دستک: روحانی و اخلاقی تربیّت

عصرِ حاضر کی اشد ضرورت

متعلقہ لنکس

-پاکستان کا اگر سیرت النبی (ﷺ) کے تناظر میں مُطالعہ کیا جائے تو بہت سے حیرت انگیز پہلُو نکلتے ہیں جو بڑی مفید اور کار آمد راہنمائی فراہم کرتے ہیں۔۔۔

دُنیائے فلسفہ میں اسطورات کا عظیم باغی ، فلسفۂ یونان کا بانی اور افلاطون و ارسطو کا اُستاد ’’سقراط‘‘ ایک سنگ تراش کا بیٹا تھا اور پیدائشی طور پہ بے۔۔۔

کثیر الجہت و مافوق الفطرت داستانوں سے مزین تاریخِ جموں و کشمیر بہت پرانی ہے-جدید کشمیر کی تاریخ جغرافیائی، سماجی، سیاسی و مذہبی اعتبار سے 1864ء کے بد نام زمانہ۔۔۔

افسوس!ہمارے ہاں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کی عظمت میں فقط ایک ہی پہلو اجاگر کیا جاتا ہے۔۔۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے خانوادۂ عالیہ میں جن نفوس قدسیہ کو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے چشمۂ فیضانِ سلطان العارفین کے جاری رہنے کی دلیل کہا جاتا ہے...

جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُوؒ نے اپنی ایک تصنیف میں فرمایا کہ: ’’یہ محبت ہی ہے جو دل کو آرام نہیں کرنے دیتی ورنہ کون ہے جو آسودگی نہیں چاہتا ‘‘-

تصوف کا اشتقاق مادہ ’’صوف‘‘سےبابِ تفعل کا مصدر ہے- اُس کے معنی ’’اون‘‘کے ہیں- لغویت کے لحاظ سے اون کا لباس عادتاً زیبِ تن کرنا ہے- لفظ صوف کی جمع ’’اصواف‘‘ ہے...

تصوف یا صوفی ازم اسلامی تہذیب و ثقافت کی اساسیات اور علومِ دینیہ کے اہم ترین موضوعات میں سے ہے جس کے مبادی، منابع اور مآخذ قرآن و سنت سے ثابت ہیں...

آج جس موضوع پہ گزارشات بیان کرنے جا رہا ہوں وہ ایک خالص علمی موضوع ہے جس کا تعلق براہ راست ہماری دینی اور ملی زندگی سے ہے- کیونکہ اس کے ساتھ ہماری روحیں جڑی ہیں؛

آج جس موضوع پہ چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا عوام و خواص کیلئے گو کہ وہ نیا نہیں ہے - مزید یہ کہ اس کے جس خاص پہلو کی جانب آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہوں گا وہ پہلو اہل علم کے ہاں تو اجنبی نہیں ہوگا لیکن عامۃ الناس میں بہت کم لوگ اس سے واقف ہوں گے-

اکیسویں صدی جہاں سائنسی ترقی و مادی ترقی کے عروج کا مشاہدہ کر رہی ہے وہیں بدقسمتی سے اِسے اخلاقی اور روحانی زوال بھی پیش ہے- انسانی معاشرے بحیثیت مجموعی اخلاقی اقدار سے محروم ہوتے جا رہے ہیں اور انسان کا باطن روحانی تعلیم و تربیت سے محرومی کے سبب تاریک- نظریہ اور روحانی بنیاد پر تشکیل پانے والی مملکتِ خداداد پاکستان میں بھی حالات باقی دنیا سے زیادہ مختلف نہیں ہیں اور ہمارا سماج اخلاقی اور روحانی اعتبار سے شدید پیاس کی کیفیت میں مبتلا ہے-نجی خاندانی معاملات سے لے کر اجتماعی ملکی و ملی معاملات تک، ہمیں ہر جگہ اخلاقی اقدار کا فقدان نظر آتا ہے- وہ اقدار جو کبھی ہمارے سماج کی پہچان اور طاقت تھیں آہستہ آہستہ ناپید ہوتی جا رہی ہیں جو ہم سب کیلئے ایک لمحۂ فکریہ ہے- سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علیؒ نے ملک و ملت کی رہنمائی اور اسے اخلاقی و روحانی زوال سے نکالنے کا بیڑہ اٹھا یا اور اس عظیم مقصد کیلئے اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کی بنیاد رکھی- اس جماعت کی بنیاد روحانی اور اخلاقی اقدار پہ تھی اور یہی وجہ تھی کہ آپؒ نے جماعت کے کارکنان کیلئے جو بنیادی تربیتی نظام وضع فرمایا اس میں یہ دونوں پہلو نمایاں حیثیت رکھتے ہیں- روحانی استخلاص اور اخلاق و کردار کی پختگی جماعت کے کارکنان کیلئے روزِ اول کا سبق ہے اور اولین شرط کی حیثیت رکھتا ہے-ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں بھی اور مسلم معاشروں میں بھی تربیتی نظام کا فقدان ہو رہا تھا، آپؒ نے خانقاہی نظام کی عظیم روایات کو زندہ فرمایا اور پنی نگاہِ کاملہ اور قائدانہ صلاحیتوں سے ایک منظم انداز میں روحانی تعلیم اور تربیت کا سلسلہ ترتیب دیا- انہی مضبوط بنیادوں پہ استوار یہ عمارت آج ایک عالمگیر جماعت کی صورت میں عیاں ہو رہی ہے- یہی وجہ ہے کہ اس جماعت میں بظاہراً عام اور سادہ لوح کارکنان بھی کمال ڈسپلن اور اعلیٰ اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں جو دیکھنے والوں کو اپنی جانب کھینچتا چلا جاتا ہے کہ بڑے بڑے ادارہ جات کے تربیت یافتہ افراد بھی ایسی اعلیٰ اخلاقیات اور خوش اسلوبی سے قاصر نظر آتے ہیں-نظریاتی پختگی اور روایات کی پاسداری کے اولین سبق کے ساتھ ساتھ اصلاحی جماعت نے اعتدال کا درس دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ تمام تر ملکی و عالمی مسائل اور چیلنجز کے باوجود اس جماعت کے کارکنان کسی قسم کی شدت پسندی اور فساد کی جانب مائل نہیں ہوتے- روحانی سکون سے فیض یافتہ انفرادی کارکنان اجتماعی حیثیت میں اپنے اندر کی دنیا کا عکس واضح کرتے نظر آتے ہیں- بانیٔ اصلاحی جماعت کا ترتیب دیا گیا عملی نظام آج کی نوجوان نسل کیلئے بہترین پیغام ہے- سوشل میڈیا اور ففتھ جنریشن وار کے اس دور میں نظریاتی اور اخلاقی پختگی اور روحانی بیداری نوجوانوں کی اہم ترین ضرورت ہے جس کیلئے اصلاحی جماعت کا پلیٹ فارم بہترین خدمات سر انجام دے رہا ہے- ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پیغام کو عام کیا جائے تاکہ ہر شخص بانیٔ اصلاحی جماعت کے اس نظام سے ظاہری و باطنی فیض سمیٹے- صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ تمام عالمِ اسلام میں اس پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ دور میں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ اور روایات کا پاسدار یہ پیغام ہمارے تمام تر اندرونی و بیرونی مسائل کا حل لئے اپنی صدا بلند کر رہا ہے- دورِ حاضر میں شدت پسندی دنیا بھر کے معاشروں میں سرایت کر رہی ہے – شرق و غرب میں نفرت اور تقسیم کے بیج بوئے جا رہے ہیں، اسلاموفوبیا اور دہشت گردی جیسے مسائل لوگوں کی نفسیات پہ طاری ہو رہے ہیں- ایسے وقت میں بانیٔ اصلاحی جماعت کی تحریک ایک معتدل اور مضبوط معاشرے کی بنیاد فراہم کرتی ہے- چنانچہ ایسی معتدل آوازوں اور تحاریک کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے جو مسلم دنیا کی اصل آواز ہیں اور اعلیٰ اخلاقیات اور روحانی استخلاص کے ساتھ آگے بڑھنے کا درس دیتی ہیں- اسی میں ہمارے سماج اور ملک و ملت کی بقا اور ترقی کا راز پوشیدہ ہے-

٭٭٭