیموں کو آگ لگائی جائے گی-گویا کربلا کا واقعہ ابھی بپا نہیں ہوا تھا کہ سیدنا علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ)نے کربلا کا ایک ایک منظر بیان فرمایا-
میرے دوستو! بات چلی تھی کہ حضرت اسحاق، حضرت یحیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا نہیں ہوئے تھے کہ جبرائیل امین اللہ تعالیٰ کے عطا کئے ہوئے علم سے جانتے تھے کہ کس کو کیا عطاء ہوگا-اب جو پانچ چیزیں ’’سورہ لقمان، آیت:34‘‘میں بیان ہوئیں اس میں علم قیامت کے متعلق ایک پورا مضمون ہے جو خوفِ طوالت کے باعث کسی اور موقع پہ تفصیلاً بیان کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں- لیکن جو باقی چار چیزیں ہیں مثلاً بارش کا علم، کل کا علم، شکمِ مادر کا علم اور مقامِ موت کا علم، تو یہ علم تو صرف اللہ کو ہے لیکن وہی قرآن بیان کرتا ہے کہ حضرت یوسف(علیہ السلام) نے بارش کے وقت اور بارش کی مقدار کی خبر دی، اپنے جیل کے ساتھی کو اس کے تختہ ٔدار پہ لٹکائے جانے کی خبردی-وہی قرآن یہ خبر دیتا ہے کہ ملک الموت مقامِ موت جانتا ہے، وہی قرآن یہ بیان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتو ں کو یہ علم دیتا ہے کہ جاؤ کس کے رحمِ مادر میں کیا ہے اس کو یہ جا کے بتا سکتے ہو-اس سے مراد وہی اصول ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم حقیقی ہے اور وہ اپنے علم کیلیے کسی کا محتاج نہیں ہے لیکن جو علم انبیاء، اولیاء، اور ملائکہ کو عطا ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے عطا کردیتا ہے-کیونکہ جب وہ علم عطا ہو جاتا ہے تو باطن کی آنکھیں اتنی روشن اور منور ہو جاتی ہیں کہ وہ لوحِ محفوظ کو بھی دیکھ سکتی ہیں، شکم مادر میں بھی دیکھ سکتی ہیں اور آنے والے کل کو بھی دیکھ سکتی ہیں-
اس لیے اگر اولیاء کرام سے ایسی کرامات کا ظہور ہوتا ہے تو قرآن پڑھنے والے کے لئے اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے -گویا اگر کوئی کہے کہ ولی اس بات پہ کوئی علم نہیں رکھتے کہ وہ کسی کچھ بتا سکے تو آپ سمجھ جائیں کہ اس نے قرآن کو نہیں پڑھا-کیونکہ اگر اس نے قرآن کو پڑھا ہوتا تو وہ یہ ضرور جانتا ہوتا کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے، اپنے علم سے جو چاہے عطا فرما سکتا ہے-یہاں کچھ مثالیں بیان کرنا چاہوں گا:
’’إِنَّ اللهَ عِنْدَهٗ أَجْرٌ عَظِيْمٌ‘‘ ( الأنفال:28)
’’بے شک اللہ کے پاس ہی اجر ِعظیم ہے ‘‘-
’’ وَاللہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الثَّوَابِ‘‘ ( آل عمران :195)
’’اور اللہ ہی کے پاس اچھا ثواب ہے ‘‘-
’’عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا‘‘ ( العنكبوت:17)
’’ثواب آپ کے رب کےپاس ہے ‘‘-
’’عِنْدَ اللہِ الْرِّزْقَ‘‘ (مریم :76)
’’رزق اللہ کے پاس ہے ‘‘-
اب اللہ اجر ، ثواب اور رزق دیتا ہے، تمام علم کا مالک بھی اللہ ہے تو وہ جسے چاہے جتنا اجر و ثواب دے، جسے چاہے جتنا رزق دے، جسے چاہے جتنا غیب کا علم عطا کرے –ہم میں سے کسی میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ اس کی بارگاہ میں سوال کر سکے اس نے جس کو جو بھی عطا کیا وہ کیوں کیا؟ اسی طرح جب وہ اپنے نیک بندوں اور ملائکہ کو علم غیب پہ اطلاع کر دے تو ہم سوال کرنے والے کون ہوتے ہیں کہ علمِ غیب کی اطلاع شیخ عبدالقادر الجیلانی، سلطان العارفین حضرت سلطان باھو، معین الدینؒ کو دی تو کیوں دی؟ جب وہ خالق و مالک ہے تو جس کو چاہے جتنا عطا کرے-
میرے بھائیو! اس تمام گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے لئے حجت قرآن کریم اور مصطفےٰ کریم(ﷺ) کی سنت ہے -ہمارے اکابر و اسلاف تحقیق سے چلے، کسی کی اندھی پیروی نہیں کی،باطل کو جدا کر کے حق کو حق سے پہچانا،جھوٹ کو الگ کر کے سچ کو سچ سے پہچانا،ملاوٹ کو الگ کر کے خالص کو خالص سے پہچانا-کیونکہ علم اور راہِ حق کے شوق کی بدولت جب ان کے وجود میں یہ چیز پیدا ہو جاتی ہے تو ان کاوجود اس قابل ہو جاتا ہے کہ خزائنِ الٰہی کو برداشت کر سکے-پھر اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ سے اپنے خزائن کے دروازے کھول دیتا ہے -اس لیے ان کو یہ صلاحیت حاصل ہو جاتی ہے کہ وہ لوگوں کے احوال کی خبر رکھتے ہیں- اگر ان کے سامنے کوئی آدمی بیٹھا اونگ رہا ہے تو ولی یہ جانتا ہے کہ اس کے عالِم خواب میں کیا چل رہا ہے-
یہ چیز شوق و طلب سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ جب طلب پیدا ہوتی ہے تو پھر انسان اس کے حصول کی کوشش کرتا ہے-پھر جب وہ جستجو کرتے ہوئے اس کے راستے میں کوشش و مشقت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس بندے کو نیکی کے راستے میں مایوس نہیں کرتا بلکہ فرماتا ہے:
’’وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَاط وَاِنَّ اللہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَo‘‘ (العنکبوت:69)
’’اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (اور مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں اپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں اور بے شک اﷲ صاحبانِ احسان کو اپنی معیّت سے نوازتا ہے‘‘-
گویا پہلی شرط اس کی طلب ہونا اور دوسری شرط اس کے بارے میں حسن گمان پیدا کرنا کیونکہ جب تک حسن گمان نہیں ہوتا تب تک محض طلب اور شوق کافی نہیں رہتے-اس لیے سب سے پہلی چیز آپ کو اس کی طرف محبت کی رغبت و کشش چاہیے ہوتی ہے اور پھر جب اسی رغبت کے ساتھ طلب پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ راستے آسان کر دیتا ہے-کیونکہ یہی وہ چیز ہے جو ہمیں شعور اور آگاہی دیتی ہے کہ زندگی میں اعلیٰ مقاصد کیا ہوتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ کی طرف رغبت،اس کی محبت، اس کا خوف اور اس کے راستے میں استقامت کسے کہتے ہیں؟
اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کی یہی دعوت ہے کہ غور و فکر کو اپنے اوپر بند نہ کریں، غور و فکر اور علم کے دروازوں کو کھولیں-کیونکہ علم، غور و فکر،شوق الٰہی اور ذکرِ الٰہی کی بدولت بندے کو اللہ تعالیٰ کا قریب نصیب ہوتا ہے- میرے نوجوان ساتھیو! اختتام پہ آپ تمام کو یہ دعوت دینا چاہوں گا کہ آپ آئیں، کچھ وقت نکالیں اور اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے مبلغین کے ساتھ اس علم کو عملی طور پہ سیکھیں تا کہ ہمارے وجود میں بھی اللہ کی محبت اور اس کی خشیت پیدا ہو جائے- جب قبر میں جائیں تو بھی سر خرو جائیں اور جب قبر سے اٹھائے جائیں تو بھی سر خرو اٹھائے جائیں- اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطافرمائے-آمین!
٭٭٭
[3]
[4]
[5]
[6]
[7]
[8]
[9]
[10]
[11]
[12]
[13]
[14]
[15]
[16]
[17]
[18]
[19]
٭٭٭